(Last Updated On: )
مر یضانہ نر گسیت کی ایک علامت یہ ہے کہ مریض ’’چت بھی میرا پٹ بھی میرا‘‘کے اصول پر عمل کرتا ہے ۔اپنے اردگرد باصلا حیت شخص سے خطرہ محسوس کرتے ہوئے اس کے خلاف کردار کشی، تذلیل یا تحقیرکی مہم چلاتا ہے ۔ اس عمل میں وہ عام اخلا قیات کے بر عکس اپنی فضیلت اور صلاحیت کا طرح طرح سے بیان کرتا ہے ۔
اس بیان کی نفا ست یا کثافت کا انحصار فرد کی تہذ یبی اور فکری سطح پر ہے ۔ تا ہم یہ واضح ہے کہ فضیلت کا یہ اظہار صاف دکھائی دیتا ہے ۔ وہ کبھی اپنی کو تا ہی، کمزوری کا اعتراف یا اپنے کسی جرم کا اقبال کرے تو یہ اس بات کو اخلاقی جرات کے طور پر لائقِ تحسین ہر گزقرار نہیں دیتا بلکہ لپک کر اس اقر ار کو اپنی پاکبازی اور مزید فضیلت کا ثبوت بنا لیتا ہے۔
تہذ یبی نر گسیت میں اس کی صورت اس طرح سے ہے کہ ہم اپنی ثقافت، اپنے مذ ہب ، اپنے آباؤ اجداد غرضیکہ جس کا بھی تذکر ہ چل پڑ ے ، ہر ایک کی فضیلت بیان کرنے میں کسی ا حتیا ط یا ا نحصار کو ضروری نہیں سمجھتے۔ آئے دن نئے نئے حضرت اور مولانا اور پیر اور مرشد پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ اپنی تعریف میں ہمیں کوئی دور یاکوئی واقعہ افسوسنا ک نظر نہیں آتا ۔ اگر ہم نے دنیا فتح کی ، قوموں کو ذمّی بنا یا ، غلام رکھے ، لونڈیا ں رکھیں، اگر ہمارے محترم عرب رہنما آج بھی دنیا بھر سے غلام اور لونڈیاں خریدتے اور حرم بھر تے ہیں تو ہمیں کسی خفت کا سا منا نہیں۔
مگر ہم امریکہ ، یو رپ ، بھارت اور اسرائیل کی عریا نی ، بے حیا ئی ،بد کا ری ، ظلم ، وحشت وبربر یت کی مثا لیں گنواتے بس نہیں کر تے ۔اگر امریکی ڈرون طیاروں کے حملوں میں چند معصوم قبا ئلی مارے جائیں تو اس کے انتقام کے طور پر سینکڑوں بے قصور پاکستا نیوں کا قتل اس لئے جائز قراردے دیا جاتاہے کہ یہ ہماری تہذیبی مظلو میت کا ا نتقام ہے۔ اس میں پاکستان کے مظلوم کم مظلوم ہوجاتے ہیں کیو نکہ ان کے مقابلے میں مجاہد قبا ئلیوں کا مقام بالاتر ہے ۔ تقدس اور مظلومیت کی طو یل داستان گو ئی کا اندازہ لگا نے کے لئے صرف چند اقتباسات یعنی دیگ میں سے چند چاول ملا حظہ ہوں (یہ اقتبا سات ڈاکٹر اسراراحمدکے مضمون ’’علا مہ اقبال، قائد اعظم اور نظریہ پاکستان‘‘سے لیے گئے ہیں جو نوائے وقت 23 اکتوبر 2008 میں شائع ہوا)۔
اقتباس1۔’’مسلمان حاکم تھے ، جبکہ یہاں (ہندوستان) کے دو سرے ا بنائے وطن محکوم تھے……لیکن حضرت اور نگ زیب عا لمگیرکے انتقال کے بعد زوال کا عمل شروع ہوا‘‘۔
