مارخور، پہاڑی بکرے کی ایک قسم ہے جو پاکستان، افغانستان، ازبکستان اور ترکمانستان میں پایا جاتا ہے۔
پاکستان میں اس کی آبادی گلگت بلتستان کے بلند پہاڑی علاقوں میں جہاں اس کو خطرہ زدہ ہونے کی وجہ سے اسے حکومت کی طرف سے خصوصی حفاظتی سٹیٹس حاصل ہے۔
مارخور کے بارے میں ایک Myth یہ مشہور ہے کہ “یہ جانور کبھی کبھار سانپ کھایا کرتا ہے۔ یہ سانپ کو اپنے سموں کی مدد سے قتل کر کے کھا جاتا ہے اور سانپ کو کھانے کے بعد اس کے زہر سے بچنے کے لیے کچھ مخصوص زہر شکن پودے چرنے لگتا ہے ۔ ان پودوں کی جگالی کے دوران اس کے منہ سے جھاگ بہہ کر زمین پے گرتی رہتی ہے جو کہ گر کے پتھر کی طرح سخت ہو جاتی ہے ۔ اور یہ پتھر سانپ کے کاٹے کا مکمل اور کارگر علاج ہے۔۔۔”
تاہم۔ یہ سب مکمل طور پر ایک فرضی کہاوت ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
۔
جنگلی/پہاڑی بکریاں سانپ نہیں کھاتیں:
مارخور سمیت کسی بھی پہاڑی/جنگلی بکرے جیسے Ibex, مارکوپولو شیپ، اڑیال، راکی ماونٹین گوٹ وغیرہ کی خوراک میں سانپ یا چھپکلی، مینڈک، چوہے کچھ بھی شامل نہیں ہے۔
مارخور کو بھی اس کے قدرتی ماحول میں سینکڑوں مرتبہ فلمایا جاچکا ہے تاہم آج تک اس کے سانپ کھانے کی کسی واقعہ کو فلمبند نہیں کیا جاسکا۔۔۔۔اتنا ہی نہیں۔ دیگر نسلوں کے پہاڑی، جنگلی بکروں کو بھی سانپ کھاتے کبھی نہیں ریکارڈ کیا گیا۔
۔
اس نام کی وجہ؟
لفظ “مارخور” کا مطلب سانپ “سانپ کھانے والا” ہے ۔ تاہم یہ لفظ بھی دیگر کئی جانوروں کے مروج ناموں کی طرح Myth یا علامت پر مبنی ہے جیسا کہ:
سنگچور۔۔۔۔Common Krait , اس سانپ کا نام اس کہاوت پے ہے کہ “یہ سانپ اگر پتھر کو ڈس لے تو وہ پتھر بھی اس کے زہر کے اثر سے چور چور ہو کے بکھر جاتا ہے”۔۔۔۔تاہم آج کی دنیا میں ہم جانتے ہیں کہ کریٹ کے زہر سے پتھر کا پگھلنا محض ایک کہاوت ہے۔
ڈھائی گھڑیا۔۔۔Russel’s Viper, اس سانپ کے نام کی وجہ یہ Myth ہے کہ “اس کا کاٹا محض اڑھائی سیکنڈ یا اڑھائی منٹ ہی زندہ رہ پاتا ہے” تاہم حقیقت یہ ہے کہ رسلز وائپر کا کاٹا شخص 1 دن سے 14 تک بھی زندہ رہ سکتا ہے اور بروقت طبی امداد مل جانے پے بچ بھی سکتا ہے۔
اڑن لومڑی۔۔۔Flying Fox, یہ ایک چمگادڑ ہے نا کہ لومڑی۔
پیکاک مینٹس شرمپ۔۔۔Peacock mantis shrim، یہ سمندری جانور نہ تو پیکاک ہے نہ مینٹس اور نہ ہی شرمپ۔ Funny enough
خرگوش۔۔۔Hare ، لفظ خرگوش کا مطلب ہے “گدھے کے کانوں والا” گویا یہ ایک علامتی نام ہے جو اس کے لمبے کانوں کی وجہ سے رائج ہوا ہے۔
اسی طرح درجنوں مزید مثالیں موجود ہیں۔۔۔۔
بالکل اسی طرح مارخور کا نام بھی ایک نسل درد نسل منتقل ہوتی کہاوت کا نتیجہ ہے۔
۔
اگر یہ بات حقیقت ہوتی تو۔۔۔؟
اگر مارخور کے سانپ کھانے اور سانپ کے علاج میں کارگر جھاگ اگلنے کی بات میں کوئی حقیقت ہوتی تو پھر تو پاکستان سالانہ کروڑوں ڈالرز انتہائی کم خرچ پے کما سکتا تھا۔
وہ ایسے کہ ایک وسیع ، محفوظ قطعے میں اچھی تعداد میں مارخوروں کو نیشنل پارک کی طرز پے حفاظت میں رکھ کے اس ایریا میں انہیں کھانے کو سانپ فراہم کرکے بعد میں ان کی پیدا کی ہوئی پتھر بن چکی جھاگ کو اکھٹا کرلیا جاتا اور بطور سانپ کے زہر کے علاج کے برآمد کردیا جاتا۔۔۔اب بھارت جیسے ممالک کپ جہاں 20 سال میں “”12 لاکھ”” افراد سانپ کے کاٹے سے مر چکے ہیں اور ان گنت معذور ہوچکے ہیں ایسے ممالک تو منہ مانگی قیمت پر سانپ شکن جھاگ پتھر خریدنے کو تیار ہوجاتے۔
مگر۔۔۔نہ تو ایسے کسی جھاگ پتھر کا کوئی وجود ہے اور نہ ہی مارخور سانپ کھایا کرتے ہیں۔
۔
۔
البتہ۔۔۔سانپ، مارخور کو کھا سکتے ہیں:
جی ہاں! یہ ممکن ہے ہندوستان و پاکستان میں ایک قوی الجثہ غیر زہریلا سانپ Asian Rock python پایا جاتا ہے جو کہ ہرن کے سائز کے جانوروں کو سالم نگل کر کھا سکتا ہے۔۔۔۔یہ سانپ ممکنہ طور پے مارخور کے بچوں کو باآسانی کھا سکتا ہے۔ تاہم۔ اس سانپ کو گلگت بلتستان میں نہیں دیکھا گیا۔ اس لیے اس کی وجہ سے مارخور کی آبادی کو خطرات لاحق نہیں۔۔
تحریر شیئر کرنا مت بھولیے۔۔۔۔۔
#ستی
https://web.facebook.com/photo/?fbid=730037824916917&set=a.111144573472915