میکسیکن افسانہ
(ہسپانوی زبان سے )
ماراکُویا ( Maracuyá)
اَگستن کیڈنا (Agustín Cadena)
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
ہم بحیرہ مردار کے اسی تفریحی مقام پر گئے جہاں ’ داشا ‘ وہاں دوبارہ جانا چاہتی تھی ۔ وہ چھ سال پہلے وہاں گئی تھی اور اس کا کہنا تھا کہ یہ بہت ہی زبردست مقام تھا ؛ ہر گرمیوں میں ، اگست کے مہینے میں ، ملاحوں کی یہ بستی ، سیاحوں کے لئے کریمیا کی سب سے زیادہ اور بڑی دلچسپ جگہ بن جاتی تھی ۔ ہفتہ بھر کے لئے ، اس کے ریستوراں ، شراب خانے اور کلب چوبیس گھنٹے کھلے رہتے اور سلواک ملکوں کے علاوہ دور دراز جگہوں کے سیاحوں کی میزبانی کرتے ۔ داشا بہت اشتیاق سے ساحل کے کنارے ان صبحوں کو یاد کرتی جب وہ وہاں نشے میں دھت جوڑوں کے درمیان ناچتی رہی تھی ؛ یہ جوڑے نہ سمجھ میں آنے والی اجنبی زبانوں گانے گاتے اور ساحل کی ریت پر ہم بستری کرتے اور پھر ایک دوسرے کی بانہوں میں لپٹے سو رہے ہوتے ۔
میں نے ، ایک تو ، اپنے تجسس کی وجہ سے اس کے ساتھ اتفاق کیا لیکن میں یہ بھی چاہتا تھا کہ داشا کو آرام بھی میسر آ جائے ۔ وہ اپنے جسم کی خوبصورتی ، جو اب بالی عمریا والی نہیں رہی تھی ، کا ’ پیپ شوز‘ * میں استعمال کرکے اور 20 یوروز کے عوض موٹے سیاحوں کے ساتھ ’ فلیشیو ‘ * کرتے کرتے ، کام سے بیزار ہو چکی تھی ۔
ہم نے ، چنانچہ ، اپنے سارے پیسے اکٹھے کیے اور اگلے روز ، اُس ریل گاڑی پر سوار ہو گئے جو ’ کارپیتھین ‘* پہاڑوں کے چیڑ کے جنگلات میں سے گزرتی یوکرائن کی زیریں زمینوں کی طرف رواں دواں تھی ۔ پیسے بچانے کی خاطر ہم ’ سلیپر‘ * نہیں لینا چاہتے تھے ۔ یوں ہم نے یہ سارا سفر ایسی بوگی میں کیا جس میں ہم صرف بیٹھ ہی سکتے تھے ؛ دن میں ہم باتیں کرتے ، پڑھتے ، کھڑکی سے باہر مضافات کا نظارا کرتے ، گھنٹے دو گھنٹے کے لئے ان ہمسفروں کے ساتھ گفتگو کرتے جو راستے میں آنے والے کسی نزدیکی قصبے میں جانے کے لئے ہمارا ساتھ دیتے ۔ رات میں ہم میں سے ایک پہرے پر رہتا تاکہ کوئی ہمارے پٹھو نہ چرا لے جبکہ دوسرا سارے کپڑے اور جوتے پہنے ، ٹھنڈ کے باوجود ، کچھ دیر سونے کی کوشش کرتا ۔ ہمیں ، اگر بھوک لگتی تواسے مٹانے کے لئے ہمارے پاس نمکین بسکٹ تھے۔
ہم ، جب وہاں پہنچے تو ہم تھکے ہونے کے ساتھ ساتھ بھوکے بھی تھے ۔ ہم میں بس اتنی ہی طاقت تھی کہ ہم ساحل کے ایک ، کم و بیش نسبتاً خاموش حصے میں اپنا خیمہ لگا سکیں ۔ اور بالآخر وہاں سمندر تھا ۔ سمندر ، جو ہمیشہ سے تھا ، وقت کی قید سے آزاد تھا ، زندگی کو بھرپور طریقے سے گزارنے کی چاہ پیدا کرتا تھا ۔ یہ ایک ایسی جگہ تھی جہاں بندہ لافانی طور پر جوان رہ سکتا تھا اور جہاں محبت انمِٹ تھی ۔ ہم ، ایک دوسرے سے بات کیے بِنا دیر تک اس بات پر غور کرتے رہے ۔
ہم نے اپنا سارا سامان خیمے میں چھوڑا اور قصبے میں گئے تاکہ کھانے کے لئے کچھ تلاش کر سکیں ۔ یہ ویسی ہی جگہ تھی جیسی کہ داشا نے بتائی تھی ، ایک روشن اور شاعرانہ جگہ جیسے قدیم نظموں کی کتاب میں لکھی ایک نظم ہو ۔ پرانے گھروں اور دکانوں کی بل دار اور اونچی گلی ایک پہاڑی پر جاتی تھی جس کی چوٹی پر ایک گرجا گھر تھا جس کے دو منیاروں پر سنہری پیاز نما گنبد تھے ۔ پالش کردہ دھات کی چمک ، آوازیں اور خوشبویات ۔ ۔ ۔ ایسا لگتا تھا جیسے ہم کھڑکی کے شیشے کے پار دیکھ رہے ہوں ، شیشہ جو حقیقت کو خوابوں سے الگ کر رہا ہو ۔
