ہمارے سینئر لکھاری اور افسر دوست اقبال دیوان نے مکالمہ ڈاٹ کام پر ایک آنٹی بی پر بلاگ داغا جو اتنا ہی مقبول ہوا جتنی مانی اور حِرا کی پیار کہانی ۔ مجھے اقبال بھائ نے کمینٹ کے لیے کہا اور میں پڑھ کر بے اختیار ہنستا رہا ۔ میں بھی کسی زمانے میں ۳۴ بی فیز ٹُو کراچی ڈیفینس میں رہا اور اس کے سامنے فیز ون کی billies سپر مارکیٹ کے باربی کیو سے محظوظ ہوتا رہا اور ایسے قصہ اور کہانیاں سنتا رہا ۔ مجھے شہاب نامہ جیسی تحریروں نے کبھی متاثر نہیں کیا اور نہ ہی سرفراز شاہ اور احمد رفیق جیسے بابوں نے ۔ ہاں صوفی بزرگوں سے بہت زیادہ سیکھا جن میں میرے اپنے گجر بھرا میاں محمد بخش ۔ دُکھ یہ ہوتا ہے کے آج ان سب کو سمجھنے کی بجائے یہ کہ کر پُوجا جاتا ہے کے ان کو کرامات اوپر سے نازل ہوئیں اور نتیجہ یہ ہوا کے آج ان کے مزار فحاشی اور دوکانداری کے اڈے بن گئے ۔ اگلے دن ایک دوست نے ایک قمیض پینٹ والے شخص کی وڈیو بھیجی جس نے علم لدنی کو اللہ تعالی کا خاص آدمیوں پر خاص علم کہا اور فرمایا کے یہ وہ علم ہے جو کے قرآن شریف اور احادیث کے بھی باہر اللہ تعالی کچھ لوگوں کو عنایت کرتا ہے ۔ دراصل ایسے لوگ بمعہ خادم رضوی پھانسی کے قابل ہیں ۔ یہ لوگوَں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ میں اس ساری بحث کو Zen ماسٹر ، جان ٹیرینٹ کے اس جملہ پر ختم کرنا چاہوں گا جو انہوں نے دراصل دھیان کے اصل فوائد بیان کرتے ہوئے کہا
“The earth begins to speak to you rather than heavens sending you messages, so to speak”
ہم سب یونیورس ہیں ، میرے اندر آپ کے اندر پوری کائنات ہے ۔ ایک وحدنیت میں پروئے ہوئے ہیں ۔ ہمارا ہر قدرتی عمل مراقبہ ہے اور اس کے برعکس سائنس فکشن یا مادہ پرستی والا ۔ میں ایک اپنی لکھائ کے زریعے اس وقت آپ سے اپنا mind شئیر کر رہا ہوں ، یہ بھی مراقبہ ہے ۔ جُوڈی لیف اپنے ایک مضمون بعنوان dharma of distraction
کے ایک جملہ میں کیا خوبصورتی سے اسے بیان کرتی ہے ۔
“Writing is also sort of meditation, in meditation , you become intimate with your stories in order to see through them and let them go”
کہتی ہے جس طرح مراقبہ یا دھیان آپ کی distraction کو پرے ہٹاتا ہے ، لکھاری کی کہانی بھی ۔ اسلام کے بارے میں کہا جاتا ہے کے یہ دین فطرت ہے ۔ ہمارے دین میں ہماری زندگی کا ایک ایک لمحہ عبادت ہے ۔ یہ عبادت تب بنتا ہے جب ہم قدرتی زندگیاں گزارنا شروع کرتے ہیں ۔ بلکل اسی طرح مراقبہ یا دھیان کی زندگی تب بنتی ہے جب worldly distractions سے آپ نجات حاصل کر پاتے ہیں ۔ یہ دراصل دو دنیا ہیں ایک اسٹیفن ہاکنگ کی agnostic اور سائینس کی دنیا ہے جس پر ۹۹ فیصد عمل ہو رہا ہے اور دوسری اس کے برعکس قدرتی زندگی ، عبادت اور مراقبہ والی جو بمشکل میرے جیسے ایک فیصد گزار رہے ہیں ۔ جان ٹیرنٹ نے ہی نے کہا تھا کے میں جب کسی ناواقف شخص سے ملتا ہوں تو اس کے credentials اور دنیاوی شناخت ہٹا دیتا ہوں ۔ اس نے مزید کہا کے
“Credential is sort of barrier”
اسی کو ہمارے دانشور دوست اسلم ڈوگر کہتے ہیں کے سرکاری افسر کو ہمیشہ اس کا عہدہ ہٹا کر ملو ۔ یہی رکاوٹ ہے ہمیں اپنی قدرتی زندگیوں کی طرف لوٹنے میں ۔ میں نے صوفیا کے اقوال سے اپنا نقطہ نظر اس لیے نہیں سمجھایا کے دوکانداروں نے ان کو بھی بہت غلط پیش کیا وہ سب انسان تھے حضرت محمد ص کی طرح ، جیسے محمد ص کی روشنی انہیں پیغمبر بنا گئ ، بزرگان دین اور تصوف انہیں دنیا کا راز پانے میں مدد دے گیا ۔ ہمارے لیے ہدایت اور بہتر زندگیوں کے لیے اللہ تعالی اور اس کے نبی کا راستہ افضل ترین ہے ۔ اسی وحدنیت کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رکھیں، اسی میں دنیا اور اگلے جہاں کی کامیابی ہے ۔ بہت خوش رہیں ۔
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...