“کتنے بندے لاؤ گے؟” عاصمہ جہانگیر نے فون پر پوچھا۔ جتنے آپ کہتی ہیں، میرا جواب تھا۔ گوجرانوالہ میں مذہبی جنونی قوتوں نے ایک ایسی میراتھن ریس کو روک دیا تھا جس میں سکولوں کے طلبہ اور طالبات نے اکٹھے حصہ لینا تھا۔
“یہ کیا بات ہوئی؟ کیا ہم بچوں کو بھی اکٹھے رہنے، پڑھنے اور کھیلوں میں حصہ نہ لینے دیں گے؟” عاصمہ کہہ رہی تھیں۔ “اب ہم ان کو بتائیں گے کہ ہم ملاؤں کے یہ جبری ضابطے نہیں مانتے۔ ہم اکٹھے دوڑیں گے، اکٹھے میراتھن ریس میں حصہ لیں گے”-
ہم سب جوائنٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائٹس والے اس پر متفق تھے۔ عاصمہ جہانگیر حال چال پوچھنے کی بجائے ڈائریکٹ بات کرتی تھیں۔ جو مطلب ہوتا تھا فون کرنے کے بعد وہ ان کا پہلا فقرہ ہوتا تھا۔
پروگرام طے پا گیا کہ لبرٹی چوک سے قذافی سٹیڈیم تک میراتھن ریس کریں گے۔ یہ ہمارا جواب تھا ملاؤں کو۔
جنرل صاحب مولویوں سے ڈر، ویسے ڈرتے ورتے کسی سے نہیں تھے
یہ 14 مئی 2005 کی بات ہے؛ جنرل مشرف کی حکومت تھی۔ پرویز الٰہی وزیر اعلیٰ پنجاب تھے۔ حکومت نے طے کر لیا کہ یہ میراتھن نہیں کرنے دیں گے۔ وہ مولویوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے۔ ہم نے بھی طے کر لیا کہ ہم یہ ریس ضرور لگائیں گے۔
عاصمہ جہانگیر نے مجھے کہا کہ آپ کے ساتھ محترم اقبال حیدر (مرحوم) ہوں گے۔ ہم نے انہیں ریلوے سٹیشن پہنچنے کو کہا۔ روکے جانے کے ڈر کی وجہ سے ہم نے اپنے دفتر میں اکٹھے ہونے کی بجائے ساتھیوں کو ریلوے سٹیشن پہنچنے کو کہا تھا۔ معین نواز پنوں ہمارے ٹریڈ یونین کے رہنما کے ذمے رستم سہراب سائیکل فیکٹری کے محنت کشوں کو موبلائز کرنا تھا۔ محمود بٹ کے ذمے بھٹہ مزدوروں کو لانا تھا۔ عذرا شاد، نازلی جاوید اور رفعت مقصود نے عورتوں کو لے کر عاصمہ کے دفتر نزد لبرٹی چوک پہنچنا تھا۔
دو ویگنوں کا انتظام تھا۔ اقبال حیدر نہ پہنچ سکے۔ ریلوے سٹیشن سے یہ دونوں ویگنیں قذافی سٹیڈیم روانہ ہوئیں۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں 13 فروری 2018 کو ہم نے عاصمہ جہانگیر کا جنازہ پڑھا تھا۔
بہادر ڈرائیورز نے پولیس کا حصار توڑتے ہوئے ویگنیں سٹیڈیم کے اندر بھگا دیں-
قذافی سٹیڈیم کو پولیس نے گھیرا ہوا تھا۔ میں نے ڈرائیورز کو کہا ہوا تھا، رکنا نہیں سیدھا اندر جانا ہے۔ بہادر ڈرائیورز نے پولیس کا حصار توڑتے ہوئے ویگنیں سٹیڈیم کے اندر بھگا دیں۔ پولیس نے منٹوں میں ہمیں روک لیا۔ اسی دوران مجھے فون آ گیا کہ عاصمہ کے دفتر کو بھی پولیس نے گھیرا ہوا ہے۔