ہم ، گو ، بھوک سے مرے جا رہے تھے لیکن ہم کسی ریستوران میں نہیں جانا چاہتے تھے ؛ ہم نے آپس میں یہ طے کیا تھا کہ پیسوں کے استعمال کے حوالے سے شراب اور تفریح نے ہماری اولین ترجیحات ہونا تھا اور ان کے علاوہ باقی سب پر ہم نے کم سے کم پیسے خرچ کرنا تھے ۔ ہم نے ڈبل روٹی کے چار سلائس ، ایک چوتھائی پاﺅنڈ بلوگنا ، ایک چوتھائی پاﺅنڈ پنیر اور کچھ اچار لیا اور انہیں ایک ایسے بینچ پر بیٹھ کر کھایا جہاں سے ہمیں دور نیچے سمندر نظر آ رہا تھا ۔
ہم نے ایک چھوٹے شراب خانے سے میٹھی وائن پی اور پھر ہم نیچے ساحل پر واپس گئے تاکہ موجوں سے کھیل سکیں ، جب اندھیرا ہونے لگے تو غروب آفتاب کا نظارا کر سکیں اور پھر وہاں بنے عوامی غسل خانوں میں نہا سکیں ۔ اس کے گھنٹہ بھر بعد ہم وہاں کے سب سے بڑے نائٹ کلب ، ’ ماراکُویا ‘ پہنچے ۔ کلب والے ایک دن ، تین دن یا پورے ہفتے کے لئے داخلے کی ٹکٹیں بیچ رہے تھے ۔ داشا آخری والی ٹکٹیں خریدنا چاہتی تھی گو ایسا کرنے سے ہماری آدھی رقم خرچ ہو جانا تھی ۔
” اس طرح یہ سستا پڑے گا “ ، اس نے کہا ، ” اور ویسے بھی میں اس کی ایک رات بھی چھوڑنا نہیں چاہتی ۔
یہ جگہ یوں سجی تھی جیسے یہ بحیرہ مردار کی بجائے جزائر غرب الہند میں واقع ہو ؛ جالی دار جھولے ، مچھلیاں پکڑنے کے جال ، ریت میں آدھے دھنسے بیرل اور تو اور کرسٹل شیشے کے بڑے گنبدوں کے نیچے اُگے اصلی پام کے درخت بھی وہاں موجود تھے ۔
ہم نے ہجوم میں سے اپنا راستہ بنایا اور ایک خالی میز پر بیٹھ کر مینیو دیکھا ؛ اس میں جگہ جگہ کی بدیسی شراب ، بئیر اور وائن کی بہت سی عمدہ قِسمیں درج تھیں ۔
” یہ کیا ہے ؟ “ ، میں نے اونچی موسیقی کی وجہ سے تقریباً چیختے ہوئے داشا سے پوچھا ۔ وائن کی قسموں کے آخر میں ایک سوالیہ نشان کے آگے قیمت درج تھی ، پھر دو سوالیہ نشانوں کے سامنے قیمت اور اسی طرح تین ، چار اور پانچ سوالیہ نشانوں کے آگے بھی قیمتیں لکھی تھیں ۔
”یہ منشیات ہیں “ ، اس نے میری طرح ہی چِلاتے ہوئے بتایا ۔ ” ایک سوالیہ نشان ’ ماری جوآنا ‘ ہے ، دو حشیش کے لئے ، تین کوکین کے لئے جبکہ باقی کا مجھے پتہ نہیں ہے ۔ تم کچھ لینا چاہتے ہو ؟ “
”نہیں “، میں نے اسے بتایا ۔ ” یہ بہت مہنگی ہیں ۔ اور تم ؟ “
”مجھے ایک ’بیچی رووکا ‘* لا دو ۔ “
میں جام لینے بار کی طرف بڑھا ۔ یہ جگہ چڑیا گھر تھی ۔ وہاں ہر نسل ، عمر اور قومیتوں کے اجنبی لوگ تھے ؛ عیاش بوڑھے ، خوبصورت دوشیزائیں ، مہم جوئی کی خاطر آئی عمر پیچھے چھوڑتی ہوئی عورتیں ، ٹیٹو بھرے ننگے دھڑ والے جوان ، جاپانی ، سکنڈےنیوین ، عربی ۔ ۔ ۔ غرضیکہ سبھی موجود تھے ۔ اپنی میز سے بار تک جاتے ہوئے ، میں نے بہت سی انجانی زبانوں کے الفاظ سنے ؛ میری سونگھنے کی حس پسینے سے بھری جلدوں ، نمکین پانی ، مہنگی خوشبویات اور عام ڈیوڈرنڈز کے ملغوبے سے معطر تھی ۔ ۔ ۔ بار میں لمبی قطار لگی تھی ؛ مجھے تب تک وہاں انتظار کرنا پڑا جب تک ’ بار ٹینڈر‘ نے ایک چھ فٹی بلونڈ اور پھر ایک ’ گے‘ بندے ، جو گلابی سوٹ میں ملبوس تھا اور جسے یہ معلوم نہ تھا کہ وہ ریشمی سٹاکنگز کے بارے میں کیسے پوچھے ، کو فارغ نہ کر دیا ۔
آخر میں اپنی میز پر واپس آیا ۔
” شکریہ ، بے بی “ ، داشا نے اپنی نشست پر بیٹھے بیٹھے موسیقی کی تال پر تھرکتے ہوئے کہا ۔
