آسمانوں میں اُڑنے کی خواہش انسانوں میں ہمیشہ سے رہی۔ انسان جب اپنے ارگرد پرندوں کو اُڑتے دیکھتے تو اُن میں ایک تجسس سا جاگتا کہ اگر وہ ہوا میں اُڑیں گے تو کتنی خوشی، کتنی آزادی محسوس کریں گے۔ انسان ارتقائی طور پر دو ٹانگوں پر چلنے والا جانور بنا۔ قدرت نے انسان کا جسم ایسا نہیں بنایا کہ وہ اُڑ سکے بلکہ چل سکے یا دوڑ سکے۔ دو ٹانگوں پر چلنے کی یہ صلاحیت دیگر جانوروں میں بھی کسی نہ کسی درجے تک پائی جاتی ہے مگر انسانوں کی یہ خاصیت ہے۔ دو ٹانگوں پر چلنے کے ارتقاء میں ابتدائی فوائد انسان کو یہ حاصل ہوئے کہ وہ اونچا ہو کر درختوں سے پھل توڑ لیتا، اسکے ہاتھ اب چلنے سے آزاد ہو گئے تو یہ اوزار بناسکتا تھا، ہاتھوں سے اشارے کر کے بات سمجھا سکتا تھا۔
مگر دو ٹانگوں پر چلنے کے نقصانات بھی تھے۔ آج کتنے ہی لوگ عمر کے ساتھ ساتھ گھٹنوں اور کمر کے درد میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ وجہ یہ کہ انسان کے پورے وجود کا وزن گھٹنوں اور ریڑھ کی ہڈی پر پڑتا ہے۔چار ٹانگوں پر چلنے والے جانوروں کی ریڑھ کی ہڈی پر زیادہ زور نہیں آتا۔ مگر خیر بات کہاں سے کہاں چلی گئی۔
اُڑنے کی صلاحیت نہ ہونے مگر اُڑنے کی خواہش ہونے نے انسان کے اُڑنے کے خواب کو صدیوں زندہ رکھا۔ماضی میں کئی افراد نے پرندوں کی طرح مصنوعی پر لگا کر اُڑنے کی کوشش کی مگر کوئی خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی۔ بالآخر اٹھارویں صدی میں انجن کی ایجاد اور اُڑنے کی سائنس کو سمجھ کر انسانوں نے جہاز بنانے کی کوشش کی۔
بیسویں صدی کے آغاز میں امریکہ کے دو بھائیوں ولبر رائٹ اور اورویل رائٹ نے پہلے انجن والے جہاز کی اُڑان بھری اور انسانوں کے صدیوں کے اُڑنے کے خواب کو شرمندہ تعبیر کیا۔ اس اُڑان نے انسانوں کو بُلندیوں پر جانے کا حوصلہ دیا۔
اتنا کہ وہ زمین کی قید سے نکل کر خلاؤں میں جانے کا سوچنے لگا۔ یہ خواب بھی حضرتِ انساں نے اپنی جرات اور عقل سے پورا کیا۔ بڑے بڑے راکٹ بنا کہ خلاؤں کا رخ کیا۔ دوسری دنیاؤں پر جھنڈے گاڑے اور وہاں رہنے کے خواب دیکھنے لگا۔
آج انسان عظمتوں کی بلندیوں کو چھونا چاہتا ہے۔ کائنات کے راز کھولنا چاہتا ہے اور زمین کے علاوہ دوسرے سیاروں پر بسنا چاہتا ہے۔اسی کوشش میں وہ مریخ تک اپنے بیسیوں روبوٹ بھیج چکا ہے۔ مگر کامیابیوں کا یہ سلسلہ رکا نہیں اور اسی تسلسل کو قائم رکھتے ہوئے ایک دن اس سرپھرے انسان نے سوچا کہ کیا مریخ پر بھی اُڑا جا سکتا ہے؟؟؟کیونکہ مریخ پر زمین کیطرح کی کثیف فضا نہیں۔ مریخ کی فضا بےحد باریک ہے اور اس میں محض کاربن ڈائی آکسائڈ ہے ۔ یہ زمین کی سطح سمندر کی فضا کے 1 فیصد جتنی باریک ہے ۔اور وہ جانتا تھا کہ ہوا میں اُڑنے کے لیے ہوا کا ہونا شرط ہے۔
