یہاں امریکہ میں بدھ کی شام ایک سین فرانسیسکو کی رہائیشی ، مینہیٹن کی مشہور ڈائٹیشین کون ڈیل نے ۲۷ سا کی عمر میں خود کشی سے اپنی جان گنوا دی ۔ پچھلے سال جون میں ۵۵ سالہ مشہور امریکی ڈیزائینر، کیٹ سپیڈ نے بھی اپنے مینہیٹن کے اپارٹمنٹ سے خودکشی کی تھی اور اس کے بعد ایک اور مشہور امریکی شخصیت نے ایسا ہی کیا ۔ لوگوں کو تعجب جس بات کا ہوتا ہے وہ یہ ہے کے پاکستان یا غریب ملکوں میں تو لوگ غربت کی وجہ سے یا سوشل اسٹیٹس نہ ہونے کی وجہ سے خودکشیاں کرتے ہیں ، امیر اور مشہور لوگ ایسا کیوں کرتے ہیں؟
کون ڈیل نے جو نوٹ اپنی خودکشی سے پہلے لکھا وہ بہت دلچسپ تھا اور اس سارے معاملہ کو بہت اچھا سمجھاتا ہے ۔ اس نوٹ کا ایک پیراگراف میں یہاں quote کرنا چاہوں گا ؛
“I realize I am undeserving of thinking this way because I truly have a great life on paper. I’m fortunate to eat meals most only imagine. I often travel freely without restriction. I live alone in the second greatest American city (San Francisco, you’ll always have my heart). However, all these facets seem trivial to me,” Condell wrote.
یہ ہے وہ سارا مسئلہ جو کے لوگوں کو سمجھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے حالانکہ ہے بہت آسان ۔ یہ کاغز پر تو زندگیاں بہت اچھی لگتی ہیں لیکن حقیقت میں ایک بہت بڑا بوجھ کیونکہ روح کے منافی ۔
ایک مشہور امریکی روحانی شخص تھامس جان جو کے مینہیٹن ہی میں رہتا ہے اور medium ہے اس کو بہت ہی خوبصورت الفاظ میں بیان کرتا ہے ۔
We are all spiritual beings having spiritual lessons in various forms.
یہ ہے وہ سادہ سی بات جو کاش ہماری سمجھ میں آ جائے ۔ ہمارا اس دنیا میں وجود ہی روحانی ہے ، مقصد ہی روح کی نش و نما ہے ۔ہم تو ادھر اقتدار ، پیسہ یا شہرت کے لیے لائے ہی نہیں گئے تھے ۔ یہ تو چند لوگوں نے ہمیں اس بیکار کام میں لگا دیا ۔ اس کو تھامسن مزید بہت خوبصورت الفاظ میں کچھ یوں بیان کرتا ہے ؛
We are here to learn valuable lessons around humility , immortality , vulnerability and resilience .. our soul’s journey towards self acceptance and unconditional love for humanity .
یہاں امریکہ میں روحانی لوگ اکثر medium یا چینل بن کر مستقبل اور ماضی کے معاملات کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ کچھ ان لوگوں کی روحوں سے رشتہ دار دوستوں کی بات کرواتے ہیں جو روحیں جسم چھوڑ چُکی ہوتی ہیں ۔ تھامسن ان امور میں بھی بہت ماہر ہے اور اس کی ایک بہت مشہور کتاب بھی اس موضوع پر ہے جس کا نام ہے ؛
Never argue with the dead person
یہ کتاب آپ ضرور پڑھیں ، بہت دلچسپ ہے ۔ اس میں تھامسن کوئ پندرہ کے قریب اپنے کلائنٹز کی کہانیاں بتاتا ہے اور یہ ثابت کرتا ہے کے کس طرح روح لافانی ہے اور مرنے کے بعد بھی اس دنیا میں اپنے عزیزوں اور رشتہ داروں کے لیے بطور گائیڈ مددگار ثابت ہوتی ہے ۔ تین کہانیاں میں ادھر مختصرا بیان کروں گا تھامسن کا نقطہ نظر سمجھانے کے واسطے ۔
