مارلن برانڈو (Marlon Brando, Jr) بلا شبہ امریکن سینما اور تھیٹر کے ایک بڑے اداکار ہیں ۔ شاید ایسی شھرت صرف لارنس الیور کو ملی انھوں نے 1944 میں براڈوے کے اسٹیج سے اداکاری کی شروعات کی۔۔ اس زمانے میں ان کی اداکاری پر شدید تنقید کی۔ انھوں نے پچاس (50) سال ہالی وڈ پر حکومت کی ہے۔ یہی نہیں چوبیس (24) سال کی عمر سے ھی زریعہ ابلاغ نے ان کو اہمت دی ۔ ان کی شہرت امریک ڈرامہ نگار ٹینسیی ولیم کے ڈرامے A Streetcar Named Desire (1951), پر بنے والی فلم سے ہوئی۔
1948 میں ولیم ٹینیسی نے ایک ڈرامہ لکھا A street car named Desire ۔ یہ کھیل دراصل جوانی کے آخری کنارے پر کھڑی ایک عورت کی کہانی ہے جس نے ماضی کی تلخیوں سے نظریں چرانے کے لئے تخیل کی ایک دنیا تراش لی ہے۔ اس خاتون کے بہنوئی کا کردار نوجوان مارلن برانڈو نے ادا کیا تھا۔ ترشے ہوئے خدوخال، حرکات و سکنات میں اعتماد، مردانہ تندی، اور سب سے بڑھ کر یہ کہ روئیں روئیں سے پھوٹتی جنسی توانائی۔ اس کھیل کو بیسویں صدی کے بہترین ڈراموں میں شمار کیا جاتا ہے تو اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سٹینلے کاوالسکی کے انتہائی تہہ دار کردار کو مارلن برانڈو نے اس خوبی سے نبھایا کہ زیرک نظری، دنیا شناسی، تشدد اور جنسی کشش کے ایک مجسمے نے بیسویں صدی میں عورتوں کے دلوں کی دھڑکن قرار پانے والے مرد کا تصور ہی بدل ڈالا۔" مارلن برانڈو کو ”آل ٹائم گریٹیسٹ“ اداکار کہا جاتا ہے۔ اس کا قریبی حریف لارنس اولیور تھا، لیکن اولیور نے سٹیج کو سکرین پر ترجیح دیے رکھی۔ برانڈو نے اپنی ساری توجہ فلموں پر دی۔ برانڈو نے کروڑوں لوگوں کو متاثر کیا۔ اس کے علاوہ ہالی وڈ کے کئی اداکار بھی ان سے بہت متاثر تھے۔ مارلن برانڈو کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روایتی اداکار نہیں بلکہ غیر روایتی اداکار تھا جسے انگریزی میں میتھڈ ایکٹر کہا جاتا ہے۔ برانڈو کو دوبار آسکر ایوارڈ ملا جبکہ 8 دفعہ اسے اس ایوارڈ کیلئے نامزد کیا گیا۔ کئی دوسرے ایوارڈ اس کے علاوہ ہیں۔ اس کی بہترین فلموں میں ”دی گاڈ فادر، آن دی واٹر فرنٹ اور لاسٹ ٹینگو ان پیرس کے نام لیے جا سکتے ہیں۔
مارلن برانڈوکی کی ولادت 3، اپریل 1924 میں اکلوھوما کے شہر " اوماہا" میں ہوئی۔ ان کے والد مارلن برانڈو سینئر کیلشیم کاربونیٹ کے فروخت کار تھے۔ ان کے والدیں شراب نوشی اور نشے کی عادت میں مبتلا تھے۔ مارلن برانڈو نے تیں (3) شادیاں کیں ان کی پہلی بیوی کانام ٹرینا، دوسری کا نام موریٹا، اور تیسری بیوی کا نام انا کاشفی ( پیدائش کوکتہ، بھارت) تھا۔ ان سب کو طلاقیں ہوئیں ۔ اپریل 2002 میں ایک 43 سالہ خاتون کرسٹیان روئس نے مالن برانڈو کے خلاف کیلے فورینا کی عدالت میں 100 ملین ڈالر کا مقدمہ دائر کیا ۔ کرسیٹا روئس کا کہنا تھا کہ " انکے چودہ (14) سال تک مارلن بانڈو سے رومانی اور جنسی تعلقات رہے ہیں۔ جن سے ان کے تین اولادیں بھی ہیں۔ 2003 میں یہ مقدمہ طے پا گیا اور برانڈو نے یہ پیسے ادا کردئیے۔ ایمپریل میگزین کی 1995 کی اشاعت میں 100 امریکن سیکسی مردوں کی فہرست میں مارلن باندو کا نام بھی شامل رہا۔
پاکستان میں کم ہی کسی کو یاد ہو گا کہ پچاس برس قبل ایک مرتبہ مارلن برانڈو پاکستان بھی آئے تھے۔ آئیے یہ قصہ پیرزادہ سلیمان کی زبانی سنتے ہیں:
“ہم میں سے کتنے افراد جانتے ہیں کہ ایک شخص جو کہ اسٹیج اور کیمرے کے سامنے ظالمانہ حد تک حقیقت پسندی کی بدولت ہولی وڈ کے متعدد عظیم اداکاروں کے لیے مثال تھا یعنی بے مثال مارلن برانڈو، نے کبھی کراچی کا بھی دورہ کیا تھا؟ یقیناً بہت زیادہ افراد اس بات سے واقف نہیں، مگر وہ 1965 میں یہاں آئے تھے، یہ ان کی زندگی کا ایسا مرحلہ تھا جو کہ باکس آفس پر کامیابی کی اصطلاح میں کافی کمزور دور کہا جا سکتا ہے۔
مارلن اکیس مارچ 1965 کو بیروت سے کراچی پہنچے۔ اس حقیقت کے برعکس کہ وہ ایک ‘مشکل’ شخص تھے جن پر اکثر ‘خودپسندی’ کا الزام عائد کیا جاتا ہے، انہوں نے یہاں ہوٹل انٹرکانٹی نینٹل میں کئی قلمکاروں سے ملاقاتیں کیں۔
بائیس مارچ کو شائع ہونے والا ان کا انٹرویو کافی دلچسپ تھا اور ایسا نظر آتا تھا کہ مارلن برانڈو نے اپنے جوابات کو شوخی کے تسمے میں باندھا تھا جو کہ انٹرویو کرنے والے میں گم ہوگئے جبکہ کچھ سنجیدہ اظہار رائے سے یہ حقیقت سامنے آئی کہ وہ سیاسی اور سماجی شعور رکھنے والے فنکار ہیں۔
مارلن کا کہنا تھا کہ ان کا پاکستان میں ایک فلم بنانے کا ارادہ ہے جو کہ ایک ناول پر مبنی ہوگی جسے ابھی انہوں نے پڑھا نہیں، جس کی ہدایات ناقدین کے سامنے خود کو منوانے والے جون ہسٹن اور کو اسٹار رچرڈ برٹن ہوں گے، جبکہ فلم کی شوٹنگ پشاور اور لاہور میں ہو گی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ وہ فلم میں کیا کردار ادا کریں گے تو ان کا جواب حسب توقع تھا ” میں بادشاہ کا کردار ادا کروں گا”۔
جب انٹرویو لینے والی خاتون نے پوچھا کہ اس پراجیکٹ میں ہیروئین کا کردار کون نبھائے گا تو دو بار آسکر جیتنے والے اداکار کا جواب تھا ” ہوسکتا ہے کہ وہ خاتون آپ ہی ہوں”۔
کراچی میں مارلن نے قائداعظم کے مزار کا دورہ کیا اور اسے ‘ مسحور کن عمارت’ قرار دیا۔ مارلن کو کراچی شہر ‘نشاط انگیز’ لگا اور تبصرہ کیا ” کراچی کے عوام مختلف قسم کے ہیں، ان کی بات چیت اور لباس پہننے کا انداز مختلف ہے، خواتین برقعہ اوڑھتی ہیں اور اپنے چہرے چھپاتی ہیں جبکہ مرد شرٹوں کو اپنی پتلونوں سے باہر نکال کر رکھتے ہیں”۔
مارلن برانڈو نے ’دی وائلڈ ون‘ ’ سٹریٹ کار نیمڈ ڈزائر‘ اور ’لاسٹ ٹینگو ان پیرس‘ جیسی شہرہ آفاق فلموں میں بھی کام کیا۔
ان کو دو ہزار ایک میں بننے والی فلم ’دی اسکور‘ میں ایڈورڈ نارٹن اور رابرٹ ڈی نیرو کے ساتھ کام کرنے پر تیس لاکھ ڈالر کا معاوضہ ادا کیا گیا
ان کے دوست احباب ان کو " بڈ" ("Bud) اور " ممبلز (MUMBLES) کہتے تھے یعنی یہ ان کے NICK NAMES تھے ۔ 1972 میں ایک مافیا ناول " گاڑ فادر" پر بنائی ھوئی فلم پر مالن برانڈو نے بہتریں اداکاری کی اور ان کی شہرت بلندیوں تک پہنچ گئی۔ وہ امریکہ کی سیاہ فام شہری آزادی کی تحریک میں بڑہ چڑہ کا حصہ لیا۔ اور سیا ہ فام انتہاپسند تحریک کی مالی مدد بھی کرتے رہے۔ان کی ہمدردیاں اسرائیل کی جانب بھی رھی انھوں نے یہودی سیاسی پالیمنٹری گروپ "ارگن" (IRGUN) کو مالی عطیات دئیے۔ مگر بعد میں وہ فلسطینی کاز کے حامی ھوگئے تھے۔یکم جولائی 2004 کو ویسٹ وڈ ، کیلی فورنیا میں 80 سال کی عمر میں ان کا انتقال نظام تنفس( Respiratory failure) کی ناکامیابی کے سبب ہوا ۔ مارلن براندو سے میری یہ ملاقات مادام تساؤ کےمومی عجائب خانے ، ہالی ود کیلے فورینا میں ھوئی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...