کارل مارکس(1818-1883)نے 1867میں ایک اعلان نامہ شائع کرایا جس میں تمام ہی مزدوروں اور مظلوموں کو ایک ہونے اور غلامی کی ساری زنجیروں کو توڑنے کی یہ کہتے ہوئے دعوت دی گئی کہ’’ دنیا کے مزدورو!ایک ہو، کیونکہ تمہارے پاس پانے کے لئے سب کچھ ہے جبکہ کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں‘‘۔دراصل اس نعرے کے پیچھے کے منظر نامے کو سمجھے بغیر اس کے بنیادی سروکاروں سے آگہی ممکن نہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ تاریخ کے صفحات کو پلٹا جائے۔
1750کے آس پاس رونما ہونے والے صنعتی انقلاب سے پہلے باقی دنیا کی طرح یوروپ بھی زراعتی دنیا کا ایک حصہ تھا۔تاریخ ہی سے ہمیں اس بات کی بھی جانکاری ملتی ہے کہ بادشاہوں اورراجے رجواڑوں کواپنے سامراج کی حفاظت اوراس کی توسیع کے لیے بھاری بھر کم فوج کی ضرورت ہوتی تھی۔اس فوج کے اخراجات کی فراہمی کے لئے زراعت پر منحصر غریب کسانوں پر بھاری بھر کم لگان یعنی ٹیکس لگایا جاتا تھا۔ ان سے لگان کی وصولی کے لئے جس شخص کو ذمہ دار مانا گیا،اسے آگے چل کر زمیندار کے نام سے پکارا گیا۔ زمیندار کو یہ اختیار حاصل تھا کہ اگر کوئی کسان مقررہ مدت کے اندر لگان کی ادائیگی سے قاصر رہے تو اس کی زمین ضبط کرکے کسی دوسرے کسان کو دے دی جائے۔زمیندار ٹیکس کی وصولی کے وقت بار ہا ظلم وتشدد سے پیش آنے سے بھی دریغ نہ کرتا۔نتیجتاً کسان بھوکارہ کر بھی زمیندار، بادشاہ سلامت اور فوج کے پیٹ بھرنے میں ہی عافیت سمجھتا۔اس طرح کے ظلم وستم سہتے سہتے کسان عاجز آچکے تھے کہ اسی اثنا میں انگلینڈ میں کپا س کی زائد پیدا وار کا دور شروع ہوا۔ آجروں اور سرمایہ داروں نے موقع کو غنیمت جان کر 1781میں رچرڈ آرک رائٹ(Richhard Arkwright)کی سر برایںمیں مانچسٹر میں ایک کاٹن فیکٹری کی بنیاد رکھی۔اس کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے زراعت پیشہ مزور نئی صنعتوں میں اس امید پر مزدوری میں لگ گئے کہ یہاں عزت سے دو وقت کی روٹی کا انتظام ہو جائیگا۔ لیکن انتھک محنت کے باوجود بھاری منافع میں چل رہی فیکٹریوں کے مزدوروں کو دو وقت کی روٹی میسر نہ ہوسکی۔یہیں سے مزدوروں کاآجروں اور سرمایہ داروں کے ذریعے استحصال کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے۔
مزدوروں کے جائز مطالبات کوبھی مسترد کیا گیا اور ان کو بے دردی سے کچلا گیا۔ اس طرح انہیں بھوکوں مرنے پر مجبور کیا گیا۔ انہی حالات کے پس منظر میں اقبال نے کہا تھا ؎
جس کھیت سے دہقاںکو میسر نہ ہو روزی
اس کھیت کے ہر خوشۂ گندم کو جلادو
انہی حالات وکیفیات کے رد عمل میں مارکس نے ۱۸۶۷ میں "Das Kapital"(سرمایہ)نامی انقلابی آہنگ والی کتاب تصنیف کی۔ جس میں طبقاتی کشمکش پر اپنے نظریہ کو پیش کیا اور کہا کہ طاقتور ہمیشہ کمزوروں اور مجبوروں پر ظلم کرتا ہے۔اس لئے کمزوروں اور مجبوروں کے لئے متحد ہونے کے سوا چارہ نہیں ہے۔مارکس نے کہا کہ کمزوروں اور مجبوروں کے لئے لازمی ہے کہ وہ ان ظالم سرمایہ داروں کی اجارہ داری کا خاتمہ کریں، چاہے اس کے لئے اسے پسینے کی جگہ خون ہی کیوں نہ بہانا پڑے!