’’میں خودکشی کرنا چاہتا ہوں‘‘
مشکور صاحب کا جملہ سن کر میرے ہوش اڑ گئے‘ پہلے تو لگا کہ انہوں نے ازراہ تفنن ایسا کہا ہے‘ لیکن وہ تو بڑے سنجیدہ موڈ میں لگ رہے تھے۔میں نے بمشکل خود کو سنبھالا اور دوبارہ پوچھاکہ کیا جوکچھ میں نے سنا ہے انہوں نے وہی کہا ہے؟ انہوں نے اثبات میں سرہلایا اور یہی جملہ دہرادیا۔میں نے بے چینی سے پہلو بدلا’’لیکن کیوں؟ آپ ایک مناسب بزنس مین ہیں‘ اپنا گھر ہے‘ اپنی گاڑی ہے‘ اولاد بھی فرمانبردار ہے‘ ماشاء اللہ سارا گھرانہ صحت مند ہے۔پھر اچانک موت کی خواہش۔۔۔؟؟؟‘‘انہوں نے گہری سانس لی اورآہستہ سے بولے’’کچھ ایسی پریشانیاں بھی ہیں جو تمہارے علم میں نہیں ‘ شائد میں یہ باتیں تمہیں کبھی نہ بتاتا لیکن اب چونکہ میں زندگی سے مایوس ہوچکا ہوں اس لیے اپنا د ل کھول کر تمہارے سامنے رکھ رہا ہوں۔ تو پھر سنو۔۔۔نہ میرے پاس اچھے ماڈل کی گاڑی ہے‘ نہ ڈھنگ کا موبائل فون۔گھر کا اے سی بھی آٹھ سال پرانا ہے‘ یہ گرمیاں تو نکال گیا ‘ اگلی گرمیوں میں نہیں چل پائے گا۔ہم ہفتے میں صرف ایک دن کسی ریسٹورنٹ میں جاکر کھانا کھا سکتے ہیں جبکہ باقی دنیا ہر روز باہر کا ڈنر انجوائے کرتی ہے۔میں سیروتفریح کے لیے جرمنی جانا چاہتا تھا‘ کسی نہ کسی طرح پیسے بھی جوڑ لیے تھے لیکن ویزا ریجیکٹ ہوگیا حالانکہ پہلے دو تین جرمنی دفعہ جاچکا ہوں۔ گھر کا انٹرنیٹ اتنا سست رفتار ہے کہ یوٹیوب کی ویڈیو دیکھتے ہوئے تین چار دفعہ رُکنا پڑتاہے۔ٹی وی کیبل آئے روز خراب رہتی ہے‘ کیبل والے سے بحث کرکرکے تھک گیاہوں ‘ وہ کہتا ہے ڈیجیٹل باکس لگوائیں۔مجھے زیتون کے تیل میں پکا کھانا اچھا لگتاہے لیکن مجبوراًکوکنگ آئل پر کمپورمائز کرنا پڑتاہے کیونکہ زیتون کا تیل بہت مہنگا ہے۔ڈرائنگ روم کے صوفوں کی پوشش تبدیل ہونے والی ہے لیکن گھرمیں کوئی یہ ذمہ داری لینے کو تیار نہیں‘ بیٹے نوکریوں پر چلے جاتے ہیں اورمیں دوکان پر۔اردگرد کے سارے محلے داروں کے گھروں میں پینے کے پانی کی صاف ستھری بوتلیں آتی ہیں لیکن ہمیں گلی کی نکڑ پر لگے فلٹرپلانٹ سے کین بھرنے پڑتے ہیں۔بیوی ایک عرصے سے کہہ رہی ہے کہ سادہ واشنگ مشین بیچ کر وہ والی واشنگ مشین لادیں جو کپڑے خشک بھی کردیتی ہے لیکن میں اس کی اتنی سی خواہش بھی پوری کرنے سے قاصر ہوں۔سال میں ہم لوگ صرف تین چار سوٹ بنوا پاتے ہیں۔گاڑی کا ہیٹر بھی خراب ہے ‘ سکرین پر دُھند جم جائے توسخت سردی میں بھی شیشے نیچے کرنے پڑ جاتے ہیں۔بمپر جگہ جگہ سے ٹوٹ چکا ہے لیکن بس مرمت کروا کے گذارا کر رہا ہوں۔گھر کے مین گیٹ کا رنگ جگہ جگہ سے اُڑ چکا ہے ‘ روز سوچتا ہوں کہ اس ہفتے اسے رنگ کرواؤں گا لیکن پھر اخراجات پر نظر پڑتی ہے تو دل دہل جاتاہے۔تم یقین نہیں کرو گے کہ لیپ ٹاپ کے اِس زمانے میں میرے پاس ڈیسک ٹاپ کمپیوٹر ہے جسے مجبوراً ڈائننگ ٹیبل پررکھا ہوا ہے۔یوپی ایس صرف آدھا گھنٹہ نکالتا ہے ‘ وہ بھی تب جب صرف تین پنکھے چل رہے ہوں۔۔۔کیا یہ زندگی ہے؟ اس زندگی سے تو مرجانا اچھا۔۔۔!!!‘‘
میں نے کنپٹی کھجائی ’’مشکور صاحب!آپ کی پریشانیاں سن کر میرا دل بھرآیا ہے‘ آپ سوفیصد حق بجانب ہیں اورمیرے خیال میں آپ کو چھ سات دفعہ خود کشی کرنی چاہیے لیکن اگر میں آپ کو ایک ایسے صاحب کے بارے میں بتاؤں جوبعین آپ والی پریشانیوں کا شکار ہیں لیکن خوشی سے بھرپورزندگی گذار رہے ہیں تو کیاآپ ان سے ملنا چاہیں گے؟‘‘ مشکور صاحب چونک اٹھے’’بالکل ملنا چاہوں گا‘ لیکن پہلے مجھے بتاؤ کہ وہ کس قسم کی خوشگوار زندگی گذار رہے ہیں؟‘‘
