(Last Updated On: )
اس نوجوان خاتون کانام تو کلثوم بی بی تھا مگر جب بھی وہ آستین کے سانپوں،سانپ تلے کے بچھوؤں اور بروٹس قماش کے کینہ پرور حاسدوں کے تیر ستم کھاکر مڑ کر دیکھتی تو اپنے ہی قریبی احباب سے اُس کی نظریں چار ہو جاتیں۔ایسے میں وہ بے اختیار پکار اُٹھتی ’’ میر ا مقدر میرا مقسوم‘‘۔ یہی جملہ اس خاتون کاتکیہ کلام بن گیا اور گاؤں بھر کی خواتین نے اُسے مقسوم بی بی کہہ کر پکارنا شروع کر دیا۔ سال دو ہزار بیس دنیا میں کورونا وائرس (COVID-19)کی جان لیوا وبا بھی اپنے ساتھ لایا ۔ دیکھتے ہی دیکھتے اِس خطرناک وائرس نے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔جون 2020ء کے وسط تک دنیا بھر میں پچھتر لاکھ افراداس خطر ناک وبا سے متاثر ہو چکے تھے اور کورونا کے باعث چار لاکھ چالیس ہزار افراد اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ جب اِتنی بڑی تعداد میں لوگ وبا کے باعث لقمۂ اجل بن گئے تو طبی سائنس کی دنیا بے بسی کے عالم میںدیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ اس عالمی وبا کے بچاؤ کے لیے حفاظتی اقدا م کے طور پر کیے جانے والے لاک ڈاؤن کے باعث لوگ اپنے گھروں تک محدود ہو گئے اور ادبی نشستوں،تقریبات اور رابطوں سے متعلق تمام حقائق خیال و خواب ہو گئے ۔میں اپنی جھونپڑی کے گوشے سے اُٹھا ،دروازے سے دیکھا تو باہر ہُو کا عالم تھا۔گزر گاہوں اور سیر گاہوں کی ویرانی دیکھ کر میرا دِل بیٹھ گیا۔ سال 2020ء کا جون کا مہیناشروع ہوا تو کورونا وائرس نے معاشرتی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر اور آہیں بے اثرکر دیں۔ چند لوگ اپنے چہروں پر ماسک چڑھائے سہمے ہوئے دکھائی دئیے جو ضروریات زندگی اور اشیائے خورو نوش کی خریداری کے لیے اپنے دِلِ بے تاب اور جیب پر ہاتھ رکھ کر پیچ و تاب کھاتے ہوئے باہر نکلے تھے ۔جس وقت پوری دنیا کے مصیبت زدہ لوگ رنج و الم میں ڈُوبے تھے اس وقت منافع خوروں کی پانچوں گھی میں تھیں۔ فضا میں زاغ و زغن ،بُوم و شِپر اور کر گس دیکھ کر زمین بھی دِل کے مانند دھڑک رہی تھی ۔ جانگسل تنہائیوں کے اِن لرزہ خیزاور اعصاب شکن حالات میں انٹر نیٹ کے رابطے امریکی واٹس ایپ (WhatsApp) ،گوگل میٹ(Google Meet) ،ایمو (Imo) ،فیس بُک مسینجر (Facebook Messenger) ،زوم (Zoom ) ،مائکرو سافٹ ٹیمز Microsoft Teams)۔فیس ٹائم(FaceTime) اورسکائیپ(Skype)ہی معتبر ربط کا وسیلہ ثابت ہو رہے تھے ۔ دو جون کی صبح میرے گھر میں میز پر رکھے کئی دن سے خاموش رہنے والے کمپیوٹر اور انٹر نیٹ سے جڑے لینڈ لائن فون نے سکوت مرگ توڑا ۔ اچانک فون کی گھنٹی بجی دوسری طرف سے رونے کی آواز سن کر میرا دِل دہل گیا۔
’’ میں علم دین بول رہا ہوں ۔ گزشتہ شب استر عطائی کی اہلیہ مقسوم بی بی اپنے گھر کی عقوبتوں اور اذیتوں سے نجات حاصل کر کے انتہائی پُر اسرارحالات میںاِس دارِ فانی سے رخصت ہو گئی ۔ ‘‘
’’ علم دین! تمھاری باتیں ایسا معما ہیں جو نہ سمجھنے کا ہے اور نہ ہی سمجھانے کا کچھ وضاحت کر و یہ کیا معاملہ ہے ؟ ‘‘ میں نے گلو گیر لہجے میں کہا ’’یکم جون دو ہزار بیس کی صبح تمھارے پڑوسی تشفی کنجڑے نے استر عطائی کے بھائی مولوی ناصر علی کی اچانک رحلت کی اطلاع دی اور اب تم استر عطائی کی اہلیہ مقسوم بی بی کی وفات کی لرزہ خیز اور اعصاب شکن خبر سنا رہے ہو۔‘‘
اس کانفرنس کال کے ایک اور مہمان جُھلاجھکیار نے آہ بھر کر کہا’’ تاکنا جھانکنا علم دین کا شیوہ ہے مجھے تو یہ گما ن گزرتاہے کہ ہر روز اجل کے ہاتھ میں جو پروانہ تھمایا جاتاہے علم دین آنکھ بچا کر اُس کی ایک جھلک دیکھ لیتاہے ۔اسی لیے تو میں اِسے سمجھاتا ہوں اور کہتا ہوں کہ توں علموں بس کریں او یار ۔جہاں تک تشفی کنجڑے کا تعلق ہے کالی دیوی کے مجاور اِس کر گس کی زبان بھی چہرے کے رنگ کے مانند کالی ہے البتہ زہرہ کنجڑن کے اس نواسے کے قدم سبزہیں ۔‘‘
آزمودہ کار ماہی گیراور کشتی ران ٹُلا موہانہ پہلے بات کو تولتاہے پھر کچھ بولتاہے ۔اس الم ناک سانحہ کے بارے میں سُن کر وہ اپنا گریہ ضبط نہ کر سکا اور بولا ’’ اس شہر نا پرساں میں زمین کے بوجھ استر عطائی کے جورو ستم کے بارے میں جتنے منھ اُتنی باتیں ۔اجلاف وارذال کے پروردہ سانپ تلے کے اِس بچھو کے قبیح کردار اورکریہہ چہرے سے نقاب اُٹھا کر ہمیں حقائق سے آگا ہ کرو۔ با وثوق ذرائع سے مجھے معلوم ہوا ہے کہ اِس مافیا سے تعلق رکھنے ولے سب افرادجو فروش گندم نماٹھگ ہیں ۔اپنی دروغ گوئی اور دھوکا دہی کی وجہ سے یہ معاشرے میں اتنے رسوا ہیں کہ اگر کبھی بھول کر یہ سچ بھی بولیں تو کوئی ان کی بات کا یقین کرنے کو تیار نہیں۔ یاد رکھو گھنے جنگلوں میں بھیڑیوں کے نرغے میں پھنس جانے والی بھیڑوں اور گلہ بانوں کے بچ نکلنے کے متعدد امکانات موجود ہیں مگر بھیڑ کا لبادہ اوڑھ کر آبادیوں میںپھرنے والا اکیلابھیڑیا بھی اپنے نرغے میں آنے والے بے بس انسانوں کو کبھی زندہ نہیں چھوڑتا۔ٹُلا موہانہ نے اپنے ذاتی تجربات اور مشاہدات کی بناپر استر عطائی کے بارے میں کہاکہ اُس کی شقاوت آمیز نا انصافیاں، مکر کی چالیں ،جورو ستم اور اوچھے ہتھکنڈے ہی اُس کی پہچان بن گئی ہے۔
یہ بات ہماری ڈِینگ نہیں ہے
کام شناخت بنیں بھڑووں کی
اِن کے سر پر سینگ نہیں ہے ‘‘
علم دین نے جب اس صریح نا انصافی اور جبر و استبداد کی رودا دسنی اُس نے دل تھام کر گلو گیر لہجے میں کہا:
’’سیاہی وال کے نواح میں دریائے جہلم کے کنارے واقع مگر مچھ نگر میں مقیم استر عطائی نے پوری آبادی کے لیے آفت نا گہانی کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ یہ درندہ سادہ لوح لوگوں کی پیٹھ میں خنجرگھونپ کر مرہم بہ دست پہنچتاہے اورجعلی ہمدردی کی اداکاری کر کے پوچھتا ہے کہ یہ خون کیسے نکلا؟ قلزمِ حیات کی ہر موج میںسیکڑوں نہنگ،وہیل مچھلیاں ،دریائی گھوڑے اور شارک مچھلیاں ہمہ وقت سطح ِ آب پر تیرکر کم زورآبی مخلوق پر اپنی قوت و ہیبت کی دھاک بٹھا رہی ہیں۔آسمان سے برسنے والی بارش کے نفیس اور صاف قطروں کو صدف کے منھ میں جانے کی راہ میںحائل ہو کر یہ آبی مخلوق قطرے کے گہر ہونے کی پوری کہانی سامنے لاتی ہے ۔زندگی کے دشتِ خار میںمنزلوں کی جستجو کرنے والے آبلہ پا مسافروں کو یہ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ یہاں گاڈزیلا،ڈائنو سار ،گینڈوں،ریچھوں ،خطرناک جنگلی سانڈوں ،بھیڑیوں ،راکشس اور تیندووںکا راج ہے ۔استر عطائی بھی آدم خور درندوں کی اِسی خونخوار نسل سے تعلق رکھتاہے۔ اس دنیا میں اگر خوابوںکا کوئی زیرک ،فعال اور مستعد صورت گر پیمان شکنی ،دغا و دُزدی ،جنسی جنون،تخریب و تحریص ،محسن کُشی،طوطا چشمی،قزاقی و چالاکی ،بے حسی ،انسا ن دشمنی ، بے حیائی ،بے غیرتی ،بے ضمیر ی اور اخلاق باختگی کی تجسیم کا معجز نماکرشمہ دکھا سکے تو جو کریہہ صورت سامنے آ ئے گی وہ استر عطائی سے مماثل ہو گی۔‘‘
جہاں دیدہ دانش ور ،محنتی معلم ،مصلح اور خادمِ خلق اُستاد فتح شیر اب تک خاموش بیٹھا سب باتیں سُن رہا تھااُس نے آہ بھر کر کہا:
’’ میں نے اور معلم بشیر نے سال 1981ء میں استر عطائی کو پڑھایا جب وہ آٹھویں جماعت کا طالب علم تھا۔یہ غبی، کندہ ٔ ناتراش پرلے درجے کا احسان فراموش ،بے حدگستاخ اور محسن کش ہے ۔یہ ابلہ جس تھالی میں کھاتاہے اُسی میں چھید کرتاہے اور جس سایہ دار درخت کی چھاؤں میں بیٹھتا ہے اُسی کی جڑوں کو کاٹتا ہے ۔ اس نے اپنی بڑی بہن جو کہ اب اُس کی ماں کی جگہ ہے اور بہنوئی کے احسانات کا بدلہ یہ دیاکہ اُن کو گالیاں دیں اور اُن سے روابط منقطع کرلیے۔گرگ آشتی اس کا وتیرہ ہے میں تو اِس گرگ کے بارے میںیہاں پروین شاکر(1952-1994) کا یہ شعر پڑھوں گا:
تہمت لگا کے ماں پہ جو دشمن سے داد لے
ایسے سخن فروش کو مر جانا چاہیے
’’ یہ تو بتاؤ کہ مقسوم بی بی کون ہے ؟‘‘ جُھلا جھکیار نے حیرت اور غم کے ملے جلے جذبات سے کہا ’’ تم اس خاتون مقسوم بی بی کو کیسے جانتے ہو؟‘‘
علم دین نے روتے ہوئے کہا’’ میں نے مقسوم بی بی کی دادی اماں دولت بی بی کے گھر میں پرورش پائی ہے ۔اماں دولت بی بی کی خدا ترسی کی ایک مثال یہ ہے کہ اُس نے برہمنوں کی معتوب ایک فاقہ کش ،بے سہارااور بے بس و لاچار شودرعورت کو اپنے گھر میں پناہ دی اور اُس کے قیام ،طعام اور لباس کی ذمہ داری قبول کی ۔ اس دُنیا کانظام توقعات کے مدار میں گھومتا ہے اورتو قع کے بغیر ہماری بے بسی کا کوئی ٹھکانہ ہی نہیںاَستر عطائی نے اپنے گھر میں اپنی اہلیہ مقسوم بی بی کے لیے ہر سوچ ایک جنگ اور ہر سانس ایک معرکہ بنا دیا ۔ان صبر آزما حالات میں بھی وہ مظلوم عورت اپنے دِل میں موہوم کامیابی کی توقع لیے سرابوں میں بھٹکتی رہی ۔اور اپنی روح اور قلب کے زخم اس ایک جملے میں پنہاں کرتی کہ میں یہاں بہت خوش ہوں ۔ درد آ شنا لوگ اس بات پر توجہ نہ دیتے کہ کیا واقعی اُسے قفس کے گوشے میں بہت آرام ہے ؟قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں معاشرتی زندگی کا حال بھی عجیب ہو رہا ہے جس میں ہر گوٹھ، گراں ،قصبہ اور شہر کوفے کے قریب ہو رہا ہے ۔ تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک میںمردوں کی جابرانہ بالا دستی کے نتیجے میں ہر کور مغز ،سفلہ اور بے بصر شوہر نے اپنی مظلوم اور بے سہارا بیوی کو کوّے ہنکنی سمجھ رکھا ہے ۔‘‘
