مریم نسیم سے عائشہ خان تک ۔۔۔
آج سے چھ سال پہلے پشاور سے ایک لڑکی آسٹریلیا چلی گئی ،آسٹریلیا جانے کا واحد مقصد اعلی تعلیم حاصل کرنا تھا ،لیکن اس لڑکی کی آنکھوں میں بے تحاشا خوابوں کا بسیرا تھا ،وہ چاہتی تھی کہ اس کے تمام خواب مکمل ہوں ۔ویٹ لفٹر بننا اس لڑکی کا سب سے بڑا شوق تھا ۔تعلیم بھی حاصل کرتی رہی ،ویٹ لفٹنگ کی ٹریننگ کا سلسلہ بھی جاری رکھا ،کچھ روز قبل آسٹریلیا میں ویٹ لفٹنگ چیمپئین شپ کے مقابلے ہوئے ،دنیا بھر سے خواتین اس مقابلے کا حصہ تھی ۔اس میں ایک پاکستانی لڑکی بھی تھی جو چھ سال قبل آسٹریلیا گئی تھی ،اس کا نام مریم نسیم تھا ۔مریم نسیم نے ویٹ لفٹنگ چیمپئن شپ میں سلور میڈل حاصل کر لیا ۔پاکستان کی لڑکی ،ویٹ لفٹنگ میں سلور میڈل جیت گئی ،یہ بریکنگ نیوز نہیں تو اور کیا ہے ۔یہ ہے مریم نسیم کی کہانی ۔مریم نسیم نے ایک ٹی وی انٹرویو کے دوران کہا ہے کہ وہ مثبت زہن کے ساتھ آسٹریلیا گئی تھی ،اسے اپنے اوپر یقین تھا ،وہ مس پرفیکشنسٹ ہیں ،جو سوچتی ہیں وہ کر گزرتی ہیں اور یہی اس کی زندگی کا مقصد ہے۔ویٹ لفٹنگ میں ایک کیٹاگری ہوتی ہے جس کا نام ہے پاور لفٹنگ ،مریم نسیم نے پاور لفٹنگ میں سلور میڈل حاصل کیا ہے ۔مریم نسیم برصغیر کی واحد لڑکی تھی جس نے اس مقابلے میں حصہ لیا اور کامیابی سمیٹی ۔کہتی ہیں اب وہ بہت جلد ورلڈ ویٹ لفٹنگ میں پاکستان کی نمانئدگی کریں گی اور میڈل جیتیں گی ۔کہتی ہیں وہ دنیا کو یہ دیکھانا چاہتی تھی کہ پاکستانی اور مسلمان خاتون بھی وہ کام کرسکتی ہے جو دنیا کے دوسرے ممالک کی لڑکیاں کرتی ہیں اور اپنے اپنے ملک کا نام روشن کرتی ہیں ۔کہتی ہیں آسٹریلیا کی حکومت نے کہا تھا کہ وہ ان کی نمائندگی کریں ،لیکن انہوں نے اس وجہ سے انکار کیا کہ آسٹریلیا کی نمائندگی تو اور بھی بہت سی خواتین کررہی ہیں ،وہ تو صرف پاکستان کی نمائندگی کریں گی ۔مریم نسیم کی کہانی یہ بتاتی ہے کہ اگر والدین ،معاشرہ ،سماج اور ملک خواتین کو سپورٹ کرے تو پاکستان کی لڑکیاں زہانت اور ٹیلنٹ میں کسی سے کم نہیں ہیں ۔مریم ،ماریہ طور ،ملالہ جیسی لڑکیاں ہمارے معاشرے کی شاندار مثال ہیں ،یہ چمکتے دمکتے انسان ہیں ،یہی وہ چراغ ہیں جو روشن ہوتے ہیں تو تمام انسانیت میں ہمارے نام کے ڈنکے بجتے ہیں ۔ہم سب کو یاد ہوگا کہ پچھلے سال میڈیا پر ایک خبر چلی تھی ،خبر یہ تھی کہ پاکستان کے بارہ لڑکے اور لڑکیوں کی ایک ٹیم بوسٹن گئی تھی ،اس ٹیم نے the international genetically engineered machines world championship میں حصہ لیا تھا ،اس ٹیم میں پانچ لڑکیاں اور سات لڑکے تھے ۔ڈاکٹر فیصل اس ٹیم کے سپر وائزر تھے ،ایک سائنسی تحقیق کا مقابلہ تھا ،غالبا biological مواد کو مشین کے ساتھ merge کرنا تھا ۔بائیو سائنسز کے حوالے سے یہ ایک بڑا تحقیقی کام تھا ،جس کے سپر وائزر بھی سی کاس یونیورسٹی بائیو سائنسز کے ہیڈ تھے ۔ان مقابلوں میں دنیا کی 285 ٹیموں نے حصہ لیا تھا ۔پاکستان کی بارہ رکنی ٹیم نے اس سائنسی تحقیقی اور عملی مقابلے میں برونز میڈل حاصل کیا تھا ۔اس سال بھی پشاور سے ایک ٹیم جارہی ہے ،اس ٹیم میں ایک خاتون بھی شاملہیں ،جن کا نام عائشہ خان ہے ۔اس ٹیم کا کہنا ہے کہ اس مرتبہ وہ سائنسی مقابلے میں گولڈ میڈل لیکر آئے گی ۔عائشہ خان کو ویزہ جاری کیا جاچکا ہے ،لیکن اس کی رجسٹریشن ابھی تک نہیں ہو سکی ،رجسٹریشن کے لئے 750 ڈالرز کی ضرورت ہے ،عائشہ غریب فیملی سے تعلق رکھتی ہے ،اب تک 400 ڈالڑز جمع کر چکی ہے تقریبا 350 ڈالرز کی اسے ضرورت ہے ،جس کے لئے وہ تگ و دو میں ہے ۔ڈیڈ لائن ختم ہونےمیں پانچ سے چھ دن رہ گئے ہیں ۔بس میری اپیل ہے کہ کوئی انسان اس ابھرتی ہوئی سائنسدان کی ہیلپ کردے ،تاکہ وہ بوسٹن پہنچ جائے ،سب کام مکمل ہے صرف 350 ڈالرز کی ضرورت ہے ۔ہمارے بچے آسمانوں کو چھو سکتے ہیں ،صرف انہیں حوصلہ دینے کی ضرورت ہے ۔امید ہے عائشہ خان کی رجسٹریشن فیس کے پیسے مکمل ہو جائیں گے اور وہ گولڈ میڈل جیت کر وآپس لوٹے گی ۔خیبر پختونخواہ حکومت کی یہ زمہ داری ہے کہ وہ اس بچی کو سپورٹ کرے ۔باقی ان کی مرضی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