مرد اگر خواتین کے خلاف کچھ کہیں تو وہ ''متعصبانہ رویہ‘‘ کہلاتا ہے تاہم خواتین اگر مردوں کی بھد اُڑائیں تو یہ حقیقت پسندی کہلاتی ہے۔ اگر آپ کو انگریزی اخبار کے کالم پڑھنے کا اتفاق ہوا ہو تو وہاں خواتین بلاگرز ‘ مردوں کے خلاف ایسا کرارا جملہ لکھتی ہیں کہ تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ لیکن چونکہ حقیقت وہی ہے جو عورت بیان کرتی ہے لہٰذا ہم کون ہوتے ہیں اس حقیقت کو جھٹلانے والے۔ روشن خیالی کا بھی یہی تقاضا ہے کہ عورت کو ہر بات کہنے دی جائے اور مرد کی ناک مروڑ دی جائے۔ پچھلے دنوں ایک پاکستانی انگریزی اخبار میں ایک خاتون نے مردوں کی کلاس لیتے ہوئے ایک بلاگ لکھا‘ اس میں انہوں نے مردوں کے لیے ایک لفظ استعمال کیا جس کا اُردو میں ترجمہ ''غلیظ ‘‘ بنتا ہے۔ اب ظاہری بات ہے یہ حق محترمہ کو ہی ہے کہ وہ ایسا جملہ استعمال کر سکیں‘ مرد اس سے ملتا جلتا لفظ بھی استعمال کرے تو روشن خیال اُس کی 'ٹنڈ‘ کر دیں۔ آپ نے اکثر مختلف جگہوں پر لکھا دیکھا ہو گا کہ 'عورت ماں ہے‘ بہن ہے‘ بیٹی ہے‘‘۔ حرام ہے کہیں لکھا ہو کہ عورت بیوی بھی ہوتی ہے۔ اور دوسری بات یہ کہ کیا مرد 'باپ‘ بھائی اور بیٹا‘ نہیں ہوتا؟… اچھا پہلے ایک چیز ذہن نشین کر لیجئے کہ یہ باتیں نہ میں مردوں کی حمایت میں کہہ رہا ہوں نہ عورتوں کی۔ میرا سوال صرف یہ ہے کہ عزت اور احترام کا سارا زور صرف عورت کے لیے کیوں ہے؟ مرد عزت کے قابل نہیں ہوتا؟ چلیں چھوڑیں‘ یہ سمجھ لیتے ہیں کہ چونکہ ہم مشرقی معاشرے میں رہتے ہیں لہٰذا عورت کی عزت و احترام ہمارا کلچر بھی ہے‘ میں متفق ہوں۔ جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت اور مرد برابر ہیں تو اس کا مطلب یہ کیوں نہیں لیا جاتا کہ دونوں قابل تعظیم ہیں۔ مسائل دونوں طرف ہو سکتے ہیں۔ لڑاکا مرد بھی ہوتے ہیں اور لڑاکا عورتیں بھی۔ جھوٹے مرد بھی ہوتے ہیں اور جھوٹی عورتیں بھی۔ فلرٹ مردوں کی طرف سے بھی ہوتا ہے اور عورتوں کی طرف سے بھی۔ لیکن اب میں تھوڑا سا تعصب کا اظہار کرنے لگا ہوں‘ پلیز سیٹ بیلٹ باندھ لیجئے…!!!