اس نے اپنے ڈرنک کا ایک گھونٹ پیا اور اس لڑکے کی طرف دیکھ کر مسکرائی ، جو ایک نزدیکی میز کے پاس بیٹھا اُسے دیکھ رہا تھا ، اور اس کے ساتھ رقص کرنے چلی گئی ۔ میں رقص کو ایک قدیم اظہار تعلق سمجھتا تھا ، اس لئے ہمارے درمیان ایک تفہیم تھی ؛ کہ وہ کسی کے ساتھ بھی رقص کرنے کے لئے آزاد تھی ۔ اور ’ رقص‘ کا مطلب اس کے علاوہ اور بھی سب کچھ تھا ۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ اس کے برعکس بیچاری داشا کے لئے یہی جاننا کافی تھا کہ اسے یہ حق حاصل تھا کہ وہ ، جب کبھی اس کا دل چاہے ، کسی کے ساتھ ، جسے وہ پسند کرے ، سو سکتی تھی ۔ لیکن حقیقت میں ایسا تھا کہ اس نے شاید ہی ایسا کیا ہو ۔
اس نے اس لڑکے کے ساتھ بھی ایسا نہیں کیا ۔ وہ اس کے ساتھ کچھ دیر ناچی ، پھر اپنا ساتھی بدل کر ناچا اور پھر میرے ساتھ بیٹھ کر شراب پی ۔ وہ دوبارہ ناچی ، پھر سے بیٹھی ۔ ۔ ۔ صبح کے قریب ، میں نے قدرے نشے میں ، اسے مزہ کرنے کے لئے وہیں چھوڑا اور خود چہل قدمی کے لئے ساحل پر لوٹ آیا ۔ میرے ہر بڑھتے ہوئے قدم کے ساتھ مختلف ڈسکوز کی موسیقی کم ہوتی گئی جبکہ ان لہروں کی سرسراہٹ بڑھتی گئی جو میرے قدموں میں آ کر ٹوٹتی تھیں ۔ اس چھوٹے سے قصبے کی روشنیاں دور فاصلے پر یوں ہوا میں تیر رہی تھیں جیسے تھکے ہوئے جگنو ہوں ۔
ہم سات بجے خیمے میں سونے کے لئے گئے اور دوپہر میں اٹھے ، بسکٹوں کا ایک اور پیکٹ ختم کیا اور سمندر میں تیراکی کی ۔ داشا خوش نظر آ رہی تھی ؛ وہ مسکرائی اور ایک گیت گنگنانے لگی ۔ اس نے مجھ سے ہر وہ تفصیل باریکی سے پوچھی ، جیسے کہ کیا یہ جگہ شاندار نہیں تھی ، جیسے کہ میں اس جگہ کے سحر میں نہیں تھا ، جیسے کہ میں ، جب ہم ساتھ نہ بھی ہوئے تو مجھے یہ دن ہمیشہ یاد رہ پائیں گے ؟
ہم نے قصبے میں میکڈونلڈز میں کھانا کھایا ، یہ بلوگنا کے سینڈوچز کے بعد سب سے سستا تھا ، اس کے بعد ہم گلیوں میں گھومتے رہے اور ’ آرتھوڈوکس گرجا گھر‘ گئے ۔ وہاں سے نکلتے ہوئے ہم نے ، اس کی یادگار کے طور پر ، وہاں سے ایک چھوٹی نقلی شبیہ چرائی ۔ پھر ہم خیمے میں واپس آئے تاکہ ماراکُویا میں شراب پینے اور رقص کرنے کا اگلا دور شروع ہونے سے پہلے کچھ گھنٹے سو سکیں ۔
یہ رات بھی پچھلی جیسی تھی ، فرق صرف اتنا تھا کہ تیس چالیس موٹرسائیکلوں والے ، جنہوں نے سب کچھ چمڑے کا پہن رکھا تھا ، آئے اور انہوں نے وہاں بیٹھ کر اس سے بھی زیادہ شور مچایا جو وہاں پہلے سے تھا ۔ صبح ہونے سے پہلے میں نے انہیں ساحل پر دیکھا ؛ وہ اپنی موٹر سائیکلوں پر کرتب دکھا رہے تھے جبکہ چاند اس کی بڑی مشینوں کے کروم پر اپنی چاندنی نچھاور کر رہا تھا ۔
۔۔۔۔
لیو تیسری رات وہاں نمودار ہوا ۔ داشا اور میں ڈِسکو میں بیٹھے ’ بیچی رووکا ‘ پی رہے تھے ۔
” اسے تو دیکھو ! “ ، اس نے اچانک کہا ۔ ہماری میز کے قریب ایک آدمی جو ساٹھ کے پیٹے میں تھا ، سفید سوٹ ، کالی عینک اور پاناما ہیٹ پہنے ، اکیلے ہی رقص کر رہا تھا ۔ اس سے بھی زیادہ عجیب بات یہ تھی کہ اس نے رقص کے دوران اپنے بریف کیس کو بھی ساتھ رکھا ہوا تھا ؛ اس نے اسے اپنے سینے سے یوں چمٹا رکھا تھا جیسے اسے خطرہ ہو کہ کہیں کوئی اسے چُرا نہ لے ۔
” شاید یہ پیسوں سے بھرا ہو ؟ “ ، میں نے داشا سے کہا ۔
” منشیات بھی تو ہو سکتی ہیں؟ “ ، اس نے مزہ لیتے ہوئے قیاس آرائی کی ۔ نہ تو وہ رقص سے تھکا اور نہ ہی اپنے بازوﺅں کی غیر آرام دہ پوزیشن سے ، جبکہ بریف کیس خواہ کتنا بھی ہلکا ہو ، اسے یوں تھامے رکھ کر کوئی بھی تھک سکتا تھا ، لیکن اس کے برعکس ، وہ خود ہی رقص کرکے بہت محظوظ ہو رہا تھا ؛ وہ بے ڈھنگے طور پر ناچ رہا تھا لیکن اسے اس کی کوئی پرواہ نہ تھی ۔ اسے یہ پرواہ بھی نہیں تھی کہ اس کا کوئی ساتھی نہیں تھا ۔ اس کے چہرے پر اطمینان بھری مسکراہٹ پھوٹ رہی تھی ، ایسی مسکراہٹ جیسے ایک بوڑھے کا ، عرصے سے دیکھا خواب پورا ہوا ہو ۔
