یہ اس آدھی سے بھی بھت کم دنیا کے رد عمل کی ترجمانی تھی جو ساینس کی ترقی کے ھر سنگ میل کو بنی نوع انسان کے اس مستقبل بعید کے تناظر میں دیکھ سکتی ھے جس کو ابھی باقی۔ ( آدھی سے بھت زیادہ ) دنیا قیامت کے بعد کا خواب سمجھتی ھے۔۔ ھماری گزری ھوٰ دو صدیوں کے ادب اور بزرگوں کے اقوال میں قرب قیامت کی نشانیوں کےنظرآنے کا ذکربھت مقبول رھا، اور آج بھی ھے۔ اکثریت آج بھی انسان کے چاند پر قدم رکھے کی حقیقت کو الف لیلےٰ کی کھانی سے زیادہ سچ نھیں مانتی
میں بی اے کا طالب علم اور پشاور میں تھا جب روس نے 1957 میں پھلا مصنوعی سیارہ خلا میں چھوڑا تو گویا تھلکہ مچ گیا SPUTNIK1 اس وقت مجھ سمیت اکثریت کروڑوں ڈالر کے اس ساینسی کھیل کو احمقانہ فضول خرچی سمجھتی تھی کہ آخر اس کا فایدہ؟ بھایؑ دنیا میں کتنی بھوک اور بیماری ھے۔افلاس اورجھالت ھے۔۔یہ پیسہ وھاں خرچ ھوتا تو بنی نوع انسان کا کچھ بھلا ھوتا۔۔مگر یہ سرمایہ دار ملکوں کیا برتری کا سیاسی کھیل۔۔ قرب قیامت ھے صاحب۔۔
آج جو ھر میرے جیسا ایرا غیرا بڑی شان سے اینڈرویڈ فون کی صورت میں ھتھیلی پر دنیا دیکھتا دکھاتا پھرتا ھے۔۔ پلک جھپکتے میں پیرس سے پنڈ دادن خاں کی منکوحہ یا پڈعیدن کی محبوبہ کو مخاطب کرک دکھاتا ھے کہ وہ ایفل ٹاور پر کھڑا ھے۔۔ کیا وہ جانتا ھے کہ یہ 1957 میں چھوڑے گۓؑ اس مصنوعی سیارے کا ھی کرشمہ ھے؟
وہ جو چھٹانک بھر کے ریموٹ کا بٹن دباکے دنیا بھر کے ٹی وی چینل دیکھ لیتا ھے۔ کیا اسے معلوم ھے کہ یہ متحرک رنگین تصویر خلا میں گردش کرتے کسی مصنوعی سیارے نے ارسال کی ھے؟ ورنہ ھم وھیں ھوتے جھاں تھے،،کراچی والے صرف کراچی کی نشریات دیکھتے۔حیدرآباد والے اونچے اونچے بانسوں پر اینٹینا لگا کے اور اس کی صحیح سمت بنا کے کچھ سمجھ میں اںے والی حد تک صاف تصویر پر قناعت کرتے۔۔ اھالیان لاھور کو میؑ جون میں چھت پر لمبے لمبے بانسوں پر المونیم کی پرات۔تھالی یھان تک کہ لوٹا پتیلی ٹانگ کر امرتسر جالندھر کی سمت گھمانے پڑتے یھاں تک کہ نیچے سے ناظرین کا شور سناٰ دیتا۔۔بس ۔ بس ۔آ گیؑ تصویر۔۔۔ کیا آپ جانتے ھیں کہ ایسا کیوں تھا؟ در اصل ٹیلی وژن کی لھریں روشنی کی طرح خط مستقیم میں سفر کرتی ھیں اور جھاں زمیں کی گولایؑ درمیان میں دیوار کی طرح حایل ھو وھان رک جاتی ھیں،،۔۔آب جو تصویر آپ دیکھتے ھیں وہ زمیں سے آسمان کی طرف جاتی ھے ۔۔درمیان میں کچھ حایل نھیں۔۔،وھاں خلا میں ایک مصنوعی سیارہ گردش پزیر ھے جو بھت کمزور سگنل کو طاقتور بنا کے زمین کی طرف واپس کرتا ھے۔۔ درمیاں میں صرف خلا ھے چند سیکنڈ بعد وہ تصویر تمام رنگ اور حرکت کے ساتھ آپ کے ٹی وی پر آتی ھے
لیکن 1957 میں یہ کوں جان سکتا تھا۔۔ سواۓ ساینسدانوں کے۔۔ کہ کروڑوں ڈالر سے آج خلا میں پھنچنے والے مصنوعی سیارے سے دنیا کس انقلاب کے دور میں پھنچ گیؑ ھے۔۔
آج پھر سوال کیا جارھا ھے کہ دنیا میں اتنا بھوک اور افلاس ھے تو اربوں ڈالرکی یہ عیاشی اور فضول خرچی صرف یہ معلوم کرنے کیلۓ کیوں کہ مریخ پر پانی ھے۔ اس کا جواب میں ابو جھل کیا دوں گا۔ھاں 50 سال پھلے کی مثال کے پیش نظریہ ضرور کھوں گا کہ قیامت اس سے پھلے نہ آگیؑ تو آنے والے وقت میں ھماری ھی کسی نسل کو یقینا" اتنا فایدہ ھوگا جس کا آج تصور بھی ممکن نھیں۔کویؑ بات نھیں اگر ھم نہ ھوۓ۔۔ ؎ھم نہ ھونگے کویؑ ھم سا ھوگا۔۔ آپ نے شیخ سعدی کی وہ حکایت پڑھی ھے۔۔کہ بادشاہ نوشیروان عادل نے ایک انتھایؑ عمر رسیدہ شخص کو دیکھا کہ پھل دینے والے درخت کا ننھا سا پودا لگا رھا ھے۔۔اس نے کھا"بزرگوار۔۔کیوں یہ محنت کر رھے ھو یہ جانتے ھوۓ بھی کہ جب یہ پھل دے گا تب تک تمھاری ھڈیاں ھی قبر میں ھوں تو ھوں"۔۔بوڑھے نے مسکرا کے کھا " بادشاہ سلامت۔۔ھم نے اور آپ نے بھی تو ان درختوں کا پھل ھی کھایا ھے جو ھمارے بزرگوں نے لگاۓ تھے"
تو۔۔ کیا خبر کل زمیں تنگ ھو جاۓ۔۔اس کے خزانے خالی ھو جاییں تو ھمارے پوتوں کے یا انکے بھی پڑ پوتے مریخ پر جا کے ایک نیؑ دنیا آباد کریں۔۔ خلای صفر یوں ھو جیسے میٹرو میں ایک اسٹاپ سے دوسرے اسٹاپ تک کا سفر۔۔ اور جیسا کہ ساحر لدھیانوی نے کھا تھا
۔۔محبت بھی یوں ھو کہ
کبھی تم خلا سے گزرو کسی سیم تن کی خاطر
کبھی دل میں تم کو رکھ کے کوی گل عزار آۓؑ
https://www.facebook.com/ahmed.iqbal.7737/posts/895841323831220