سترہویں فلور پر میرے سامنے والا خالی فلیٹ، کل شام آباد ہو گیا۔ بچوں کی چہکار سے بچوں والا گھر معلوم پڑتا ہے۔ کانوں میں اڑتی اڑتی آوازوں نے جہاں رس گھولا، وہی جی بھی شاد ہوا کہ گفتگو میں اردو کے ٹاکے کثرت سے تھے۔ پردیس میں ہم زباں کا ملنا نعمت غیر متروقہ ۔ اب تک کے میرے دونوں پڑوسی گورے تھے اور میں اس خیال سے ہی سرشار تھی کہ اب میری زبان کا زنگ گھلے گا اور میں رج کے اپنی زبان میں گفتگو کروں گی۔ میں نے نئے آباد پڑوسی کو خوش آمدید کہنے کے لیے پوری لگن اور خوشی کے ساتھ رات کے کھانے کے لیے اضافی بریانی اور پڈنگ
بنائی اور بڑے اہتمام سے زرکار خوان پوش سے ٹرے کو مسطور کر کے ان کے دروازے کی گھنٹی بجائی۔ اندر سے ہبڑ دبڑ اور کسی ڈبے سے ٹکرانے کے بعد با آواز بلند” اف ” کی صدا کے ساتھ ہی دروازہ کھلا۔ سامنے ایک جوان ملگجے حیلے اور بکھرے بالوں میں کھڑا تھا۔ سلام دعا کے بعد میں نے ٹرے اس کے حوالے کی، اتنے میں ایک دو ڈھائی سالہ بچہ اپنی بے تحاشا خوب صورت تحیر زدہ آنکھیں پٹپٹاتا ہوا، بابا کہتا اس کی ٹانگوں سے لپٹ گیا۔ میں خوش گوار حیرت سے دو چار ہوئی کہ یہ کم سن نوجوان تو باپ کے مرتبے پر فائز ہے۔ میں اسے دروازہ کھلا رکھنے کی تاکید کرتے ہوئے ترنت پلٹی اور دوسرا ٹرے جس میں چائے کا تھرماس اور انڈے کا ڈبہ اور ڈبل روٹی کا پیکٹ تھا ، اس میں شتابی سے ٹک اور میری بسکٹ کا ایک ایک ڈبہ اور پلین چپس کے ایک پیکٹ کا اضافہ کر کے اسے پکڑا دیا۔ وہ روایتی تکلف سے کام لینے گا۔
نہیں نہیں خالہ یہ بہت ہے۔
ارے کچھ بہت نہیں ہے بھئی شفٹنگ بہت محنت طلب کام ہے، چائے سے تھکن اتارو، اگر کسی مدد کی یا چیز کی ضرورت ہو تو بلا تکلف میر ے فلیٹ کی گھنٹی بجا دینا۔ کل میرے دونوں بیٹے بھی گھر پر موجود ہوں گے وہ بھی تمہاری مدد کر دیں گے۔ یہ کہتے ہوئے میں اپنے فلیٹ پلٹ آئی۔ رات کے کھانے پر دونوں بیٹوں ابصار و انصار کو بھی نئے پڑوسی سے آگاہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ ان کی مدد کرنے کا بھی کہہ دیا، جیسے بڑے نے مسکراتے اور چھوٹے نے ” لو شروع ہو گیا ان کا سوشل ورک” کے تاثر کے ساتھ سنا۔
اب مجھے پردیس کاٹتے ہوئے تقریباً سولہ برس بیت چکے ہیں۔ زندگی نے مجھے خوب خوب جھکولے دیے پر شکر اس مالک کا کہ اس نے ہاتھ نہیں چھوڑا۔ میں کراچی یعنی شہر دلبرا ں کی متوسط طبقے کی ایک عام سی لڑکی تھی جس کے خواب بھی اسی کی طرح معمولی اور چھوٹے چھوٹے سے تھے۔ بس اتنا ہی کہ ایک نیم کی گھنیری چھاؤں والا آنگن ہو جہاں سر کے سائیں کے ہمراہ آباد گود کے ساتھ شاد رہوں۔ نہ مجھے چاند تسخیر کرنا تھا اور نہ ہی گینز بک آف ورلڈ میں کوئی ریکارڈ رقم کرنے کی خواہش۔