” کیا ہی شاندار بندہ ہے “ ، داشا نے اظہار کیا ۔ اس نے اپنے گلاس میں بچی ’ بیچی رووکا ‘ کو ایک ہی گھونٹ میں ختم کیا اوراس کے ساتھ ناچنے کے لئے اٹھی ۔
کچھ منٹوں کے بعد وہ میز پر واپس آئی ۔ ” یا تو وہ آنکھیں بند کیے رقص کر رہا ہے یا پھر وہ اندھا ہے “ ، اس نے میرے گلاس سے شراب کا ایک گھونٹ بھرتے ہوئے مجھے بتایا ۔ ” اس نے میری موجودگی کا احساس تک نہیں کیا ۔“
” تم اس سے بات کیوں نہیں کرتیں ؟ “
جب اس نے اسے ڈرنک لینے کے لئے بار کی طرف جاتے دیکھا تو اس نے ایسا ہی کیا ۔ اس نے اس سے انگریزی میں بات کی ۔ بندے نے خوش دلی سے جواب دیا اور اس کے لہجے سے داشا نے یہ اندازہ لگایا کہ وہ روسی تھا ۔ تب اس نے زبان بدلی کیونکہ روسی داشا کی مادری زبان تھی ۔ اور یہیں سے ہر شے کا آغاز ہوا ؛ اس کا نام لیونڈ تھا اور وہ ’ نووسیبرسک ‘* سے تھا ۔ داشا اسے ساتھ لائی اور مجھے متعارف کروایا ۔ ہم تینوں نے ایک ایک ڈرنک ساتھ پیا اور پھر وہ دونوں رقص کے لئے چلے گئے ۔ یہ سب ویسے ہی ہوا کہ لیو نے اپنا بریف کیس خود سے الگ نہ کیا ۔
رات میں کسی وقت وہ غائب ہو گیا ۔ اس نے ہمیں خداحافظ بھی نہیں کہا ؛ ہم نے بس اسے پھر نہ دیکھا ۔ داشا پریشان تھی ۔
” کیا تم سمجھتے ہو کہ اس نے سوچا ہو گا کہ میں بیوقوف ہوں اور وہ مجھ سے بور ہو گیا ہو گا ؟ “ ، وہ اس طرح کے الجھاﺅ کا شکار رہتی تھی اور یہ کبھی کبھار ابھر کر سامنے آ جاتا تھا ۔
” نہیں ۔ میرا خیال ہے کہ اس نے تمہیں پسند کیا ۔“
” تمہیں ایسا کیوں لگا ؟“
” کیا تم نے نہیں دیکھا کہ وہ تمہیں کیسے دیکھ رہا تھا ؟ اس نے تو آنکھیں بند کرکے ناچنا بھی بند کر دیا تھا ۔“
” تم ایسا سوچتے ہو؟“
” ہاں ۔ تم اس سے آنکھ مٹکا * کیوں نہیں لڑاتیں ۔ وہ ایک دلچسپ آدمی لگتا ہے ۔ ایسا کرنے سے تم بہتر محسوس کرو گی ۔“
داشا نے مجھے گھورا ۔
” لیکن وہ تو جا چکا ہے “ ، اس نے اپنے منہ کو یوں گھمایا جیسے وہ ’ پیپ شو‘ میں بری لڑکی کی طرح اسے گھماتی تھی اور اس کے گاہک اس کے منہ کی اس حرکت کے واری جاتے تھے ۔
” وہ کل واپس آ جائے گا ۔“
اور ، درحقیقت ، اگلی رات ایسا ہوا بھی ، لیو ’ماراکُویا ‘ میں اپنے بریف کیس سمیت لوٹا ۔ داشا نے اس کی طرف دیکھنے سے گریز کیا ۔” اگر وہ خدا حافظ کہے بِنا گیا تھا “ ، اس نے کہا ،” تو اسے خود پہل کرنا ہو گی ۔ ۔ ۔ اور معذرت کرنا ہو گی ۔ مرد ہمیشہ توہین کرتے ہیں جو انہیں بہت آسان لگتا ہے ۔“
اس رات داشا ، اپنے ، آستینوں کے بغیر سیاہ لباس میں خصوصی طور پر دل فریب لگ رہی تھی ۔ ۔ ۔ یہ سب سے بہتر تھا جو وہ اپنے پٹھو میں رکھ پائی تھی ۔ ۔ ۔ جوبہت ہم آہنگی سے اس کی دھوپیلی جلد پرسج رہا تھا ؛ اس نے اپنی لمبی گردن میں گلو بند اور بائیں کلائی میں سونے کے ملمع والی زنجیر پہن رکھی تھی ۔
اس کی تھیوری کی سچائی کی تصدیق کرنے کے لئے ، لیو نے جیسے ہی ہمیں دیکھا تو وہ ہماری میز پر آیا اوریوں چلے جانے پر معذرت کی ۔
” عجیب کھانا تھا “ ، اس نے خوش خلقی کا مظاہرہ کرتے ہوئے مجھے انگریزی میں بتایا ۔” اس نے میرے معدے میں کھلبلی مچا دی تھی اور میں بمشکل ہی اپنے ہوٹل پہنچ پایا ۔“ ، اس نے ایک لمحے کے لئے بھی اپنا بریف کیس خود سے الگ نہ کیا ۔
