مریض جو نہیں بھولتے
میں نے بطور معالج ہمالیہ کی ترائیوں میں گلتری اور منی مرگ نام کے مقامات پر، ایران میں مازندران کے پہاڑی قصبات میں، لاہور میں اداکار پران کے محلے کینال پارک میں، پٹھانے خان کے مسکن کوٹ ادو اور مزدوروں کے شہر مریدکے میں جو البتہ مشہور لشکر طیبہ کے حوالے سے ہوا، کام کیا ہے۔
آپ کو تمام مریض یاد رہ جائیں ایسا نہیں ہوتا البتہ کچھ مریض کہیں آنکھوں کی تہہ میں منجمد ہو کر رہ جاتے ہیں اور کبھی کبھار اپنے چہروں کے پورے تاثرات کے ساتھ آپ کی آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔ ان میں سے کچھ مریض زمانہ طالب علمی کے یاد ہیں۔ پہلامریض ایک مرد تھا، جسے میرے گھر والوں نے رقعہ دے کر بھیجا تھا کہ اسے ہسپتال میں داخل کروا دو۔ جتنا زرد اور نقاہت زدہ وہ شخص تھا، مجھے نہیں لگتا تھا کہ وہ جی سکے گا۔ خیر دوڑ دھوپ کرکے اسے ایک میڈیکل وارڈ میں داخل کروا دیا تھا۔ اگلے روز اس کا حال معلوم کرنے گیا تو جمعیت کے سابق ناظم ذبیح اللہ نے جو تب ہاؤس جاب کر رہا تھا، بتایا تھا کہ اس شخص کے سینے سے آدھی بالٹی پیپ نکالی گئی تھی۔ چند روز میں اس کے چہرے پر صحت کی سرخی دوڑنے لگی تھی۔
اس کے برعکس دوسری مریضہ چہرے سے بالکل صحت مند تھی۔ عمر پینتالیس اور اڑتالیس سال کے درمیان۔ میں آپریشن تھیٹر میں سٹوڈنٹ بیچ کے ساتھ موجود تھا۔ چونکہ میں اس کے سر کی طرف پہلو میں کھڑا تھا، اس لیے اس عورت نے جس کے رحم سے رسولی نکالی جانی تھی، بیہوش ہونے سے پہلے مجھ سے کہا تھا،" میں ڈرتی ہوں، کہیں مر نہ جاؤں"۔ میں نے تسلی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے آپریشن سے کون مرتا ہے۔ پھر اسے بیہوش کرکے جب پیٹ چیرا اور رسولی سامنے آئی تو دیکھا کہ رسولی کا حجم اور وزن اندازے سے زیادہ تھا۔ بہت کمزور اور نحیف خاتون پروفیسر اس رسولی میں سپرنگ والا اوزار گاڑ کے اسے اٹھانے کی کوشش کرتی تھیں تو رسولی ان سے اٹھ نہ پاتی تھی۔ کسی اور کو جرات نہیں تھی کہ پروفیسر کے کام میں مخل ہوتا۔ اسی تگ و دو میں اس خاتون کی کوئی ورید کٹ گئی تھی۔ خون فوارے کی طرح نکلنے لگا تھا۔ پروفیسر بصد کوشش خون نہ روک پائی تھیں اور بلڈ پریشر بہت گر جانے کے سبب بیچاری خاتون کی میز پر ہی موت واقع ہو گئی تھی۔ اپنے مرنے کے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے اس کا چہرہ اور تاثرات مجھے یاد ہیں۔