یعنی حاکم ہونا عروج ہے اور اس منصب سے اترنا زوال اور دوسرے ابنائے وطن کی تر کیب پر غو ر کریں یعنی یہ بھی دعویٰ ہے کہ مسلمان بھی وطن کے بیٹے تھے حالا نکہ وطنیت کو اسی مضمون میں بُت پرستی بھی قراردیتے ہیں۔جہاں تک حضرت کا تعلق ہے یہ وہی حضرت اورنگ زیب عا لمگیر ہیں جنہوں اپنے والد یعنی شا ہجہان سے حکو مت چھین کر اسے کوئی فرد جرم عائد کیے بغیر تا حیات قید میں رکھا ،تخت و تاج کے لئے اپنے تین بھا ئیوں کو قتل کیا یعنی یہ ثا بت ہے کہ ان پر کسی جرم کا الزام نہ تھا۔ سوائے اس کے وہ اقتدار کے شریک امیدوار تھے اور اسی اقتدار کے لئے پورے ہندوستان میں کئی عشروں تک فوج کشی کی ۔ اپنے بھا ئی داراشکوہ کے قتل کے بعد اس کے مر شد سرمد کو عریانی کی سزامیں قتل کروادیا حالانکہ یہ بات اکثر محققین نے بیان کی ہے کہ سرمد کا قصور صرف اور نگزیب کی فکری مخالفت تھا اور اسی وقت میں ہندوستان کے شہروں میں سرمد کے علاوہ سینکڑوں مجذوب اور ننگے فقیر موجود تھے جو سب سلامت رہے ۔
لیکن غور کریں اس مغل با دشاہ کو حضرت اس لئے کہا جارہا ہے کہ اس نے شخصی اور خاندانی اقتدارکو مضبو ط کرنے کے لئے اسلام کا نام استعمال کیا اور شاہ پرست مسلم علماء کو مراعات دے کر اپنی مرضی کے فتوے تیا ر کروائے ۔فتووں کا مجموعہ فتاویٰ عالمگیری کے نام سے جاری کیا گیا جس سے مسلم نر گسیت پرستوں کو یہ کہنے کا مو قع ملا کہ انہوں نے ہندوستان میں اسلامی شریعت کا بو ل با لا کرنے کے لئے حکومت کی ،نہ کہ اقتدار کے لیے۔
اور نگزیب کو تقدس دینے کا سلسلہ یوں تو بر صغیر کے شاہ پرست مسلم علماء میں دیرسے چل رہا ہے تا ہم خون میں بھیگی ہو ئی تلوار کو قوس قزح کہنے کا عمل جنرل ضیاء کے دور میں خصوصاً تیز ہوا ، کیونکہ مو صوف خود بھی ایسی ہی ٹیڑھی تلوار تھے جو جھک جھک کر اور لچک لچک کر پا کستان کے مستقبل کو کا ٹ گئی ۔ دونوں حضرتوں میں غالباً یہ قدر مشترک تھی کہ دونوں نے اپنے طویل دورِ اقتدار میں اپنی اپنی مملکتوں کو فیصلہ کن زوال کی راہ پر روانہ کیا ۔ لیکن اس دعوے کے ساتھ کہ اسلام کسی علا قائی سرحد کا پا بند نہیں ۔
اقتباس 2 ۔’’(انگر یز) سے پہلے چو نکہ شمشیر و سناں کا معاملہ چل رہا تھا ، تو گئے گزرے حا لات میں بھی مسلما نوں کا پلڑا بھاری تھا‘‘ ……’’اب تلوارتونیام میں چلی گئی اور صرف تعدادِ نفوس کا معاملہ رہ گیا ۔لہٰذ ا ہندوؤں کی عددی اکثر یت سے مسلمانوں میں خفیف سا خوف پیدا ہونا شروع ہوا کہ جن پر ہم نے آٹھ سو برس حکومت کی ہے ، یہ اب ہم سے انتقام لیں گے‘‘……’’ انگریزی حکومت کے خلاف ہندوؤں اور مسلمانوں کے ردعمل میں فرق تھا ۔ ہندوؤں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ پہلے بھی غلام تھے ،اب بھی غلام ہوگئے ……لیکن مسلمانوں کے لئے بہت زیادہ صدمے اور غم کا معاملہ تھا……لہٰذ اتحریک شہیدین شروع ہوئی ……تا کہ ہندوستان کو از سر نو ہندوؤں کے غلبے سے بھی اور انگریز کے غلبے سے بھی نجات دلا ئی جائے اور دارالسلام کا جو سٹیٹں چلا آرہا تھا اسے بحال کیا جائے‘‘۔
تہذیبی نر گسیت اور تکبر ایسی کیفیت ہے جس میں اپنے گناہ بھی ثواب نظر آ تے ہیں۔موصوف محترم خود ہی تلوار کو مسلمانوں کی بر تری کا سبب کہہ رہے ہیں ،لیکن اگر کوئی کہے کہ مسلمانوں نے جبر سے حکومت کی تو شدید احتجاج کے بعد کہا جائے گا کہ مسلمان اس لئے آٹھ سو بر س حکمران رہے کہ ان کا کردار ، علم ،نیکی اور انسان دوستی کا جواب نہ تھا ۔ حالانکہ اسی تلوار کے زورسے ہند کو دارالسلام بنا نے کا بیان ہمارے سامنے ہے۔
ہندوؤں کو آٹھ سو برس غلام رکھنااور دوبارہ غلام بنانے کا عزم کسی صدمے اور غم کا معاملہ نہیں ، کیونکہ ہندوؤں کو تو غلام ہو نے میں مزاآتا ہے ۔ لیکن مسلمانوں کا اقتدار سے محروم ہونا ’’بہت زیادہ صدمے اور غم کامعاملہ‘‘ہے اور دارالسلام کا لفظ بھی قابل غور ہے ۔ یعنی مسلمان بادشا ہوں اور ہر طرح کے مسلما نوں کا حکمران ہونا اسلام ہے ۔ یعنی حکمِ الہٰی کی تکمیل ہے ، دینی درجہ کی سعا دت ہے اور یہ کہ شمشیروسناں کی مدد سے آ ٹھ سو برس تک اکثریت کو غلام ر کھنا عین اسلام ہے ۔ اور اس میں کسی معذ رت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔
جمہوریت اور دوسر وں کی برابر ی سے نفرت بھی نر گسیت کی ایک علامت ہے ۔تہذ یبی نر گسیت میں ایسا بالکل فطری ہے کہ مریض کو اپنے مند رجہ ذیل بیان میں کوئی غلطی نظر نہیں آتی۔
۔(۱)’’وہ ہم سے زیادہ قابل ہیں لیکن اگر انہوں نے ہم سے آگے بڑھنے کی کو شش کی تو ہم تلوار سے ماریں گے ۔
۔(ب) ہم علم و ہنر میں پیچھے ہیں اور تعداد میں کم ، وہ علم و ہنر میں بہتر اور تعدادمیں زیادہ ، لیکن جمہوریت اسی لیے غلط ہے کیو نکہ اس میں تعدادِ نفوس کا معاملہ ہے یعنی بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے۔
۔(ج) ہم تعدادِ نفوس میں کم ہیں لیکن میرٹ میں اعلیٰ ہیں لیکن وہ علم و ہنر میں ہم سے آگے ہیں لیکن تلوارچلانے میں ہم ان سے تگڑے ہیں ،لہٰذ ا تلو ار چلا نا میرٹ ہونا چا ہیے‘‘۔
نر گسیت میں چت بھی میرا اور پٹ بھی میرا ہو تا ہے ۔ یہی معاملہ تہذ یبی نر گسیت کا ہے ۔ جس تہذیب سے ہمارا تعلق ہے اسے تمام حقوق حاصل ہیں ۔ جو دوسروں کو ہر گز نہیں دئے جا سکتے.