سنہ چوراسی میں جامعہ کراچی کی شعبہ فارمیسی سے فارغ ہوتے ہی بیاہ کر حیدرآباد کے تاریخی علاقے پکا قلعہ کی مکین ہوئی۔ یہیں میرے سسر سید اقتدار حیسن دلی سے ہجرت کر کے اپنے والدین اور پانچ بھائی بہنوں کے ساتھ آباد ہوئے تھے۔ جمشید میرے من میت نے انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی اور خوش قسمتی سے ان کی نوکری حیدرآباد ہی میں لگی۔ شادی کے تیسرے سال ابصار میری گود میں تھا۔ زندگی نے کھٹاس اور تلخی سے بھی آشنائی کرائی مگر مجموعی طور پر میری زندگی خوشگوار اور آرام دہ تھی۔ 1990 میں مَیں دوبارہ امید سے تھی اور میرا یہ حمل اپنے پہلی سہ ماہی ہی سے سخت ترین تھا۔
ان دنوں ماحول میں حیدرآباد کی روایتی گرمی کے علاؤہ سیاسی پارے نے بھی خوب تپ چڑھائی ہوئی تھی۔ کچھ دن پہلے ہی میرا چھوٹا دیور مہران یونیورسٹی میں لسانی تعصب کی بناء پر شدید زد و کوب کیا گیا اور اسی باعث وہ آج کل گھر پر صاحب فراش تھا۔
بیس مئی کو اچانک ہی خبر پھیلی کہ پکا قلعہ کی بڑی ٹینکی جو پورے علاقے کو پانی مہیا کرتی تھی اس میں زہر ملا دیا گیا ہے۔ پورے علاقے میں شدید اضطراب پھیل گیا۔ لوگ ڈی سی صاحب کے آفس بھاگے مگر کوئی سنوائی دہائی نہ ہوئی۔ اپنی مدد آپ کے تحت ٹنکی خالی کی گئی اور تین دن تک ٹنکی کا پانی گلی کوچوں میں بہتا رہا ۔ اماں نے میرے مضروب دیور اور اس کی تیمارداری کے خیال سے چھوٹی نند عفت کو منجھلی پھوپھی کی طرف لطیف آباد روانہ کر دیا۔ جمشید نے مجھ سے پوچھا بھی کہ کہو تو تمہیں کراچی چھوڑ آؤں یا پھر تم بھی منجھلی پھوپھی کی طرف لطیف آباد چلی جاؤ۔ میں نہ مانی، میں نے کہا نہیں، میں ادھر ہی ٹھیک ہوں۔
ایک عجیب سا ڈر تھا جس سے دل بیٹھا جاتا تھا۔ پچیس تاریخ کو پولیس اور سندھ ریزو پورے علاقے میں گشت کرنے لگی اور ہم سب نے اطمینان کا سانس لیا کہ حکومت ہم سے بےخبر نہیں مگر یہ خوش گمانی چھبیس کی شام ہوتے ہوتے گلے کا پھندا بن گئی۔ ان لوگوں نے علاقے کو چاروں طرف سے گھیر کر علاقے کی ناکہ بندی کر دی اور ساتھ ہی ساتھ بجلی ، پانی اور گیس کی ترسیل بھی منقطع کر دی گئی۔ رات ڈھلنے سے پہلے ہم پہ قیامت صغریٰ ڈھا دی گئی۔
پولیس والوں نے گھروں میں گھس کر لوٹ مار اور قتل عام شروع کر دیا۔ مردوں اور بزرگوں کو چن چن کے مارا جانے لگا۔ عزت آبرو، جان و مال کچھ بھی محفوظ نہیں تھا۔ گھر سے جمشید اور میرے سسر کو بھی پکڑ کر لے گئے۔ اماں پیاس سے نڈھال، ابا اور جمشید کی خبر لینے اور ابصار کے لیے دو گھونٹ پانی کے بندوبست کے واسطے سر پر قرآن شریف لے کر نکلی اور گولیوں سے چھلنی کی گئیں۔
اماں اپنی جنم جنماتی اور پرکھوں سے آباد زمین چھوڑ کر، ہندوؤں اور سکھوں کے قہر اور انتقام سے بچ بچا کر اپنی پاک سر زمین پہ اپنے ہی کلمہ گو بھائیوں اور بیٹوں کے ہاتھوں ماری گئی۔ اماں اور ابا کا جرم محض اتنا تھا کہ وہ سندھ کے بیٹے نہیں تھے مگر بخشا انہوں نے جمشید کو بھی نہیں جن کی پیدائش بھی پکا قلعہ کی تھی اور سندھی زبان ایسی رواں کیا سندھیوں کی ہو گی۔ جمشیدجنہیں شاہ جو رسالو حفظ تھی اور جو مکلی اور تھر کے شیدا تھے وہ اپنی پسندیدہ خاک میں پیوند خاک ہوئے۔ وہ بڑا ظالم اور سفاک وقت تھا، جانے کن دقتوں سے میرے ماں باپ حیدرآباد پہنچے اور مجھے اور ابصار کو کراچی لے آئے۔ میں فقط پانچ سال کی بیاہتا،محض انتیس برس کی عمر میں بیوہ ہو گئی۔ میرے آگے لق و دق صحرا اور تن تنہا آبلہ پائی کا سفر تھا۔ میں مہینوں ہوش و خرد سے بےگانہ رہی مگر انصار کی پیدائش کے بعد مجھے ہوش میں آنا ہی پڑا کہ میرے ساتھ اب دو بچے بھی تھے جو میرے محبوب کی نشانی اور میری کُل متاع تھے۔ سو عاشق زار بیوی کو اپنے دل میں دفن کر کے بچوں کی محافظ ماں آگے آ گئی اور
پھر زندگی جہدوجہد سے عبارت ہوئی۔
میرا پاکستان کی خونی زمین سے دل اجڑ چکا تھا اور میں اپنے بچوں کے لیے کسی پُر امن گوشے کی تمنائی تھی۔ ایسی جگہ جہاں انہیں زمین کا بیٹا ثابت کرنے کے لیے کاغذات کی ضرورت نہ ہو اور کوئی انہیں اپنے ہی گھر میں مہاجر کہتے ہوئے اردو بولنے کی پاداش میں بے دردی سے قتل نہ کر دے۔ میں نے بڑی کوششوں سے کینیڈا کی امیگریشن اپلائی کی اور امیگریشن ملنے پر ٹورانٹو آ کر بس گئی۔
یہاں زندگی آسان نہ تھی پر محفوظ تھی۔ ابصار اور انصار فرمانبردار تھے اور انہوں نے مجھے مزید دقت سے دو چار نہیں کیا۔ ابصار انجینئرنگ کرکے اب اچھی نوکری پر لگ چکا تھا اور میں اس کا گھر بسانے کی آرزو مند تھی۔ اگلے مہینے سے ابصار کو وینکوور منتقل ہونا تھا کہ اب وہیں اس کا دانہ پانی تھا۔
ایک ہفتے کے بعد میری نیچے لانڈری میں سامنے والی سے تفصیلی ملاقات ہوئی۔ وہ قدرت کا شاہکار، چادر میں لپٹی اپنے دونوں بچوں کے ساتھ لانڈری میں مشین میں کپڑے ڈال رہی تھی۔ اس کا نام بلقیس تھا۔ بلقیس اور قادر دونوں کراچی کے رہنے والے تھے۔ قادر کے والدین اور چھوٹا بھائی بھی اپنی فیملی سمیت یہیں ٹورانٹو میں رہتے تھے مگر بلقیس کا میکہ کراچی میں تھا۔ وہ بڑی دلربا، خوبصورت اور با ادب لڑکی تھی۔ اس کی آنکھیں جیسے جلتے چراغ اور ہنسی، ہنسی تو اتنی مدھر جیسے جلترنگ بج اٹھے ہوں۔ بیٹا سلیمان ڈھائی سال کا اور گڑیا سی بیٹی محض تین ماہ کی تھی۔ لانڈری میں کپڑے ڈالتے نکالتے باتوں میں کب وقت گزرا پتہ ہی نہیں چلا۔ مجھے بلقیس سے مل کر واقعی بہت خوشی ہوئی تھی، بڑی اپنائیت اور بے ساختہ پن تھا اس کی شخصیت میں۔ اچھا پڑوس بھی اللہ کی نعمت ہے اور یہاں تو ہم زبانی کی عیاشی بھی میسر تھی۔
سامنے والوں کا پورا گھرانہ ہی بہت زندہ دل اور خوش طبع تھے، تفریح کے شوقین۔ سنیچر اور اتوار کو یا تو قادر کی فیملی اپنے چھوٹے بھائی کی طرف اور پھر وہاں سے کسی تفریحی مقام کی طرف نکل جاتی یا پھر چھوٹے بھائی کی فیملی، قادر اور بلقیس کی طرف آ جاتی، اور پھر سب اکٹھے کہیں پکنک منانے روانہ ہو جاتے۔ دو چار بار میں نے بھی ان لوگوں کے ساتھ پکنک میں شرکت کی مگر اب میں کچھ تنہائی پسند ہو چکی تھی سو مجھے گھر کا کمفرٹ زیادہ بھاتا تھا۔
