بچانے والا مارنے والے سے زیادہ طاقتور ہے
وہ جو خوشی سے رقص میں تھےپا بدست دگری‘ دست بدست دگری اور اس امید میں تھے کہ اسلامی دنیا کی سب سے بڑی فوج کو اس مقابلے کے درمیان اخلاقی مدد نہیں مل سکے گی‘ جھاگ کی طرح بیٹھ گئے
اس ملک کا قیام معجزہ تھا۔ اس کی اب تک کی سلامتی اس سے بھی بڑا معجزہ ہے اور جو معجزے اب رونما ہو رہے ہیں‘ انہیں دیکھ کر یہ یقین پختہ تر ہو جاتا ہے کہ مملکتِ خداداد کی حفاظت انسان نہیں‘ کوئی اور کر رہا ہے۔ اس فقیر کا شعر ہے…؎
چہار جانب سے دشمنوں میں گھرا ہوا ہوں
کوئی محافظ تو ہے جو اب تک بچا ہوا ہوں
اس سے پہلے کہ فرقہ واریت کا زہر ہمارے چہروں کے رنگ زرد کر دیتا ہے۔ صدائے غیب بلند ہوئی ہے اور بھانت بھانت کی بولیاں‘ سرگوشیاں‘ کنکھیاں‘ سب شکست کھا گئی ہیں۔یہ ملک سب کا ہے۔ کوئی پنجابی ہے یا پٹھان‘ کشمیری ہے یا بلوچی‘ سندھی بولتا ہے یا اردو‘ بلتی سمجھتا ہے یا شینا‘ براہوی ہے یا ہزارہ‘ وہ جو کوئی بھی ہے‘ اس ملک کا باشندہ ہے تو اس کے وسائل پر برابر کا حق ہے۔ اسی طرح بانی پاکستان کے فرمان کے مطابق مندروں میں جانے والے اور مسجدوں کا رخ کرنے والے سب پاکستانی ہیں۔ کوئی دیوبندی ہے یا بریلوی‘ شیعہ ہے یا اہلحدیث آزاد خیال ہے یا قدامت پسند‘ پاجامہ پوش ہے یا تہمد باندھتا ہے‘ شلوار قمیض پہنتا ہے یا تھری پیس سوٹ‘ ٹخنے ڈھانکتا ہے یا آدھی پنڈلیاں ننگی رکھتا ہے‘ عمامہ باندھتا ہے یا برہنہ سر رہنا پسند کرتا ہے‘ برقع پہنتی ہے یا ننگے سر رہتی ہے‘ خاتون خانہ ہے یا مزدوری کرتی ہے‘ ہسپتال میں کام کرتی ہے یا تعلیمی ادارہ چلاتی ہے‘ یہ ملک سب کا ہے اور برابر کا ہے۔ یہاں کوئی حاکم ہے نہ محکوم‘ کوئی مقہور ہے نہ قاہر‘ کوئی پست ہے نہ بالا‘ یہ ملک سب پر اپنا سایہ کئے ہوئے ہے۔ اس کی ہوائیں اس کا پانی‘ اس کی خاک سے پیدا ہونے والا غلہ اس کی بیلوں پر لگے انگور اور اس کے درختوں پر بہار دکھاتے شہتوت اور سیب‘ سب کا ان پر حق ہے
۔لیکن کچھ عرصہ ہوا کچھ راہ گم کردہ لوگ تلوار بدست اور بندوق بدوش نکلے اور اپنے ہی بھائیوں کو قتل کرنے لگ گئے۔ انہوں نے پاکستانیوں کے گلے اس طرح کاٹے جیسے سربیا کے غیر مسلموں نے بوسنیا اور کسووو کے مسلمانوں کے کاٹے تھے۔ بکروں کی طرح لٹا کر گلے پر چھری پھیر کر۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا‘ لڑکیوں کے سکول جلا دئیے اور اعلان کیا کہ لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں۔ انہوں نے محنت مزدوری کے لئے گھر سے نکلنے والی عورتوں کو جان سے مار دیا۔ پھر انہوں نے حجاموں کی دکانوں کو بم دھماکوں سے اڑانا شروع کیا اور بے شمار معصوم جانیں آگ اور خون کی اس ہولی میں ضائع ہوئیں۔ پھر وہ آخری حد سے بھی آگے گئے۔ میتیں قبروں سے نکالیں‘ ان کی بے حرمتی کی اور انہیں درختوں پر لٹکایا
۔کچھ نادان انہیں اسلام کا علمبردار سمجھے اور کچھ طالع آزما‘ جو مفادات کے اسیر تھے‘ ان کے حق میں رطب اللسان ہونے لگے لیکن بڑی بدقسمتی یہ ہوئی کہ ان لوگوں کو ایک خاص مکتب فکر کا نمائندہ قرار دیا گیا۔چاہئے تو یہ تھا کہ اس مکتب فکر کے چیدہ علما اپنا موقف کھل کر بیان کرتے اور ان سے بیزاری کا اظہار کرتے لیکن انہوں نے اظہار حق کے بجائے کتمانِ حق سے کام لیا۔ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے۔ ان سے سوال پوچھا جاتا تو بغلیں جھانکنے لگتے‘ ابھی چند دن پہلے ایک نجی ٹی وی چینل پر ایک مذہبی سربراہ سے پوچھا گیا کہ گلے کاٹنے اور سکول جلانے کے بارے میں ان کا کیا موقف ہے‘ ان کا جواب تھا کہ ڈرون حملوں کا کیا جواز ہے؟ حالانکہ کوئی پاکستانی ایسا نہیں جو امریکہ کی مذمت نہیں کرتا ۔ امریکہ نے عراق اور افغانستان پر ننگی جارحیت کا ارتکاب کیا ہے۔ اس کا ہر ڈرون حملہ ہماری سالمیت اور خودمختاری پر حملے کے مترادف ہے۔ مرگ بر امریکہ اور ہزار بار صد ہزار بار مرگ بر امریکہ لیکن اگر کوئی یہ کہتا ہے اور سمجھتا ہے کہ ڈرون حملوں کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کے گلے کاٹو‘ بچیوں کے سکول جلائو‘ عورتوں کو کوڑے مارو‘ خودکش دھماکے کرکے مسلمانوں کا خون بہائو۔ تو یا تو وہ خود بے وقوف ہے یا دوسروں کو بے وقوف سمجھتا ہے۔ یا تو وہ خوف کا شکار ہے اور سچ بولتے ہوئے ڈرتا ہے
۔بات یہ ہو رہی تھی کہ اس خاص مکتب فکر کے اصحاب قضا و قدر کو چاہئے تھا کہ اپنا موقف پیش کرتے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوا۔ وحدت خطرے میں پڑنے لگی۔ دوسرا مکتب فکر بھی متحد ہو کر اپنے اجتماعات منعقد کرنے لگا۔ مولانا سرفراز نعیمی کی شہادت کے بعد یہ مسئلہ سنگین تر ہونے لگا لیکن پاکستان اور اہل پاکستان پر اللہ کی رحمت دیکھئے کہ یہ گلے کاٹنے والے‘ سکول جلانے والے اور دھماکے کرنے والے لوگ جس مکتب فکر کی نمائندگی کا دعویٰ کر رہے تھے‘ اس مکتب فکر کے ہیڈ کوارٹر نے ان سے لاتعلقی کا اظہار کر دیا۔ انیس جون کو دارالعلوم دیوبند کے مہتمم حضرت مولانا اسلم قاسمی نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے وقت لگی لپٹی رکھے بغیر اس گروہ سے بیزاری کا اظہار کیا ہے۔ دارالعلوم دیوبند کے مدارالمہام نے واشگاف الفاظ میں اعلان کیا ہے کہ ’’طالبان کو دیوبند جماعت سے منسوب کرنا درست نہیں‘‘ انہوں نے فرمایا حجام کی دکانوں تعلیمی اداروں اور مزاروں کو بم دھماکوں سے اڑانا غیر شرعی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ مسلمان خواتین جدید تعلیم سمیت ہر طرح کی تعلیم حاصل کر سکتی ہیں۔ اس کی مخالفت کرنا جہالت کی بات ہے۔ اسی طرح سپریم کورٹ اور جمہوریت کو کفر کہنا جہالت ہے۔ مولانا اسلم قاسمی نے کہا کہ طالبان میں علم کم اور جہالت زیادہ ہے اور افغانستان میں طالبان کی حکومت اسلامی نہیں تھی!غیر جانبدار اور سنجیدہ اہل علم کا شروع سے یہ موقف رہا ہے کہ طالبان نے بہت سی چیزیں مقامی تمدن سے لیں اور ان پر اسلام کا لیبل لگا دیا۔
مولانا اسلم قاسمی نے جو دارالعلوم دیوبند کے عظیم بانی حضرت مولانا قاسم نانوتوی کے پڑپوتے ہیں۔ یہ انکشاف بھی کیا کہ مولانا قاسم نانوتوی انگریزی زبان سیکھنے کی خواہش رکھتے تھے لیکن انہیں موقع نہ ملا۔ اس کالم نگار نے چند ہفتے پیشتر یہ لکھا ہے کہ مولانا سید سلیمان ندوی نے مدراس میں اپنے مشہور خطبات دیتے وقت علماء پر انگریزی سیکھنا فرض قرار دیا تھا! کیا یہ آج علماء کرام کے لئے لمحہ فکریہ نہیں ہے؟
دارالعلوم دیوبند سے جو اس مکتب فکر کا صدر مقام ہے اس وضاحت کا جاری ہونا اہل پاکستان کے لئے اللہ کی رحمت سے کم نہیں! طالبان کی وجہ سے دو بڑے مکاتب فکر کے درمیان جو خلیج وسیع سے وسیع تر ہو رہی تھی‘ یہ وضاحت اسے پاٹ دے گی۔ پاکستانی قوم کی وحدت کو پارہ پارہ کرنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو گی! اس لئے کہ بچانے والا مارنے والے سے زیادہ طاقتور ہے
http://columns.izharulhaq.net/2009_07_01_archive.html
“