کچھ عرصے پہلے ایک انڈین فلم آئی تھی “چھپ چھپ کے” جس میں کچھ ایسا دکھایا گیا تھا کہ ایک لڑکا جس کا نام جیتو ہےقرض داروں میں پھنس گیا ہے خودکشی کی کوشش کرتا ہے تاکہ انشورنس کی رقم سے قرض ادا ہوسکے مگر اس کے بعد ایک بڑی مزاحیہ سچویشن کا آغاز ہوتا ہے وہ کہیں اور پہنچ جاتا ہے اور وہاں گونگا بن کے رہتا ہے اور اسے کسی اور نام سے بلایا جانے لگتا ہے مگر کچھ عرصے بعد وہ اپنے ایک بے وقوف سے ساتھی کو اپنے گھر بھیجتا ہے تاکہ حالات پتا کیے جاسکیں اور قرض کی ادائیگی کی کوشش کی جاسکے۔ مگر اسے یہ نہیں بتاتا کہ وہ ہی جیتو ہےلہذا وہ بے وقوف ساتھی جیتو کا ذکر ہمیشہ “مرا ہوا جیتو” کہہ کر کرتا رہتا ہے۔
یہ تو تھا مرے ہوئے جیتو کا بیک گراونڈ مگر کچھ مرے ہوئے جیتو ایسے ہیں جو ہمارے ہاں بھی ہر گھر میں موجود ہیں اور ان کا نام لے لے کر کئی جذباتی بلیک میلنگ کی جاتی ہے۔ اس کا سب سے زیادہ مظاہرہ شادی بیاہوں کے موقع پہ دیکھنے میں آتا ہیں۔ جہاں کئی مرحومین کے نام سے دونوں فریقین سے خرچے کروائے جاتے ہیں۔ خاص کر دولہا والوں کا بس چلے تو وہ اپنے پانچ پشتیں پہلے کے مرے ہوئے جیتو، سوری مرحومین تک کے لیے پہناونی کے جوڑے اور زیورات لے لیں۔
یہ “مرے ہوئے جیتو” گھر کی غیر منطقی روایات کے اختتام کی راہ میں سب سے بڑی دیوار ہوتے ہیں۔ حد یہ کہ سالن میں پہلے بگھار ہو یا بعد میں یہ بھی مرے ہوئے جیتو ڈسائیڈ کرجاتے ہیں اور نئی نسل کے لیے اس سے انحراف ممکن نہیں۔ میاں بیوی کے درمیان ان کے خاندان کے زندہ انسانوں سے زیادہ مرے ہوئے جیتو کی موجودگی ہوتی ہے۔ دونوں اپنے اپنے مرحومین سے اپنی عقیدت کے اظہار کے لیے ایک دوسرے کے جذبات سے صرف نظر کرتے رہتے ہیں۔ تاکہ جب یہ مرے ہوئے جیتو بن جائیں تو ان کی اولاد ان کے جذبات کے احترام میں زندہ انسانوں کا جینا حرام کرے۔
ہمارے معاشرے میں کئی مرے ہوئے جیتو زندہ انسانوں کی زندگیوں کے فیصلے تک کرجاتے ہیں۔ کس کی شادی کس سے ہوگی؟ کس کو گھر کا کونسا حصہ ملے گا؟ کون بڑے ہوکر کیا بنے گا؟ یہ سب عموما گھروں میں مرے ہوئے جیتو بتا کے جاتے ہیں مسئلے کی بات یہ ہے کہ زندہ انسانوں کی زندگیوں کو مردہ انسانوں کی مرضی کے مطابق چلانا تقریبا ناممکن ہے۔ مرا ہوا جیتو جتنا عرصہ، قدیم ہے اس کے فیصلے اسی زمانے کی مطابق ہیں اب ان فیصلوں کی میچنگ تو کیا کنٹراسٹ بھی نہیں مل سکتا۔ کہ چلو کنٹراسٹ بنا کر ہی سہی کہیں تو اچھا لگے۔
ہمارے یہاں ویسے بھی زندہ انسان کی اہمیت مرے ہوئے جیتو سے کم ہے۔ اگر آپ بہت عظیم انسان ہیں آپ نے ملک کے لیے بہت خدمات پیش کی ہیں تو سب جائے بھاڑ میں جب تک آپ مرے ہوئے جیتو نہیں بن جاتے آپ کو کوئی گھاس نہیں ڈالے گا۔ اور جیسے ہی آپ مرے ہوئے جیتو کے عہدے پہ فائز ہونگے تو سب سے پہلے نئی نسل اپنی ڈی پی پہ آپ کو سجائے گی۔ ہر ٹی وی چینل کا مارننگ شو والا یہ دعوا کرے گا کہ آپ اس کے سب سے قریبی تھے۔ اور سب سے آخر میں مرنے سے پہلے پہلے آپ نے اسے ہی کال کی اور اپنی قربت کا یقین دلایا تھا۔ آپ فورا کچھ لوگوں کے خواب میں آجائیں گے۔ جیسے مرنے سے پہلے بکنگ ہوئی ہو۔ کہ مرنے کے پہلے آدھے گھنٹے میں فلاں فلاں کے خواب میں آنا ہے اور مزید اگلے دن فلاں فلاں کے۔ اور آپ تب تک ان رہیں گے جب تک کوئی دوسری عظیم شخصیت مرا ہوا جیتو نہیں بن جاتی۔
اپنی زندگی میں آپ کو پوری پاکستانی عوام سے بلا تفریق عزت چاہیے تو آپ کو یا تو کرکٹ کی سیریز جتوانی پڑے گی یا پاک فوج کی قیادت کرنی پڑے گی۔ ورنہ مرا ہوا جیتو بننے تک انتظار کیجئے۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...