(Last Updated On: )
شریفوں کے بہت سے راز پوشیدہ ہیں سینے میں
زباں کھولوں گی تو دنیا کو حیرانی بہت ہوگی
عرش منیر
والد کا نام:مشتاق احمد(مرحوم)
ملی الامین کالج کے تاسیسی رکن
اور سماجی خدمتگار
والدہ کا نام:ہاجرہ بانو
(ریٹائرڈ اسکول ٹیچر)
تاریخ ولادت:14فروری 1996
جائے ولادت:کلکتہ
تعلیمی استعداد:ایم اے(اردو)
یو جی سی نیٹ کوالیفائڈ
پی ایچ ڈی
ملازمت:درس و تدریس
ملی الامین کالج میں لکچرار
(صدر شعبۂ اردو)
تصانیف
۔۔۔۔۔۔
۔ (1)منوررانا انسانی رشتوں کا علمبردار
۔ شائع کردہ:مغربی بنگال اردو اکیڈمی
۔ (2)مناظر عاشق ہرگانوی کے افسانے اور تجزیہ
۔ ایجوکیشن گائیڈ
۔ ( ہائر سکنڈری کے نصاب میں شامل)
۔ عفان پبلیکیشن
ایوارڈ:بیگم رقیہ سخاوت ایوارڈ
( ادارہ محفل خوش رنگ 2017)
بہت سارے صحافتی و سماجی مضامین اور تبصرے ملک کے معیاری رسائل میں شائع ہوچکے ہیں۔ شعرو شاعری شوق ہے۔ غالباً پہلا مضمون منور رانا کی شاعری پر لکھا تھا جو روزنامہ ”آزاد ہند“ کے ”اجالا“ ایڈیشن میں شائع ہوا تھا۔
عرش منیر
۔۔۔۔۔۔
شیردل نثرنگار
۔۔۔۔۔۔۔۔
شبیر ذوالمنان
۔۔۔۔۔۔۔۔
جو دانا ہیں ان کا یہ وتیرہ ہے کہ وہ اپنی جانب اُٹھنے والی انگلیوں پر ایماندارنہ طور سے متوجہ ہوتے ہیں اور اُن کے جن افعال وکردار کی جانب انگشت نمائی کی گئی ہے، اُن کا بغورجائزہ لیتے ہوئے اُن افعال سے باز آجاتے ہیں جو اُن کی رسوائی کا باعث ہیں نیز اپنے کردار و اطوارکو سنوارنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ اپنے اُس محسن کا بھی دل سے ممنون ہوتے ہیں جس نے اُن کی توجہ اِس جانب مبذول کرانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس کے برعکس نادان لوگ انگشت نمائی کرنے والی شخصیت کو اپنا دشمن سمجھ بیٹھتے ہیں۔ نتیجے کے طور پر اُن کے افعال و کردار میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی جو مستقبل میں نہ صرف اُن کی ذات کے لیے ضرر رساں ہے بلکہ اِس کا خمیازہ قوم و ملت کو بھی بھگتنا پڑتا ہے۔
پس! ایک ناصح کا یہ فرض ہے کہ نصیحت کرتے وقت ذاتی بغض وعناد کو اپنے پاس پھٹکنے نہ دے اور بہتان تراشی سے اپنے دامن کو بچائے رکھے کیونکہ اس کا عذاب بہت سخت ہے جس کے تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔
معزز قارئین کرام ! آج میں جس شیرِ دل خاتون کی تحریروں اور عملی اقدام کے حوالے سے کچھ عرض کرنے کی جسارت کر رہا ہوں، اُ ن کے دل میں سوائے خداکے کسی کا خوف نہیں۔ ملکی یا صوبائی سیاست، مذہبی معاملات، تعلیمی نظام، مزدوروں کا استحصال، میڈیا کا کردار وعمل، سی اے اے، این پی آراور این آر سی کے ناپاک منصوبے، زبان و ادب کے نام پر ہونے والی بے راہ روی، ملی اور لسانی اداروں میں اقرباء پروری نیز قوم و ملت کی زبوں حالی جیسے مسائل پر بڑی بیباکی سے اپنی رائے رکھتی ہیں۔ ان کی تحریروں میں طنز کی آنچ نہیں بلکہ شعلے نظر آتے ہیں۔ مثال کے طور پر حالیہ دنوں میں رقم ہونے والی ان کی تحریروں کے کچھ اقتباسات قارئین کرام کے حضور پیش کر تا ہوں جس سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ میرے قول میں کہا ں تک صداقت ہے اور میں انھیں شیردل خاتون کیوں کہتا ہوں ۔
”کیا یہ واقعی کورونا سے جنگ ہے یا مذہبی آزادی پر پہرہ؟“
”قسطوں میںlock down کا مزا اور پھر سزا ہی سزا، غربت ، بے روزگاری، ناانصافی، زبان بندی، ایک قوم کی شناخت مٹانے کے لئے اتنی سازش؟ غریبوں کی روٹیاں چھین کر بینک ڈیفالٹروں کی تھالی میں پروستے تمہیں شرم تو نہیں آتی ہے کیا تمہارا دھرم اس نیتی کو جائز قرار دیتا ہے ۔عوام تو غربت کی مار سے مریں گے لیکن تم سب قدرت کی مار سے مروگے۔“
”مسلم بستیوں میں ڈنڈا اور پوش علاقوں میں ڈفلی کی دھن پر تان سین بنے ہو کولکتہ پولیس یہDual policy کیوں؟ چند لوگ اسپتال میں زخمی حالت میں زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے ہیں۔“
”یاتراؤں کے لیے لگژری بس اور مزدوروں کی قسمت میں در بدری…….. تمھارے جیسے کتنے خدا آئے اور ان کی ناعاقبت اندیشی نے انھیں مٹا بھی دیا“۔
”ان کی جرات مندانہ تحریر وں کے بیشتر اقتباسات میرے ذہن کے نہاں خانوں میں محفوظ ہیں مگر مضمون کی طوالت کے خوف سے یہاں لکھنے سے قاصر ہوں ۔
ان کی تحریروں میں ظرافت اور بذلہ سنجی کے جواہر بھی دیکھنے کو ملتے ہیں جس کی صرف ایک مثال نذرِقارئین ہے۔
”اب تیرا کیا ہوگا کرونا۔۔۔ تو نے بڑی من مانی کرلی۔ موم بتیوں والا بان ہم سب کے پاس تیار ہے اور تیرے پاس پورے 9 منٹ ہیں، بھاگ سکے تو بھاگ لے ورنہ ہمارے دورنا چاریہ جی تیری ایسی کی تیسی کردیں گے“
معزز قارئین کرام! ان کی بعض تحریریں لوگوں کے دلوں پر گراں گزرتی ہوںگی۔ ابتدا میں میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ درپیش رہا۔ میرا یہ ماننا ہے کہ جو مرض دوا سے ٹھیک ہو جائے، اس کے لیے آپریشن کی ضرورت نہیں، اس سلسلے میں ان باکس میں ان سے گفت وشنید کا سلسلہ جاری رہا۔ انھوں نے مناسب دلیلوں کے ذریعے مجھے سمجھایا کہ میں جس مرض کا ذکر کر رہا ہوں، اس کا علاج صرف اور صرف آپریشن کے وسیلے سے ہی ممکن ہے۔ بہرکیف!