تیسری مریضہ پچیس چھبیس سال کی لڑکی تھی جو ہلکے بھورے رنگ کا برقعہ، جس کا رنگ کہیں کہیں سے اڑ رہا تھا، نقاب اٹھا کر اوڑھے، سرجری کے آؤٹ ڈور میں داخل ہوئی تھی۔ اس کے ہمراہ اس کا باپ تھا جس کی سفید ہوتی خشخشی داڑھی تھی۔ پرانی جناح کیپ اوڑھے ہوئے تھا اور سفید شلوار قمیص میلے ہونے کی چغلی کھا رہے تھے۔ لڑکی جب معائنہ کے سٹول پر بیٹھی تو پروفیسر نے پوچھا تھا، "بی بی کیا شکایت ہے"۔ پہلے لڑکی نے ادھر ادھر دیکھا۔ اس کا باپ لڑکوں کے پیچھ کھڑا تھا۔ لڑکی نے گردن موڑ لی تھی اور قمیص ایک جانب سے گلے تک اٹھا دی تھی۔ اس کی ایک جانب کی چھاتی لیرو لیر تھی۔ یقین جانیے خون اور پیپ سے بھری کئی دھجیاں لٹک رہی تھیں۔ گردن موڑنے سے پہلے اس لڑکی کے چہرے پر بے بسی، رنجش، اذیت، نارسائی کے جتنے رنگ تھے سب گڈ مڈ تھے۔ اس کے باپ کے سپاٹ چہرے پر کرب بھی بھلائے نہیں بھولا جاتا۔
اسی طرح سرجری کے ہی آوٹ ڈور میں سترہ اٹھارہ برس کا ایف اے کا زرد رو طالبعلم جب معائنے کے کاؤچ پر لیٹا تو اس کا جگر بڑھ کر پیٹ کو چیر کر تھوڑا سا باہر جھانک رہا تھا۔ اس بچے کے چہرے پر مایوسی کے ساتھ امید کا جو تاثر تھا، اس نے اس کے زرد ہوتے چہرے میں سیاہ کھمبیوں اور ببول کے پھولوں کے اگ آنے کے تاثر کو مجسم کر دیا تھا۔ اسے جگر کا سرطان تھا جو بے توجہی کے سبب آخری مراحل میں تھا۔
منی مرگ جہاں میں پاکستانی فوج کے کپتان کے طور پر متعین تھا سے درہ برزل کی جانب جاتے ہوئے ایک جیپ الٹ کر کھائی میں جا گری تھی۔ ایک گلگتی حوالدار کے اوپر والے آٹھ دس دانت، جس میں وہ پیوست تھے اس ہڈی کے ساتھ ٹوٹ کر تالو میں گڑ گئے تھے۔ وہ بیہوش تھا۔ اسے منی مرگ لایا گیا تھا۔ میں نے ہاؤس جاب تک نہیں کیا ہوا تھا۔ میڈیکل انسپکشن روم میں جراحی کے اوزار نہیں تھے۔ ٹیم بھی نہیں تھی۔ بس میں اور دو نرسنگ اردلی۔ اگر اوزار ہوتے بھی تو بھی میں دانتوں کو تالو سے نکالنے کی حماقت نہ کرتا کیونکہ اس طرح امکانی طور پر ہونے والی خونریزی کو روکنا مشکل ہو جاتا۔ اس مریض کی مجھے مسلسل 36 گھنٹے نگرانی کرنی پڑی تھی۔ پھر ہیلی کاپٹر پہنچ گیا تھا جس پر اسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا تھا۔ اس دوران بمشکل ہی توڑ تاڑ کے ایک ایک گھنٹے کی دو بار نیند لی ہوگی۔ مریض کبھی کبھار نیم ہوشمند ہو جاتا تھا، کراہنے کے علاوہ بول اور چیخ بھی نہیں سکتا تھا۔ اس کے چہرے پر ناامیدی اور خوف کے ملے جلے تاثرات آج بھی آنکھوں کے سامنے ہیں۔
شدید برفباری میں مجھے رٹو کینٹ جانا پڑا تھا۔ رٹو اپنے خوشبودار زیرے اور زعفران کے لیے مشہور ہے۔ اس مقام کو چھاؤنی اس لیے کہا جاتا تھا کیونکہ مہاراجہ کے زمانے سے چھاؤنی کہلاتا تھا۔ وہاں مجھے ایک مریض دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا جس پر بقول اس کے پری آتی تھی۔ یہ اٹھارہ انیس سال کا نیلی آنکھوں والا خوش شکل بلتی نوجوان تھا۔ بازپرس سے معلوم ہوا کہ وہ جس لڑکی سے پیار کرتا تھا، پری موصوفہ کی شکل کچھ کچھ اس سے ملتی ہے۔ میں نے اسے گوری کوٹ پہنچ کر مجھ سے ملنے کا کہا تھا تاکہ اسے نفسیاتی علاج کے لیے گلگت یا راولپنڈی بھجوایا جا سکے۔ کچھ دنوں کے بعد اس نے میرے دفتر میں داخل ہو کر زمین پر پیر مارتے ہوئے مجھے سیلیوٹ کیا تھا۔ دفتر کیا تھا، پتھر کے بنے دو ہٹ تھے، جن میں انگیٹھیوں میں لکڑیاں دھڑ دھڑ جلتی تھیں۔ بڑی کوٹھڑی کرنل کا دفتر تھی اور چھوٹی میرا دفتر۔