تبھی جاکر مجبوروں اور مظلوموں کی اپنی حکومتوں کا قیام ممکن ہوسکے گا۔جہاں سبھی کو اسی کی اہلیت کے مطابق کام دیا جائے گا اور اس کی ضروریات کے حساب سے اس کا محنتانہ۔ اس طرح ایک غیر طبقاتی نظام قائم ہوگا۔ جہاںسب برابر ہوں گے اور کوئی کسی پر ظلم کرنے کی طاقت نہیں رکھے گا۔کیونکہ ایسے سماج میں سرمایے پر کسی فرواحد کی اجارہ داری نہ ہوکر پورے سماج کا اس پر حق ہوگا۔یہاں پر کارل مارکس یہ بھول گئے کہ جہاں ایک سرمایہ دار مجبوروں پر ظلم کرسکتا ہے وہیں سر کاری باگ ڈور سنبھالنے والے سینکڑوں سرمایہ دار اور بھی بے رحم طریقے سے ظلم کرنے پر قادر ہوں گے۔
بہر حال مارکس کے بتائے ہوئے خطوط پر آج سے ایک صدی پیشتر 1917میں لینن کی سربراہی میں روس میں پہلی مارکسی حکومت قائم ہوئی اور حکومت کی باگ ڈور مزدوروں اور محنت کشوں کے ہاتھوں میں آگئی۔ اس انقلاب نے ساری دنیا میں تہلکہ مچادیا۔چونکہ شاعروادیب عام لوگوں کی بہ نسبت زیادہ حساس واقع ہوئے ہیں، اس لئے انہوں نے بھانپ لیا کہ اگر مظلوموں، مزدوروں اور مجبوروں کی حمایت کی جائے تو اس کا مفید نتیجہ نکل سکتا ہے۔ اس خیال نے ادب کے مارکسی دبستان کو جنم دیا اور اس دبستان کی تخلیقات پر تنقیدی نظر ڈالنے والی تنقید کو مارکسی تنقید کا نام دیا گیا۔
مارکسی دبستان نے ایسی تخلیقات کو منظر عام پر لانا وقت وحالات کے لئے ضروری سمجھا جو مزدوروں کی سمجھ سے بالا تر نہ ہو۔اس لئے اس میں سیدھے سادے بیانیہ اور سپاٹ پلاٹ پرزور دیا گیا۔شاعری میں ابہام ورموز سے کنارہ کرکے براہِ راست اورخطابیہ تکنیک کوبہتر سمجھاگیا، کیونکہ شاعری کی تہ داری اور پیچیدہ بیانی کو ان کے نزدیک برسوں سے ظلم کی چکی میںپس رہے مظلوم مزدوروں کی سمجھ سے پرے نہیں ہونا چاہئے تھا۔ چنانچہ ادیبوں وشاعروں کی پوری ایک جماعت اس فکرکا علمبردار بن کراٹھی اورروسی زبان میں مزدوروں ومجبوروں کومخاطب کرنے لگی۔دیکھتے ہی دیکھتے دیگریوروپی وایشیائی زبانوں پر اس کے اثرات کومحسوس کیاجانے لگا۔ سجادظہیراس تحریک کولندن میںبیٹھ کربغوردیکھ رہے تھے۔وہ بھی اس اثر کی زد میںآئے اورانہوں نے اردومیں اس تحریک کومتعارف کرانے کا بیڑا اٹھایا۔ 1932میں ’’انگارے‘‘ کے نام سے افسانوں کا ایک مجموعہ اپنی ادارت میں شائع کرایا اور1936میں پریم چند کی صدارت میں لکھنؤ کے رفاہ عام کلب میںایک کل ہند کانفرنس بلائی۔ یہ ترقی پسند تحریک کی پہلی کل ہند کانفرنس تھی۔ یہیں سے مارکسی ادب کا باضابطہ آغاز ہوا اورتقریباً دودہوں تک اس تحریک نے اپنا جھنڈا بلند کئے رکھا۔
اس دوران جوادب نظموں، افسانوں اوردیگر تخلیقات کی روشنی میں پیش کیا گیا اس کو جانچنے، پرکھنے اوراس کومشتہر کرنے کے لئے تنقید کا بھی سہارا لیا گیا۔ اس طرح کی تنقید میںبنیادی طورسے یہ دیکھا گیا کہ آیا تخلیق میںتخلیق کارنے وہی پیش کیاہے جواس کے دل پرگزرتی ہے یا اسے پیش کیا جواسے اپنے اردگرد نظرآتا ہے۔ اگرثانی الذکر کی بھرپور موجودگی اس انداز میں پائی گئی کہ ایک عام آدمی صحیح طورسے سمجھ سکتا ہے تواسے کامیاب تخلیق کا درجہ دے دیا گیا۔ کیونکہ مارکسی نقاد ادب سے یہ توقع رکھتا ہے کہ وہ عوام کے لئے ہو۔ جیسا کہ کہاگیا کہ مارکسی نظام میں مرکزی حیثیت عوام کو حاصل ہوتی ہے، اس لئے مطالبہ کیاگیاکہ ادب بھی انہی کے لئے تخلیق کیاجانا چاہئے۔بادی النظر میں یہ بات مضحکہ خیز لگتی ہے لیکن تجربات نے یہ ثابت کردیا ہے کہ روسی ادیبوں نے عوامی ادب پیدا کرکے اپنے ہموطنوں کی ایسی تربیت کی کہ کہاجاتا ہے کہ عوامی ادب کا مطالعہ کرتے کرتے ان کا مذاق اس قدربلندہوگیا کہ آج شیکسپئرجیسے عظیم المرتبت فنکار کوپڑھنے والے انگلینڈ سے زیادہ روس میں پائے جاتے ہیں۔
مارکسی تنقید میںداخلیت، ابہام، زولیدہ بیانی اورفلیش بیک وغیرہ کی تکنیک کواس لئے ناپسند کیاگیا کہ یہ چیزیں عوام سے ادب کا رشتہ منقطع کردیتی ہیں۔ لیکن اس رویہ کوبہت دورتک صحیح ٹھہرایا نہیںجاسکتا۔ کیونکہ تمثیل، رمز، استعارے اورتلمیحات کے بغیر پراثر شاعری کا وجود تقریباً ناممکن سا ہے۔ مارکسی تنقیدنگاروں نے اس حقیقت پرپردہ ڈال کراورپس پشت رکھ کر دہرائو کے دروازے کوکھول دیا۔ نتیجتاً انسانی دماغ کی زرخیزی سرسبزی وشادابی کے چنددہائیوں کے بعدمزید پیداوار سے انکار کرنے پر مجبور ہوگئی۔
مارکسی نقادوں کے نزدیک ادب خودمنزل نہ ہوکر منزل تک پہنچنے کا راستہ بھر ہے، یعنی ادب آلۂ کار ہے اوراس کے سہارے انقلابی راستے کوہموار کیا جانا چاہئے بس۔ لیکن وہ بھول گئے کہ ایک بار اپنی مرضی کے مطابق جب انقلاب آجائے توپھردوبارہ انقلاب کی بات نہیں کی جائے گی۔ بلکہ اصلاح وتحسین کے راستے کواپنایا جائے گا اوریہ کام انقلابی راستے سے مختلف ہونے کی وجہ سے الگ طرح کا متقاضی ہے جسے کیف وسرور کے راستے ہی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس حقیقت کونظرانداز کرنے ہی کی وجہ سے کبھی ایک شاعر عورتوں کوماتھے کے آنچل سے انقلابی جھنڈا بنالینے کوکہتا ہے اورکبھی آزادی کے حصول کے بعد بھی ملک میںمختلف ناموں کے لاحقے وسابقے کے ساتھ آزادی کی بات کی جاتی ہے۔
مارکسی نقادوں نے اجتماعی سروکار کوہی سب کچھ سمجھ لیا اوراسی کے مطابق تخلیق کارو ں سے اپنی تخلیقات پیش کرنے کا مطالبہ کیا،انفرادی زندگی کوبالکل ہی نظرانداز کردیاگیا۔ یہی وجہ ہے کہ فیض نے جب ’’صبح آزادی‘‘ کے نام سے نظم لکھی ؎
یہ داغ داغ اجالا، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھا جس کا یہ وہ سحر تو نہیں
تو علی سردار جعفری نے نظم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ اس میںایسی کوئی الگ بات نہیں کہی گئی ہے جو ایک غیرمارکسی تخلیق کار نہ کہہ سکے، مارکسی نقاد یہ بھول گئے کہ انسان داخلی وخارجی جذبات کا مرکب ہے۔ کسی بھی ایک جذبے کونظرانداز کیاگیا توانسان ٹوٹ جائے گااور زیادہ دنوں تک چلنا اس کے لئے محال ہوجائے گا۔ اس کے باوجود داخلی جذبات کی انتہائی مخالفت مارکسی فکر کوتوڑنے میںہی معاوبن بنی نہ کہ اس کے عروج میں۔ فیض اگراگلے سوسال تک پڑھے جاتے رہیںگے تواس میںچونکنے والی کوئی بات نہیںہوگی۔ کیونکہ انہوں نے داخلی وخارجی دونوں طرح کے جذبات کوبرتنے میںتوازن کا دامن ہاتھ سے چھوٹنے نہ دیا۔ ملاحظہ ہوان کی شہرۂ آفاق نظم ’’دوعشق‘‘۔ یہاں پر اس نظم کا آخری بند بطورمثال درج کیاجاتاہے ؎