بلقیس میں بلا کی پھرتی تھی۔ وہ کھانا تو اس تیزی اور مشاقی سے پکاتی جیسے اس کے قبضے میں کوئی جن ہو۔ اکہرے بدن اور گھٹاؤں جیسے بالوں والی بلقیس روز بروز میرے دل میں اترتی جا رہی تھی اور اب مجھے بیٹی ہی کی طرح عزیز بھی۔ رمضان میں شاید پانی کی کمی کے سبب میرا دیرینہ درد گردہ عود آیا اور بلقیس نے میری تیمارداری کے ساتھ ساتھ ہفتے بھر میرے گھر کی سحری و افطاری کی ذمہ داری بھی اپنے کندھوں پر اٹھا لی۔ میں نے اور انصار دونوں نے منع بھی کیا کہ میرے بچے کچن سے کماحقہ واقف تھے مگر بلقیس ہنستے ہوئے کہنے لگی خالہ لوٹ سیل کا مہینہ ہے کیوں میرے ثواب میں ڈنڈی مار رہی ہیں۔ بلقیس کی حس مزاح بھی اس کی ہنسی ہی کی طرح کھنکھناتی اور کھلکھلاتی ہوئی تھی۔ بلقیس کے روپ میں مجھے پلی پلائی بیٹی اور بونس میں نواسہ اور نواسی مل گئے تھے۔
ابصار کی شادی سر پر تھی اور میرے دور دراز کے مہمانوں میں صرف ابصار کے چچا اور پھوپھی تھے جنہوں نے امریکہ سے آنا تھا اور میرے مائیکے کا واحد رشتہ میری اکلوتی بہن کراچی سے متوقع تھی۔ ابصار کے چچا تو بوسٹن سے اپنی فیملی سمیت فقط تین دنوں کے لیے آ رہے تھے اور انہوں نے اپنا انتظام ہوٹل میں کیا تھا، میری چھوٹی نند عفت اٹلانٹا سے ہفتے بھر کے لیے آ رہی تھی اور میری بہن مہینے ڈیڑھ کے لیے۔ میرا چھوٹا سا دو بیڈ روم کا اپارٹمنٹ تھا اور میں سوچ رہی تھی کہ مہینے بھر کو کوئی جگہ رینٹ پر لے لو کہ شام میں قادر اور بلقیس ہنستے مسکراتے آئے اور کہا خالہ ہفتے بھر کی تو بات ہے ، کیا تردد پال رہی ہیں، ہمارا فلیٹ حاضر ہے ہم لوگ ہفتے بھر کے لیے چھوٹے بھائی کے گھر شفٹ ہو جائیں گے، آپ بے فکری سے ہمارا گھر استعمال کیجیے۔ ان دونوں کے بےلوث خلوص کے آگے میری زبان گنگ ہو گئی ۔ ابصار کی مہندی پر قادر نے اپنے دوستوں کو بھی بلایا اور خوب رونق میلا لگایا۔ دلہن کی بری کی تیاری میں، جوڑوں کے رنگ اور کام پر بلقیس نے بہت مدد کی کہ مجھے واقعی نہ موجودہ فیشن کی کچھ خبر تھی اور نہ ہی میرا ٹرینڈ سے دور دور تک کوئی واسطہ تھا۔ ابصار کی شادی ایک یاد گار تقریب تھی جس کے بعد بلقیس اور میں اپنائیت کے بےبہا رشتے میں بند ھ گئے۔ بڑی ادب آداب سے مرسع ، دیالو بچی تھی۔ اپنے میکے سسرال اور خاندان سے باخبر رہتی ، باوجود چھوٹے بچوں کے سب کی خوشی غمی میں دل سے شامل ہوتی۔ دکھلاوے اور تصنع سے کوسوں دور۔ بلقیس کے گھر تیسرے بچے کی ولادت قریب تھی۔ اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی رحمت سے نوازا تھا۔ سلیمان اب اسکول جانے لگا تھا۔ سیلمان، ہادیہ اور نوریہ اسے بےپناہ مشغول رکھتی مگر وہ پیشانی پر بل لائے بغیر تندہی سے گھر اور باہر کے کاموں میں مصروف رہتی ۔
