ازیتیوں، المیوں اور جینئس ہونے کا آپسی کیا رشتہ ہے۔۔ اسے شائد لامتناعی فطرت کے عمل میں کبھی نہ سمجھا جاسکے۔۔۔جان کیٹس انگریزی کا خوبرو نوجوان رومانی شاعر، شیلے اور بائرن کا ہم عصر۔۔ایک نچلے متوسط گھرانے میں پیدا ہوا۔۔ صرف 25 سال کی عمر میں اپنا ان مٹ نام چھوڑ کراس دنیا سے چلاگیا۔۔اس کا باپ اصطبل میں گھوڑے پالتا تھا۔ ایک طرف انسانیت کے درد کا احساس، اندر سے شاعرانہ تخلیقی طوفان۔۔۔اوردوسری طرف۔۔۔اپنی زاتی زندگی ازیتیوں کا شکار۔۔ جان کیٹس تو بننا ہی تھا۔ کیٹس 8 سال کا تھا۔۔کہ اس کا باپ گھوڑے سے گر کر مر گیا۔۔جب وہ اپنی فیملی کو ملنے آرہاتھا۔ ماں نے جلد دوسری شادی کرلی۔ اور بچوں کو گرینڈ والدین کے پاس چھوڑ دیا۔ کیٹس چار بہن بھائی تھے۔ جب کیٹس 15 سال کا تھا۔۔اس کی ماں ٹی بی کے مرض کا شکار ہوکرمر گئ۔ اگلے دس سال میں اس کا ایک بھائی بھی ٹی بی سے مرجاتا ہے۔ کیٹس کی شاعری کی ٹوٹل عمر 6 سال ہے۔ اس کی موت سے 6 سال پہلے ہی اس کی شاعری منظر عام پر آئی تھی۔ اور نقادوں کی طرف سے کچھ خاص پسندیدگی کا اظہار نہیں کیا گیا تھا۔ اس کو ایک لڑکی سے محبت ہوگئی۔ دونوں پاگلانہ پیار میں مبتلا تھے۔۔ شادی ہوجانے کی نوبت ہی نہ آئی۔۔ محبت یونہی تشنہ رہ گئی۔۔اگرچہ ان کی محبت بھری ملاقاتوں کا کیٹس زکر کرتا ہے۔ کیٹس کو اسکول کے زمانے میں کلاسیک ادب اور تاریخ پڑھنے کا شوق ہوگیا۔ اسکول کی تعلیم ختم کرنے پراس کو میڈیکل میں داخلہ مل گیا۔۔اور وہ ایک سرجن کا اسسٹنٹ بھی بن گیا۔۔جو اپنے وقت کے لحاظ سے بڑی اہم ترقی تھی۔۔۔۔اس کی معاشی حالت کبھی ٹھیک نہ رہی۔۔اکثر اس پر قرض رہتا تھا۔۔ اسے گرینڈ والدین کی ورثے میں ایک معقول رقم ملنے کا امکان پیدا ہوا۔۔لیکن نہ کسی نے اسے بتایا۔۔۔نہ کبھی اس نے ورثہ کا حصہ لینے میں دلچسپی لی۔ عزیز و اقارب سمجھ رہے تھے، کہ کیٹس جلد ہی ڈاکڑ سرجن بن جائے گا۔۔لیکن علم طب میں اس کا کوئی دل نہ تھا۔۔۔وہ تو شاعر تھا۔۔۔شاعر ہی رہنا اور شاعر ہی مرنا چاہتا تھا۔۔۔چنانچہ ایک دن اس نے میڈیکل تعلیم ترک کرنے کا اعلان کردیا۔ حسن اور سچ کی تلاش میں اپنی شاعری کی دنیا میں گم ہوگیا۔۔ کچھ ہی عرصے بعد کیٹس کو بھی ٹی بی کے موزی مرض نے آ لیا۔ ڈاکڑوں نے کسی گرم ملک میں جانے کا مشورہ دیا۔۔چنانچہ کیٹس اٹلی روانہ ہوجاتا ہے۔ اس زمانے میں بحری جہازوں کا سفر آرام دہ نہ ہوتا تھا۔ دوسری طرف جب کیٹس اٹلی پہنچا، تو اٹلی والوں نے انگینڈ سے آنے والوں پر قرنطینہ کی پابندی لگا۔۔۔اس مین دس دن اور لگ گے۔ ادھر کیٹس کی حالت خراب ہوتی جارہی تھی۔ٹی بی کا مرض اس کے پھیپھڑے تیزی سے کھا رہے تھے۔۔خون تھوک تھوک کر جسم میں خون کی کمی ہوگئی۔۔۔دوسری طرف خون معدے کی طرف بھی بہنے لگا، اس سے کچھ کھایا پیا نہیں جاسکتا تھا۔ درد کی ازیت سے وہ افیون کھانے کو مانگتا تھا۔ اس وقت درد کی دوائیں ابھی میسر نہ تھی۔ درد کی ازیت سے وہ خودکشی کرنے کا بھی سوچتا۔ اگلے 5 ماہ میں کیٹس کی وہی اٹلی میں موت واقع ہو جاتی ہے۔ اس کی موت کی خبر لندن پہنچنے تک کئی ماہ لگ گے۔۔۔۔ یہ وہ کیٹس تھا۔۔جو اگر زندہ رہتا۔۔تو شائد اس کی شہرت۔۔۔۔شیکسپئر سے بڑھ کر ہوتی۔۔۔۔ اس کی قبر پر لکھا گیا۔۔"یہاں وہ لیٹا ہے۔۔جس کا نام بہتے پانی پر لکھا گیا۔۔۔۔۔۔۔"
“