انسان کی جان جب کسی خطرے میں گھر جائے، تو وہ عموماً اپنی زندگی بچانے کی فکر کرتا ہے۔تب صرف انتہائی دلیر ہی موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اپنی جان پہ دوسروں کی زندگیاں مقدم رکھتے اور انھیں بچا لیتے ہیں۔ ایسے ہی جی دار اور مثالی لوگوں میں سے ایک مریم مختار شہید بھی ہیں جن کا شمار ہمارے قومی ہیروز میں ہوتا ہے۔
مریم 18 مئی 1992ء کو کراچی میں پیدا ہوئیں۔ آپ کے والد کرنل (ر) مختیار احمد شیخ پاک فوج میں شامل تھے۔ گھریلو عسکری ماحول کی وجہ سے بچپن ہی سے مریم کے من میں یہ تمنا بس گئی کہ وہ فوج میں جاکر دفاع وطن کا عظیم الشان فریضہ انجام دیں ۔ طویل جدوجہد کے بعد ان کی محنت رنگ لائی اور 2014ء میں وہ پاک فضائیہ سے بطور فائٹر پائلٹ منسلک ہوگئیں۔ مریم مختار اور دیگر خواتین فائٹر پائلٹوں نے ثابت کردیا کہ وطن کے دفاع میں وہ مردوں کے شانہ بشانہ کمربستہ ہیں۔
اب مریم تجربے کار فائٹر پائلٹوں کے ساتھ جنگی طیارے اڑانے کی مشقیں کرنے لگیں۔ وہ ایک ہمدرد، محنتی اور پر خلوص انسان تھیں۔ کسی کو تکلیف میں دیکھتیں، تو اس کی مدد کرنے کو بے چین ہوجاتیں۔ وہ عمدہ پائلٹ ہونے کے علاوہ فٹ بال کی اچھی کھلاڑی بھی تھیں۔
24 نومبر 2015ء کی صبح مریم اپنے انسٹرکٹر، ثاقب عباسی کے ساتھ معمول کی مشق پر روانہ ہوئیں۔ جب وہ ضلع گجرات کی فضاؤں میں پرواز کررہے تھے، تو اچانک انجن میں آگ لگ گئی اور وہ دھڑا دھڑ جلنے لگا۔ اس سنگین صورت حال میں ضروری ہوتا ہے کہ پائلٹ جہاز سے فوراً باہر چھلانگ لگادے۔ تبھی اس کی جان بچ سکتی ہے۔ مگر مریم شہید اور ثاقب عباسی کے ضمیر نے فوراً چھلانگ لگانا گوارا نہ کیا۔
دراصل اس وقت ان کا طیارہ آبادی کے اوپر اڑ رہا تھا۔ اس کے پرے کھیت واقع تھے۔ دونوں بہادر پائلٹوں نے فیصلہ کیا کہ چھلانگ لگانے کا فیصلہ چند لمحوں کے لیے ملتوی کردیا جائے تاکہ طیارہ آبادی کے بجائے کھیتوں کے اوپر پہنچ جائے ۔ وہ اپنے ہم وطنوں کو ہر قسم کے جانی و مالی نقصان سے بچانا چاہتے تھے۔ مگر یہی چند قیمتی لمحے مریم کی شہادت کا سبب بن گئے۔
پاک وطن کی اس دلیر بیٹی نے جان کی قربانی دے کر دفاع پاکستان پر مامور ہر مرد و عورت کا سر فخر سے بلند کردیا۔ پاک افواج میں شامل ہر جوان کی ذمے داری ہے کہ اگر ملک و قوم کا تحفظ کرتے ہوئے جان دینی پڑے ،تو وہ یہ عظیم ترین قربانی دینے سے ہرگز پرہیز نہ کرے۔ مریم شہید نے اپنی ڈیوٹی نہایت خوبی سے ادا کی اور اہل وطن کی زندگیاں بچاتے ہوئے اپنی جان قربان کردی۔ مریم شہید کو لاکھوںسلیوٹ!
جب محو پرواز طیارے میں معمولی سی آگ بھی لگے، تو وہ انتہائی تیز ہوا کے سبب چند سیکنڈ میں پھیل کر پورے جہاز کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ اسی لیے دیر سے چھلانگ کے سبب دونوں پائلٹ دھوئیں اور آگ کی لپیٹ میں آگئے۔ خطرناک صورتحال نے ثاقب عباسی کو زخمی کردیا، تاہم وہ مریم مختار کی جان لے کر ہی ٹلی۔ زبردست شجاعت اور احساس ذمے داری دکھانے پر شہید مریم کو بعداز مرگ تمغہ شجاعت سے نوازا گیا۔ مریم کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ آپ دوران ڈیوٹی شہید ہونے والی پاک فضائیہ کی پہلی فائٹر پائلٹ ہیں۔
مہرین جبار وطن عزیز کی نامور ڈرامہ ڈائریکٹر اور پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ قبل انہیں خیال آیا کہ مریم مختار شہید کی زندگی پر ٹیلی فلم بناکر ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا جائے۔ چناں چہ انہوں نے ممتاز ادیبہ، عمیرہ احمد سے سکرپٹ لکھوایا پھر سرمد کھوسٹ نے ٹیلی فلم کی ہدایات دیں۔’’ایک تھی مریم‘‘ نامی اس ٹیلی فلم میں منفرد اداکار، صنم بلوچ نے مریم کا کردار نہایت خوبصورتی و چابک دستی سے ادا کیا ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ تین سال قبل اچھے ڈراموں کی عدم موجودگی میں صنم نے اداکاری کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ وہ پھر مقامی ٹی وی چینل میں ایک شو کی میزبانی کرنے لگیں۔ جب ٹیلی فلم کا سکرپٹ دکھایا گیا، تو انہوں نے فوراً مریم کا کردار ادا کرنے کی ہامی بھرلی۔ صنم کہتی ہیں: ’’مریم مختار شہید ہماری قومی ہیرو ہیں۔ میں اداکاری ترک کرچکی تھی مگر جب مجھے مریم شہید کا کردار ادا کرنے کا کہا گیا تو میں انکار نہیں کرسکی۔ میں نے فیصلہ کیا کہ اپنی بہترین صلاحیتیں استعمال کرکے مریم شہید کا پرتو بننے کوشش کی ۔‘