دو برس قبل میں اپنی اہلیہ کے ہمراہ اپنے چچا کی بیٹی مقسوم بی بی سے ملنے اُس کے گاؤں پہنچا۔ گرمی کا موسم تھا اور دو پہر کا وقت تھا ہم نے دیکھاکہ مقسوم بی بی چتھڑوں میں ملبوس گرم زمین پر بیٹھی رو رہی تھی ۔اُس کے بوسیدہ لباس پر کرب و اضطراب کے پیوند لگے تھے مگر خاندان کی رفوگر خواتین خواب ِ غفلت میں مدہوش تھیں ۔ظلم و استبداد کی چلچلاتی تیز دُھوپ کے نیزے مقسوم بی بی کی آنکھوں میں گڑے تھے مگر وہ اچھے دنوں کی آس میں صبر ورضا کا پیکر بنی لرزہ خیز اور اعصاب شکن حالات کاخندہ پیشانی سے سامنا کر رہی تھی ۔ ہمیں دیکھ کر اُس نے اپنے بوسیدہ دوپٹے سے اپنے چہرے سے بہنے والے پسینے کے قطرے اور آنکھوں سے رواں ہونے والے آنسو صاف کیے اور ہماری خیریت دریافت کی ۔ اُس نے نلکے کا گرم پانی ایک پیالے میں ڈال کر ہمیں پیش کیا اور بتایا کہ اپنے گھر میں یہی آب ِشیریںہی اُسے یہاں میسر ہے ۔ہم نے محسوس کیا کہ گرد و نواح میں اور پورے خاندان میں اُس کے اُلجھے ہوئے الم ناک حالات کو شانہ دینے وا لا چارہ گر کوئی نہیں تھا۔کینہ پرو رحاسدوں ،کور مغز و بے بصر شوہراور منتقم مزاج سوتن نے نہایت سطحی اور بد بختانہ الزامات عائد کر کے قسمت سے محروم مقسوم بی بی کی کردار کُشی کو وتیرہ بنا رکھا تھا۔وہ اس بے ضرر مظلومہ کو اپنا جانی دشمن سمجھتے تھے اور جلد از جلد اِس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی فکر میں مبتلاتھے ۔ گردشِ حالات کے سامنے تقدیر کا تیر بن جانے والے سمجھتے ہیں کہ اب چارۂ دِل سوائے صبر نہیں ہے ۔ہم نے مقسوم بی بی کے ساتھ اظہار ہمدری کرتے ہوئے اُسے اپنی طرف سے ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی ۔ ہماری طرف سے تسلی کی باتیںسُن کراُس نے اپنے چہرے پر چھائی اضطراب کی سلوٹیں مصنوعی اطمینان میں پنہاں کرنے کی سعی کرتے ہوئے کہا :
’’ میرے قابل احترام بزرگو ! تم یقینا میر ے مونس و غم خوار ہو،تمھاری یہاں آمد سے میرا حوصلہ بڑھا۔ تم سب دیکھ رہے ہو کہ یہاں میںہر لحاظ سے مطمئن و مسرور ہوں لیکن اب ظلم کی میعاد کے دِن بہت کم رہ گئے ہیں ۔دِلِ زار کے سب اختیار رخصت ہو گئے ہیں اور آ ہ و فغاں وگریہ و زاری کے دِن اب تھوڑے رہ گئے ہیں۔میں اپنے مقدر اور مقسوم پرسدا اپنے خالق کاشکر ادا کرتی ہوں۔ میں نے اپنے عزیزوں اور بزرگوں سے ہمیشہ یہی التجاکی کہ میرے لیے دعا کریں کہ اللہ کریم میر ے گلشن کی اللہ نگہبانی کرے ۔‘‘
مقسوم بی بی کی قناعت ،صبر وتحمل اور شان استغناکی مظہر باتیں سُن کر مجھے عرفیؔ شیرازی ( 1555-1591) کا یہ شعر یاد آ گیا:
آ غشتہ ایم ہر سر ِ خارے بہ خونِ دِل
قانونِ باغبانی ٔ صحرا نوشتہ ایم
موجودہ دور میںقلعۂ فراموشی کے محصورین عورت کی مظلومیت کی تصویر دیکھنا چاہیں تو ہارون الرشید کی سوتیلی بہن عباسہ بنت المہدی ،مغل بادشا ہ اورنگ زیب کی بیٹی زیب النسا مخفی( 1638-1702) ، ایرانی شا عرہ قرۃ العین طاہرہ ( 1817-1852)، امریکی شاعرہ اور ناول نگار سلویا پلاتھ ( 1932-1963: Sylvia Plath )، ایرانی شاعرہ اور ادیبہ فروغ فرخ زاد ( 1934-1967 :Forough Farrokhzad ) ، ملکہ ممتاز محل( 1593-1631)، ملکہ نور جہاں( 1577-1645)،انار کلی اور اگنی پریکشا میں مایا سیتا، سلطنت دہلی کے مطلق العنان حاکم شمس الدین التتمش کی بیٹی رضیہ سلطان (1205-1240) ،میر ی کوئین آف سکاٹس ( 1542-1587 : Mary, Queen of Scots) اور فرانس سے تعلق رکھنے والی جون آف آرک ( 1412-1431 :Joan of Arc) کی زندگی کے الم ناک حالات پر نظرڈالیں جن کی زندگی کی مشعل ہوائے جور و ستم کے مہیب بگولوں نے پر اسرار انداز میں بُجھا دی ۔مقسوم بی بی کا تعلق بھی خواتین کے اِسی مظلو م قبیلے سے ہے ۔نہ کوئی مدعی نہ ہی کسی قسم کی شکایت آدم خور درندوں کی خون آشامی کاحساب چپکے چپکے پاک ہوا اور خون ِ خاک نشیناں رزقِ خاک ہوا۔ جب کوئی معاشرہ اپنے تباہ کن جرائم پر ٹس سے مس نہیں ہوتا تو یہ اُس معاشرے کی بے حسی علامت ہے ۔یہ صورت حال انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے لیے انتہائی بُر ا شگون ہے ۔مجھے یہ کہنے میں کوئی تامل نہیںکہ بد قسمتی سے ماضی میں دنیا کے بیش تر ممالک میںخواتین کو اُن کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا جاتا ر ہا ہے۔
اس کانفرنس کال میں شامل احبا ب علم دین کی باتیں نہایت توجہ سے رہے تھے مگر علم دین باتیں کرتے کرتے زارو قطار رونے لگا۔میں نے کہا :
’’کورونا وائرس کے باعث ان دنوں پبلک ٹر انسپورٹ کم کم چلتی ہے۔ وقت بہت تھوڑا رہ گیاہے اور ہماری منزل دُور ہے ،فاصلہ زیادہ ہے اوراپنے ذاتی اِنتظام پر اب ہم نے مرحومہ،مظلومہ مقسوم بی بی کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے اُس کے آبائی گاؤں روانہ ہونا ہے اس لیے اب بات ختم کی جاتی ہے ۔ ‘‘
مرحومہ کے آبائی گاؤں پہنچے تو ہر طرف سے گریہ و زاری کی آوازیں سُن کر ہماری آ نکھیںبھیگ بھیگ گئیں۔ اِسی اثنا میں حسرت و یاس کے چیتھڑے اوڑھے نشیبِ زینہ ٔ آلام پر عصا رکھتا نتھا پاولی کہیں سے نمودار ہوا ۔دستی کھڈی پر کھیس بننے والے اس کہنہ مشق دست کار کے فن کی ہند سندھ میں شہرت تھی ۔ انسان شناسی میں وہ اپنی مثال آپ تھااُس نے مقسوم بی بی کے بارے میں علم دین کو بتایا:
’’ دائمی مفارقت دینے والی حکیم علی محمد کی یہ خوش خصال بیٹی اپنے زمانے کے فرشتہ صفت درویش ،خادمِ خلق اور میرے بزرگ صالح محمد کی پوتی ہے ۔اس کی ماں حجن اللہ جوائی نے اپنی ساس دولت بی بی کی طرح سیکڑوں بے سہارا ،یتیم اور مفلس لڑکیوں کی تعلیم و تربیت میں حصہ لیا اور ان کا گھر بسایا ۔ دریائے جہلم اور دریائے چناب کے وسط میں واقع گاؤں دوآبہ کے یہ مکین دردمندوں اور ضعیفوں سے بے لوث محبت کرتے تھے۔اِن کے بارِ احسان سے اِس علاقے کی مفلوک الحال اوربے سہارا خواتین کی گردن ہمیشہ خم رہے گی ۔ تاریخ گواہ ہے کہ ہر دور میںملکہ سبا کی طرح ہر مقسوم بی بی کو اس کی خاندانی میراث سے محروم کرنے کی مکروہ اور ظالمانہ سازشوں کا سلسلہ جاری رہتاہے ۔ تہی اور مثنیٰ استرعطائی نے ایک سال پہلے مقسوم بی بی کو بغیر کسی خطا کے طلاق دی دس ماہ کے بعد بعض لوگوں کے ایما پر اُس نے احکام ِشریعت سے بے نیاز رہتے ہوئے مقسوم بی بی سے رجوع کرنے اور اپنے گھر لانے کا فیصلہ کر لیا۔ اِس عالمِ آب و گِل میںفریب ہستی کھانے والے ہر انسان کے دماغ میں ہیچ کارِ جہاں کے بارے میں دھوکا کھانے کی بڑ ی استعداد ہے ،بل کہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ فریب خوردگی کے بغیر اس کی زندگی اَجیرن بن جاتی ہے اور وہ اپنے فکر و خیال میں ہر قیمت پرموقع پرستوں کا مسلط کردہ کسی نہ کسی طر ح کا فریب بر قرار رکھنے کی مقدور بھر سعی کرتا ہے ۔اِس بار بھی استر عطائی اور اس کے ہم نوا اَپنے مکر کی چالوں سے بازی لے گئے اور مقسوم بی بی اپنی سادگی کے باعث مات کھا گئی۔ کسی قسم کے تحفظ اور سلامتی کی یقینی دہانی کے بغیرپھر وہیں غیر مشروط آبادی اور اس کے بعد مکمل انہدام اور عبرت ناک بربادی کا عفریت ہر طرف منڈلا رہا تھا ۔جان لیوا تنہائیوں اور اذیت و عقوبت کی تاب نہ لاتے ہوئے مقسوم بی بی دو جون 2020ء کو انتہائی پر اسرار حالات میں اپنی ماں اور باپ کے پاس جنت میں جا پہنچی ہے ۔مقسوم بی بی کا صر ف اِس گھر ہی سے آب و دانہ نہیں اُٹھا بل کہ یک طرفہ طور پر مسلط کیے جانے والے جابرانہ فیصلوں اور مبہم یقین دہانیوں کا اعتبار بھی رخصت ہو گیاہے ۔‘‘
گھماں پاولی یہ باتیں بہت توجہ سے سن رہا تھا ۔اپنے دیرینہ کرم فرما اور درد آ شنا پڑوسی حکیم علی محمد کی نوجوان بیٹی کی الم ناک موت پر وہ بے تحاشا رو رہا تھا۔ اپنے گھر میں لگی دستی کھڈی پر کھدر ،دھسے اور دُہریں بنانے والے اس جہا ںدیدہ دست کار کی فنی مہارت کا ایک عالم معترف تھا۔اُس نے حکیم حاجی غلام محمد کے گھر میںہونے والے اس سانحہ پر اپنے جذباتِ حزیں کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’ بابا بر خوردار ،صالح محمد ، سلطان محمود ،علی محمد ،ولی محمد ،حاجی غلام محمد، نور محمد اور حافظ احمد بخش کے ساتھ میرے خاندان کے تعلقات گزشتہ کئی عشروں پر محیط ہیں ۔ حکیم حاجی غلام محمدکے گھر کے گلشن سے اجل نے یکم جون 2020ء کو بیٹے ناصر علی کی صورت میںایک پھول توڑ لیا اور دو جون 2020 ء کو بہو مقسوم بی بی کی شکل میں ایک حسین کلی پیوند خا ک ہو گئی ۔اس صدمے نے ہم سب کو حواس باختہ ،غرقابِ غم اور نڈھال کر دیاہے ۔ دردِ دِل رکھنے والے یہ سب درد آشنا یہاں مر ہم بہ دست پہنچے ہیں ۔‘‘