وہ پہلی ملاقات کے مقابلے میں زیادہ بے تکلف تھا ؛ اس نے اپنے رومال سے اپنے ماتھے کا پسینہ پونچھا ، ہمارے لئے شراب خریدی اور اپنے ملک کی ڈش ’ شوبا ‘ کے بارے میں باتیں کرنا شروع کر دیں کہ اس سادہ سے پکوان ، جس میں آلو، سلاد ، گاجریں ، مٹر ، میونیز ، سمورہ مچھلیاں اور چقندر استعمال ہوتے ہیں ، کو بنانا کتنا مشکل تھا ۔
” یقیناً ، یہ سب ایک ساتھ ملائے نہیں جا سکتے ، سلاد اس میں بھرتی کے لئے ڈالا جاتا ہے جبکہ سمورہ اور چقندر اسے ملائم کرتے ہیں ۔ اسے اسی لئے ’ شوبا ‘ کہا جاتا ہے ، جس کا روسی میں مطلب ’ اوور کوٹ ‘ ہے ۔ “ ، وہ اس کے بارے میں بات کرتا رہا پھر اس نے پاستہ اور کھمبیوں کی چٹنی والی ایک اور ڈش پر باتیں کرنا شروع کر دیں ۔ ہمیں اس کی ان باتوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی ۔ ہم اس سے ، اس کے بریف کیس کے بارے میں بات کرنا چاہتے تھے لیکن ہمیں اس کا کوئی مناسب موقع نہ ملا ۔ بالآخر وہ داشا کو رقص کے لئے ساتھ لے گیا ۔
جلد ہی یہ بات کھل گئی کہ وہ داشا کو پُھسلانا چاہتا تھا ۔ اور داشا نے بھی اس پر اپنے وہ تمام ہتھکنڈے آزمانے شروع کر دیئے جو اس نے سیکھے تھے ۔ ” بوڑھے آدمی چاہتے ہیں کہ آپ انہیں یقین دلائیں کہ آپ معصوم ہیں ۔“ ، یہ داشا کا فلسفہ تھا جس پر وہ عمل کر رہی تھی ۔ ” صرف جوان مرد ہی عورتوں کے تجربے کی قدر کرنے کے قابل ہوتے ہیں ۔“ لیکن لیونڈ بیوقوف نہیں لگتا تھا ؛ وہ یہ یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھا کہ ایک ناتجربہ کار جوان عورت اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ ایک لا اخلاقی ساحلی مقام ِ تفریح پر چھٹیاں منا رہی ہو ۔ اور ایک ایسے ڈِسکو میں ’بیچی رووکا ‘ پی رہی ہو ، جہاں کچھ بھی ، بلکہ ہر شے بِکنے کے لئے تھی ۔ اس سب سے قطع نظر وہ داشا کی صحبت سے لطف اندوز ہو رہا تھا ۔
رات داشا کی خواہشات اور منصوبہ بندیوں کے ساتھ گزرتی رہی ۔ صبح تین بجے جب لیو اپنی بھرپور ترنگ میں تھا ، داشا ، ’ جوان معصوم عورت ‘ ، نے اسے شب بخیر کہا ۔ وہ اتنی دیر تک جاگنے کی عادی نہیں تھی ، وہ پہلے سے ہی سوئی سوئی سی لگ رہی تھی ۔
ہم نے اگلا دن ساحل پر آرام کرتے ہوئے اور قصبے میں مٹرگشت کرتے ہوئے گزارا اور پراسرار بریف کیس کے بارے میں قیاس آرائیاں کرتے رہے ۔
” میں بتاﺅں ، اس میں پیسے ہی ہوں گے ۔ یہ یا تو اسے ریٹائرمنٹ پر اکھٹے ملے ہوں گے یا یہ اس کی پینشن ہو گی یا پھر یہ اسے اپنے اثاثوں کی فروخت سے ملے ہوں گے یا کچھ بھی ، جسے وہ یہاں خرچ کرنے آیا ہے ۔ “
” اگر وہ دہشت گرد نکلا تو ؟ اور چیچنیا سے ہوا ؟ وہ ایسا لگتا تو نہیں لیکن ہو بھی سکتا ہے ۔ اس کے پاس بم بھی تو ہو سکتا ہے ، ان میں سے ایک ایسا بم ، جنہیں سیل فون کے ذریعے چلایا جا سکتا ہے ۔“
داشا اس اسرار کو جاننے کے لئے تُلی ہوئی تھی اور اس نے مقصد کی خاطر اپنے باقی کے ہتھکنڈے بھی برتے اور نتیجہ یہ نکلا کہ وہ لیو کے ساتھ غائب ہو گئی اور پھر وہ مجھے اگلی صبح تک نظر نہ آئی ۔ آٹھ بجے کے لگ بھگ وہ خیمے میں آئی ۔ وہ بِنا کچھ کہے میرے برابر لیٹ گئی اور بِنا بولے ہی مجھ سے پیار کرنے لگی ۔ یہ اس کی عادت تھی کہ وہ جب بھی کبھی کسی مہم سے واپس آتی تھی تو ایسا ہی کرتی تھی ۔ اس کا کہنا تھا کہ یوں وہ کسی دوسرے بندے کی جلد کے احساس سے چھٹکارا پاتی تھی ۔
ہم گیارہ بجے کے بعد جاگے ۔