آپ مرد ہیں تو بھری بس میں آپ سے سیٹ خالی تو کروائی جا سکتی ہے‘ آپ کے لیے سیٹ خالی نہیں ہو سکتی۔آپ کا چہرہ جیسا مرضی ہو آپ نقاب نہیں کر سکتے‘ کریں گے تو دہشت گرد سمجھ کر دھر لیے جائیں گے۔ عورتیں بال چھوٹے کروا لیں تو فیشن کہلائے گا‘ آپ لمبے بال رکھیں گے تو ممی ڈیڈی کا خطاب پائیں گے۔ عورتیں روئیں تو سب کا دل موم ہو جاتا ہے‘ یہ کام مرد کرے تو پہلا جملہ یہی سننے کو ملتا ہے 'ہُن چنگا ریا ایں؟‘۔ عورتوں کے سامان سے میک اپ کٹ نکل آئے تو ارد گرد کی خواتین تجسس میں مبتلا ہو جاتی ہیں کہ کون سا برانڈ ہے؟ مرد کی جیب سے لپ سٹک نکل آئے تو محلے دار چہ مگوئیاں کرنے لگتے ہیں 'بھائی میں تو پہلے ہی کہتا تھا لڑکے میں سِلکی ٹچ ہے‘۔ عورتیں جب چاہیں مردوں والے جوگر پہن سکتی ہیں‘ مرد کبھی ہیل والی جوتی نہیں پہن سکتا۔ مرد کھلے گلے والی قمیض پہننے کی مذموم حرکت کرے تو لُچا کہلاتا ہے۔ عورتیں موٹر سائیکل کے پیچھے ایک طرف دونوں پائوں کرکے بیٹھ سکتی ہیں‘ مرد ایسے بیٹھا ہو تو گزرنے والے یہی سمجھتے ہیں کہ ڈاکٹر کے پاس جا رہا ہے۔ مرد کا پیٹ نکل آئے تو کہا جاتا ہے کہ اس کی توند نکلی ہوئی ہے‘ ایسا جملہ کبھی عورتوں کے حوالے سے سننے کو نہیں ملتا۔ عورتوں نے بالوں میں تیل لگایا ہو تو وہ ہمسائی کے سامنے جانے سے بھی گریز کرتی ہیں‘ تاہم مرد کے بال تیل سے 'چپڑے‘ ہوئے بھی ہوں تو وہ اسی حالت بینک سے ڈیپازٹ سلپ بھی لینے چلے جاتے ہیں۔ عورت کے ہاتھ سے گلاس گر کر ٹوٹ جائے تو یہ غلطی اور مرد کے ہاتھ سے گر جائے تو کوتاہی کہلاتی ہے۔ عورتیں پورے دن میں تین دفعہ کچن میں کھانا بنائیں تو مشقت کہلاتی ہے‘ مرد سارا دن ویگنوں بسوں میں ''کُبا‘‘ ہو کر دھکے کھاتا رہے‘ عیاشی کہلاتی ہے۔ عورت پگڑی پہن لے تو غیرت کی علامت‘ مرد چُنی اوڑھ لے تو سرگوشیاں نما قہقہے‘ عورت کتاب پڑھ رہی ہو تو 'ماشاء اللہ کتنی پڑھاکو ہے‘ اور مرد کیمسٹری کے فارمولے بھی یاد کر رہا ہو تو پہلا شک یہی جاتا ہے کہ یقینا کتاب کے اندر 'عمران سیریز‘ کھول رکھی ہو گی۔ عورت کسی سے ہنس ہنس کر فون پر بات کر رہی ہو تو وہ سہیلی ہوتی ہے‘ مرد کسی سے میٹھے لہجے میں بات کرے تو… وہ بھی سہیلی ہی سمجھی جاتی ہے۔ عورت ماسی سے ٹانگیں دبوائے تو بیمار‘ مرد مالشئے کے پاس چلا جائے تو آوارہ۔ شوہر اپنی بیوی کا ہاتھ بٹانے کے لیے چائے بھی بنا دیتے ہیں‘ سبزی بھی کاٹ دیتے ہیں‘ بیگم کے کپڑے بھی استری کر دیتے ہیں لیکن کیا آپ نے کبھی سنا ہے کہ بیگم نے شوہر کی موٹر سائیکل یا گاڑی کو کپڑا مارا ہو؟ کبھی تیل پانی چیک کیا ہو؟؟؟