ہم سب کو جو پچاس کے لگ بھگ ہوں گے پولیس نے گھیرے میں لے لیا۔ پھر مجھے فون آیا کہ عاصمہ کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ میں نے پولیس کے گھیراؤ میں یہ بات سنی اور اس پر کوئی ردعمل نہ دیا۔ ڈی ایس پی کو کہا کہ میراتھن کینسل ہو گئی ہے۔ ہم واپس جانا چاہتے ہیں۔ اس نے یقین کر لیا۔ اور ہمیں کہا ویگنیں واپس بھیج رہا ہوں، آپ علیحدہ علیحدہ چلے جائیں۔ جلوس بنا کر واپس نہ جائیں۔ سب دوستوں کو ہدایت کی کہ واپس ہو جائیں۔ اور یہ بھی اشاروں کنایوں میں سمجھا دیا کہ عاصمہ کے دفتر واقع مین بلیوارڈپہنچنا ہے۔
محمود بٹ اور میں دونوں تیزی سے مین بلیوارڈ کی
طرف چلے۔ بٹ کو بتا دیا کہ عاصمہ گرفتار ہو گئی ہیں، ان کی گرفتاری پر احتجاج کرنا ہے۔
مرحوم اظہر جعفری فوٹوگرافر سے سیکھا ہوا گرفتاری دینے کا گر
جیسے ہی ہم مین بلیوارڈ پہنچے تو ہر طرف پولیس ہی پولیس تھی۔ میں نے نعرے لگانے شروع کیے، “عاصمہ کو رہا کرو”۔ صرف بٹ ہی جواب دے رہا تھا۔ بس سیکنڈز میں مجھے پولیس نے اٹھا لیا۔ مجھے کچھ گرفتاری دینے کا تجربہ تھا۔ یہ گر مجھے مرحوم اظہر جعفری فوٹوگرافر نے 2001 میں آے آر ڈی کی مہم کے دوران سمجھایا تھا کہ آرام سے گرفتار نہیں ہونا، مزاحمت کرنی ہے۔ اگر پریس وہاں موجود ہے تو اتنی مزاحمت کرنی ہے کہ وہ اپنا کام کر سکیں، کچھ فوٹو وغیرہ کھینچ سکیں۔
میں زمین پر لیٹ گیا، مجھے پولیس اٹھا کر لے جا رہی تھی، مجھے جب پولیس وین میں پھینک رہے تھے، میں مسلسل نعرے لگا رہا تھا۔ پھر جب مجھے بالوں سے پکڑ کر دھکا دیا تو میں اندر پھینکا گیا۔ میں پھر بھی نعرے لگا رہا تھا۔ تب مجھے آواز آئی، “بس کرو، اب تم پولیس وین کے اندر ہو”۔ یہ تحسین (ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ) تھے جو مجھ سے قبل گرفتار ہو چکے تھے۔ ناصر اقبال بھی تھا۔ عرفان برکت بھی تھا۔ حنا جیلانی بھی تھیں۔ مدیحہ گوہر بھی تھیں۔
کچھ دیر پہلے یہاں سے عاصمہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ عذرا شاد کا تو پولیس والیوں نے گلا ہی تقریباً دبا دیا تھا۔ وہ سانس لینے سی بھی قاصر تھیں۔ رفعت مقصود لڑتے لڑتے گرفتار ہوئیں۔
اب نازلی جاوید کو کون اٹھائے
نازلی جاوید بھاری بھر کم ہیں۔ وہ زمین پر بیٹھ گئیں۔ کئی پولیس والیاں اسے اٹھانے کی کوشش کر رہی تھیں۔ مگر ناکام۔ نازلی جس پر ہاتھ ڈالتی تھیں، وہ ہائے ہائے کرنے لگ جاتیں۔ نازلی کو وہ اٹھا ہی نہ سکے۔ اس کے لئے انہیں کرین چاہیے تھی۔ وہ گرفتار نہ ہو سکیں۔
ہمیں پولیس سٹیشن لے گئے، کچھ دیر بعد رہا کر دیا۔ ہم سارے ریس کورس پولیس سٹیشن آ گئے جہاں عاصمہ جہانگیر بھی موجود تھیں۔ ہمارے ساتھی جان بلوچ ایڈووکیٹ (مرحوم) کا پتہ نہیں چل رہا تھا۔ ہم نے ان کی رہائی تک دھرنا دے دیا۔ ہم کوئی چالیس افراد
گرفتار ہوئے تھے۔
اسی دوران میں نے دفتر والوں کو فون کیا کہ اخباروں کو فیکس کر دو کہ کل پھر میراتھن ہو گی۔ ہم اکٹھے دوڑیں گے اس پر کوئی کمپرومائز نہیں۔