” او کے “ ، میں نے کہا ، ” بریف کیس میں کیا ہے ؟ “
” ایک کتاب “ ، اس نے بتایا ، اس کے لہجے میں ہلکی سی بھی مایوسی نہیں تھی ۔
” ایک کتاب؟ “
” ہاں ایک مسودہ ۔ اس نے اسے لکھا اور اسے ، اس کو مکمل کرنے میں بیس سال لگے ۔“
” لیکن وہ اسے یہاں کیوں لے کر آیا ؟“
” کیونکہ ۔ ۔ ۔ وہ یہاں اس لئے آیا کہ اسے سمندر میں پھینک سکے ۔“ ، داشا نے یہ بات ایسے فطری انداز سے کی جیسے وہ دنیا کی ایک ، بہت ہی ، عام سی بات بتا رہی ہو ؛ اس کا یہ انداز میرے لئے پُر تعجب تھا ۔ ” اور ایسا کرنے سے پہلے وہ اپنا وقت اچھے طریقے سے گزارنا چاہتا ہے ۔ یہ اس کا دوہرا الوداع ہے ۔“
” دوہرا کیسے ؟“
” لیو کا کتاب کو الوداع کہا اور ساتھ میں اپنے ادبی کیرئیر کو بھی الوداع کہنا ۔“
” لیکن ، کیوں؟ “
داشا نے کندھے جھٹکے ۔
” پہلے تو مجھے بھی اس کی منطق سمجھ نہ آئی ۔ لیکن پھر جب اس نے مجھے ساری کہانی بتائی تو مجھے بات سمجھ میں آنے لگی ۔ اس نے بیس سال کام کرکے کاغذوں کا یہ پہاڑ کھڑا کیا تھا ۔ اور تمہیں پتہ ہے کس لئے ؟ اسے کچھ حاصل نہ ہوا ۔ وہ اسے اتنے ناشروں کے پاس لے کر گیا کہ اسے ان کی تعداد یاد نہیں اور سب نے اسے یہی کہا کہ تم اپنی کتاب کے ساتھ جہنم میں جاﺅ ۔ کچھ جو کم بیوقوف تھے ۔ ۔ ۔ نے اسے سادہ الفاظ میں نہیں کہا ۔ کچھ نے اسے کہا کہ وہ چیزوں کو بدلے اور مسودے میں یہاں وہاں سے کاٹ پیٹ کرے لیکن لیو ایک لفظ بھی بدلنا نہیں چاہتا تھا اور مجھے یہ بات سمجھ میں آتی ہے ۔ ایک کتاب فروش اسے یہ کیوں کہے کہ اس نے کیا لکھنا ہے اور کیا نہیں ؟ وہ اس سب سے چِڑ گیا ۔ اگر یہ کتاب کچرا تھی ، اس نے مجھے کہا ، تو ٹھیک ہے اسے کچرے میں ہی جانا چاہیے ۔ “
میں نے اس سے اور کچھ نہ پوچھا ۔ میں لیونڈ اور اس کی کہانی کے بارے میں مزید سوچنا نہیں چاہتا تھا ۔ بھوک سے میری جان نکلے جا رہی تھی ۔ ” چلو کچھ لیں اور کھائیں ۔“
” لیو نے ہمیں اپنے ہوٹل میں کھانے کے لئے بلایا ہے ۔ اس نے مجھ سے پوچھا تھا کہ کیا تم آنا پسند کرو گے تو میں نے اسے کہا تھا کہ ہاں ۔“
” اچھا ہے “ ، میں نے کہا ، ” چلو چلتے ہیں لیکن میرا خیال ہے کہ ہمیں اپنے پٹھو ساتھ لے جانے کی ضرورت نہیں ہے ؟ “
” نہیں ، انہیں یہیں چھوڑ دہتے ہیں ۔ میں صرف اپنا بٹوہ اور سیل فون لینا چاہوں گی ۔“
دوپہر کا کھانا مزیدار تھا ۔ بوڑھا روسی ، اچھی گفتگو کرتا تھا بشرطیکہ وہ کھانا بنانے پر بات نہ کرے ۔ داشا کے ساتھ ، سارا وقت ، اس کا چلن ، برتاﺅ پدرانہ شفقت اور عزت والا تھا جیسے ان کے درمیان کچھ نہ تھا اور نہ ہی کچھ ہونے والا تھا ۔ اس نے ہمیں بتایا کہ وہ اگلے روز گھر واپس جا رہا تھا ۔
” کیا تم کتاب کو سمندر بُرد کرنے سے پہلے ، اس میں سے میرے لئے کچھ پڑھو گے ؟ “ ، داشا نے پوچھا ۔
” کیا تم واقعی اس میں دلچسپی رکھتی ہو ؟ “ ، ایسے لگ رہا تھا جیسے اسے یقین نہ آیا ہو ۔
” یقیناً مجھے دلچسپی ہے ۔ اور میں اسے تمہاری آواز میں سننا پسند کروں گی ۔ یوں یہ مجھے ہمیشہ یاد رہے گی ۔“
” ٹھیک ہے ، اگر تم چاہتی ہو تو ۔ ۔ ۔ “ ، اس نے یوں جواب دیا ، جیسے ایک دادا اپنی پسندیدہ پوتی کی خواہش کے سامنے ہتھیار ڈال دے ۔” ہم اس شام اس میں سے کچھ پڑھ سکتے ہیں ۔“
کچھ منٹوں کے بعد اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے وضاحت کی ۔” کتاب روسی زبان میں ہے ۔“
” کوئی مسئلہ نہیں ۔ “ ، میں نے اسے جواب دیا ۔” ویسے بھی میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا ، کیونکہ مجھے اپنی ایک دوست سے ماراکُویا میں ملنا ہے ۔“