میرا مقدمہ یہ ہے کہ عورت کی نسبت مرد بری طرح معاشرتی پابندیوں میں جکڑا ہوا ہے۔ جو کام عورت کرتی ہے ان میں زیادہ تر کام مرد بھی کرتے ہیں۔ عورت گھر میں روٹیاں پکاتی ‘ کھانا بناتی ہے‘ تندور اور ہوٹلوں پر یہی کام مرد کرتے ہیں۔ عورت کپڑے دھوتی ہے‘ دھوبی کی صورت میں مرد بھی کپڑے ہی دھوتے ہیں۔ لیکن آپ نے کبھی نہیں دیکھا ہو گا کہ کوئی عورت موٹر مکینک ہو اور گاڑی کے نیچے گھسی ہوئی 'کنگھی‘ کا کام کر ہی ہو۔ آپ نے کبھی کسی عورت کو ویگن چلاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا ہو گا۔ آدھی رات کو ریسٹورنٹ سے کھانے کی ڈلیوری دینے بھی 'ڈلیوری بوائے‘ ہی آتا ہے۔ حجام بھی مرد ہوتے ہیں‘ کم ازکم میں نے آج تک کسی عورت کو اُسترا تیز کرتے نہیں دیکھا‘ بیوٹی پارلرز کی بات مت کیجئے گا‘ وہاںکی عورت حجام یا نائی نہیں کہلاتی۔ ٹائروں کو پنکچر لگانے والے بھی مرد ہوتے ہیں۔ یہاں یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ مردوں کی اکثریت عورتوں کو گھر سے باہر نہیں نکلنے دیتی اس لیے وہ یہ کام کیسے کر سکتی ہیں؟ بجا فرمایا‘ لیکن عورتیں ویسے تو مردوں والے کئی کام کرتی ہیں‘ اینٹیں اٹھاتی ہیں‘ کھیتی باڑی کرتی ہیں‘ سبزی لگاتی ہیں‘ مزدوری کرتی ہیں…!!!
ہاں… ایک اور طعنہ یاد آ گیا۔ عورتوں نے گھر میں کام کرنے کے لیے ماسی رکھی ہوتی ہے‘ یہ ماسی کپڑے بھی دھوتی ہے‘ صفائی بھی کرتی ہے‘ برتن بھی صاف کرتی ہے۔ جن گھروں میں ماسی ہوتی ہے وہاں ضروری نہیں کہ کوئی مرد نوکر بھی ہو۔ ایسے مردوں نے کبھی سوچا ہے کہ اُن کے کام کرنے کے لیے کون ہے؟ کوئی ہے جو اُن کے جوتے پالش کرے‘ کوئی ہے جو اُنہیں شیو کے لیے ریزر لا دے‘ کوئی ہے جو ان کی موٹر سائیکل کے کلچ کی تار ڈلوا لائے‘ کوئی ہے جو کیبل کی دکان پر جا کر کہہ آئے کہ کیبل صاف نہیں آ رہی۔ جن مردوں کے بچے جوان ہو گئے ہیں وہ تو شاید کسی حد تک یہ کام ان سے کروا لیتے ہوں لیکن اوورآل جائزہ لیجئے‘ بہت سے اور کام بھی ذہن میں آ جائیں گے۔ ان تمام باتوں کے باوجود دنیا کے 502 فیصد شوہروں کے حصے میں ایک ہی جملہ آتا ہے 'یہ آپ مجھ پر احسان نہیں کر رہے‘۔ دوستو بزرگو! میں نے بڑی مشکل سے اپنے آنسو ضبط کر رکھے ہیں‘ ورنہ میں آپ کے حق کے لیے اس سے بھی آگے جانا چاہتا ہوں‘ آپ تو جانتے ہیں مرد آپس میں ایک دوسرے کا دارو ہوتے ہیں۔ اُمید ہے آپ اپنے اس بھائی کے جذبہ ایثار کو سراہتے ہوئے دل کی اتھاہ گہرائیوں سے خراج تحسین پیش کریں گے۔ ایک لائک تو بنتا ہے۔۔۔۔۔!!!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