ٹلی جھکیار کافی دیر سے حسرت و یاس کی تصویر بنا خاموش بیٹھا تھا وہ اِن عزیزوں کے نہ ہونے کی ہونی دیکھ کر دل گرفتہ تھا۔اس سانحہ کے بارے میں وہ کہنے لگا:
’’ میرے لیے روزگار کی تلاش میں سلطان محمود ، حکیم علی محمد اور پنساری نور محمد نے بہت تعاون کیا۔میں زرعی اجناس سے بھری ہوئی بوریاں اور دیسی گھی کے کنستران کی دکان سے اپنے اونٹوں پر لادتا اور منڈی شاہ جیونہ کے آڑھتیوں کے پاس پہنچاتا تھا۔میں ہفتے میں ایک بار منھ اندھیرے گھر سے نکلتا،صبح کا ناشتہ اپنے ان منھ بولے بھائیوں کے گھر سے کرتا اور رات گئے جب واپس آتاتو پٹ سن کی نئی بوریوں میں بندھا اِن کی دکان کا مطلوبہ سامان میرے اونٹوں پر لدا ہوتاتھا۔رات کا کھانا ان مخلص اور درد آشنا بھائیوں کے گھر سے کھاتا تھا۔ان کی والدہ اماں دولت بی بی مجھے اپنے بچوں کی طرح عزیزرکھتی تھی اور اِن کی بہن جنت بی بی تو میری حقیقی بہن کے مانند تھی ۔میںنے اِس خاندان کانمک کھایا ہے اس لیے میں آج اِن کا دُکھ درد بانٹنے کے لیے یہاں پہنچا ہوں ۔دینے کو تو میں بھی ظالموں کو منھ توڑ جواب دے سکتا ہوں مگر سلطان محمود،حکیم علی محمد اور نو ر محمدپنساری نے میری تعلیم و تربیت اس انداز سے کی ہے کہ میری تہذیب اِس کی اجازت نہیںدیتی ۔‘‘
ضعیفی کے باعث خادم موچی کی کمر جھک گئی تھی وہ اپنے نوجوان بیٹے مہدی کا ہاتھ تھام کر آگے بڑھا اور بولا:
’’ میرے درویش بھائی حکیم علی محمد کی خاک نشیں بیٹی مقسوم بی بی نے اپنے باپ اور اُس کے بھائیوں کی طرح سدا حریت ضمیر سے جینے کے لیے سیدہ فاطمہ زہرا ؑ اور اُن کے لخت ِ جگر حضرت امام حسین ؑکے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کی ۔جبر کے سامنے سپر انداز ہونا اس کی خاندانی روایت کے خلا ف تھا۔وہ جانتی تھی کہ حریت فکر کے مجاہد شاہ نکڈر ریلوے سٹیشن پر مار تو کھا سکتے ہیں مگرکسی نمرود کی اطاعت کسی صورت میں قبول نہیں کر سکتے ۔مقسوم بی بی کو مظلوم خواتین کی بے لوث خدمت، حق گوئی اور انصاف کی تمنا کرنے کی بھاری قیمت اپنی جان کی صورت میں اداکرنی پڑی ۔صعوبتوں کے سفر پر جادہ پیما ہونے والے کاروان ِحسین ؑ کے آبلہ پا مسافر وں کو یقین ہے کہ کبھی نہ کبھی ظلم کاپرچم ضرور جھکے گا ۔ وقت کے ہر ابن ملجم ،شمر اور ابن سعد کو اپنی فردِعمل سنبھالنی چاہیے کیونکہ شور ِ محشر اُٹھنے کے بعدحساب ہر حال میں یہیں دینا پڑے گا۔‘‘
نابینا فقیر سعید اپنے بیٹے رحیموں کے کندھے پر ہاتھ رکھے لڑ کھڑاتا ہوا اچانک نمودار ہوا وہ اس سانحہ پر بہت آزردہ و پریشان تھا۔اقلیم معرفت کا یہ پر اسرار فقیر اگرچہ بصار ت سے محروم تھا مگر قدرت کاملہ کی طرف سے اُسے بصیرت کی فراواں دولت سے متمتع کیا گیا تھا۔ گاؤں کے نواح میں بہنے والے ایک گہرے سیم نالے پر کوئی پُل نہ ہونے کی و جہ سے مقامی لوگوں سیم نالے کی دوسری طرف واقع جھگیوں میں مقیم اپنے عزیزوں سے ملنے کے لیے جانے کی غرض سے کیکر کی لکڑی کاایک مضبوط مگرٹیڑھا سا شہتیر رکھ کر سیم نالے پر عارضی گزرگاہ بنا رکھی تھی ۔اس شکستہ پل پر سے گزرنے والے بینائی رکھنے والے لوگ دن کی روشنی میں پھونک پھونک کر قدم رکھتے تھے مگریہ پر اسرارفقیر رات کی تاریکی میں بھی بے دھڑک اِس خام پُل سے گزر کریہ ثابت کر دیتاکہ اپنی مخلوق کو حوادث سے بچانے والی عظیم ہستی کس قدر قدرت، قوت ،ہیبت اور عظمت کی حامل ہے ۔ سوگوارنا بینا فقیر سعید نے اپنے تعزیتی جملوں میں حاضرین سے مخاطب ہو کر کہا:
’’ میں صالح محمد کی اولاد کو دلاسا دینے اور اُن کی ڈھارس بندھانے کے لیے یہاں آیا ہوں ۔حاجی غلام محمد کے گھر سے یکم جون کو نوجوان بیٹے ناصر علی کا جنازہ اُٹھا اِس کے بعد دو جون 2020ء کو نوجوان بہو مقسوم بی بی پُر اسرار حالات میں عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب رخصت ہو گئی ۔ اِن پُر آ شوب حالات میںہمیں استغفار کر کے عبادت کو شعار بنا کر اللہ رب العزت کے ذکر و فکر اور مراقبے میں امان حاصل کرنے کی سعی کرنی چاہیے ۔ میرے پیارے بھائی حکیم علی محمد کی بیٹی مقسوم بی بی کی التجا اور رحم طلب کرنے کی زبان سمجھنے والا اِس دیار میں کوئی نہ تھا ۔ اُس نے سرِ گرداب کئی بار پکارا مگر ساحلِ عافیت پر کھڑے بے حِس لوگوں نے اُس کی آ ہ و فغاں پر کوئی توجہ نہ دی ۔قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں خار زارِ حیات میں دُکھی انسانیت کی حیات ِ رائیگاں کی روح فرسا داستان سُن کر اپنے جی کا زیاں کرنے کی کسے فرصت ہے ؟ مقسوم بی بی کے غم و آلام کا مداوا ممکن تھا مگر المیہ یہ تھا کہ یہاں کے بے حس معاشرے میں ہر چارہ گر نے خود غرضی کے باعث چارہ گری سے اجتناب کیا۔ سیاہی وال کے گرد و نواح میں ہر کوئی اپنی فضا میں مست و بے خود پھرتا نظر آتاہے ۔اِن حالات میں قسمت سے محروم مظلوم انسانوں کی چشم ِ تر پر توجہ دینے والے اپنی دکان بڑھا گئے ہیں ۔‘‘
واقف حال لوگوں سے مجھے معلوم ہواکہ سلطان محمود ،علی محمد ،ولی محمد ،حاجی غلام محمد ،حافظ احمد بخش اور نور محمد کے آبا و اجداد نے گاؤں دوآبہ میں طویل عرصہ گزارا ۔ولی محمد ،حاجی غلام محمد ،حافظ احمد بخش تو سب سے پہلے دوآبہ چھوڑ کر ایک دُور افتادہ گاؤں پیرو جا بسے ۔ نصف صدی قبل گردشِ ایام نے باقی تین بھائیوں کو بھی گاؤں دوآبہ چھوڑنے پر مجبور کر دیا ۔سلطان محمود نے بچو ںکی تعلیم و تربیت کے بہتر مواقع کی جستجو میں جھنگ میں ڈیرے ڈال دئیے ،نور محمد نے سلانوالی ( سرگودھا ) بسیرا کر لیا اور علی محمد نے شاہ نکڈر ( سر گودھا ) کو اپنے قیام کے لیے منتخب کیا۔تقدیر ہر لحظہ ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑ ا دیتی ہے اس کے سامنے کوئی انسانی تدبیر کار گر نہیں ہوتی ۔حالات نے ایسا رخ اختیار کیا کہ افلاک کی عظمت کے حامل بزرگوں علی محمد اور سلطان محمود کو بدین (سندھ )کی خاک نے اپنے دامن میں چھپالیاجب کہ سلطان محمود کی اہلیہ اللہ وسائی کو اپنے ننھیال کے شہر خموشاں کر بلا حیدری، جھنگ میںآخری آرام گاہ نصیب ہوئی ۔ علی محمد کی اہلیہ اللہ جوائی ایک دُور درا زگاؤں پیرو کے شہر خموشاں میں آسودہ ٔ خاک ہے ۔نو ر محمد اور اُس کی اہلیہ سکینہ کی آخر ی آرام گاہ سلانوالی ( سرگودھا ) کے شہر خموشاں میں ہے جہاںاِس خاندان کے جگر پارے شیر محمد ،غلام شبیر اور الطاف حسین ابدی نیند سو رہے ہیں ۔ چار ہزار سال قبل مسیح سکندر اعظم کے زمانیسے تعلق رکھنے والے پنج پیر کے بلند کھنڈرکی چوٹی پر حاجی غلام محمد اپنے بیٹے عطا محمد کے ساتھ آ سودہ ٔ خاک ہے ۔ علی محمد اور اللہ جوائی کی اولاد نرینہ نہ تھی صرف دو بیٹا ں تھیں ۔ اللہ جوائی نے اپنی ساری زرعی زمین اپنی دونوں بیٹیوں کے نام کر اکے اُن کی شادی کی،حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی اور عدم کے کوچ کے لیے رخت سفر باندھ لیا ۔چند عارضی اور معمولی نوعیت کے مسائل حل کرنے اور حقیر مفادت حاصل کرنے کی خاطر اہلِ ہوس نے مقسوم بی بی کی زندگی کی شمع بجھا دی ۔اِ ن عاقبت نا اندیش سفہا نے مقسوم بی بی کی کتاب زیست کا آخری ورق تلف کرنے کے بعدیہ سمجھا کہ معاملہ ختم ہو گیا مگر انھیں کیا معلوم کہ آنے والا وقت یہ ثابت کر دے گا کہ اُنھوں نے خود اپنی پوری کتاب ِ زیست کو پشیمانیوں،ندامتوں اور حسرتوں کی بھٹی میں جھو نک دیاہے۔ان مہلک غلطیوں اور خطرناک جرائم کا انتباہ اجلاف و ارذال کے پروردہ مشکوک نسب کے حاسدوں کو تباہ و بربادکر دے گا اورلحد تک اُن کا تعاقب کرے گا۔مقسوم بی بی نے جس عزم اور صبر و تحمل کے ساتھ جان لیوا صدمات،اذیتوں اور عقوبتوں کو برداشت کرتے ہوئے زندگی بسر کی وہ اس کی جرأت مندی،توکل اور تقویٰ کی دلیل ہے۔ دو جون 2020ء کو دِ ن ڈھلے مقسوم بی بی کو پنج پیر کے قدیم شہر خموشاں کے کھنڈرکے بلندٹیلے کے نیچے اپنے چچا زاد بھائی حاجی غلام شبیر کی لحد کی مشرقی جانب سپر د خاک کیا گیا۔اپنی دنیا کے سب را زاپنے دِل میں لیے مقسوم بی بی ردائے خا ک اوڑھ کر ابدی نیند سو گئی ۔ مقسوم بی بی کی لحد پر مٹی ڈالنے والے الم نصیب پس ماندگان کی حالت ڈاکٹر اسلم فرخی( 1923-2016 )کے اس شعر کی عکاسی کرتی تھی :
آج اپنے ہی ہاتھوں تجھے مٹی میں دبا آئے