معزز قارئین کرام! بعض صاحبانِ عقل وخرد صرف لکھتے اور بولتے ہیں مگر وقت پڑنے پران کی جانب سے اس کا عملی مظاہرہ نہیں ہوتا ۔اللہ کا شکر ہے کہ میدانِ عمل میں بھی ہمیں اس شیرِدل خاتون کی موجودگی کا شدید احساس ہوتا ہے ۔
29/دسمبر 2019ء کو مجھ ناچیز کو بھی مغربی بنگال کے شعرا ء وادباء کی جانب سے شہرِ کولکتہ میں منعقدہ سی اے اے اور این آر سی کی مخالفت میں نکلنے والے کا میاب جلوس میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا ۔ میں نے منفرد نثرنگارعامر کاظمی سے پوچھا کہ
” بھائی! ہماری شیردل بہن کہاں ہیں؟“
” شبیر بھائی! آپ انہیں صفِ اوّل میں دیکھ پائیں گے“
اُنہوں نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے جوا ب دیا۔
جلوس کے اختتام پر گاندھی مورتی کے پاس عامر کاظمی نے مجھے اُ ن سے متعارف کروایا ۔ اُنہوں نے مجھے بتایا کہ وہ اپنی زندگی کی آخری سا نسوں تک حق و صداقت کا پرچم بلند کرتی رہیں گی ۔اللہ اُن کے اِس جذبۂ صادق کو سلامت رکھے آمین۔
معزز قارئین! میں جس شخصیت کے تعلق سے اتنی باتیں لکھ گیا وہ کوئی اور نہیں بلکہ ملی الامین گرلس کالج کلکتہ کی معروف پروفیسر ڈاکٹر عرش منیر صاحبہ ہیں جن کی تحریر وں سے صرف ادباء و شعراء ہی نہیں بلکہ اربابِ اقتداربھی اچھی طرح واقف ہیں ۔میں نے کولکتہ اور اطراف و جوانب کے بزرگوں سے سنا ہے کہ ان کے اندر جو جرات مندی اور بیباکی موجود ہے وہ ان کے والد خلد آشیانی مشتاق احمد سے اُنھیں وارثت میں ملی ہے جو اپنے زمانے کے مشہور ملی اور سماجی کارکن تھے جن کامطالعہ بہت وسیع تھا۔ ادبی، مذہبی، سیاسی، ملی اور سماجی موضوعات پر بآسانی گفتگو کر سکتے تھے۔ کئی تعلیمی اداروں اور لائبریریوں سے منسلک تھے جن کا پُر جوش اندازِ خطابت آج بھی اُس عہد کے لوگوں کے دلوں میں زندہ و تا بندہ ہے۔اللہ اُنہیں غریقِ رحمت کرے ۔آمین ثم آمین ۔
شبیرذوالمنان
غزل
۔۔۔۔۔۔
عمل کر لو تو پھر جینے میں آسانی بہت ہوگی
مرے لہجے سے ہاں تم کو پریشانی بہت ہوگی
شریفوں کے بہت سے راز پوشیدہ ہیں سینے میں
زباں کھولو ں گی تو دنیا کو حیرانی بہت ہوگی
صعوبت جھیلنا ہے ، رہنما کی رہنمائی میں
ابھی منزل تلک رستے میں ویرانی بہت ہوگی
میں تب پوچھوں گی حضرت اور کہیے اپنے بارے میں
طبیعت آپ کی جب شرم سے پانی بہت ہوگی
کسی مسند پہ گر قابض ہوا کم ظرف اور جاہل
تو پھر دعوے سے کہتی ہوں کہ من ما نی بہت ہوگی
چلیں میں پوچھتی ہوں خاک کب اکسیر ہوتی ہے
اگرچہ آپ نے بھی خاک تو چھانی بہت ہوگی
مجھے معلوم ہی تھا عرش جب آؤں گی محفل میں
مرے آنے سے پہلے حشر سامانی بہت ہوگی
غزل
۔۔۔۔۔
گرتا ہے ذرہ ذرہ پہاڑوں سے ٹوٹ کر
صحرا بنا رہا ہے چٹانوں سے ٹوٹ کر
اٹھتا ہے ایسا شور کہ کانپ اٹھتی ہے زمیں
جب آبشار گرتا ہے آنکھوں سے ٹوٹ کر
دامن میں بھرنے لگ گئے کچھ رہروان شوق
بکھرے جو نقش پا مرے قدموں سے ٹوٹ کر
پتھر چلانے والوں کو احساس تک نہیں
کچھ کیریاں بھی گر گئیں شاخوں سے ٹوٹ کر
اب کرچیوں کو جوڑ رہی ہوں بلا سبب
اک دل تھا رہ گیا کئی صدموں سے ٹوٹ کر
کیا جانے ان ستاروں پی کس غم کی چوٹ ہے
گرتے ہیں آسمانی علاقوں سے ٹوٹ کر
ہے عرش والے کا بڑا احسان عرش پر
بکھری نہیں ہوں میں کئی برسوں سے ٹوٹ کر