مجھے ظفر خان لونڈ کے قتل کا اندوہ ہے اور قندیل بلوچ کے قتل کا کرب۔ ظفرخان تو شدید گرم سہ پہر کی کچی نیند سے سرخ آنکھوں کو ملتا ہوا باہر نکلا ہوگا کہ شاید کوئی ضرورت مند آئے ہوں جنہیں اس کی مدد درکار ہے، پھر یک لخت پستول کی نالی اور لمحے بھر کی ہیبت، ظفرخان کا جسد بے روح ہو گیا۔ اس کے برعکس خواب آور گولی کے خمار میں مدہوش قندیل کے منہ پر تکیہ، مدہوشی کی نیند سے جاگنا۔ سانس کا رکنا، یہ بھی دکھائی نہ دینا کہ کون طالم اس کو مارنے کے درپے ہے۔ نیند کی گولیوں سے پیدا ہوئی نقاہت۔ ہاتھوں کا پٹخا جانا۔ ٹانگوں کے پٹھوں کی اینٹھن، معدے میں بھیانک موت کے خوف کا اٹھتا اور ڈوبتا گولہ چنانچہ کرب ہی کرب ہے۔ جو آنکھ ہی سے نہ برسے تو پھر لوہو کیا ہے۔
دوست اور صحافی ندیم سعید نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ " اگر مگر کیے بنا" قندیل کے قتل پر افسوس کیا جانا چاہیے چنانچہ اگر مگر کرتے ہوئے خوف محسوس ہوتا ہے کہ کہیں ایک بار پھر وہ مجھے بے حس لوگوں کی فہرست میں شامل نہ کر لے۔ ہوا یہ کہ ایک اور صحافی دوست صفدر بلوچ نے اپنی ڈی پی ظفر خان لونڈ کے آخری دیدار والی تصویر میں تبدیل کی۔ میں شدید مخالف ہوں کہ کسی مرے ہوئے شخص کی تصویر کھینچی جائے اور اسے مشتہر کیا جائے چاہے وہ ایدھی صاحب کی ہی کیوں نہ تھی جن کی آنکھوں پر پھاہے رکھے گئے تھے مگر مقتول ظفر کے کی موت کے بعد کھینچی گئی تصویر میں چہرے پر بہت سکون تھا۔ ماسوائے خون کے دھبوں کے لگتا تھا کہ محو خواب ہے۔ میں نے اس غرض سے چند دوستوں کی پوسٹس پر یہ تصویر شیئر کر دی تھی تاکہ دوست اور ساتھی اس کا آخری دیدار کر سکیں مگر ظفر کے قریبی دوست ندیم سعید کو ناگوار گذرا۔
مگر قندیل سے متعلق اگر کے بغیر بات نہیں بن پا رہی یعنی اگر یہ معاشرہ اتنا پست نہ ہوتا تو قندیل کے قندیل بننے پر کوئی معترض نہ ہوتا۔ اب لفظ "پست" پر بہت سے معززین کو اعتراض ہوگا کہ بھلا ایک اخلاق باختہ لڑکی کے مقابلے میں معاشرے کو پست کس بنیاد پر کہا جا رہا ہے۔ اخلاق باختہ پر کچھ آزادی پسند دوست معترض ہونگے لیکن اس کی آخری وڈیو جو آریان کے گائے ہوئے گیت کی ہے، اس میں میں جو انداز قندیل نے اختیار کیا، اسے کوئی اور نام دینا چاہیں تو آپ ہی دے لیں۔ ولگر یعنی فحش لفظ صرف اسلام یا پاکستان سے ہی منسوب نہیں ہے بلکہ مغرب میں بھی ولگیریٹی یا فحاشی کا پیمانہ ہے جیسے مذکورہ وڈیو میں قندیل کو اس طرح سرین جھلانے نہیں آئے جس طرح بی یانس جھلا سکتی ہے چنانچہ ولگر لگی۔
بات صرف ولگر لگنے کی ہی نہیں بلکہ اس کے بھائی اور قاتل وسیم کے ان پڑھ اور جاہل ہونے کی بھی ہے جسے شاید اس وڈیو کے بعد لوگوں نے زیادہ "سناوتیں" مارنی شروع کر دی ہوں جیسا کہ ڈی پی او نے وسیم کے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا تھا،" ان کا مطلب ہے کہ جب سے تازہ وڈیو سامنے آئی ہیں ان پر دباؤ زیادہ تھا" جس کے بعد انہوں نے اہلکاروں کو کہا،"بس بھئی لے جاؤ انہیں" کسی قاتل کے لیے پولیس افسر کو تعظیم کا صیضہ استعمال کرتے ہوئے پہلی بار دیکھا سنا۔ اس کا مطلب یہ بنتا ہے کہ وہ بھی اس کی "غیرت مندی" کے معترف تھے۔
مغرب میں تو فحش ترین فلموں میں کام کرنے والیاں بھی ہوتی ہین۔ ان میں سے کچھ کے ماں باپ بھی ہوتے ہیں اور کچھ کے ہتھ جھٹ غنڈے بھائی بھی لیکن ان کو اپنی بیٹی یا بہن کے اس فعل سے کوئی غرض نہیں ہوتی۔ زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کوئی والدین قدامت پرست ہیں تو وہ ایسی بیٹی سے ناطہ توڑ لیتے ہیں۔ پھر مغرب میں تو بیٹی اور بہن کی کوئی گالی ہے ہی نہیں البتہ ماں کی ضرور ہے۔