کل تک تیرے جینے کی دعا مانگ رہے تھے
اس اثنا میںپیلوں کے ایک درخت کے عقب سے ایک پریشان حال ضعیفہ نمودار ہوئی۔ اپنی خمیدہ کمر پر ہاتھ رکھے وہ لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھی اور مر حومہ مقسوم بی بی کی لحد کے سرہانے کھڑی ہو کر رونے لگی ۔یہ ضعیفہ دائمی مفارقت دینے و الی مقسوم بی بی کی ماں اللہ جوائی تھی اُس کے ساتھ اُس کا شوہر علی محمد بھی تھا جو تسبیح کا ورد کر ہاتھا ۔ سفید ر یش بزرگ علی محمد نے گرد و نواح کے ماحول پر ایک نظر ڈالی اور پھر انصاف طلب نگاہوں سے آسمان کی طرف دیکھنے لگا۔تھوڑی دیر کے بعد اللہ جوائی نے گلو گیر لہجے میں کہا :
’’ میری گود میں کہکشاں کے ستاروں سے آنکھ مچولی کھیلنے والی اور ماہتاب کی کِرنوں سے اِٹھلانے والی میر ی صابر بیٹی کی زندگی کو ظلمتِ شب کا گہن لگ گیا ہے ۔ مقسوم بی بی کے ناتواں جسم کو کلبۂ حزن میں محبوس کر دیا گیا اور انسانی ہمدردی سے سرشار اُس کے جذبات کو زنجیر وں میں جکڑ دیا گیا۔ میری بے بس و لاچار یتیم و مسکین بیٹی کے فکر و خیال پر پہرے بٹھا دئیے گئے اور اُس کے تکلم کے سلسلوں پر سخت تعزیریں تھیں ۔یہ مقسوم بی بی کا حوصلہ تھا کہ اُس نے انتہائی کٹھن اور صبر آزما حالات میں اس عقوبت خانے میں سانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پورے کیے ۔ وہ دِن دُور نہیں جب اِس کے کلبۂ ویراں کے اُداس بام و در ،بین کرتے دریچے ، ویران آنگن اور طائران ِ آزردہ اِس مظلومہ کی زندگی کے آخری ایام کے سب راز کھول دیں گے ۔بے حِس معاشرہ اور پورا خاندان حیرت و حسرت سے دیکھتا رہاکہ میری یتیم ،مسکین اورمظلوم بیٹی کے لیے اُس کا گھر شام کازندان بنا دیا گیاجس میں اُس نے سیدہ سکینہ ؓ بنت الحسین ؑ کی طرح عالمِ تنہائی میں شدیدمشکلات کا سامنا کیااور تکالیف برداشت کرکے زندگی کے دِن پورے کیے ۔پوری بستی کی مظلوم خواتین اور یتیم بچیوں کی آہوں کو اپنے دامن میں امان دے کر تسکین کی ردا سے آ نسو پونچھنے والی بے لوث مونس و غم خوار اپنے اُکھڑتے سانس گِن گِن کر آج ہمیشہ کے لیے اپنے گھر سے رخصت ہو چُکی ہے ۔ہر صبح اپنے گھر کے کمرے کی چھت پر طائران خوش نوا کے لیے دانے پھینکنے والی درد آشنا اپنے گھر سے بہت ہی دُور اِس کنج ویراں میں پیوندِ خاک ہو گئی ہے۔اُس کی فرقت میںپنج پیر کے شہر ِ خموشاں کے بلند ٹیلے کی فضاؤں میں کُونجیں کسی قصاب منش صیاد کے خوف سے بے نیا رہتی ہوئی کُرلاتی رہیں گی مگروہ بات اب کہاں؟اب انھیں دانہ ڈالنے کے لیے یہاں کوئی نہیں آ ئے گا۔ میری بچی مقسوم بی بی !تیرے بعداس گلشن میںمرجھائی ہوئی شاخیں گل ہائے تر کو تر س جائیں گی اور صحنِ چمن میں دھواں اُٹھے گا۔تیر ے گھر کے آ نگن میں لگے شہتوت کے درخت کی ٹہنیوں سے آہ و فغاں کی کونپلیں پھوٹیں گی۔صبح کا ہر منظر دُھندلا جائے گا،تیری مظلومیت پر جب نورے والا اور پیرو کی نہر میں آب ِ رواں کی لہریں ناگ کی صورت پھنکاریں گی تو چُرے( چوراہا ) کا سارامنظر سسکیاں بھرے گا اور نہنگ کا پورا سماں ہچکیاں لے گا ۔ تیری بے بسی پر دریائے جہلم کی طوفانی لہریں بھی اضطراب کے عالم میں کناروں سے سر پٹخیں گی ۔ اُردو زبان و ادب میں جدید لہجے کے منفرد لہجے کے ممتاز شاعر سید ناصر رضا ناصرؔ کاظمی ( 1925-1972)نے کہا تھا:
جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے ناصر ؔ
وہ لوگ آ نکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں ‘‘
میرا بڑا بھائی شیر محمد جو وطن عزیز کی مسلح افواج میں خدمات پر مامور رہا وہ بھی سوگواروں میں موجود تھا۔اُس نے درپیش حالات کے بارے میں کہا:
’’ حیف صد حیف ہمارے خاندان سے یکے بعد دیگرے دو ایسے فیض رسا ںافرا د اُٹھ گئے جن کے دم سے دِلوں کی انجمن میںضوفشانی کا عمل جاری تھا۔ظاہری کیفیت کو دیکھنے والی آ نکھیں تو یہی سمجھتی ہیں کہ یہ تنہا اپنی اپنی باری بھر کر رخصت ہوئے مگر وہ لوگ باطنِ ایام کے اسرار و رموز سے آگاہ ہیں یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں کہ اِن دونوں کی دائمی مفارقت سے نہ صرف اِن کے اپنے گھر میں اُداسی اور مایوسی نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں بل کہ سیکڑوں مظلوم افرادکے گھروں میں بھی اُمید کی روشنی ماند پڑ گئی ہے ۔ معاشرتی زندگی میںصبر و تحمل ،ایثار ،خلوص اور دردمندی کی روایت کو شدید ضعف پہنچاہے اور بے لوث انسانی ہمدردی کا دبستان ویران ہو گیاہے ۔ ‘‘
جن عنبر فشاں پھولوں کی مہک نہاں خانۂ دِل کو معطر کرنے کا وسیلہ تھی جب گل چینِ اَزل انھیں توڑ لیتا ہے تو دِلوں کی بستی سُونی سُونی دکھائی دیتی ہے اور گرد ونواح کا پُورا ماحول سائیں سائیں کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ حیا ت ِ مستعار کی کم مائیگی ، مر گِ نا گہانی کے جان لیوا صدموں ، فرصت ِ زیست کے اندیشوں،سلسلہ ٔ روزو شب کے وسوسوں ،کارِ جہاں کی بے ثباتی اور سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن خوف کے سوتے کارِ جہاں میں زندگی کی کم مائیگی ہی سے پُھوٹتے ہیں۔ کسی عزیز ہستی کا اچانک زینۂ ہستی سے اُتر کر شہرِخموشاں میں تہہِ ظلمات پہنچ جانا پس ماندگان کے لیے بلا شبہ ایک بہت بڑ ا سانحہ ہے مگراس سے بھی بڑھ کر روح فرسا صدمہ یہ ہے کہ ہمارے دِل کی انجمن کو تابانی ، ذہن کو سکون و راحت ،روح کو شادمانی ،فکر و خیال کو ندرت ،تنوع ،تازگی اور نیرنگی عطا کرنے والے یہ گل ہائے صد رنگ جب ہماری بزم ِ وفا سے اُٹھ کر ہمیں دائمی مفارقت دے جاتے ہیں تو یہ جانکاہ صدمہ دیکھنے کے بعد ہم زندہ کیسے رہ جاتے ہیں؟عدم کے کُوچ کے لیے رخت ِ سفر باندھنے والوں کی دائمی مفارقت کے بعدالم نصیب لواحقین اور پس ماندگان پر زندگی کی جو تہمت لگتی ہے وہ خفتگانِ خاک پر دِل نذر کر نے اور جان وارنے والوں کو بے بسی اور حسرت ویاس کا پیکر بنا دیتی ہے ۔ لو گ کہتے ہیں کہ جب دریاؤ ں میں آنے والے سیلاب کی طغیانیوں سے قیمتی املاک اورمکانات دریا بُرد ہو جاتے ہیں تو اس آفتِ ناگہانی کی زد میں آنے والے مجبور و بے بس انسان غربت و افلاس کے پاٹوں میں پِس جاتے ہیں مگر اس بات کا کوئی ذکر نہیں کرتا کہ خلوص ،دردمندی ،وفا ،ایثار، رگِ جاں اور خونِ دِل سے نمو پانے والے رشتے جب وقت بُرد ہوتے ہیں تو الم نصیب پس ماندگان کا غنچۂ دِل مر جھا جاتاہے ۔
دردِ دِل صرف درد آ شنا ہی سمجھ سکتاہے میں الم نصیب والدین کے قلبِ حزیں کے درد ِ لادوا کوسمجھتا ہوں۔ نوجوان اولاد کی دائمی مفارقت کا جان لیواصدمہ بوڑھے والدین کو زندہ درگور کر دیتا ہے جب کہ رفتگان اس صدمے پر قبر میں بھی تڑپ اُٹھتے ہیں ۔ اس عہدِِ نا پرساں میں جسے دیکھو اپنی فضا میں سرمست دکھائی دیتا ہے ۔یہاں غم زدوں کی چشمِ تر کو دیکھنے والے مسیحا عنقا ہیں ،دیدہ ٔ گریاں ،دِل اور جگرسے بہنے والے آ نسوؤں کی برسات کے نتیجے میں تلخی ٔ حالات اور الم نصیب خاندان کے دلی جذبات و احساسات پر دنیا کی غم گساری کے بارے میں کئی سوالات اُٹھتے ہیں۔ ابھی میں اپنی بہن عزیز فاطمہ ( وفات :1995 )،نوجوان بیٹی کوثر پروین( وفات :2006) اور نو جوان بھائی منیر حسین(وفات: 2008) کی دائمی مفارقت کے جان لیوا صدموں سے نڈھا ل تھاکہ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے چھے جولائی 2017کو میرا نو جوان بیٹا سجاد حسین مجھ سے چھین لیا۔ اسی عرصے میں سرگودھا میںمقیم مشتاق حسین کی دو کم سن نواسیوں کو پڑوس میں رہنے والی ایک چڑیل نے نگل لیا۔دس جولائی 2019کو سرگودھا شہر میں واقع اپنے گھر میں خوف ناک آتش زدگی کے سانحہ میں میری معمر خالہ سکینہ کی بیٹی عزیز بتول جسے تقدیر نے عین عالم شباب میں بیوگی کی چادر اوڑھا دی اور اس کی بیٹی شانزہ (طالبہ جماعت نہم ) جھلس گئیں ۔عزیز بتول نے تو اسی روز داعی اجل کو لبیک کہا اس کے گیارہ دن بعد شانزہ بھی اپنی ماں کے پاس پہنچ گئی اور ماں کی طرح کوٹ فرید سرگودھا کے شہر خموشاں کے ایک تنہا گوشے میں اپنی بستی بسالی ۔ اور اب یہ لرزہ خیزسانحہ کہ قزاق ِ اجل نے یکم جون 2020ء کو مولوی ناصر علی اور دو جون 2020ء کو مقسو م بی بی کے گھر کو بے چراغ کر دیا ۔افکارپریشاں کی دیوار کے سائے میں بیٹھے ان کے سوگوارپس ماندگان فرط ِ غم سے نڈھال ہیں اور یہ بات سمجھ چکے ہیں کہ اب کسی درد آ شنا کے مر ہم بہ دست آنے کی توقع نہیں اس لیے تنہائیوں کی صلیب اپنے کاندھوں پر اُٹھانے اور افتاں و خیزا ں زندگی کا سفرجاری رکھنے کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں۔آسماں ان رفتگاں کی لحد پر اظہار غم کرنے کی خاطر شبنم افشانی کرتا رہے گااور سبزۂ نو رستہ اِن خام گھروندوں کی نگہبانی میں مصرو ف رہے گا۔