یہ سچ نہیں تھا ، لیکن میں ان کو تنہا چھوڑنا چاہتا تھا ۔ ساز باز کرنے والے بھاڑو* کا کردار کچھ آسان نہیں ہوتا ۔ لیکن ایک بھاڑو جسے پتہ ہو کہ اس کے ساتھ بھاڑو پن کیا جا رہا ہو ، اسے مان لیتا ہے کیونکہ خود کو پریشانی میں مبتلا کرنا ، خود ترسی کی سب سے بُری شکل ہوتی ہے ۔
میں نے باقی کا وقت ساحل پر گزارا اور جب میں بوریت محسوس کرنے لگا تو ان موٹر سائیکل سواروں کے ساتھ فٹ بال کھیلنے چلا گیا جو دو روز قبل وہاں آئے تھے ۔ میں نے لڑکیوں میں سے ایک کے ساتھ دوستی کی ۔ ۔ ۔ وہ پلاٹینیم بلونڈ اور چھڑی جیسے پتلی تھی ۔ ۔ ۔ اور میں اس رات اس کے ساتھ ماراکُویا گیا ۔ بعد ازاں ہم ساحل پر ٹہلنے گئے ۔ ہم چلتے ہوئے وہاں تک گئے جہاں کشتیاں بندھی ہوئی تھیں ، جہاں ڈِسکوز کی موسیقی کم کم ہی سنائی دے رہی تھی ۔ ہم وہاں بیٹھ گئے اور چاند کو تکنے لگے ۔ گو یہ پورا چاند نہیں تھا لیکن یہ پھر بھی بڑا نظر آ رہا تھا ۔ یہ نارنجی تھا اور سمندر پر ٹنگا ہوا تھا ۔
صبح ہوئی تو داشا ہمیں اٹھانے کے لئے خیمے کے پاس آئی ۔ اس نے اتنا بھی انتظار نہ کیا کہ میں اپنی دوست کا تعارف اس سے کرواتا ۔ ” آﺅ “ اس نے کہا ، ” میں تمہیں کچھ دکھانا چاہتی ہوں ۔“ ، وہ بہت خوش نظر آ رہی تھی ۔
” کیا؟ “ ، میں نے عالم نیند میں ایک آنکھ کھول کر پوچھا ۔
” میں جا رہی ہوں “ ، بلونڈ لڑکی نے کہا ، جو شاید اپنی موجودگی سے بدمزگی پیدا نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ اور اس نے تیزی سے کپڑے پہنے ، میرا بوسہ لیا اور چلی گئی ۔
” ابھی بہت صبح تھی اور ٹھنڈ بھی ، لہریں ابھی اونچی تھیں اور آخری تارے پل بھر چمک کر گم ہو چکے تھے ۔ کہیں سے گلاب اور ’ گلیڈیوز ‘* کے پھولوں کی خوشبو آ رہی تھی ۔
میدان خالی دیکھ کر داشا خیمے میں گھسی ۔ ” دیکھو“ ، وہ لیونڈ کا بریف کیس اٹھائے ہوئے تھی ۔” اس نے یہ مجھے دیا ہے ۔ اس نے مجھے اپنی کتاب دی ہے! “
میں نے اسے اتنا خوش، اتنا مطمئن کبھی نہیں دیکھا تھا ۔
” کیا تم نے اسے پڑھا ہے ؟ کیا یہ ایک اچھی کتاب ہے ؟ “ ، میں نے پوچھا ۔
” اس سے کیا فرق پڑتا ہے ۔ اسے ، اس کو لکھنے میں بیس سال لگے ، تم اس بات کو کیوں نہیں سمجھتے ؟ جتنا عرصہ میں زندہ رہی ہوں اس نے اتنا وقت اس کو لکھنے میں خرچ کیا ہے ۔ یہ تو ایک طرح کا خزانہ ہے ، نقاد یا مُدیر چاہے اس کے بارے میں جو بھی کہیں ۔“
اس نے مسودہ باہر نکالا ۔ یہ گتے کی جلد میں تھا ۔ داشا نے اسے تقدس کے ساتھ میرے ہاتھوں پر رکھا ۔
” وہ جا چکا ہے ۔ “ ، اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھری ، ” اس کی ریل گاڑی اس سمے جا رہی ہے ۔“
داشا کبھی جذباتی نہیں ہوئی تھی ، لیکن اس لمحے اس کی آنکھوں سے آنسو نکلنے کو تھے ۔ وہ کتاب کو بریف کیس میں رکھنے کے لئے مڑی ، اسے رکھا ، اپنے کپڑے اتارے اور میرے ساتھ سلیپنگ بیگ میں گھس گئی ۔
” وہ عورت یہاں کتنی گندی باس چھوڑ گئی ہے ۔ “ ، اس نے مجھ سے لپٹنے اور سونے سے پہلے بس اتنا ہی کہا ۔
ہم دوپہر میں کھانا ، بلوگنا اور اچار والے سینڈوچ ، کھانے کے لئے قصبے میں گئے ۔ ہم نے ایک دوسرے کو وہ سب بتایا جو ہم نے کیا تھا ۔ ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا ۔ ہم نے ایک دوسرے سے وعدہ کیا کہ جو کچھ مرضی ہو جائے ، ہم ساتھ رہیں گے ۔