مگر سائنس نے اسے بتایا کہ گو ہوا کم ہے پر ہے تو صحیح۔ سو حضرتِ انساں کی نسل کے کچھ ذہین لوگ اس کام میں جُت گئے۔ عقل استعمال کی گئی اور بالآخر ایک ایسا چھوٹا سا ہیلی کاپٹر بنایا گیا جسکا وزن محض 1.8 کلو گرام تھا۔ یہ سولر پینلز سے چلتا تھا اور اسکے پر اتنے بڑے اور اتنے تیزی سے گھومتے کہ یہ باریک فضا میں بھی اُڑ سکتا۔ اسے زمین پر مریخ کی فضا کے سے حالات پیدا کر کے ٹیسٹ کیا گیا۔ اسے نام دیا گیا Ingenuity. بالآخر اسے 30 جولائی 2020 کو ناسا کی بھیجی جانی والی ربوٹک روور Preservernce کے “پیٹ” سے باندھ کر سفرِ مریخ پر بھیج دیا گیا۔
تقریباً 6 ماہ کی مسافت طے کرتا یہ ہیلی کاپٹر Ingenuity جب روور کیساتھ مریخ کی سطح پر اُترا تو اسکے بنانے والوں کو بے تابی سے انتظار تھا کہ یہ کب اُڑے گا۔
پھر ایک دن ہیلی کاپٹر کو روور سے الگ کیا گیا اور اسکی زمین پر بیٹھی ناسا کی ٹیم نے مکمل جانچ پڑتال کی۔ اسکا سافٹ وئیر چیک کیا۔ اسکی بیٹری کا لیول دیکھا اور پھر طے ہوا کہ 19 اپریل 2021 کو اسے مریخ پر اُڑایا جائے گا۔
19 اپریل کا دن، اس ہیلی کاپٹر کو زمین سے اُڑنے کی کمانڈ بھیجی جا چکی تھی۔رووور میں لگے کیمرے اور ہیلی کاپٹر کے اندر موجود کیمرے اس منظر کو محفوظ کرنے کو مکمل تیار تھے۔
1,2,3..
ہیلی کاپٹر کے اسکی ننھی جسامت کے مقابلے کئی گنا بڑے پر تیزی سے ہلتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ مریخ کی فضا کو چیرتا ہوا اوپر اُٹھنے لگتا ہے۔تقریباً 10 فٹ کی بلندی تک پہنچ کر یہ مڑتا ہے اور واپس مریخ کی سطح پر اُتر جاتا ہے۔ اس پورے عمل میں ٹھیک 39.1 سیکنڈ لگتے ہیں۔
یہ بظاہر چھوٹی فلائٹ حضرتِ انساں کا ایک بڑا قدم تھی جس نے انسانی تاریخ میں ایک نئے باب کا آغاز کیا۔ دوسری دنیاؤں پر اُڑنے کا باب۔ آج انسان پہلی مرتبہ زمین کے علاوہ کسی اور سیارے پر اُڑنے کے قابل ہوا!!.
وہ جو اس لمحے کی اہمیت سے واقف تھے، اُنکی آنکھیں خوشی سے نم تھیں۔انسان نے آج اُڑنے کے خواب سے بھی بڑھ کر حقیقت کو پا لیا تھا۔
عقل اپنی رفعتوں کو پہنچ چکی تھی۔
کائنات حیران تھی!!
امیر خسرو کی فارسی غزل کے کھوار تراجم کا تجزیاتی مطالعہ
حضرت امیر خسرو کا شمار فارسی کے چند چیدہ چیدہ شعرا میں ہوتا ہے۔ ان کی ایک غزل کافی مشہور...