جاتے ہوئے کہتے ہو قیامت کو ملیں گے
کیا خوب قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
میرا خیال ہے کہ موت یاس و ہراس کے سو اکچھ نہیں جو محض ایک آغاز کے انجام کا اعلان ہے کہ اب حشر تک کا دائمی سکوت ہی ہمارے خالق کا فرمان ہے ۔ عزیزہستیوں کی رحلت سے ان کے اجسام آنکھوں سے اوجھل ہو جاتے ہیں اور گلشن ہستی کے یہ عنبرفشاں پھول شہر ِخموشاں میں تہہ خاک نہاں ہو جاتے ہیں ۔ ان کی روح عالم بالا میں پہنچ جا تی ہے اس کے بعد فضائو ں میں ہر سُو ان کی یادیں بکھر جاتی ہیں اور قلوب میںاُن کی فرقت کا غم مستقل طور پربسیرا کر لیتاہے۔ ذہن و ذکاوت ،شعور اور لا شعور میں ان عزیزوں سے وابستہ واقعات اور دائمی مفارقت کی الم ناک سوچیں ڈیرہ ڈال دیتی ہیں۔ الم نصیب پس ماندگان کے لیے موت کے جان لیوا صدمات برداشت کرنا بہت کٹھن اور صبر آزما مرحلہ ہے ۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ فرشتہ ٔ اجل نے ہمارے جسم کا ایک حصہ کاٹ کر الگ کر دیا ہے اور ہم اس کے بغیرسانس گِن گِن کر زندگی کے دِن پُورے کرنے پر مجبور ہیں ۔ اپنے رفتگان کا الوداعی دیدار کرتے وقت ہماری چیخ پکار اور آہ و فغاں اُن رفتگاں کے لیے نہیں بل کہ اپنی حسرت ناک بے بسی ، اذیت ناک محرومی اور عبر ت ناک احساس ِزیاں کے باعث ہوتی ہے ۔غم بھی ایک متلاطم بحرِ ذخار کے مانند ہے جس کے مدو جزر میں دردِفرقت سہنے و الے الم نصیب انسانوں کی کشتی ٔجاں سدا ہچکولے کھاتی رہتی ہے ۔ غم و آلا م کے اس مہیب طوفان کی منھ زور لہریں سوگوار پس ماندگان کی راحت ومسرت کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتی ہیں۔ روح ،ذہن اورقلب کی اتھاہ گہرائیوں میں سما جانے والے غم کا یہ جوار بھاٹا حد درجہ لرزہ خیز اور اعصاب شکن ثابت ہوتا ہے ۔کبھی غم کے اس طوفان کی لہروں میں سکوت ہوتا ہے تو کبھی مصائب و آلام کی یہ بلاخیز موجیں جب حد سے گزر جاتی ہیں تو صبر و تحمل اور ہوش و خرد کو غرقاب کر دیتی ہیں۔ یاس و ہراس ،ابتلا وآزمائش اور روحانی کرب و ذہنی اذیت کے اِن تباہ کن شب و روزمیں دِ ل گرفتہ پس ماندگان کے پاس اِس کے سوا کوئی چارہ ٔ کار نہیں کہ وہ باقی عمرمصائب و آلام کی آگ سے دہکتے اِس متلاطم سمندر کو تیر کر عبور کرنے اور موہوم کنارہ ٔ عافیت پر پہنچنے کے لیے ہاتھ پاؤ ں مارتے رہیں ۔ ہمارے عزیز رفتگاں ہماری بے قراری ، بے چینی اور اضطراب کو دیکھ کر عالم خواب میں ہماری ڈھارس بندھا تے ہیں کہ اب دوبارہ ملاقات یقیناًہو گی مگر حشر تلک انتظار کرنا ہوگا۔سینۂ وقت سے پُھوٹنے والی موجِ حوادث نرم و نازک ،کومل اورعطر بیز غنچوں کو اس طرح سفاکی سے پیوندِ خاک کر دیتی ہے جس طرح گرد آلود آندھی کے تند و تیز بگولے کسی گُل نو شگفتہ پر بیٹھی سہمی ہوئی نحیف و ناتواں تتلی کو زمین پر پٹخ دیتے ہیں ۔پیہم حادثات کے بعد فضا میں شب و روز ایسے نوحے سنائی دیتے ہیں جو سننے والوں کے قلبِ حزیں کو مکمل انہدام کے قریب پہنچا دیتے ہیں ۔کہکشاں پر چاند ستاروں کے ایاغ دیکھ کردائمی مفارقت دینے والوں کی یاد سُلگ اُٹھتی ہے ۔تقدیر کے ہاتھوں آرزوؤں کے شگفتہ سمن زار جب وقفِ خزاں ہو جاتے ہیں تو رنگ، خوشبو،رُوپ ، چھب اور حُسن و خُوبی سے وابستہ تمام حقائق پلک جھپکتے میں خیال و خواب بن جاتے ہیں۔ روح کے قرطاس پر دائمی مفارقت دینے والوں کی یادوں کے انمٹ نقوش مزید گہرے ہونے لگتے ہیں ۔ان حالات میں قصرِ دِل کے شکستہ دروازے پر لگا مشیت ِ ایزدی اورصبر و رضا کا قفل بھی کُھل جاتاہے ۔سیلابِ گریہ کی تباہ کاریوں،من کے روگ،جذبات ِ حزیں کے سوگ اور خانہ بربادیوں کی کیفیات روزنِ اِدراک سے اس طرح سامنے آتی ہیں کہ دِ ل دہل جاتا ہے ۔ سیل ِ زماں کے مہیب تھپیڑے اُمیدوں کے سب تاج محل خس و خاشاک کے مانند بہالے جاتے ہیں۔ جنھیںہم دیکھ کر جیتے تھے ان سے وابستہ یادیں اور فریادیں ابلقِ ایام کے سموں کی گرد میںاوجھل ہو جاتی ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے و الوں کی زندگی کے واقعات تاریخ کے طوماروں میںدب جاتے ہیں ۔ جب ہم راہِ عدم پر چل نکلنے والے اپنے عزیزوں کا نام لیتے ہیں تو ہماری چشم بھر آ تی ہے ۔ ہجومِ غم میں گھرے ہم اپنا دل تھام لیتے ہیں اور سوچتے ہیں اس طرح جینے کے لیے جگر کہاں سے لائیں ؟ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فہمیدہ ریاض، خالدہ حسین، افضل احسن ، ریاض الحق ،روحی بانو ،متین ہاشمی،جمیل فخری ،محمد حنیف صراف ، کاظم حسین ، خان محمد ،محمد فیاض ،محمد یوسف ،محمداکرم ،قمر زمان کائرہ ،شہلارضا ،روبینہ قائم خانی، شبیر رانااور نواز ایمن کو نو جوان بیٹوں کی اچانک وفات کے لرزہ خیز اور اعصاب شکن صدمے نے جیتے جی مار ڈالا۔ یادِ رفتگاں کے حوالے سے اردو زبان کی ممتاز شاعرہ فہمیدہ ریاض کی نظم ’’ عالم ِ برزخ ‘‘کے چند اشعار پیش ہیں:
یہ تو برزخ ہے ،یہاں وقت کی ایجاد کہاں
اِک برس تھا کہ مہینہ، ہمیںاب یاد کہاں
وہی تپتا ہوا گردوں ، وہی انگارہ زمیں
جا بہ جا تشنہ و آشفتہ وہی خاک نشیں
شب گرا ں،زیست گراں تر ہی تو کر جاتی تھی
قریبی عزیزوں کی رحلت کے ساتھ ہی اُن سے وابستہ منور و درخشاں یادیں،حسن و جمال کے استعارے ،حوصلہ بڑھانے والے پر کیف اشارے اور قلب و روح کو سکون بخشنے والے دل کش نظارے ماضی کاحصہ بن جاتے ہیں ۔ دائمی مفارقت دینے والوں کی یادیں الم نصیب پس ماندگان کو ایسا گہر اگھاؤ لگا جاتی ہیں جن کا اندما ل دمِ آخریں تک ممکن ہی نہیں ۔ کوئے عدم جانے والوں کی آ نکھیں مُند جاتی ہیں ،دِل کی دھڑکنیں رُک جاتی ہیں مگر سماعتیں برقرار رہتی ہیں۔اگر ہمیں کوئی اختیار ہو تاتو ہم اپنی جان سے پیارے ان عزیزوں کو کبھی الوداع نہ کہتے۔فرشتۂ اجل نے ہم سے یہ گنج ہائے گراں مایہ چھین لیے اور ہم بے بسی کی تصویر بنے دیکھتے رہے ۔ان کا غم ایک ٹھاٹیں مارتاہو اقلزم ِ خوں ہے جس کی تکلیف دہ ، تباہ کن ،بیزارکن ،تھکا دینے والی اورفکر و خیال کو اُلجھادینے والی غواصی پس ماندگان کی قسمت میںلکھ دی جاتی ہے ۔ اپنے قریبی عزیزوں کی دائمی مفارقت کے وقت شکستہ دِل پس ماندگان اپنے دلِ حزیں پر ہاتھ رکھ کر گلو گیر لہجے میں پکارتے ہیں:
میری بزم وفا سے جانے والے
ٹھہر جاؤ کہ میں بھی آ رہا ہوں
رموزِ زیست کے رمز آ شنا لوگ دل گرفتہ بوڑھے والدین کے قلبِ حزیں کے درد اور من کے جان لیوا روگ کو سمجھتے ہیں۔سب جانتے تھے کہ اب پو پُھٹنے اور غم و اضطراب کی بھیانک تاریک رات کٹنے کے امکانات معدوم ہیں ۔گردش ِ افلاک کے زیرِ اثر تقدیر نے اِس خرابِ آرزو اَنگارۂ خاکی کو جس بے دردی سے تودۂ خاکسترِ ایام بنا دیا ہے وہ اِس لرزہ خیز حقیقت کاغماز ہے کہ اب اَلم نصیب والدین کے تمام اعضا مضمحل ہو چکے ہیں ،زندگی کے سرابوں کے عذابوںمیں گھرا بے نشاں خوابوں کی دُھند میں اُلجھا اور ہجوم ِیاس و ہراس میں پھنسے پس ماندگان کا سینہ و دِل حسرتوں سے چھا گیا ہے ۔اب غموں کی شکن آلود بساط کو ہٹا کر جان کی بازی لگاکر اضطرابِ پیہم کی خوں چکاں گھڑیوں میں فگار انگلیوں سے آرزووں کا چمن آراستہ کرنابعید ا ز قیاس ہے ۔ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے سوگوار خاندان کوجیتے جی مار ڈلا اس جان لیوا صدمے کی شدت سے محسوس کرتے ہوئے دردِ ناصبور سے رنجور ذہن میں امجد اسلام امجد ؔ کا یہ شعر گردش کرنے لگا :
پیڑ کو دیمک لگ جائے یا آدم زاد کو غم
دونوں ہی کو امجد ؔ ہم نے بچتے دیکھا کم
واقفِ حال لوگ اس حقیقت کے شاہد ہیں کہ ہم نے اپنی زندگی اپنے ان عزیزوں کے نام کر رکھی تھی ۔احمد بخش ،کنیز فاطمہ ،جنت خاتون ، شیر محمد،عطامحمد ،کاظم حسین ، غلام شبیر، عزیز فاطمہ ،صاحب بی بی ، محمد حسین ، الطاف حسین ،سجاد حسین ،منیر حسین ،کوثر پروین ،عزیز بتول ، شانزہ،ناصر علی اور مقسوم بی بی کے عازمِ اقلیم عدم ہونے کے بعد ہم الم نصیب پس ماندگان بھی ہمہ وقت عدم کے کُوچ کی فکر میں مبتلا رہنے لگے ہیں۔ تقدیر کا مہیب سیل رواں ہر لمحہ ،ہر گام جس بے دردی سے انسانی تدبیر کی دھجیا ں بکھیر دیتاہے اس کے سامنے صبر و ضبط کے سب بند ریت کی دیوار ثابت ہوتے ہیں ۔اس وقت’’ سیف الملوک ‘‘ کے تخلیق کار، ہندوستان کے رومی اورپنجابی زبان کے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخش ( 1830-1907)کے یہ اشعار میرے جذبات حزیں کی ترجمانی کر رہے ہیں۔
لے او یار حوالے رب دے اج مِل لے جاندی واری
اِس ملنے نوں توں یاد کریسیں تے روسیں عمراں سار ی
توں بیلی تے سب جگ بیلی اَن بیلی وی بیلی
سجناں باہجھ محمد بخشا سُنجی پئی اے حویلی
سرو اُداس حیران کھلوتے پیر زمیں وِچ گڈ ے
اُچے ہو ہو جھاتیاں مارِن متاں یار کِدوں سر کڈے