جی ہاں سب جانتے ہیں کہ بہت زیادہ صنعتی معاشرے میں غیرت کا مطلب بدل جاتا ہے لیکن نیم صنعتی سماج میں جہاں صنعت کے ساتھ نیم لگانا ویسے ہی غلط ہے بلکہ سماج ہوتا ہی جاگیردارانہ ذہنیت والا ہے وہاں غیرت عورت کی عزت اور بے عزتی سے ہی منسوب ہوا کرتی ہے۔
مجھے ذاتی طور پر اس کا تجربہ ہے۔ اگرچہ میں پڑھا لکھا اور آزاد سوچ رکھنےوالا شخص تھا اور جس سے میرا ناطہ ٹوٹا وہ بھی پڑھی لکھی اور کسی حد تک روشن خیال تھی۔ اس نے میرے ساتھ رشتہ توڑ دینے کے بعد اگر کسی اور سے رشتہ جوڑ لیا تھا تو یہ اس کی صوابدید تھی لیکن میں جانتا ہوں کہ مجھے اپنے کتنے تعلیم یافتہ لیکن جاگیردارانہ مزاج رکھنے والوں کی لعن طعن سننی پڑی تھی۔ مجھے بعض نے بے غیرت بھی کہا اور کچھ نے تو اسے قتل کر دینے پر اکسانے کی کوشش بھی کی تھی۔ اگر میں پڑھا لکھا اور انسان دوست نہ ہوتا تو میں بھی وہی کرنے کی کوشش ضرور کرتا جس کے لیے وہ اکسا رہے تھے۔
مگر وسیم نہ پڑھا لکھا ہے اور نہ ہی روشن فکر۔ باوجود اس کے کہ قندیل اس کی اور اس کے ماں باپ کی پالنہار تھی، وہ اس "دباؤ" کو برداشت نہ کر سکا۔ بزدل شخص ہے، براہ راست گولی نہیں مار سکتا تھا، پہلے خواب آور گولیاں ملا دودھ پلایا، مرتی ہوئی بہن کا چہرہ نہ دیکھ پائے اس کی خاطر اس کے چہرے پر تکیہ رکھ کر دبایا، اتنی بھی ہمت نہیں تھی کہ پولیس کے سامنے خود پیش ہو جائے، جاہل شخص مار دی گئی بہن کا مہنگا فون سیٹ لے کر بھاگ گیا کہ دس بارہ ہزار روپے بنا لے گا۔ اوپر سے کہتا ہے،" بلوچ ہیں، ہم سے برداشت نہیں ہوا"۔
مگر ہمارے دوست سوشل میڈیا پر اور اپنی تحریروں میں پاکستان کو یک لخت فرانس بنانے کے خواہاں دکھائی دے رہے ہیں اور شاہ صدر دین جہاں کی قندیل سابقہ رہائشی تھی، مظفرآباد جہاں کی آبادی بمشکل چند ہزار نفوس ہے وہ بھی کالونی ٹیکسٹائل ملز کی وجہ سے جہاں قندیل ماری گئی یا ڈیرہ غازی خان کو جہاں بزدل قاتل وسیم کو قندیل نے موبائل فون شاب کھول کر دی تھی کو فرانس کے شہر اور بستیاں بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ بھائیو بہنو یہ مقامات یہیں ہیں، اسی سرزمین پر جہاں اگر قندیل قندیل نہ ہوتی تو یہ واقعات عام ہیں۔ غیرت کے نام پر قتل کو روکنے کی خاطر شہروں میں درجن بھر بینر پکڑ کر جلوس نکالنا اور بات ہے لیکن کروڑوں کی ذہنیت کو بدل ڈالنا یکسر اور بات۔
عزیزی مشتاق گاڈی نے اپنی وال پر انگریزی زبان میں بالکل درست لکھا ہے " ًمختلف گروہ قندیل بلوچ کے سانحاتی قتل کو مخصوص معانی دیتے ہوئے ایک طرح کی پریشانی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں جیسے کہ لبرل، نسائیت پرست، مارکسی، اسلامی بنیاد پرست ۔ ۔ ۔ ہر گروہ اس افسوسناک واقعے کو ایک خاص معنی پہنانا چاہ رہا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ان متنوع اور کسی حد تک متضاد تناظرات کے پس منظر میں، قندیل بلوچ کی شخصیت اور بہیمانہ واقعہ دونوں ہی خالی خولی اہمیت کار کی حیثیت سے گم ہو رہے ہیں ۔ ۔ ۔ ایسے اہمیت کار جس کا کوئی مخصوص اور متفقہ حوالہ نہیں ۔ ۔ ۔ بجائے معنی دینے کے یہ ان معانی کو جذب کرتے جا رہے ہیں جو سامع/ ناظر سننا پڑھنا چاہتا ہے"۔
معاشرے کو مطعون کرنے سے مذموم معاملات تمام نہیں ہونگے۔ اس کے برعکس معاشرے کا مطالعہ کرتے ہوئے وسیع پیمانے پر اور مختلف سطوح اور مختلف طبقات میں وہ متنوع اور مشکل کام کیے جانے کی ضرورت ہے جو ایسی طرز حیات کو تبدیل کرنے کی راہ ہموار کریں جس کی بنیاد پر قدامت پسندانہ جاگیرداری نفسیات معدوم ہو سکے اور ترقی یافتہ صنعتی سماج پروان چڑھ سکے تبھی کسی فوزیہ عظیم کو قندیل بلوچ کا روپ نہیں دھارنا پڑے گا نہ کوئی جاہل اور بزدل وسیم رہے گا جسے کوئی بہن کی بیباکی یا بے حیائی کے طعنے دے گا تاکہ وہ جھلا کر قندیل کو قتل کر ڈالے۔
https://www.facebook.com/mirza.mojahid/posts/1456772377682201
“