ڈاکٹر وحید کا اصل نام عبدالوحید تھا ۔ ان کا شجرہ نسب قبیلہ قریش کے نامور سپوت حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے ملتا ہے ، اسی نسبت سے قریشی کہلاۓ ۔ علمی و ادبی دنیا میں وہ ڈاکٹر وحید قریشی کے نام سے جانے جاتے تھے۔
ان کا آبائی شہر گوجرنوالہ تھا لیکن ان کی پیدائش 14 فروری 1925ء کو میانوالی میں اپنے ننہیال میں ہوئی ۔
ان کے والد محمد لطیف قریشی ( پ: 12 دسمبر 1898ء ۔۔۔ و: یکم اگست 1991ء) محکمہ پولیس میں ملازم تھے ، اس لیے کسی ایک جگہ ٹھکانا نہیں تھا ، چنانچہ ڈاکٹر وحید قریشی کی ابتدایئ تعلیم کسی ایک شہر میں مکمل نہیں ہوئی بلکہ کسووال ، حویلیاں (ضلع ساہیوال) گجرنوالہ اور لاہور میں ہوئی۔ انھوں نے 1940ء میں اسلامیہ ہائی سکول،بھاٹی گیٹ لاہور سے میٹرک کیا ۔ اس کے بعد 1942ء میں ایف اے،1944ء میں بی اے اور 1946ء میں ایم اے ( فارسی) کی تکمیل گورنمنٹ کالج لاہور سے کی ۔ 1950ء میں ایم اے،تاریخ،1952ء میں پی ایچ ڈی فارسی اور 1965ء میں ڈی لٹ اردو کی اسناد جامعہ پنجاب لاہور سے حاصل کیں۔
گھریلو معاشی حالات بہتر نہ ہونے کی وجہ سے وحید قریشی کو جلد ہی ملازمت کرنی پڑی ۔ ان کی سرکاری ملازمت کا آغاز 06 فروری 1951ء کو گوجرنوالہ سے ہوا ۔ وہ اسلامیہ کالج گجرانوالہ کے شعبہ تاریخ میں لیکچرر کے طور پر ملازم ہوۓ۔ یہاں چھ سال ملازمت کرنے کے بعد 1957ء کے شروع میں وہ لیکچرر،شعبہ تاریخ کے طور پر اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور میں آ گۓ ۔ ایک سال کے عرصے کے دوران ہی انھیں بہتر موقع ملا تو وہ 1958ء میں صدر شعبہ فارسی کی حیثیت سے اسلامیہ کالج سول لائنز لاہور میں آ گۓ ۔ وہ یہاں 1962ء کے آخری دنوں تک خدمات انجام دیتے رہے۔ 20 دسمبر 1962ء کو ان کا تقرر جامعہ پنجاب لاہور کے شعبہ اردو میں لیکچرر کے طور پر ہو گیا ۔ پھر وہ مستقلاً جامعہ پنجاب لاہور کے شعبہ اردو ہی سے وابستہ رہے۔
شعبہ اردو جامعہ پنجاب میں چار سال تک لیکچرر کی حیثیت سے خدمات انجام دینے کے بعد 21 دسمبر 1966ء کو انہیں " ریڈر" کے عہدے پر ترقی مل گئی۔ 25 اپریل 1975ء کو وہ مزید ترقی کر کے پروفیسر شعبہ اردو ہو گۓ۔ 13 فروی 1985ء کو ملازمتی عمر پوری ہونے پر وہ "غالب پروفیسر" کے طور پر جامعہ پنجاب سے سبکدوش ہوۓ۔
جامعہ پنجاب میں اپنی ملازمت کے دوران (1962ء تا 1985ء) ڈاکٹر وحید قریشی نے شعبہ اردو کے علاوہ جامعہ پنجاب کے دیگر علمی اداروں میں بھی خدمات انجام دیں ۔ 1963ء میں انھیں جامعہ پنجاب کے علمی و تحقیقی ادارے "ادارہ تحقیقاتِ پاکستان"(ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان) کے معتمد اور صدر کی ذمے داریاں سونپی گئیں۔وہ اسوقت لیکچرار تھے جب کہ مذکورہ ادراے کے درج بالا عہدے تدریسی شعبے میں "ریڈر" کے عہدے کا مساوی تھے۔ 1972ء سے اپنی سبکدوشی(1985ء) تک کے تیرہ سالہ عرصے میں وہ مختلف اوقات میں تقریباً نو سال تک شعبہ اردو جامعہ پنجاب کے صدر بھی رہے۔ 1975ء سے 1980ء تک وہ کلیہ علوم اسلامیہ و شرقیہ جامعہ پنجاب کے رئیس(ڈین) رہے۔ 1979ء سے 1982ء تک اورینٹل کالج جامعہ پنجاب کے پرنسپل کے طور پر خدمات انجام دیں۔ جامعہ پنجاب میں پنجابی زبان و ادبیات کا شعبہ قائم ہوا تو وہ 1970ء سے 1973ء تک انھوں نے اس کے مہتمم کی اضافی ذمے داریاں بھی ادا کیں ۔ یوں انھیں شعبہ پنجابی، جامعہ پنجاب کے پہلے مہتمم ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ علاوہ ازیں 1976ء اور 1980ء تا 1982ء وہ شعبہ پنجابی جامعہ پنجاب کے صدر بھی رہے۔ انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ شعبہ پنجابی جامعہ پنجاب میں ڈاکٹریٹ کی سند کے لیے لکھا جانے والا پہلا کامیاب تحقیقی مقالہ بھی ان کی نگرانی میں ڈاکٹر شہباز ملک نے لکھا۔
اپنی سبکدوشی اور مقتدرہ کی ملازمت پوری ہونے کے بعد 1988ء میں وہ بزم اقبال لاہور کے اعزازی معتمد مقرر ہوۓ۔ بزمِ اقبال کے قوانین کے مطابق معتمد ہی اس کا مدارالمہام ہوتا ہے۔ 1993ء میں انھیں دوسری بار اقبال اکادمی لاہور کا ناظم مقرر کیا گیا ۔ اب کی بار کم و بیش چار سال تک وہ اس ادارے میں اپنی ذمے داریوں سے عہدہ برآمد ہونے کے بعد 12 جون 1997ء کو وہاں سے فارغ ہوۓ۔
تدریسی و انتظامی ذمے داریوں کے علاوہ پنجاب کی مختلف کمیتیاں کے رکن،متعمد اور صدر کی حیثیت سے بھی ڈاکٹر وحید قریشی کی خدمات قابل ذکر ہیں۔ ان میں بورڈ آف اسٹڈیز(فارسی،اردو) لائبریری کمیٹی کتب خانہ جامعہ پنجاب ایگزامینیشن کمیٹی،مالیاتی مجلس،ایفی لی ایشن کمیٹی اور ساؤتھ ایشین اسٹڈیز سنٹر کی ملجسِ انتظامی شامل ہیں ۔ جامعہ پنجاب کے علاوہ جن دیگر اداروں کی مختلف کمیٹیوں کے وہ رکن مقرر کیے جاتے رہے۔ ان میں علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی اسلام آباد، بہاء الدین زکریا یونیورسٹی ملتان، مقتدرہ قومی زبان اسلام آباد۔اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد ۔انجمن ترقی اردو پاکستان کراچی ۔ ادارہ یادگارِ غالب کراچی ، اردو لغت بورڈ( موجودہ اردو ڈکشنری بورڈ) کراچی، پاکستان ہسٹاریکل سوسائٹی کراچی ، ایشیا سوسائٹی آف پاکستان ڈھاکا ، میونسپل لائبریری گوجرنوالہ اور لاہور کے اداروں میں مجلس ترقی ادب ، مرکزیہ مجلس اقبال ، قومی مجلس براۓ اقبال صدی تقریبات ،اردو سائنس بورڈ ، پنجابی ادبی اکیڈمی ، پنجابی ادبی بورڈ ، مغربی پاکستان اردو اکیڈمی ، ریڈیو پاکستان ، ادارہ ثانوی تعلیمی تعلیم ، لاہور عجائب گھر ، پنجاب پبلک لائبریری ، دیال سنگھ ٹرسٹ لائبریری ، پنجاب لائبریری فاؤنڈیشن ، نقوش ایوارڈ کمیٹی ( نمزد رکن از صدر پاکستان) داؤد ادبی انعام کمیٹی ، اقبال ایوارڈ کمیٹی ، دادا بھائی سیرت ایوارڈ کمیٹی وغیرہ شامل ہیں ۔ وفات کے وقت وہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی ( جی سی یونیورسٹی) میں " پروفیسر ایمریطس" کے طور پر خدمات انجام دے رہے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تصانیف:
ڈاکٹر وحید قریشی نے تحقیق، تنقید، اقبالیات، لسانیات اور شاعری میں تصانیف یادگار چھوڑیں۔ ان کی تصانیف کی فہرست مندرجہ ذیل ہے:
انشائی ادب
1965ء کے بہترین مقالے
پنجاب میں اُردو (مرتب)
قرآن حکیم کی روشنی مین تعلیم
تعلیم کے بنیادی مباحث
اقبال اور نظریہ وطنیت
اساسیات ِ اقبال
نقد ِجاں (شاعری)
مطالعہ حالی
میر حسن اور ان کا زمانہ
کلاسیکی اَدب کا تحقیقی مطالعہ
تنقیدی مطالعے
جدیدیت کی تلاش میں
افسانوی اَدب
شبلی کی حیات ِ معاشقہ