کلا چھڈ کے ٹُر گئے تے سجن کر گئے بے پروائیاں
مدتاں ہوئیاں سُکھ دیاں گھڑیا ں فیر نہ مُڑ کے آئیاں
ٹُر گیو ںسجنا ں چھڈ کے سانوںتے پا گیوں وِچ فکراں
پاٹی لِیر پرانی وانگوں ٹنگ گیوں وِچ کِکراں
دُکھیے دا دُکھ دُکھیا جانے سُکھیے نوں کیہہ خبراں
ٹُر جاندے نیں سجن جنہاندے اوہ روون تک تک قبراں
سئے سئے جوڑ سنگت دے ویکھے آخر وِتھاں پئیاں
جنھاں بناں اِک پل سی نہ لنگھدا اَوہ شکلا ں وی بُھل گئیاں
نوجوان عزیزوں کی دائمی مفارقت کے بعدپس ماندگان کی زندگی کا باقی سفر تو جیسے تیسے کٹ ہی جاتا ہے مگر ان کا پورا وجود کردچیوں میںبٹ جاتا ہے ۔مجید امجد(1914-1974) کا یہ شعر ہمیں آزمائش کی ہر گھڑی میںنواسۂ رسول ﷺ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مشیت ِ ایزدی اور قضا و قدر کے فیصلوںکے سامنے سر تسلیم خم کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
سلام اُن پہ تہہِ تیغ بھی جنھو ںنے کہا
جو تیرا حکم، جو تیری رضا، جو تُو چاہے
ہمارے رفتگاں کی عطر بیز یادیں قریۂ جاں میں ہر طرف بِکھری ہوئی ہیں ۔چشم ِبینا کے سامنے اُن کا چاند چہرہ ہروقت موجود رہتا ہے اورجس سمت بھی نگاہ اُٹھتی ہوئی اُن کی مسحور کن شخصیت اور حسن سلوک کی باز گشت سنائی دیتی ہے۔ اگرچہ وہ جا چکے ہیں مگر وہ سدا محفلوں کی جان رہیں گے۔خالقِ کائنات ان کی منزلیں آسان فرمائے ۔ اے میرے عزیزو!اللہ حافظ ۔ہم الم نصیب پس ماندگان کی روح اور قلب کی گہرائیوں میں تمھاری یادوں کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ تمھاری یادوں کے حوالے سے اس وقت جاںنثار اختر (1914-1976) کے یہ اشعار میرے ذہن میں گردش کرنے لگے ہیں :
آہٹ سی کوئی آ ئے تو لگتا ہے کہ تم ہو
سایہ کوئی لہرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
صندل سی مہکتی ہوئی پُر کیف ہوا کا
جھونکا کوئی ٹکرائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
اوڑھے ہوئے تاروں کی چمکتی ہوئی چادر
ندی کوئی بَل کھائے تو لگتا ہے کہ تم ہو
دو جون 2020ء کوطویل مسافت طے کر کے میں اپنی بہن مقسوم بی بی کے گھر کے سامنے سڑک کے کنارے کھڑے ایک ٹنڈ منڈ درخت کے نیچے دم لینے کے لیے بیٹھ گیا۔یہ درخت پہلے تو بہت گھنا اورسایہ دار تھا مگر خزاں کی مسموم ہوا اور سورج کی تمازت سہنے کے بعد وہ زبانِ حال سے کہہ رہاتھا کہ تم اس وقت سایہ طلب یہاں پہنچے ہو جب تیز دھوپ کی شعاعوں کی تیر اندازی نے میرے برگ و بار کو چھلنی کرکے مجھے نگل لیا ہے ۔دوپہر کا وقت تھااور سورج سوا نیزے پر آ چکا تھا،میں نے دیکھا کہ مقسوم بی بی کے دَم دینے کے بعد سیکڑوں طیور دانہ پانی کی طلب سے بے نیاز اِسی ٹنڈ منڈ درخت کی شاخوں پر بیٹھے گریہ و زاری میں مصروف تھے ۔ مقسوم بی بی کے گھر کی چھت کے اوپر ڈار سے بچھڑ جانے والی ایک کُونج فضا میں پرواز کرتی اور درد بھری آواز نکالتی تو کلیجہ منھ کو آتا تھا۔ مقسوم بی بی کے گھر کی دیواروں پر حسرت و یاس خاک بہ سر آہ و زاری کر ر ہی تھی ۔میں نے مقسوم بی بی کے گھر کے صحن میں قدم رکھا تو میری آ نکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔ذہن میں ہزاروں سوال اور دِل میں لاکھوں خیال لیے لبِ اظہارپر تالے لگا کر ایک شان ِ استغنا کے ساتھ سر اُٹھا کر چلنے والی میری بہن جون کی چلچلاتی دھوپ میں ایک کھری چار پائی پر ردائے بے بسی و بے چارگی اوڑھے نقشِ فریادی بنی لیٹی تھی۔ شدید گرمی میں سوگوارں کے لیے کوئی شامیانہ نہیں تھا اِسے اہلِ درد نے بے حسی کی مثال اور عبرت کا تازیانہ قراردیا۔ شاید مقسوم بی بی کی آ نکھیں اس لیے آسمان کی طرف تھیں کہ وہ جانتی تھی کہ وسعتِ آفاق سے درد انگیز نالوں اور خو نچکاں استغاثے کا جواب ضرور آ ئے گا۔ مقسوم بی بی کے سرہانے ایک ضعیفہ ہاتھ کے بنے ہوئے کھجور کے پتوں کے پنکھے سے کڑی دُھوپ میں لیٹی مر حومہ مقسوم بی بی کے جسد ِ خاکی کو ہوا دے رہی تھی۔ یہ ضعیفہ اِس مر حومہ کی ماں اللہ جوائی تھی جو کل اَپنے بھانجے ناصر علی کے غم میں پیرو میں موجود تھی اور آج کوہِ ند اکی صدا سُن کر عدم کے کُوچ پر تیار اپنی نو جوان بیٹی کو دیکھنے یہاں پہنچی تھی ۔مقسوم بی بی کی ضعیف ماں نے اپنی بیٹی کے سر پر ہاتھ رکھااور اس کی پیشانی کو چُوم کر دھاڑیںمار کر روتے ہوئے کہا :
’’ میری بیٹی میں تیرے اُداس قفس میںپہنچ گئی ہوں ،اُٹھو میرے گلے لگ جاؤ اور کچھ تو کہو۔میرے ساتھ کوئی بات تو کرو صرف ایک لفظ ہی اپنے منھ سے بول دو ۔ تیری چاندی کی گردن میں تو سونے کی گانی ہوتی تھی اس وقت تیری گردن پر گَلاگھونٹنے اورتشدد کے نشانات کیسے ہیں ؟ تُو بولتی تھی تو تیرے منھ سے پُھول جھڑتے تھے آج پیاس سے سُوکھی ہوئی تیری زبان ہونٹوں سے باہر نکلی ہوئی ہے۔ گلاب کی پتیوں جیسے تیرے نازک لب کیوں کُملا گئے ہیں ؟تیری ناک سے خون کیوں بہتا رہا اورتجھے کیوں بُھوکا پیاسا رکھا گیا؟تیری کیا خطا تھی کہ تجھے حبس ِ بے جا میں رکھا گیا؟ مجھے بتاؤ کن حالات میں تیرے لبِ اظہار پر تالے لگا دئیے گئے ؟ تیری نرگسی آنکھیں باہر نکلی ہوئی ہیں جو صاف بتا رہی ہیں کہ ستم سہنے کے بعد تُو اپنی ماں اور باپ کی راہ تکتی رہی ۔ بہرِ خدا کوئی تو مجھے یہ بتائے کہ میری مظلوم بیٹی کی یہ حالت کیو ں کی گئی ؟ تیرے زخمی کان دیکھ کر یقین ہو گیا کہ تیرے کانوں سے سونے کی بالیاں نوچ لی گئیں اور تیرے رخساروں پر اُنگلیوں کے نشان دہائی دے رہے ہیں کہ شمر قماش کے مُوذی و مکار استر عطائی نے تجھے طمانچے مارے ۔میری بچی تیرے ساتھ بھی وہی سلوک ہوا جو بی بی سکینہ ؓکے ساتھ دشتِ کربلا اور شام کے زندان میں کیا گیا تھا۔ بی بی رباب ؓکی طرح مجھے بھی مقسوم بی بی تیرے غم نے ماہی ٔ بے آب کی طرح تڑپا دیا ہے ۔ کوفے کے اِس بے حِس معاشرے میںکوئی بھی شخص اِس وادیٔ پُر خار میں مدد کے لیے آہ و فغاںکرنے والی میری یتیم بچی کی جان بچانے نہ پہنچا۔گلشن کا انتظام کرنے والوں نے میری بیٹی کے آشیاں کے چند تنکوں کو شاخِ چمن پر بار کیوں سمجھا؟۔ مقسوم بی بی !تجھے اِنصاف دِلانے کے لیے قمر بنی ہاشمؓ کی بہنؓ کے وسیلے سے میں اپنے خالق ِحقیقی اور سید المرسلین ﷺکے حضور اِلتجا کررہی ہوں۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں بے درد معاشرے کی بے حسی کا یہ حال ہے کہ سب اپنے عزیزوں کاذکر ہی کرتے ہیں ہم الم نصیبوں کا کوئی پرسان ِحال ہیں نہیں ۔ ہر کوئی اپنی فضا میں مست دکھائی دیتاہے ہم مظلوموں کی چشم ِ تر پر دھیان دینے کی فرصت کسی کو نہیں،آہ! شقی القلب درندوں نے میر ی معصوم اور بے ضرر بیٹی کی زندگی کی سب رُتوں کو خار خار اور بے ثمر بنادیا اور میری دولتِ دِل اور راحت ِ جاں لُوٹ کر ظالموں نے مجھے زخم زخم کردیا، میری بچی میں تجھے کہاں سے لاؤں ؟ ۔‘‘
فرط غم سے نڈھال اللہ جوائی لڑکھڑاتی ہوئی آگے بڑھی اور اپنی بیٹی کے جسد خاکی کو گلے لگا کر اُس سے لپٹ گئی ۔ یہ لرزہ خیز صور حال دیکھ کرمعاً میرے دِل میں خیال آیا کہ احمد فراز نے سچ کہاتھا:
یہ لوگ تذکرے کرتے ہیں اپنے لوگوں کے
میں کیسے بات کروں اَب کہاں سے لاؤں اُسے
قدرت کاملہ کے نظام میں دیر تو ہے مگر اس عظیم خالق کے ہاں اندھیر کا کوئی تصور ہی نہیں ۔ صر صر ِ اجل کے مہیب بگولوں سے صبر و تحمل ،عجز و انکسار ،وفا و ایثار ،محنت و جانفشانی اور عظمت کردار کے ہمالہ کی ایک سر بہ فلک چوٹی زمیں بوس ہو چکی تھی ۔ چار ایکڑ پر مشتمل وہ رہائشی زمین (جہاں ایک مرلہ دس لاکھ روپے میںفروخت ہوتاہے )اور کروڑوں روپے کی جائیداد اور سیم و زر کے زیورات چھوڑ کر چپ چاپ بھری بزم سے دامن جھاڑ کر جانے والی مقسوم بی بی کو بے حس معاشرے کی طرف سے مناسب کفن بھی نہ مِل سکا ۔ غسل میّت دینے والی غسال عورت نے استر عطائی کی طرف سے کفن کے لیے فراہم کیے گئے کپڑے کو ناکافی قرار دیا اور دس گزسفید لٹھے کی مزید ایک چادر طلب کی تو استر عطائی نے مزید لٹھا فراہم کرنے سے صاف انکار کر دیا۔ میں نے یہ بات سُنی تو مجھے اُردو زبان کے نامور ادیب ارشاد احمد عرش صدیقی(1927-1997) کا سال 1978ء میں پہلی بار شائع ہونے والا آدم جی ایوارڈ یافتہ افسانوی مجموعہ ’’ باہر کفن سے پاؤں ‘‘ یاد آ گیا۔ کسی بھی دائمی مفارقت دینے والے کے پاؤں اگرکفن سے باہر رہ جائیں تو دیکھنے والوں پر قیامت گزر جاتی ہے ۔ مقسوم بی بی کے غسل میّت کے لیے صابن کی صرف ایک ٹکیہ غسال عورت کو دی گئی ۔ خاکِ شفا ، خاک ِ کر بلا،خاکِ مکہ، خاکِ مدینہ و نجف ،،تسبیح ، کافور ،عطر اور پھول بھی فراہم نہ کیے گئے ۔ مقسوم بی بی کی الم ناک موت کے صدمے سے نڈھال الم نصیب و جگر فگار عورتیں مقسوم بی بی کی اِس بے سروسامانی کے عالم میں اپنے گھر سے رخصت ہونے پر دھاڑیں مار مار کر بین کر ر ہی تھیں ۔سمے کے سم کے ثمر کو دیکھ کر میں لرز اُٹھاگردش ِ ایام اور تقدیرنے ایک یتیم اور مسکین بچی جس کے میکے کا دروازہ تقدیر نے بند کر دیا تھااُس کے لیے ساتواں در کھو ل دیا۔ وہ گلشن جسے مقسوم بی بی نے جگر کا خون دے کر پالا تھا اَجل کے بے رحم ہاتھوں نے وہیں سے اُس کے شجرِ حیات کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا۔گھی کوار گندل ( Aloe vera )کا وہ پودا جو مقسو م بی بی نے اپنے ہاتھوں سے اپنے شکستہ کمرے کے سامنے کچی زمین میں بویاتھا اور جسے وہ فجر کی نماز پڑھنے سے پہلے وضو کے صاف پانی سے سیراب کرتی تھی، اُس کی آنکھیں مُندنے کے ساتھ ہی وہ پودا مرجھا چکا تھا۔مسافرانِ عدم کا پتاآج تک کسی کو نہیں مِل سکا ، قضا کے بگولے اِن اجل گرفتہ عزیزوں کے نقشِ پا بھی مٹا دیتے ہیں ۔