میں نے ساتھ آنے والے پنجابی حوالدار کو کہا تھا کہ اسے عارضی طور پر داخل کر لیا جائے۔ ان دونوں کے نکلنے کے ایک منٹ بعد ہی مجھے باہر سے شور سنائی دیا تھا۔ میں جب نکلا تو کچھ دور کھڑے اس نوجوان کی آنکھیں کرنل کے دفتر پر جمی ہوئی تھیں۔ کئی جسیم حوالدار اسے پکڑنے کی کوشش کرتے تھے مگر دھان پان لڑکے کے ہاتھ کی ایک جنبش سے اسی اسی کلوگرام کے فوجی دس دس پندرہ پندرہ فٹ دور جا گرتے تھے۔ مجھے شرارت سوجھی تھی کہ انہیں کہوں اسے چھوڑ دو تاکہ وہ کرنل کے دفتر میں گھس جاتا کیونکہ ہمارے کرنل ازحد ڈرپوک شخص تھے۔ مگر میں نے اس خیال کو جھٹک کر نائیک صفدر سے کہا تھا کہ تم جا کر اس کے پاؤں زمین سے اٹھا دو اور باقی فورا" اس کی مشکیں کس لیں۔ ایسا ہی کیا گیا اور اسے مسکن ٹیکہ لگا دیا گیا۔ کہانی لمبی ہے لیکن اس بچے کے پری آنے پر تحیر کے تاثر بھلائے نہیں بھولتے۔ بعد میں اسے فوج سے فارغ کر دیا گیا تھا۔
کینال پارک میں ہندوستان چلے جانے والے معروف اداکار پران کی کوٹھی کے گیٹ کے عین سامنے ہمارا "کو کلینک" نام سے مطب تھا۔ یہ میں نے اپنے دوست اور اب ہارمون لیب نام کی معروف لیبارٹری کے مالک ڈاکٹر خالد کے لیے بنایا تھا لیکن اس کے اصرار پر خود بھی بیٹھنے لگا تھا۔ ایک نوجوان نے آ کر بولا تھا کہ اس کی امی بیمار ہے، آ نہیں سکتی۔ مہربانی کریں چل کر دیکھ لیں۔ عورت پچپن ساٹھ برس کی تھی۔ کبھی اٹھتی تھی کبھی بیٹھ جاتی تھی۔ دل کی دھڑکن ترتیب سے تھی۔ نبض کچھ تیز تھی۔ دل کے دورے کی کوئی علامت نہیں تھی۔ میں نے ڈسپنسر کو کہا کہ اسے مسکن انجکشن لگا دے۔ مطلوبہ انجکشن اس کے پاس نہیں تھا۔ اس نے کہا آپ چلیں باقی مریض دیکھیں۔ میں انجکشن لا کر لگا دیتا ہوں۔ وہ دو تین منٹ تک وہاں پہنچا اور چند منٹ بعد ٹیکہ لگائے بغیر منہ لٹکائے لوٹ آیا اور بتایا، "اماں مر گئی"۔ اس بڑھیا کے چہرے کی بے کلی مجھے نہیں بھولتی۔
پہاڑیوں میں گھری اور پہاڑیوں کی ڈھلانوں پر بسی زیراب نام کی خوبصورت بستی کے کلینک/ ایمرجنسی سنٹر میں ایک بچی لائی گئی تھی۔ عمر یہی کوئی پندرہ سولہ برس۔ اس نے زہر کھا لیا تھا۔ بچ تو نہیں پائی لیکن اس کے چہرے پر مرنے کے بعد جو ملکوتی حسن تھا وہ مجھے اب بھی مسحور کر دیتا ہے۔