’’جی ضرور۔۔۔تو سنئے!ٹینشن کے اِس دور میں وہ خراٹوں سے بھرپور نیند لیتے ہیں۔اُن کی بینائی اتنی اچھی ہے کہ پچپن سال کا ہونے کے باوجود ابھی تک عینک نہیں لگی۔گھرمیں اللہ کا اتنا فضل ہے کہ کوئی فرد کبھی بھوکا نہیں سویا۔ روز تازہ ‘ خوشبودار اور گرم کھانا بنتا ہے۔رکشوں‘ ویگنوں میں دھکے کھانے کی بجائے ان کے پاس اپنی سواری ہے۔اُن کے گھرمیں دھوپ بھی آتی ہے اور چھاؤں بھی‘ یوں وہ ہر موسم مزے سے انجوائے کرتے ہیں۔گھر کے ہر فرد کے پاس موبائل فون ہے۔کوئی قرضہ نہیں چڑھا ہوا۔ کسی کے پیسے نہیں دینے۔ اللہ نے کرائے داری کے عذاب سے بھی محفوظ رکھا ہوا ہے‘ اپنے گھرکی ہر اینٹ کے مالک ہیں اورپوری شان سے رہتے ہیں۔اُنہیں مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے کرسی نہیں درکار ہوتی‘ ماشاء اللہ فٹ ہیں اور رکوع سے سجدے تک کے تمام مراحل باآسانی مکمل کرتے ہیں۔اُن کے کپڑوں پر آج تک کسی نے کوئی داغ نہیں دیکھا‘ ہمیشہ اجلے کپڑے پہنتے ہیں۔ہرموسم کا لباس اُنہیں میسر ہے۔اولاد اپنے پاؤں پر کھڑی ہوچکی ہے اورگھر کے اخراجات میں اپنا حصہ ڈالتی ہے۔اُنہیں کوئی جسمانی معذوری نہیں‘ کسی سہارے کی ضرورت نہیں‘ دماغی توازن بھی ٹھیک ہے۔اُن پر کوئی پولیس کیس نہیں‘ کوئی مقدمہ نہیں‘ کوئی سیرئس بیماری نہیں۔اُنہیں سنائی بھی بالکل ٹھیک دیتاہے‘ دانت اور زبان بھی بالکل ٹھیک ہیں۔پورے کے پورے زندہ ہیں۔اُن کی محلے میں ناراضیاں تو ہیں لیکن دشمنی کسی سے نہیں۔ہرگلی سے بلاخوف و خطر گذرتے ہیں۔پینٹ شرٹ بھی پہنتے ہیں اور شلوارقمیص بھی‘ دونوں میں جچتے ہیں۔یاروں دوستوں والی شخصیت ہیں‘ فضول خرچ نہیں لیکن کنجوس بھی نہیں۔فیس بک پر بھی ایکٹو ہیں اورواٹس ایپ پر دوستوں کے گروپ میں چٹکلے بھی چھوڑتے رہتے ہیں۔فیملی کے ساتھ باہر کھانا کھانے جاتے ہیں توخوب مزے کرتے ہیں۔اپنی حیثیت کے مطابق من پسند چیزمنگواتے ہیں اور ساتھ میں کولڈ ڈرنک ضرور پیتے ہیں۔رات کو اُنہیں اچانک بھوک لگ جائے توپریشانی نہیں ہوتی کیونکہ الحمدللہ فریج میں ہر وقت کھانے کے لیے کچھ نہ کچھ موجود رہتاہے۔اُن کے گھر کی کوئی چیز قسطوں پرنہیں۔ فارغ وقت میں فلمیں دیکھتے ہیں یا اخبار پڑھتے ہیں۔روز انہ رات کو اپنے گھرمیں سوتے ہیں اور گھرمیں ہی بیدار ہوتے ہیں۔جب چاہیں گنگنا سکتے ہیں‘ جب چاہیں مسکرا سکتے ہیں‘جب چاہیں دوستوں کی محفل لگا سکتے ہیں۔جب ان کا لیٹنے کا موڈ ہوتاہے تو نرم گدے والے بیڈ پر لیٹ جاتے ہیں اور جب بیٹھنا چاہیں تو آرام دہ صوفے یا کرسی پر نیم دراز ہوجاتے ہیں۔‘‘
مشکور صاحب کے حلق سے ایک آہ نکلی ’’ماشاء اللہ کتنے خوش قسمت انسان ہیں‘ میں حیران ہوں کہ ہمارے محلے میں ہی رہتے ہیں اور میں آج تک اُن سے نہیں ملا، پلیز بتاؤ یہ کہاں رہتے ہیں‘ بلکہ مجھے اُن کے پاس لے چلو‘ میں ایک دفعہ اُن سے ملنا چاہتا ہوں‘‘۔
میں نے انگڑائی لی’’ جی ضرور! لیکن اُن کا ایک بڑا عجیب و غریب پرابلم ہے ‘اُنہیں دورے پڑتے ہیں‘‘۔
مشکور صاحب چونکے’’کس چیز کے دورے؟‘‘
میں نے انگڑائی مزید طویل کی’’ناشکری کے دورے۔۔۔ اتنی بھرپور‘ پرلطف اور مالا مال زندگی کے باوجود سوچتے ہیں کہ ان کے پاس کچھ نہیں لہذا خود کشی کرلینی چاہیے۔۔۔میرا خیال ہے ٹھیک ہی سوچتے ہیں۔۔۔!!!‘‘
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“