مقسوم بی بی کے جسدِ خاکی کو اُس کے اپنے گھر سے فردو س بریں سے آنے والی جن خواتین نے گھر کے دروازے سے اللہ حافظ کہا اُن میں اُس کی ماں اللہ جوائی ،خالہ جنت خاتون ، چچا کی بیٹی عزیز فاطمہ اور بھتیجی کوثر پروین شامل تھیں۔مقسوم بی بی کا جنازہ اُٹھا تو گھر کے در و دیوار کی صور ت ہی بدل گئی ۔گاؤ ں کی سب خواتین نے یہ کہہ کر اپنے اپنے گھر کی ر اہ لی کہ اَب یہاں کون ہے جس کے سامنے بیٹھ کر دِلِ زار کا احوال بیان کریں ۔ ہزار دُکھ ہیں مگر اب کسے سنائیں ، خود دُکھ سہہ کر دُکھی خواتین کے لیے سُکھ تلاش کرنے اور دُکھی خواتین کی بے لوث خدمت پر نازکرنے والی ہماری مُونس و غم خوار ہم زبان تو چلی گئی ۔اُس کے گھر سے کھانا پیناتو بہت دُور کی بات ہے کسی خاتون نے ایک لمحہ بھی وہاں رُکنا گوارا نہ کیا ۔ دو جون 2020ء کی سہ پہر مقسوم بی بی کے قریبی رشتہ دار اُس کا جسد ِخاکی چارپائی پر اُٹھا کر اُس کے گھر سے جنازگاہ کی طرف روانہ ہوئے ۔ استر عطائی کی بے حسی کا یہ عالم تھا کہ وہ اہلِ درد کو صدمے کی حالت میں دیکھ کرمگر مچھ کے آ نسو بھی نہ بہا سکا۔ مقسوم بی بی کی دائمی مفارقت کے موقع پر اُس کے حقیقی عزیزوں کی آ نکھیں ساون اور بھادوں کے موسم میں گھنگھور گھٹا کے بادلوں کی طرح برس رہی تھیں مگر کچھ جامد و ساکت پتھر،چٹانیں اور بُت ایسے بھی تھے جو اِس جانکاہ صڈے کو دیکھ کر ٹس سے مس نہ ہوئے اور سگریٹ کے کش لگاتے ہنہناتے ہوئے گھومتے پھرتے تھے ۔میں مقسوم بی بی کا آخری دیدار کرنے کے بعد دیر تک رو تا رہا۔ میں زیادہ رُکنا چاہتاتھا مگر ظہر کا وقت قریب تھا اور جنازہ بالکل تیار تھا۔ رونے والے تمام سوگواروں کی آ نکھوں سے رواں جوئے خون دیکھ کر میرے ذہن میں یہ اشعار گردش کرنے لگے :
رونے والوں سے کہو اُ ن کا بھی رونا رولیں
جن کو مجبوریٔ حالات نے رونے نہ دیا
تجھ سے مل کر ہمیں رونا تھا بہت رونا تھا
تنگی ٔ وقت ِ ملاقات نے رونے نہ دیا
استر عطائی کے شریک جُرم ساتھیوں کے چہرے بہ ظاہر تو پر سکون دکھائی دیتے تھے مگر اُن کے مُردہ ضمیر پشیمانیوں میں غرق تھے ۔ اُس روز پورے گاؤں میں سوگ کی کیفیت تھی ایسا لگتا تھا اجل کے مسموم بگولوں نے گاؤں کی مظلوم خواتین کی اُمیدوں کی فصل کو تاراج کر دیاہے ۔مقسوم بی بی نے اَپنی کِشت جاں میں آرزوؤ ں اور اُمنگوں کی جو فصل بوئی تھی گردشِ ایام نے اُسے غارت کر دیا اور اُس کاایثار ، خلوص اور جانفشانی ا َکارت چلی گئی۔ نماز جنازہ کے بعد میّت کو تدفین کے لیے پنج پیر کے شہر خموشاں کے جنوبی کنارے پہنچا دیا گیا۔ پنج پیر کے شہر خموشاں کے جنوبی گوشے میں پیلوں کے ایک گھنے درخت کے قریب حاجی غلام شبیرآسودہ ٔ خاک ہے ۔اس کی آخری آرام گاہ سے ملحق مشرق میں مقسوم بی بی کی قبر تیار تھی ۔میں نے چشمِ تصور سے دیکھا کہ کھنڈر کے بلند ٹیلے سے حکیم حاجی غلام محمد اورحکیم حاجی عطامحمد اُترے اور پیلوں کے درخت کے پاس بیٹھے اپنے رفتگا ںسے ملے اور انھیں دلاسا دیا ۔مقسوم بی بی کے نہ ہونے کی ہونی دیکھنے کے بعداس کے تمام رشتہ دار جنت سے یہاں پہنچے تھے۔سب کے چہرے پر ملال تھااور وہ اسی خیال میں تھے کہ مقسوم بی بی کو ساتھ لے کر جلد اپنی ابدی منزل کی طرف روانہ ہو جائیں ۔
پنج پیر جیسے قدیم شہروں کے کھنڈرات میں اب حشرات الارض ، بے شمار کرگسوں ، بوم و شپر اور زاغ و زغن کا بسیراہے ۔کچھ عرصہ قبل مجھے ٹیکسلا کے ایسے ہی کھنڈر کے مطالعاتی دورے پر جانے کا اتفاق ہوا ،میں سوچنے گلا کہ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اورکیا ہے کہ عبرت سرائے دہر کے شہر ٹیکسلا میں ممٹی پر ایک چیل اور کرگس دھوپ میں بیٹھی آلام ِروزگار اور خورشید جہاں تاب کی تمازت سے اپنے پروں کو گرمانے کے بعد تباہ ہونے والے شہر سر کپ( Sirkap) کے ملبے کے ڈھیر ،جاہ و جلال کے مالک بادشاہ دمیترس ( Demetrius I of Bactria ) کے قدیم محل ( تعمیرشدہ (r.c. 200–180 BC, کے اُجڑے کھنڈر اور ویران گلیوں کی نگہبانی کررہی تھیں ۔کچھ فاصلے پر بڑی تعداد میں زاغ و زغن ،شپر،کرگس اور چغدبھی گردشِ ایام کی زد میں آنے والے شہروںکی تباہی اور آلام کی نوحہ خوانی کے بعد تاریخ کایہی سبق دہرارہے تھے کہ آج تک کسی نے بھی تاریخ سے کوئی سبق نہیںسیکھا۔ پس نو آبادیاتی دور میںقلعۂ فراموشی کے اسیروں کوبدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں سے آگاہ کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ کھلی فضاؤں میں بلند پروازی کو شعار بنا کر لمبی اُڑانیں بھرنے والے طائران خوش نوا کو یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ محض ایک دانۂ رزق ہی اُن کی پرواز میںکوتاہی کا سبب بن کر اِنھیں زیرِ دام لاتا ہے ۔ خلدبریں سے آنے والی خواتین میں اللہ جوائی کی پڑوسن اور زرعی کارکن ضعیفہ ماسی لڈکی بھی شامل تھی۔ گلہ بانی ،باغبانی اور سبزی کے کھیتوں کی نگہبانی سے رز ق حلال کمانے والی اس ضعیف عورت نے دادی بن کر مقسوم بی بی کی پرورش کی اور اِسے ٹُوٹ کر چاہا ۔دریائے جہلم کے کنارے واقع ایک گھنے جنگل کے کنارے واقع اپنے کھیتوں میں سبزیاں اُگا کر گھر گھر پہنچانے والی اس ضعیفہ نے اپنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پر کہا :
’’ معاشرتی زندگی میں بڑھتی ہوئیحرص و ہوس کے باعث اب تو آبادیاں بھی جنگل بنتی جا رہی ہیں جہا ںہر طرف پور ی شدت سے جنگل کاقانون نافذ ہے ۔اس جنگل میں خارش زدہ باؤلے کتوں اور مکارلومڑیوں نے مظلوم انسانیت کی زندگی اجیرن کر دی ہے ۔ میں نے دنیا دیکھی ہے اور اِس نتیجے پر پہنچی ہوں کہ جہاں بھی کسی بے بس و لا چار مظلوم عورت کی پر اسرار موت کا واقعہ سامنے آتاہے اس کے پس پردہ کوئی خارش زدہ باؤلا کتا یا خون آشام مکار لومڑی ضرور ہوتی ہے ۔ جب تک عف عف کرتے خارش زدہ باؤلے کتوں اور دُکھی انسانیت پر جھپٹتی ہوئی مکارلومڑیوںکو نیست و نابود نہیں کیا جاتا اس قسم کے سانحات رو نماہوتے رہیں گے ۔ میں نے اپنی زندگی میں خواتین کو تازہ پھول فراہم کیے ۔آج یہاں پھولوں کا قحط دیکھ کر دل خون کے آنسو روتاہے ۔عنادل دیکھ لیں کہ آج کے بعد ان چاند چہروں کی سحر کبھی دکھائی نہیںدے گی ۔ ‘‘
ماسی لڈکی نے بے لاگ انداز میں جوسچی باتیں کیں وہ سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہیں ۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیںتو اور کیا ہے کہ تیسری دنیا کے پس ماندہ ممالک کے بے حس معاشرے میں جہاں پتھر کے زمانے کا ماحول ہے وہاں گھر کی مالکن خانہ دار خاتون کو معمولی خادمہ اورکنیز بنا دیا جاتا ہے ۔مصائب و آلام کے پاٹوں میں پسنے والی اور اپنے گھر کے کام کاج میں ہمہ وقت مصروف رہنے والی سہاگن کو شوہر کی موجودگی میں بیوگی کی چادر اوڑھ کر اپنے غم کا بھید نہ کھولنے اور بغیر آنسوؤ ں کے رونے پر مجبور کر دیا جاتاہے ۔ سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا فراعنہ کی خصلت رکھنے والے جلاد منش اور درندہ مزاج طفیلی شوہر اپنی بے بس و لاچار بیوی کی آہ و فغاں ،چیخنے چلانے اور بِلبلانے پر بھی پا بندی لگا دیتے ہیں ۔بیمار پرسی اور غم گساری کے لیے آنے والی خواتین اور قریبی عزیزوں کا گھر میں داخلہ ممنوع قرار دیا جاتاہے ۔ صبر و شکر کی ناؤ میں حوصلے،اُمید اور یقین کے بادبان لگا کر مقسوم بی بی زندگی بھر آزمائش و ابتلاکے متلاطم قلزم میں سیلِ زماں کے ہو لناک تھپیڑوں سے نہایت استقامت سے ستیزہ کار رہی مگر دو جون 2020ء کو یاس و ہراس کی حبس میں اُس کا دَم گُھٹ گیااور وہ زندگی کی بازی ہار گئی ۔ریگ ِ ساحل پر نوشتہ وقت کی اِس مدھم سی لکیر کو سیل حوادث نے ہمیشہ کے لیے مٹا دیا۔پنج پیر کی سنگلاخ زمین نے عظمت خواتین کے اِس آسمان کو ہمیشہ کے لیے اپنے دامن میں چھپا لیا۔
