(Last Updated On: )
مڑیا پہاڑ کی اونچائی آٹھ سو بیس میٹر ہے۔ بادلوں کے پیچھے چھپا،یہ موریشس کا دوسراسب سے اونچا پہاڑ ہے۔ اس کی چوٹی آدمی کے سر کی طرح ہے۔ یہ موکا ضلع میں پایا جاتا ہے۔ جو بھی اس یہاڑ کے پاس گذرتا ہے اس پہاڑ کی چوٹی اسے ضرور مسرور کرتا ہے۔ پہاڑ کے بارے میں ایک بہت ہی دلچسپ کہانی ہے۔ یہ شیانتکا کی کہانی ہے۔ شیانتکا نیچے وادی میں رہتا تھا۔ یہ نوجوان بہت غریب تھا اور دودھ بیچ کر اپنی روزی روٹی کماتا تھا۔ اس کے گاہک کم تھے اور ایک دوسرے سے کافی دور بھی رہتے تھے۔ ان گاہکوں تک پہنچنے کے لئے شیانتکا کو بہت لمباراستہ طے کرنا پڑتا تھا۔ وہ اکثر دیر رات کو گھر واپس آتا تھا۔
ایک دن شیانتکا کو ایک نیا گاہک ملا۔ وہ گاہک باقی گاہکوں سے اورزیادہ دور رہتا تھا۔ چونکہ شیانتکا کو مالی دشواریاں تھیں وہ انکار نہیں کرپایا۔ اس دن غروب آفتاب کے وقت وہ پہاڑ کے نیچے تھا۔ کچھ ہی دیر میں اتنا اندھیرا ہو گیا کہ اسے اپنے سامنے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ شیانتکا ایک پگڈنڈی پر چلنے لگا اور اندھیرے میںپہاڑ کے گرد جانے لگا ۔ آخر میںوہ واپس اسی جگہ پر پہنچ گیا جہاں وہ پہلے تھا۔ کچھ دیر یہاں وہاں چلنے کے بعد اسے احساس ہوا کہ وہ راستہ بھول گیا ہے۔ وہ بہت تھک گیا تھا۔ چنانچہ اس نے سوچا کہ وہ سونے کے لئے ایک محفوظ جگہ تلاش کر لے۔ وہ ایک بڑے پتھر کے پاس آیا اور بہت جلد اسے نیند آگئی۔
شیانتکا گہری نیند میں سوگیا۔ جب اس کی آنکھ کھلی تو ابھی بھی گھپ اندھیرا تھا۔ اچانک اسے ایک موسیقی سنائی دی۔ اس نے غور سے سنا تو ایک میٹھی دھن اس کے کانوںتک پہنچی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ موسیقی آسمان سے ہوتی ہوئی جھاڑیوں، درختوں اور آس پاس کے پتھروں سے آرہی تھی۔ شیانتکا کو لگا کہ وہ خواب دیکھ رہا تھا۔ ہوا میں گلاب کی خوشبو تھی۔ شیانتکا میں تجسس و اشتیاق کی لہر دوڑ اٹھی۔ اس کے بعد، اندھیرے میں شیانتکا کے سامنے کچھ دوری پر، ایک چمکتی ہوئی روشنی دکھائی دی۔ شیانتکا نے جب غور سے دیکھا تو ایک چھوٹا تالاب دکھائی دیا۔ تالاب کے ارد گرد پانی اور زیادہ چمکیلا نظر آنے لگا۔ شیانتکا کو خوف نے جکڑ لیا اور وہ ایک بڑے پتھر کے پیچھے چھپ گیا۔
اسی وقت بارہ خونصورت اورکمسن لڑکیاں نمودار ہوئیں اور وہ لڑکیاں تالاب کے گرد طواف کرنے لگیں۔ ان لڑکیوں نے سفید رنگ کی لمبی ڈریس پہنی تھیں۔ ان سب کے گلے میں پھولوں کے ہار تھے۔ اسی وقت ایک اور لڑکی سامنے آئی۔ وہ ان بارہ لڑکیوں سے زیادہ خوبصورت تھی۔ اس کے سر پر ایک تاج تھا جو چمک رہا تھا۔ وہ ان پریوں کی ملکہ تھی۔ وہ لڑکیاں درحقیقت پریاں تھیں۔ وہ بارہ پریاں تالاب کے آس پاس ناچنے لگیں۔ رانی اس پتھر کے پاس آئی جہاں شیانتکا چھپا ہواتھا۔ ملکہ نے کہا: ’’شیانتکا تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
معصوم دودھ والے نے کانپتی ہوئی آواز میں جواب دیا: ’’ اچانک رات ہوگئی اور میں راستہ بھول گیا ہوں۔‘‘
’’ تو تم خوش قسمت ہو کہ تم ایک ایسا جشن دیکھنے جارہے ہو جو آج تک کسی بھی آدمی نے نہیں دیکھا ہے۔ لیکن اس احسان کے بدلے میں تم کو ایک وعدہ کرنا پڑے گا۔‘‘
’’کسی کو معلوم نہیں ہونا چاہئے کہ ہم رات کو یہاں آکر کیا کرتے ہیں۔ تم مجھ سے وعدہ کرو گے کہ کسی کو کبھی بھی یہ راز نہیں بتائو گے۔ اگر تم نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا توتم پتھرکے بن جائو گے۔‘‘
شیانتکا نے وعدہ کیا۔ وہ پرییوں کا دوست بن گیا۔ وہ اکثر رات کو کام سے واپس آتے ہوئے ان پریوں کا رقص دیکھ کر بار بار محظوظ ہوتا۔
چند مہینے گذر گئے۔ نوجوان دودھ والے کا کاروبار ترقی کرنے لگا۔ وہ مالدار بن گیا۔ اس نے کڑیو کیڑ گائوں کی ایک لڑکی سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ اس لڑکی کا ہاتھ مانگنے کے لئے اپنے دوستوں کے ساتھ نکل پڑا۔ وہ سب اس لڑکی کے گائوں کی طرف روانہ ہوئے۔ شیانتکا آگے چل رہا تھا لیکن شیانتکا جو راستہ لے رہا تھا وہ کڑیوکیڑ گائوں تک نہیں جاتا تھا۔ اس کے دوست پیچھے آرہے تھے۔ انہیں شک تھا کہ شیانتکا ضرور پہاڑ کے بارے میں کوئی خوفیہ جگہ جانتا تھا۔ اس کے دوست بھی وہ راز جاننا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ خاموشی سے شیانتکا کے پیچھے چلتے گئے۔ نادانشتہ شیانتکا پریوں تک جانے والا راستہ لے رہا تھا۔ راستہ میں وہ آرام کے کرنے کے لئے ایک جگہ پر رک گئے۔
’’بھائی شیانتکاہمیں ذرا بتائو، تم ہر رات پہاڑوں پر کیا کرنے آتے ہو؟‘‘
اس وقت شیانتکا اپنا وعدہ بھول گیا۔ اس نے چھوٹے تالات کی طرف اشارہ کیا : ’’اس تالاب کو دیکھو۔ یہاں ہر رات پ۔پ۔پ ۔۔۔‘‘
شیانتکا اپنا جملہ مکمل نہیں کرپایا۔ اس دوران زمین کانپنے لگی۔ پھرایک بھیانک آواز سنائی دی اور شیانتکا غائب ہوگیا۔ بس وہ آدمی کے سرکے جیسا بڑا پتھر باقی رہ گیا ہے جو آج تک موکا کے سلسلہء کوہ پر دکھائی دیتا ہے۔