کوٹ ادو میں تیرہ چودہ برس کی ایک بچی کی آنت میں بل آ گیا تھا۔ وہ دیکھنے میں بہت پیاری لگتی تھی۔ اس کا باپ اسے نشتر ہسپتال ملتان لے جانا نہیں چاہتا تھا۔ میں نے اسے اپنے کلینک میں ڈرپس پر ڈال دیا۔ ساتھ ہی ساتھ معدے کی سکشن کرتے ہوئے اس کی آنت کے بل کو ہٹانے کی سعی کی جانے لگی تھی۔ اس کے باپ کو سختی سے منع کیا تھا کہ منہ کے راستے پانی کا ایک قطرہ نہ جائے۔ چار روز بعد اس میں صحت مندی کے خاصے آثار تھے۔ ممکن تھا کہ ایک دو روز میں ٹھیک ہو جاتی۔ گرمیوں کا موسم تھا۔ میں کلینک پہنچا، گیٹ بند تھا مگر تالہ نہیں لگا تھا۔ ڈسپنسر ابھی نہیں پہنچا تھا۔ میں کھول کر اندر داخل ہوا تو صحن میں تربوز کے چھلکے پڑے تھے۔ لڑکی برآمدے کے ساتھ سائے میں بچھی چارپائی پر لیٹی تھی۔ میں نے پوچھا تربوز کس نے کھایا ہے۔ اس کے باپ نے کہا، "جی میں نے کھایا ہے"۔ "بیٹی کو تو نہیں دیا" میں نے پوچھا۔ اس نے انکار کیا۔ میں نے بچی کے ہونٹوں پر نگاہ ڈالی جو قدرے خشک نہیں تھے۔ میں نے سختی سے پوچھا کہ سچ بتاؤ۔ کہنے لگا بس جی تھوڑا سا دیا ہے۔ میرا دل بیٹھ گیا۔ بچی شام تک جانبر نہ ہو سکی تھی۔ مجھے اس بچی کی شکل نہیں بھولتی جسے باپ کے پیار نے مرنے میں مدد دی تھی۔
کوٹ ادو میں ہی ایک "چاڑھا"، رسے کی مدد سے کھجور کے بلند بالا درخت پر چڑھ کے کھجوریں اتارنے والا، کھجور سے گر کر ریڑھ کی ہڈی تڑوا بیٹھا تھا۔ وہ کمر سے نیچے مفلوج ہو گیا تھا۔ ایسے مریض کو انتہائی توجہ درکار ہوتی ہے۔ تاحتٰی سرکاری ہسپتال میں بھی اتنا خیال رکھا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ وہ دیہات کے لوگ تھے۔ بڑے ہسپتال جانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔ دیہات میں پیشاب کی نالی لگانا، ڈرپ دینا وغیرہ مشکل تھا۔ اسے اپنے کلینک میں ہی رکھ لیا۔ انتہائی کم معاوضے پر بھی وہ علاج ایک ماہ سے زیادہ جاری نہ رکھ سکے تھے۔ اسے گھر لے گئے تھے جو ایک ماہ سے کم میں جاں بحق ہو گیا تھا۔ تیس بتیس سال کے اس شخص کے چہرے کے تاثرات جن میں مقدر پر تکیہ کرنے کا صبر مایوسی کے ساتھ مدغم تھا، میں نہیں بھلا پاتا۔
اور آخر میں مریدکے کا ایک مریض۔ یہ شخص بیوی یا گھر میں کسی سے لڑ کر خود کو آگ لگا بیٹھا تھا اور پھر خود ہی دھوتی پہنے، جگہ جگہ سے جلے ہوئے بدن کے ساتھ میرے سرجیکل ہسپتال پہنچا تھا۔ اللہ معاف کرے انسان کے جلنے کی بو کتنی بھیانک ہوتی ہے، یہ وہی جانتا ہے جس کا پالا پڑا ہو۔ وہ شخص چالیس فی صد جلا تھا۔ زخم بھی گہرے نہیں تھے۔ ابتدائی طبی امداد کے بعد اسے لاہور منتقل کر دیا تھا۔ مجھے اس شخص کے چہرے میں مرتسم خوف اب بھی یاد ہے۔ اس بو کے سبب میں کئی دن کھا نہیں سکا تھا اور گوشت تو مہینوں نہیں چھوا تھا۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