انہی دنوں ورک فرام ہوم کا رواج نیا نیا شروع ہوا تھا اور انصار گھر سے کام کرنے لگا تھا۔ میں خوش تھی کہ میرا بچہ راستے کی کوفت اور بھگدڑ سے محفوظ ہے کہ ٹورانٹو کی ٹریفک الاماں الاماں۔ میں نے نوٹ کیا کہ بلقیس اکثر دونوں بچیوں کو لے کر نیچے لانڈری میں بیٹھی رہتی ہے، پوچھنے پر پتہ چلا کہ قادر کی میٹنگ کے دوران وہ نیچے آ جاتی ہے کہ نوریہ بھی اب چلنے لگی تھی اور وہ باپ کے کمرے کا دروازہ پیٹنا شروع کر دیتی ہے۔ یوں پہلی بار میں ورک فرام ہوم کے مضمرات سے آگاہ ہوئی اور مجھے احساس ہوا کہ واقعی اس چکر میں ماؤں پر بوجھ بہت بڑھ گیا ہے، اب میاں کے کام کے دوران بچوں کو محدود جگہ پر خاموش و مشغول رکھنے کی اضافی ذمہ داری بھی ماؤں کے سر پر پڑ گئی ہے۔
ایک دن بلقیس کچے گوشت کی بریانی اور میری پسندیدہ پڈنگ بنا کر لائی۔ میں نے اس کے ہاتھوں کے ذائقے کی تعریف کی تو خوب ہنسی اور کہنے لگی سب قادر سے سیکھا ہے کہ ان کی خواہش شیف بننے کی تھی، پر آپ تو جانتی ہیں۔۔دس سال پہلے پاکستان میں یہ کام اتنا پسندیدہ کہاں تھا؟ میں تو انہیں کہتی ہوں کہ کلنری اسکول میں داخلہ لے کر ریڈ سیل لیجیے اور اپنا شوق پورا کیجیے۔
اس کا ہر جملہ قادر سے شروع ہو کر قادر پر ختم ہوتا۔ دنیا کا کوئی بھی موضوع ہو مگر تان ہمیشہ قادر ہی پر آ کر ٹوٹتی۔ اس کی محبت کی جوت سے جگمگاتی آنکھیں اور قادر کا نام لیتے وقت اس کے لہجے میں گھلی مصری مجھے بہت لطف دیتی۔ شادی کے تیرہ سال بعد بھی اتنی توانا اور بھرپور محبت میری نظروں سے بہت کم گزری تھی۔ ایک دن میں نے پوچھا کہ تمہاری شادی ارینج ہے یا پسند کی۔ کہنے لگی پسند کی نہیں بھئی محبت کی شادی ہے۔ بڑی مخالفتوں کے بعد ہم نے ایک دوسرے کو پایا ہے۔ وہ محبت سے چھلکتی مئے تھی اور شاید اس کا جنم ہی محبت کے فروغ کے لیے تھا۔ طبیعت سے غنی اور منکسر المزاج۔ اب میرا اور اس کا دس سالہ ساتھ تھا مگر میں نے اس کے منہ سے کبھی بھی کسی کی برائی نہیں سنی۔ ایک بار پوچھا بھی کہ سچ سچ بتاؤ،” کیا تمہیں واقعی کسی سے کوئی شکایت نہیں؟ میاں، سسرال، خاندان، دوست احباب، کسی کی کوئی بات کبھی تو بری لگی ہو گی؟”
ہنس کر کہنے لگی “خالہ زندگی تو محبت کے لیے بھی بہت تھوڑی ہے اسے کہاں نفرتوں کی نذر کرتی پھروں۔ دل میں ہمیشہ ایک قبر بنا کر رکھنی چاہیے تاکہ اس میں اپنوں کی کوتاہیاں اور گلے شکوے کو دفن کرتے رہا جائے اور بندہ سکون سے جیے۔”
بلقیس اور قادر کے تینوں بچے بڑے تمیز دار اور پیارے تھے اب تینوں ہی اسکول جانے لگے تھے اس لیے اس کے پاس قدرے فراغت تھی مگر وہ بھی سیماب صفت اسے کہاں چین، اس نے اس فارغ وقت کو فری لانسنگ اور اپنے پینٹنگ کے دیرینہ شوق سے مصروف کار کر لیا۔
میں انصار کی دلہن کی تلاش میں تھی کہ اس نے مجھے ایک لڑکی سے ملوایا، مجھے وہ لڑکی اچھی لگی مگر میں نے بلقیس سے کہا کہ بھئ کہیں سے اپنی ڈپلیکیٹ ڈھونڈ کر لاؤ ۔
خوب ہنسی اور کہا خالہ مجھے بنانے کے بعد اللہ تعالیٰ نے وہ سانچہ توڑ دیا ہے۔