اُردو کا بہترین انشائی ادب
یارنامہ
افسانوی ادب
ادب پارے
باغ و بہار:ایک تجزیہ
نذر ِ غالب
اُردو نثر کے میلانات
منتخب مقالات:اقبال ریویو
مطالعہ ادبیات فارسی
پاکستانی قومیت کی تشکیلِ نو
الواح (شاعری)
ڈھلتی عمر کے نوحے (شاعری)
اردو ادب کا ارتقا:ایک جائزه
مقدمہ شعر و شاعری (مرتب)
پاکستان کی نظریاتی بنیادیں
قائد اعظم اور تحریک ِ پاکستان
دیوان ِ سودا (مرتب)
انتخاب دیوان سودا
مثنوی سحرالبیان
دیوان آتش: تجزیہ اور تنقید
مثنویات میر حسن
دیوان جہاندار
مقالاتِ تحقیق
نامۂ عشق
ارمغانِ ایران
ارمغانِ لاہور
عمل صالح
صحیفہ غالب
توضیحی کتابیاِ ابلاغیات
علامہ اقبال کی تاریخِ ولادت (ایک مطالعہ)
دربارِ ملی
ثواقب المناقب
قواعد و انشا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حکومت پاکستان نے ڈاکٹر وحید قرشی کی ادبی و تعلیمی خدمات کے اعتراف طور پر صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی عطا کیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ڈاکٹر وحید قریشی 17 اکتوبر، 2009ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔ وہ لاہور کے سمن باد کے قبرستان میں سپردِ خاک ہوئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
منتخب کلام:
ہمیشہ خون شہیداں کے رنگ سے آباد
یہ کربلاۓ معلٰی یہ بصرہ و بغداد
جہاں کو پھر سے نوید بہار دیتے ہیں
ابو غریب کی جیلوں کے کچھ ستم ایجاد
حیات و مرگ کے سب مرحلے تمام ہوۓ
کفن لپیٹ کے نکلے ہیں ہرچہ باد آباد
پرانی بستیاں خاک و خوں میں غلطاں ہیں
" کریں گے اہل نظر تازہ بستیاں آباد"
لبوں پہ خیر کے نعرے ہیں اور کچھ بھی نہیں
دلوں میں جاگ رہا ہے ضمیر ابن زیاد
عراق خون شہیداں سے سرخ رو ہو گا
بموں کے ڈھیر ہیں لانچر ہیں تیشہء فرہاد
پہنچ گۓ ہیں ہم ایسے دیار میں کہ وحیدؔ
جہاں گناہ تو لازم ہیں نیکیاں برباد
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
طلسم نگاہ اٹھی کھنچ گئی نئی دیوار
طلسم ہوش ربا میں ہے زندگی کا شمار
ہر ایک سمت مسلط ہے گھور تاریکی
بجھے بجھے نظر آۓ تمام شہر و دیار
یہ شہر جیسے چڑیلوں کا کوئی مسکن ہو
زبانیں گنگ ہیں ترساں ہیں کوچہ و بازار
خود اپنی ذات میں ہم اس طرح مقید ہیں
نہ دل میں تاب و تواں ہے نہ جرات اظہار
جو اپنے سینے پہ اکثر سجا کے رکھتے ہیں
وہ تمغہ ہاۓ تہور تو لے گۓ اغیار
کمال ناز تھا اپنی ژرف نگاہی پر
عجب کہ پڑھ نہ سکے ہم نوشتہء دیوار
وہ مولوی کہ اصولوں کے پاسباں تھے کبھی
وہی تو بیچتے پھرتے ہیں جبہ و دستار
ورود شعر پہ حد ادب کے پہرے ہیں
جو سچ کہو گے تو ٹھہرو گے ایک دن غدار
وحیدؔ کار سیاست ہے کار بے کاراں
زبان کو روک لو قائم رہے ادب کا وقار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نظم
پس دیوار زنداں
پس دیوار زنداں کون رہتا ہے
ہمیں معلوم کیا ہم تو
اسی اک آگہی کی آگ میں جلتے ہیں
مرتے ہیں
کہ دن کو رات کرتے ہیں
کبھی اک روشنی تھی
اور ستاروں کی چمک تھی تازگی تھی
مگر اب باب زنداں وا نہیں ہوتا
ہراساں شام کی تنہائیاں ہیں
ہمیں اب کیا خبر کون رہتا ہے
پس دیوار زنداں کون رہتا ہے
پس دیوار زنداں کون مرتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بشکریہ خالد محمود