چھوڑا نہیں غیروں نے کوئی ناوک دشنام
چھوٹی نہیں اپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اس عشق، نہ اس عشق پہ نادم ہے مگر دل
ہر داغ ہے اس دل میں بجز داغ ندامت
اس نظم میں فیض نے محبوب مجازی اورلیلائے وطن دونوں کے لئے یکساں طورپراپنے جذبات واحساسات کا اظہار کیاہے جواسے سماج کے ہرطبقے کا ترجمان بناکر پیش کرتا ہے اوراس کے لافانی ہونے کا ثبوت بھی۔
مارکسی تنقیداپنے تخلیق کاروں سے جانبداری کا مطالبہ کرتی ہے۔جس تخلیق میںمزدوروں، مجبوروں اورمظلوموں کی باتیں نہ پیش کی جائیں اس کوادب سے خارج ماناگیا۔ انہوں نے جانبداری کوبرتنے والی کسی بھی تخلیق کوسرآنکھوں پر بٹھایا چاہے اس کا اسلوب نگارش اوروں کے نزدیک سطحی ہی کیوں نہ ہو! انہوں نے کیا کہا، اس پر زوردیا۔ کیسے کہاگیا، اس کودیکھا ہی نہیں اوراگردیکھا بھی توتوجہ انتہائی کم۔ مواد اور ہیئت کی بحث میںانہوں نے سارا زورمواد پر صرف کیا اوراپنے ادیبوں وشاعروں سے ’’غیرجانبداری‘‘ کی لعنت سے دور رہنے کوکہا اور جانبداری بھی مزدوروں کی جانبداری، نہ کہ سرمایہ داروں کی۔ کیونکہ ان کے نزدیک مزدور ہی مظلوم ہے، سرمایہ دار مظلوم نہیں ہوسکتا۔ ان کی اسی ذہنیت نے مزدوروں کوکام چور اور مفت خوربنادیا۔ نتیجے میںکارخانوں کے کارخانے بند ہوتے چلے گئے اورسرکار کوگھاٹے میںچل رہی فیکٹریوںمیںسرمایہ کشی (Dis-Investment, fo&fuos'k)کرنے پر مجبورہونا پڑا۔ اس طرح ہم دیکھ سکتے ہیں کہ مزدور بھی سرمایہ داروں کی طرح بلکہ بعض واقعات میں اس سے بھی زیادہ ظالم واقع ہوسکتے ہیں۔ اگران پر اعتدال اوراخلاقیات کی لگام نہ لگائی جائے۔
مارکسی تنقید پر اظہار خیال کرتے ہوئے کلیم الدین احمد نے لکھا ہے کہ :
’’مارکس اورلینن اپنے خیالات وعمل کے میدان میںاہمیت رکھتے ہیں لیکن وہ نہ تو ادیب تھے اورنہ نقاد، اس لئے ان کی رائیں کسی تماشائی کی رائے سے زیادہ اہم نہیں ہوسکتیں۔۔۔۔۔ ترقی پسندنقاد بعض مغربی خیالات کواخذ کرکے پیش کردیتے ہیں۔ وہ خود فنون لطیفہ کی ماہیت، ان کے اغراض ومقاصد، ان کے اصول اور ان کی اہمیت پر غور نہیںکرتے۔ وہ انہی مغربی تصنیفوں سے استفادہ کرتے ہیں جن میںاشتراکیت کی رنگ آمیزی ہوتی ہے۔ وہ قابل قدر، بلندپایہ نقادوں کے بجائے کم پایہ اورمبتذل نقادوں سے زیادہ واقفیت رکھتے ہیں‘‘۔(اردوتنقیدپرایک نظر)
کلیم الدین احمدکے ان خیالات کو حق بجانب ماننے کے باوجود یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ان کے خیالات میں مارکسی ادب کولے کر ایک طرح کی انتہاپسندی تھی حالانکہ مارکسی ادب وتنقید نے ہمارے ادب میںایک نئی روح پھونکنے میںاہم کردار ادا کیاتھا۔اورحقیقت نگاری کی روش کوعام کیاتھا۔ حسن کے پیمانے تبدیل ہوئے تھے اورادب کوصرف اشرافیہ کا ترجمان نہ ہوکرعوام کا بھی ترجمان ہونا چاہئے، اس خیال کو عملی طریقے سے عام کیاتھا۔ لیکن جیسا کہ کسی بھی روش میں انتہاپسندی ہلاکت کے گڑھے میںہی ڈھکیلتی ہے۔ یہاں بھی مارکسی نقادوں کی انتہاپسندی نے مارکسی ادب کوہلاکت کے گڑھے میںہی ڈھکیلا۔ اسی میںانہوں نے اپنی توانائی کوصرف کیا اوراپنے ہی ہاتھوں خودکوقتل بھی۔