پہلی ہی کہانی میں ایک خاتون تھامسن سے مستقبل کا حال پوچھنے آتی ہے اور کہتی ہے کے اسے صرف یہ پوچھنا ہے کے اس کا محبوب اسے کب ملے گا ۔ تھامسن کو مراقبہ میں جا کر یہ نظر آتا ہے کے خاتون کا منگیتر کار کے حادثہ میں فوت ہو جاتا ہے اس رات دونوں کار میں اکٹھے تھے اور Donna Summers کا گانا last dance لگا ہوا تھا کے کار اُلٹ جاتی ہے ، عورت بچ جاتی ہے مگر منگیتر ۵۰۰ فٹ دور جا گرتا ہے اور مر جاتا ہے ۔ تھامسن مزید دیکھتا ہے کے اس خاتون نے ایک loaded بندوق کمرے میں رکھی ہوئ ہے اور اکثر خودکشی کا سوچتی ہے ۔ اس کے منگیتر کی روح تھامسن کو کہتی ہے کے اسے کہو ایسا نہ کرے ۔ مجھے بھول جائے اور ایک نئ زندگی کی طرف گامزن ہو ۔ تھامسن اس کو اس کے لیے رضامند کر لیتا ہے دونوں گھر جاتے ہیں ، بندوق دریا میں پھینک دیتے ہیں اور اس طرح خاتون کی ایک اور جگہ پیار محبت اور شادی بھی ہو جاتی ہے ۔
ایک اور کہانی میں ایک لڑکا اور لڑکی تھامسن کو ملتے ہیں جن کے باپ دوست اور کاروباری پارٹنر ہوتے ہیں ، ایک کا باپ دوسرے کے باپ کو کسی تنازع میں طیش میں آ کر قتل کر دیتا ہے اور بعد میں خود بھی اپنے آپ کو گولی مار کر ختم کر لیتا ہے ۔ تھامسن اس دونوں کی روحوں کو بلاتا ہے اور یہ مشاورت ہوتی ہے کے آپ کے بچہ تو ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور شادی کرنا چاہتے ہیں ، آپ کیسے دیکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کے بلکل انہیں یہ اختلافات مزید نہیں بڑھانے چاہیے ، ہم سے بھی یہ غلطی ہوئ تھی جس پر ہم بہت شرمسار ہیں ۔ اس طرح ان دونوں کی شادی ہو جاتی ہے اور نفرتیں مزید پھیلنے سے نہ صرف رک جاتی ہیں بلکہ محبت میں تبدیل ہو جاتی ہیں ۔
ایک اور کہانی میں ایک اجتماعی محفل میں تھامسن روحوں کو بلا رہا ہوتا ہے تو اتفاق سے دو عورتیں برابر کی نشستوں پر بیٹھی ہوتی ہیں ۔ دونوں کے بیٹے ایک ہی دن ، ایک ہی نام کے کار کریش میں مر جاتے ہیں ۔ ایک عورت بہت خوبصورت لباس پہنے ہوتی ہے اور بہت مطمئن دوسری نہ صرف بھدا لباس بلکہ بہت بیزاری کا حُلیہ اور بیماری میں مبتلا شخص والا چہرہ ۔ پتہ لگتا ہے کے خوبصورت عورت نے اسے ایک قدرت کا عمل لیا ، بیٹے کے نام پر ایک چیریٹی قائم کی اور ٹریفک پولیس کو چند ضروری قوانین بنانے میں مدد کی جس سے مستقبل میں ایسے حادثات کو روکا جا سکے ۔ پریشان اور بیمار عورت نے صرف قدرت کو کوسا ، بیٹے کی موت پر مورد الزام ٹھہرایا لہٰزا زیانطیس لگوا لی ، زہنی توازن کھو بیٹھی ۔ دونوں عورتیں بعد میں دوست بن جاتی ہیں اور غمزدہ عورت بھی اپنے حالات ٹھیک کرنے کی ٹھانتی ہے ۔
بات خودکشی سے شروع ہوئ تھی اور مرنے والوں کی روحوں سے ہم کلامی تک جا پہنچی ۔ میرا مقصد یہ تھا کے یہ باور کروایا جا سکے کے ہم سب غلطی پر ہیں ۔ مادہ پرستی اور مقابلہ کی زندگیاں ہمیں کہیں کا نہ چھوڑیں گیں ۔ ہماری روحیں جس مقصد کے لیے جسموں میں بہت مختصر وقت کے لیے آتی ہیں ہمیں اس کو پہچاننا ہے ۔ باقی سب دھوکہ ہے ، فریب اور فراڈ ہے ۔ ایک illusion ہے ہمارا اپنا خود ساختہ ۔ کاش خودکشی کرنے والوں کو یہ علم ہوتا کے بقول شیخ ابراہیم زوق؛
اب تو گھبرا کے یہ کہتے ہیں کے مر جائیں گے
مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...