واقعی میری اتنی عمر گزری، کیا دیس کیا پردیس میں نے ایسی بے ریا اور بے لوث روح نہیں دیکھی۔ انصار نے بھی اس لڑکی کو پسند کیا اور یوں یہ معاملہ طے پا گیا۔ انصار کی شادی کی گہما گہمی میں، میں نے اسے قدرے تھکے تھکے پایا اور خیریت پوچھنے پر پتہ چلا کہ چوتھے مہمان کی آمد آمد ہے۔ اس کی چوتھی پریگننسی بہت سخت رہی اور سی سیکشن کے بعد اللہ تعالٰی نے گل گوتھنا سا شہزادہ اس کی گود میں ڈال دیا۔
اب میرا زیادہ وقت وینکوور میں ابصار کے گھر گزرتا کہ پوتا پوتی کی شکل میں اللہ تعالیٰ نے مجھے بھی زندہ کھلونے دے دیے تھے اور انصار کی شادی کے بعد اس کی طرف سے بھی بے فکری تھی۔ رمشا میری چھوٹی بہو اور بلقیس میں بڑا بہناپا تھا۔
دو بیڈ روم کا فلیٹ اب بلقیس کے لیے بہت تنگ پڑ گیا تھا اور وہ قادر کی اگلی پے ریز کی منتظر تھی کہ کم از کم تین بیڈ روم کا فلیٹ کرائے پر لے لے مگر ٹورانٹو میں تو رینٹل پراپرٹی میں گویا آگ لگی ہوئی تھی اور اس جگہ سے دور وہ جانا نہیں چاہتی تھی کہ یہاں سے اسکول، مسجد اور گروسری کی دکان سب دس منٹ کے فاصلے پر۔ اس کی شادی کی پندرھویں سالگرہ قریب تھی اور وہ اس بار قادر کے لیے سرپرائز پارٹی کا مکمل منصوبہ بنائے ہوئے تھی۔ اس کے لیے آن لائن شاپنگ کر چکی تھی اور قادر کا تحفہ محبت سے پیک کر کے میری الماری میں رکھوا دیا تھا۔ پیک شدہ تحفہ پر وہ دیر سے
بے خبری میں محبت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے بے اختیار مسکرا رہی تھی۔ کبھی کبھی اس کی جنوں خیز محبت مجھے ڈرا دیتی تھی۔ میں نے ایسے ہی چھیڑا کہ بلقیس کیا تم قادر کے نام کی تسبیح بھی پڑھتی ہو؟
اپنی مخصوص چھناکے دار ہنسی کے ساتھ بولی ” خالہ میری تو آتی جاتی سانسیں ہی اس کے نام کی ردم پر چلتی ہیں۔”
میں نے کہا لڑکی، تم دیوانی ہو۔
مئی کے مہینے میں ابصار کی طرف وینکوور چلی گئی کہ دلہن کے یہاں خوش خبری تھی۔ بلقیس نے بھی میرے ساتھ ننھے مہمان کے لیے ڈھیر ساری سوغات بھیج دی تھی اور مجھ سے وعدہ لیا کہ میں اس کی شادی کی سالگرہ کی تقریب سے پہلے وآپس آ جاؤ ں گی۔
مجھے وینکوور پہنچے بمشکل ایک ہی ہفتہ ہوا تھا، وہ اتوار کا دن تھا اور میں ننھے ارحم کی مالش کر رہی تھی کہ فون کی گھنٹی پر ابصار نے چہکتے ہوئے فون اٹھایا مگر لمحے بھر ہی میں اس کی آواز کی دہشت اور چہرے کی سفید رنگت نے مجھے بے چین کر دیا۔
الہی خیر ! انصار اور دلہن خیریت سے ہیں نا؟
ابصار نے مجھے پکڑ کر پلنگ پر بیٹھایا اور بڑی دلہن کو پانی کے لیے آواز دی۔
میرا دل گھبرا رہا ہے ابصار جلدی بتاؤ کیا ہوا ہے؟
امی قادر بھائی اور ان کی فیملی ملٹن جا رہے تھے کہ گاڑی کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔
اللہ خیر سب ٹھیک تو ہیں؟
امی ! سب مخدوش حالت میں ہسپتال میں داخل ہیں۔
میرا دل ڈوب گیا، ہائے میری بچی!