کپتان مبین شہید سے مذاکرات
ہمارے ساتھ مذاکرات ایس پی مبین کر رہے تھے۔ یہ وہی پولیس افسر پیں جو 2017 کے آغاز میں چیئرنگ کراس پر ایک خودکش حملے میں شہید ہوئے تھے۔
عاصمہ نے ان سے کہا کہ کہ ہم اب تو کوئی میراتھن نہیں کر رہے، ہمارے ساتھی کو رہا کریں۔ کیپٹن مبین نے کہا کہ آپ تو کل پھر میراتھن کر رہی ہیں۔ عاصمہ حیران ہو گئیں کہ یہ کیسے ہوا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایک دفعہ پھر میراتھن کا اعلان کیا ہے۔ عاصمہ جی نے مجھے کہا اعلان واپس لو، ان کے ذہن میں کچھ اور چل رہا تھا۔ دفتر والوں کو کہا کہ نئی فیکس کر دیں کہ اگلے اتوار میراتھن نہیں ہو گی۔ جان بلوچ کی رہائی پر ہم رات گئے وہاں سے واپس ہوئے۔
عاصمہ نے مجھے کہا کہ میراتھن تو لازمی کرنی ہے لیکن مزید تیاری کے ساتھ اور کچھ وقت لے کر۔
عاصمہ جہانگیر بمقابلہ جماعت اسلامی
دوبارہ جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ اب بڑی موبلائزیشن کریں گے اور میراتھن ہو گی۔
جماعت اسلامی سمیت دیگر مذہبی تنظیموں نے میراتھن کو روکنے کا اعلان کر دیا۔ اب یہ بڑی خبر بن گئی۔ 21 مئی کو دوبارہ میراتھن کا اعلان کر دیا گیا۔
عاصمہ جہانگیر نے مجھے، عرفان مفتی اور عرفان برکت کو علیحدہ بلا کر کہا کہ پچھلی گرفتاری کے دوران چند افراد نے انہیں ٹچ کیا تھا۔ ہم نے کہا کہ آپ کی مکمل سیکورٹی کریں گے، کوئی آپ کے پاس نہیں پھٹکے گا۔
سینکڑوں افراد عاصمہ کے گھر جمع ہو گئے۔ جماعتئے لبرٹی چوک پر اکٹھے تھے۔ ہم جلوس کی صورت میں لبرٹی چوک پہنچے۔ عاصمہ کو ہم چند نے گھیر رکھا تھا۔ پولیس نے دونوں گروہوں کے درمیان زنجیر بنا رکھی تھی۔ اس دفعہ ہمیں روکا نہیں جا رہا تھا۔
اور پھر عاصمہ نے مذہبی جنونیت کی پابندیوں کو توڑ کر رکھ دیا
دوڑ شروع ہوئی تو عاصمہ نے میرا اور عرفان برکت کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ یہ ہمارا ردعمل تھا کہ ہم عورتیں اور مرد اکٹھے دوڑنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی پکڑیں گے۔ قذافی سٹیڈیم پہنچے تو کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں اوپر کھڑے ہو کر عاصمہ بات کر سکتیں۔ ایک پولس وین کھڑی تھی۔ میں اس کے انجن پر چڑھ گیا اور عاصمہ جہانگیر کو بھی اوپر بلایا۔ اب پولیس وین ہمارے لئے سٹیج بن گئی تھی۔
عاصمہ جہانگیر نے وہ کام کر دکھایا جو ملا نہیں چاہتے تھے۔ مذہبی جنونیت کی پابندیوں کو توڑ کر رکھ دیا۔
کل اسی جگہ ہم نے عاصمہ جی کا جنازہ پڑھا۔ میں نے ایک بار پھر میں عاصمہ جی کو ذہن میں رکھ کر نعرے بازی کی۔ بھرپور جواب ملا۔
عاصمہ کی روح کو زندہ رکھنے کا عزم ان کے جنازے سے ہی شروع ہے۔
“