ہم ہاتھوں میں ہاتھ دیئے ، پھر سے لیو کے بارے میں باتیں کرتے ساحل پر چلتے رہے ۔ ہم خوش تھے ۔ ۔ ۔ پہلے سے بھی زیادہ ۔ ۔ ۔ ہم پاگل پنے کی حد تک خوش تھے بلکہ یوں کہیں کہ بیوقوفی کی حد تک خوش تھے ۔
جب ہم خیمے میں پہنچے ہماری خوشی معدوم ہو گئی ؛ کسی نے ہمیں لُوٹ لیا تھا ۔ ہمارے پٹھو تو وہیں تھے لیکن بریف کیس وہاں سے غائب تھا ۔” پیسے یا منشیات “ ، چور نے یہی سوچا ہو گا ، اس نے یقیناً اسے تب دیکھا ہو گا جب یہ لیو کے ہاتھوں میں تھا ۔ #
َ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ’ پیپ شوز‘ = Peep Shows ، ایک سوراخ میں لگے عدسے کے ذریعے کسی عورت کا عریاں رقص دیکھنا ، پیپ شو کا ایک مطلب ہے ۔
* ’ فلیشیو ‘ = Fellatio ، عورت کا مرد کے عضو ِ تناسل سے منہ کے ساتھ جنسی فعل ( اورل سیکس ) کرنا ۔
* ’ کارپیتھین ‘ = Carpathians ، وسطہ یورپ میں پہاڑی سلسلہ جو سلواکیہ ، پولینڈ ، رومانیہ اور یوکرائن میں موجود ہے ۔
* ’ سلیپر‘ = Sleeper ، ریل گاڑی میں سونے والی برتھ ۔
* ’بیچی رووکا ‘ = Becherovka ، چیک ری پبلک کی جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ شراب جس میں الکحل کی مقدار لگ بھگ چالیس فیصد ہوتی ہے ۔
* ’ نووسیبرسک ‘ = Novosibirsk ، ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ کے بعد روس کا تیسرا بڑا شہر جو سائبیریا کے جنوب مغربی علاقے میں واقع ہے ۔
* آنکھ مٹکا = Fling ، کسی جوڑے ( شادی شدہ یا ویسے ہی ساتھ رہنے والے ) میں سے کسی ایک کا وقتی اور عارضی طور پر اپنے ساتھی سے ہٹ کر کسی دوسرے سے جنسی تعلق قائم کرنا ۔
* ’ گلیڈیوز ‘ = gladiolas ، پھولوں کی ایک قسم جو یورپ ، ایشیاء ، افریقہ میں پائی جاتی ہے ؛ اسے تلوار نما لِلی بھی کہا جاتا ہے ۔
* ’ بھاڑو‘ ، ترجمے میں ، میں نے لفظ ’ بھاڑو‘ استعمال کیا ہے ؛ یہ ہسپانوی میں ’ cornudo ‘ ہے جبکہ انگریزی میں اس کا متبادل ’ cuckold ‘ ہے ؛ یہ ایک ایسا مرد ہے جس کی بیوی یا اس کی ساتھن ( مغرب میں اب شادی کے بغیر ساتھ رہنا عام سی بات ہے ) اُس کے علاوہ دیگر مردوں کے ساتھ بھی تعلق قائم کرتی ہو اور مرد کو خود بھی اس پر کوئی اعتراض نہ ہو ۔ مجھے ’ cornudo ‘ یا ’ cuckold ‘ کا اردو میں درست متبادل نہیں مل پایا ۔
* ’ Maracuyá‘ ہسپانوی میں جذبے کو کہتے ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اَگستن کیڈنا (Agustín Cadena) 1963 ء میں ہیڈالگو ، میکسیکو میں پیدا ہوا ۔ وہ شاعر ، ادیب ہے ۔ وہ مترجم اور ایک عمدہ صداکار بھی ہے ۔ اس کی شاعری اور افسانوں کے کئی مجموعے شائع ہو چکے ہیں ۔ اس کے علاوہ اس کے دو ناول ’ Cadaver alone ‘ اور ’ So dark Mexico ‘ اور بچوں کے لئے دو کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں ۔ نوجوانوں کے لئے اس کا ناول ’ Giant wings ‘ سن 2011 ء بھی سامنے آیا ۔ اس کی شاعری کی کتاب ’ The due offering ‘ بھی اسی برس سامنے آئی تھی جس نے ’ Efrén Rebolledo ‘ انعام حاصل کیا ۔ اس کی کئی کہانیاں بھی انعام حاصل کر چکی ہیں ۔ تاحال اس کی کتابوں کی تعداد پچیس سے زائد ہے ۔ تازہ کتاب ’ Fieras adentro‘ سن 2015 ء سامنے آئی ۔ آج کل وہ ہنگری میں ’ University of Debrecen ‘ میں پڑھاتا ہے ۔
درج بالا افسانہ مصنف کی اجازت سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔ یہ اس کے افسانوں کے مجموعے "Las tentaciones de la dicha" میں شامل ہے جو 2010 ء میں میکسیکو سے شائع ہوا تھا ۔