ائیرپورٹ پر انصار لینے آیا تھا اور وہ وہیں مجھ سے لپٹ کر بلک بلک کر رونے لگا۔
امی! باجی، سلیمان اور ہادیہ نہیں رہے.
روتے بلکتے گھر پہنچی، میرے سمجھ ہی میں نہیں آ رہا تھا کہ میں قادر کو کن الفاظ میں تسلی دوں؟ قادر، نوریہ اور یوسف معجزاتی طور پر بچ گئے تھے۔
قادر مجھے دیکھتے ہی میرے گلے لگ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگا۔ اس نے بتایا کہ سڑک کراس کرتے ہرن کو بچانے کی کوششوں میں گاڑی گڑھے میں جا گری۔ ہم سب بہت زخمی نہیں تھے۔ بلقیس نے اپنے زخموں کی پروا نہ کرتے ہوئے یوسف اور نوریہ کو گاڑی سے نکالا پھر بڑی مشکل سے مجھے نکلنے میں مدد دی کہ گاڑی اسی پہلو سے الٹی تھی، وہ جنونی طور پر سلیمان اور ہادیہ کو بچانےکی کوششوں میں ہلکان تھی کہ گاڑی سے لیک ہوتے پیٹرول نے آگ پکڑ لی اور وہ تینوں بھڑکتے شعلے کی نذر ہو گئے ، سیکنڈ سے بھی کم میں سب کچھ ختم ہو گیا۔
ماں تھی نا بیٹا، اپنی جان کی پروا ہ کیسے کرتی، اور تم پر تو وہ ویسے ہی پل پل نثار رہتی تھی
سو تمہیں اپنی جان پر کھیل کر بچا ہی لیا۔
مجھے قادر کا بڑا دکھ تھا بھلا چونتیس پینتیس سال کوئی عمر ہے اجڑنے کی؟
پر مشیت ایزدی کے آگے کس کی چلی ہے۔ قادر کے والدین کو بیٹے کے دکھ نے نڈھال کیا ہوا تھا۔وہ لوگ اب قادر کے ساتھ رہنے لگے تھے اور ان ہی کی وجہ سے نوریہ اور یوسف سنبھل گئے۔
دو سالہ یوسف تو دادی کو ایک پل کے لیے نہیں چھوڑتا تھا۔ شروع کے دنوں میں یوسف پورے گھر میں بلقیس کو پکارتا چلتا، جب تھک کر بے دم ہو جاتا تو اس کا ڈوپٹہ یا اسکارف لے کر کسی کونے میں نڈھال پڑ جاتا، مگر کب تک؟
بے بس ہو کر بالآخر دادی کی گود میں پناہ لی۔ بہت کمزور اور چڑچڑا ہو گیا تھا۔ بھرے پرے گھر کی چہک اور رونق ختم ہو گئی تھی۔ بچوں اور گھر کی دیکھ رکھ میں دادی غریب الگ ہلکان تھیں۔
میں اکثر ان کے پاس جا کر بیٹھ جاتی اور جو بھی بن پڑتا کر دیتی۔ وہ گھر جہاں قہقہے اور زندگی تھی وہاں ویرانی اور خاموشی نے ڈیرے ڈال لیے تھے۔ ہفتوں سب الٹ پلٹ رہا مگر گزرتا وقت اور نسیان دو ایسی بیش بہا نعمتیں ہے جو زخموں پر کھرنڈ ڈال ہی دیتی ہیں۔ سوگ کے دنوں میں قادر کے گھر، اس کی ایک دور پار کی کزن کی آمد و رفت بہت بڑھ گئی تھی، اتنی زیادہ کہ وہ ہر فیصلے کی مشیر اور گھر کے فرد کی زندگی میں دخیل ٹھہری۔ وہ بلاشبہ ایک خوب صورت اور دلکش لڑکی تھی۔ بلقیس کے گھر میں تیزی سے درآتا بدلاؤ اور نارمیلسی حیران کن تھا۔ میری تجربہ کار بوڑھی آنکھیں بہت کچھ دیکھ رہی تھیں۔
