آج کے اس ترقی یافتہ دور میں دنیا کا ہر انسان کامیابی کی ہمالیائی چوٹی فتح کرنے میں کوشاں ہے۔ طالب علم، استاد بننا چاہتاہے۔ استاد، پروفیسر کی جگہ حاصل کرنے میں تگ ودو میں لگا ہے۔ پروفیسر، پرنسپل کے عہدہ پر فائز ہونا چاہتاہےاور اسی طرح ڈاکٹر، سرجن کے مقام تک رسائی کرنا چاہتا ہے۔ گوکہ دنیا کا ہر شخص اپنے ترقیاتی امور کو دھیان میں رکھتے ہوئے اپنے کام انجام دے رہا ہے ۔ لیکن کتنے فیصد لوگ ترقی کی بلندیوں پر پاوں جماتے ہیں۔ یہ ایک سوال ہے اور اس کا تخمینہ لگانا ذرا مشکل طلب جواب ہے۔ جنہیں اپنے مقصد کے حصول میں کامیابی نصیب ہوجاتی ہے وہ پھولے نہیں سماتے۔ مگر جن کو خاطر خواہ کمال تک دسترس نہیں ہوپاتی وہ بس افسردہ دل اور خانہ نشین ہوجاتے ہیں۔ یہ کام صحیح نہیں ہے. ایک طفلانہ حرکت محسوس ہوتی ہے۔ مایوس نہیں ہونا چاہیے. اس لئے کہ ناکامی، کامیابی کا پیش خیمہ ہوا کرتی ہے۔ اگر کوئی شخص اپنے مقصد میں ناکام ہوجاتا ہے تو اسے اتنا توضرور معلوم ہوجاتاہے کہ کامیابی اس راہ سے نہیں ہے لہذا اسے کسی اور جانب تلاش کرتے ہیں۔
ایڈیسن، ہزار کوششوں کے بعد دنیا کو روشن کرنے میں کامیاب ہوا۔ اس سے پوچھا گیا کہ ہزارہا بار ناکامیابی سے کیا درس لیا تم نے؟
اس نے جواب دیا: ہزار کوششوں کے بعد مجھے اتنا تو معلوم ہوچلا کہ ان چیزوں سے بلب نہیں بن سکتا۔ لہذا دوسری راہ سے اس کی تلاش کی جائے۔
اگر اس مسئلہ کو باریک بینی سے دیکھا جائے تو یہ راز عیاں ہوتا ہے کہ ناکامی، دراصل کامیابی سے جدانہ نہ ہونے وا لا حصہ ہےاور سب کو معلوم ہے کہ بڑی کامیابی چھوٹی چھوٹی ناکامیوں کی مرہون منت ہو تی ہے۔ اس ناکامی کے دور میں انسان کو دل برداشتہ نہیں ہوناچاہئے۔
اگر کائنات کا ہر ناکام آدمی ہمت ہار کر حجلہ نشین عورتوں کی مانند بیٹھ جاتا تو آج کوئی ایڈیسن نہ بن سکتا تھا۔ اس نے بارہا بلب پر تجربات کئے۔ اپنے مقصد میں ناکام رہا۔ چونکہ اس کی سطح فکری عام انسانوں سے بالاتر تھی اس لئے وہ مایوس نہیں ہوا۔ وہ متواتر اپنے ہدف میں لگن کا اظہار دکھاتا رہا اور بالآخر! کامیابی کو اس کی پابوسی کے لئے جھکنا ہی پڑا۔
اگر یہ ممتاز سائنس داں بھی دوسرے کمزورارادے والوں کے مثل تھک بیٹھ کر ہار مان لیتا تو وہ اس عظیم الشان کامیابی سے محروم رہتا۔ لہذا، انسان کو چاہیے کہ حالیہ ناکامی و مشکلات سے چشم پوشی کرے اور روشن مستقبل کی تگ و تاز میں کوشاں رہے۔ یہاں تک کہ فتح و ظفر اس کے نام لکھ دی جائے!
کامیابی آندھی کا آم نہیں جو ہر کس و ناکس بٹور لے۔ اس کے لئے شب و روز سعی و کوشش کرنا پڑتی ہے۔ انتھک کدوکاوش کا سہارا لینا پڑتا ہےاور خون پسینہ ایک کرنا پڑتاہے۔
کوئی کامیابی نہ آسمان سے اترتی ہے نہ زمین سے اگتی ہے۔ فلک بوس عمارتیں معمولی اینٹوں پر ٹکی ہوتی ہیں۔ آدمی اشعار کہتے کہتے شاعر بنتا ہےاور اجب اس میں بالیدگی اور تخلیقی قوت کارفرما ہوجاتی ہے تو خدائے سخن انیس کا وجود ابھر کر سامنے آتاہے۔ انسان لکھتے لکھتے لکھنا جانتا ہے اور جب قلمی دنیا میں مہارت حاصل کرلیتا ہے تو برسوں پر محیط شخصیت بن کر صفحہ ہستی پر چھا جا تا ہے۔ کڑی سے کڑی مل کر زنجیر بنتی ہے ۔ لفظ لفظ سے جڑ کر جملہ کی شکل اختیار کرتا ہے۔ قطرات کا اتحاد سمندروں کو جنم دیتا ہے۔ اینٹ جب شانہ بشانہ کھڑے ہوتے ہیں تو قلعہ وجود میں آتے ہیں۔ جب قدم سے قدم ملتے ہیں منزل خود قدم چومتی ہے۔
ہاں۔۔۔! سچ ہے کہ ہر چھوٹی بڑی کامیابی وقت اور انتھک لگن کی طلبگار ہوتی ہے۔ کوئی انسان پیدائشی آئنساٹن نہیں ہوتا بلکہ اس دنیا کا ہر اشخص ’لاتعلمون شیئا‘ کی منزل میں آنکھیں کھولتا ہے۔ کسی بھی مقصد کی رسائی تک بے انتہا کوششیں درکار ہوتی ہیں۔ اگر انسان مضبوط ارادے کا مالک ہے تو اس کے سامنے تمام وقتی مشکلات و ناکامیاں ہیچ ہیں۔ جو صدیوں کے فاتح ہوتے ہیں وہ لمحات کی زنجیریں توڑ دیا کرتے ہیں۔
مشکلی نیست کہ آساں نشود
مرد باید کہ ہراساں نشود
“