مجھے حیرت اور دکھ بس اس بات کا کہ کیسا دوغلا معاشرہ ہے ہمارا، کیا ہم کسی تیس پینتیس سالہ بیوہ کے لیے اتنے فراخ دل ہو سکتے ہیں کہ اس کی دوسری شادی کے لیے متفکر ہوں؟ اس بےبس عورت کی تنہائی تو ہمارا دل نہیں پگھلاتی جبکہ عورت صنف نازک بھی ۔ اس کے لیے یہ کیوں طے کر لیا جاتا ہے، کہ بس اب کی ذاتی زندگی ختم، سو اب وہ خواہشوں، جذبوں اور موسموں سے دستبردار ہو کر کولہو میں جت جائے اور اطراف سے بےنیاز ہو کر بچوں کی پرورش میں تن من سب جھونک دے۔ اس کے کمزور کاندھوں پر بچوں کی دیکھ ریکھ کے ساتھ ساتھ معاش کی کُل ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے اور اس پر طرفہ ستم یہ کہ اس سفر پرخار میں ہر ہر فٹ کی مسافت پر زبان لپلاپاتے ہوئے خون آشام بھیڑیے اس کی عزت اور جان کے درپے بھی رہتے ہیں۔ خدا کی وہ کمزور مخلوق ممتا کی ردا اوڑھے ہر آزمائش اور ابتلا سے گزر جاتی ہے اور بعض بد قسمت تو اس کٹھالی سے گزرنے کے باوجود آخری عمر میں خالی ہاتھ رہ جاتی ہیں۔
آخر مرد ہی کے معاملے میں معاشرے کی ممتا کیوں ابل ابل کر پھوٹتی ہے؟
صنف قوی اکلاپے کی اذیت کیوں نہیں سہ سکتا؟ کیوں اپنے بچوں کی ماں بن کر پرورش نہیں کر سکتا؟ اس کے پاس تو معاش بھی ہے اور وہ معاشرے سے خوف زدہ بھی نہیں کہ وہ خود ہی تو معاشرہ ہے۔ جب عورت باپ بن سکتی ہے، کمزور ہوتے ہوئے نفس سے لڑ سکتی ہے تو مرد کیوں نہیں؟
اوّل تو کوئی عورت کو سہارا دینے کا روادار نہیں بالفرض محال کسی نے دکھیاری کو سہارا دے بھی دیا تو اس سہارے کے عوض اس کی اور اس کے بچوں کی سانسیں رہن رکھ لی جاتی ہیں۔
میری توقع سے بھی پیشتر قادر کی شادی کا کارڈ میرے ہاتھوں میں تھا۔
شادی کا کیا ہے؟ شادیاں تو دیر یا سویر ہو جاتی ہیں کہ کمزور مرد نہ وچھوڑ ا سہہ سکتا ہے اور نہ ہی ہجر کاٹ سکتا ہے۔
میں دلگیر تھی، کہ مجھے شدید رنج محبت کی رپلیسمنٹ کا تھا۔ کیا محبت جیسا آفاقی جذبہ اتنا ہلکا اور خام ہے کہ ہجر کی تپش بھی نہ سہار سکے۔قادر ایسا بے قدر کہ پندرہ سالہ رشتے کا بھرم پندرہ مہینے تو کیا، پندرہ ہفتے بھی نہ رکھ سکا۔ وہ جان نثار کم از کم اتنے کی مستحق تو تھی ہی۔ مجھے تو یقین ہے وہ کملی وہاں بھی اسی کے نام کی تسبیح پھرولتی ہو گی۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...