منشی علم دین کامطالعہ بہت وسیع تھا تکلم کے سلسلوں میں اس نے مقسوم بی بی جیسی مظلوم مشرقی خواتین کے مسائل پر ہمیشہ واضح موقف اختیار کیا۔ وہ اپنے معتمد ساتھیوں کو بتاتا کہ مظلومو ںکی زندگی پر مسلط بے توقیری، اذیت ،عقوبت اور مشقت کی بھیانک رات بالآخر ختم ہو جاتی ہے اس کے بعد مسرت و شادمانی کی نقیب صبح درخشاں طلوع ہوتی ہے۔ اپنے شوہر کی خاطر مشرقی عورت آج بھی کسی قربانی سے دریغ نہیں کرتی اس نے اجتماعی لا شعور کی اساس پر فکر و خیال کی انجمن آراستہ کرنے کے سلسلے میں ا ردو ادب میں ممتاز شیریں کے اسلوب کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا ۔ تانیثیت اس کا خاص موضوع رہا اس نے مثالیں دے کر واضح کیا کہ ممتاز شیریں نے اپنے ایک افسانے’’ میگھ ملھار ‘‘ میں اجتماعی لا شعور کو رو بہ عمل لانے کی سعی کی ہے ۔ معاشرتی زندگی میں مشرقی خواتین کی اپنے شوہر کے ساتھ قلبی وابستگی کو مقسوم بی بی نے ممتاز شیریں کی طرح اساطیر اور یونانی دیو مالا کے بر محل استعمال سے انتہائی موثر انداز میں پیش کیا ہے ۔ حیف صد حیف مقسوم بی بی جیسی مر نجان و مرنج ،خداترس، نیک دِل اور پارسا خواتین تو عہد ِ نا پرساں اورضعف بصارت کے اس ماحول میں بھی آل سسٹس ( Alcestis) کے ایثار کو پیشِ نظر رکھنے میں تامل نہیں کرتیں مگر ان کی کوئی قدر نہیںکرتا۔اُن کے دِل ِ زار کے سبھی اختیارجب اُن سے چھین لیے جاتے ہیںتو اُن کی ہر اُمید مرگِ نا گہانی سے وابستہ کر دی جاتی ہے ۔اس پریشاں حالی و درماندگی کے عالم میں ان مظلوم خواتین کے ظالم و سفاک ،موذی و مکارشوہر اِن وفا شعار بیویوں کی قربانیوں سے شپرانہ چشم پوشی کر کے اُن کے درپئے آزار رہتے ہیں اور انتہائی حقیر مالی مفادات کی خاطر اپنی بے بس بیویوں کے خون کے پیاسے بن جاتے ہیں ۔اپنے شوہر ایڈ میٹس(Admetus)سے بے لوث اور والہانہ محبت کرنے والی آل سسٹس ( Alcestis) سلطنت لولکس ( Lolcus ) کے شہنشاہ پیلیاس ( Pelias) کی سب سے حسین دختر تھی ۔ المیہ نگاریوری پائیڈز ( Euripides)کا تعلق یونانی دیومالا سے ہے ۔ اس نے اپنے عہد کے ڈرامہ نگاروں ایس ہیلس اور سوف کیلس ( Aeschylus and Sophocles) کی طرح المیہ ڈرامہ کو نئے آفاق سے آشنا کیا۔ممتاز شیریں نے ایتھنز سے تعلق رکھنے والے کلاسیک ڈرامہ نگار یوری پائیڈزکے اسلوب کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔محبت کے دستوربھی نرالے ہوتے ہیں یہاں ایثار و قربانی کی ایسی مثالیں سامنے آتی ہیںکہ عقل محو تماشائے لبِ بام رہ جاتی ہے ۔ایڈمیٹس اپنی زندگی کو درپیش خطرات سے گلو خلاصی کے لیے باری باری اپنے معتمدساتھیوں، سب عزیزوں،دوستوں اور رفقا سے ان کی زندگی کی قربانی کی التجا کرتا ہے مگر اس اجل گرفتہ کی فغاں پر کوئی کان نہیں دھرتا۔ ہر طرف سے مایوس ہو کر ایڈمیٹس اپنے دلِ حزیں پہ جبر کر کے اپنی محبوب اہلیہ آلسسٹس سے یہ تقاضا کرتاہے کہ وہ اپنی زندگی اپنے شوہر کی خاطر قربان کر دے ۔آلسسٹس جانتی تھی کہ درد کا انمول رشتہ ایثار کا تقاضا کرتاہے اس لیے وہ اپنی رضا اورخوشی سے اپنے شوہر کی زندگی بچانے کے لیے اپنی زندگی کی قربانی دینے پر فوراً رضا مند ہو جاتی ہے اور آزاد مرضی سے ا پنی زندگی اجل کے دیوتا کے سپرد کر دیتی ہے ۔ آلسسٹس کے جذبۂ ایثار کو دیکھ کر دیوتاؤں ہیڈز (Hades) اورہیرا کلز( Heracles) کو اِس وفا شعار بیوی پر ترس آ گیااور انھوں نے نہ صرف اس آلسسٹس کی جان بخشی کر دی بل کہ اس کے شوہرایڈ میٹس کی زندگی کو درپیش خطرات بھی فوری طور پر ہمیشہ کے لیے ٹل گئے ۔
زمانہ طالب علمی میں علم دین اپنے قابل اساتذہ امیر دین،عالم دین ،احمد خان ،رجب الدین مسافر اور محمد موسیٰ کی باتیں نہایت توجہ سے سنتا اور سر دُھنتا تھا۔ ایک روپیہ ماہانہ فیس لے کر سہ پہر کے وقت تین گھنٹے روزانہ تمام مضامین کی تدریس میں انہماک کا مظاہرہ کرنے والے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے فارغ التحصیل انگریزی کے اُستاد احمد خان کا خیا ل تھا کہ انسان کو اپنی تسبیح روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت یہ یادرکھنا چاہیے کہ سیرت و کردار کی تعمیر کے سلسلے میں ا جزا کی نسبت کُل کی اہمیت و افادیت کہیں بڑھ کر ہے ۔اس عالمِ آب وگِل میں موجود زندہ اجسام کی زندگی سعیٔ پیہم ،ایثار ،خلوص و دردمندی اور حرکت و حرارت سے عبارت ہے ۔اس وسیع و عریض کائنات میںہر ذی روح کا وجوداس فعالیت کاآئینہ دارہے جسے وہ کثرت سے بروئے کار لاتاہے ۔اس ضعیف معلم کا کہنا تھاکہ اگر پتھر کو بھی صدق دل سے تراشا جائے تو اس کی قسمت بدل سکتی ہے ۔استاد احمد خان کی رائے یہ تھی کہ کسی بھی کام میں ستارے چُھو لینے کاراز کسی ایک کام کوپایہ تکمیل تک پہنچانانہیں بل کہ ستاروں پر کمند ڈالنے کامطلب یہ ہے کہ دُکھی انسانیت کے ساتھ جو عہد ِ وفا استوار کیا جائے اُسی کو علاج ِ گردشِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے الم نصیب انسانوں کی فلاح اور غم گساری کی خاطر رخِ وفا کو فروزاں کر کے صبح و مسا ایسے متعدد کام کیے جائیںجن کے اعجاز سے ہوائے جو ر و ستم کے بگو لے تھم جائیں ۔ دُکھی انسانیت کی فلاح وبہبود کے کام اگر عادت ثانیہ بن جائیںتو اس سے شخصیت کو استحکام اور کردار کو عظمت نصیب ہوتی ہے ۔اس سانحہ کے بعد وہا ںموجود سب لوگوں کی متفقہ رائے تھی کہ خلق ِ خدا کی نظروں سے گِر جانے کے باعث استر عطائی کی شخصیت پاتال میںجاپہنچی ہے ۔
اپنی آخری عمر میں گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے والے قناعت پسند چھابڑی والے محنت کش بانڈی سے مل کر زندگی سے پیار ہو جاتا تھا۔ جب بھی مصائب و آلام نے اُس کے نہاں خانۂ دِل پر دستک دی اُس نے ایک شانِ استغنا سے اُنھیں خندہ ٔاستہزا میں اُڑا دیا۔ فروغ ِ گلشن و صوتِ ہزار کے موسم کی تمنا اور صحرا میں گل ہائے رنگ رنگ کی نمو کے تقاضوں سے عہدہ برا ٓ ہونے کی خاطر اس نے سرِ ہر خار کو اپنے جگر کے خون سے سیراب کیا۔ وہ اکثر اس بات پر اصرارکرتا کہ غلطی کرنا انسانی فطرت ،بار بار ایک ہی غلطی کو دہرانا حماقت اوراپنی مجرمانہ غلطی پر ڈھٹائی سے ڈٹ جانابے غیرتی،بے ضمیری اور بے شرمی کی دلیل ہے۔اُس کا خیال تھاکہ اپنی غلطی کو تسلیم کر کے اس پر ندامت کا اظہار کرنا مستحکم شخصیت ،عالی ظرفی اور عظمت کردار کی نشانی ہے ۔اپنے دل میں انصاف کے حصول کی حسرت رکھنے والوں میں خود اپنے خلاف فیصلہ صادرکرنے کاظرف ہونا چاہیے۔ وہ یہ بات واضح کر دیتاکہ احساس کم تری کو احساس برتری میں بدلنے کی کوشش نیوراتیت کہلاتی ہے ۔ جب کہ بے بس ولاچار انسانوں کو عقوبتی ہتھکنڈوں سے اذیت میں مبتلا کر کے لطف اندوز ہوناسادیت پسندی کہلاتاہے ۔ استاد احمد خان کے خانوادے سے تعلق رکھنے والا یہ محنت کش زندگی بھر ستم کش سفر رہا۔ وہ فرانسیسی ادیب مارکیوس ڈی ساد ( -1814 : 1740 Marquis de Sade )کی پیروی کرنے والے استر عطائی جیسے سادیت پسندوں اور نیوراتیت پسندوں کے شر سے اپنے احباب کو بچانا چاہتا تھا۔ادیان ِ عالم اورعالمی کلاسیک پر کامل دسترس رکھنے والے استاد احمد خان نے اپنی پوری زندگی لفظوں کی مکانوں میں بسر کی ۔کتابوں کے مطالعہ کے دوران میں کوئی اور مصروفیت حائل ہوئی تو اُس نے سدا اُسے وقت ِدِگر پر موقوف رکھا۔ایک ملاقات میں اِ س یگانۂ روزگار فاضل نے بتایا کہ وہ اپنے دِل کے زخموں کی اس انداز سے دیکھ بھال کرتا ہے جس طرح ایک حساس باغبان گلستان کی احتیاط کے ساتھ پرورش کرتا ہے۔اُستاد احمدخان سدا اس خوف میں مبتلا رہتے کہ کہیں استر عطائی جیسے پیمان شکن اور محسن کش درندوں کے یہ کرب اور گھاؤ اُن کے لیے زخم اور کمان کی صورت اختیار نہ کر لیں ۔زخم اور کمان کی تلمیح کے بارے میں اُستاد احمد خان نے اپنے شاگردوں کو بتایاکہ یونانی دیومالا کے مطابق تھیسلے ( Thessaly) میں واقع میلوبیا (Meliboea)کے بادشاہ پو ئیاس ( Poeas) کے شجاع بیٹے فیلو ککٹس( Philoctetes)کی بہادری ،مہم جوئی اور خطر پسند طبیعت کی ہر طرف دھوم مچی تھی ۔ جادو کی کمان رکھنے والاوہ ایسا ماہر ناوک انداز تھا جس کا نشانہ کبھی خطانہ ہوتا تھا۔اس نے ہیری کلز(Heracles) کی آخری آرام گاہ کا وہ راز جو صر ف اُسی کو معلوم تھا پیمان شکنی کا ارتکاب کرتے ہوئے فاش کر دیا۔ اِسی مجرمانہ پیمان شکنی سے فیلو ککٹس کی بد قسمتی کا آغاز ہوتاہے اورہیری کلز کی بد دعاسے ایک صحرائی سفر میں سانپ کے کاٹنے سے اُسے پاؤں پر ایسا گہرازخم لگا جو مندمل نہ ہوسکا۔اس زخم سے بیمار کر دینے والی عفونت و سڑاند کے بھبھوکے اُٹھتے تھے ۔شہر کے لوگوں کی نفرتوں ،حقارتوں اور عداوتوں سے عاجزآ کر فیلو ککٹس دُور کسی ویرانے روپوش ہو گیا۔ فطرت کی سخت تعزیریں اِس محسن کش ، پیمان شکن، کینہ پرور اور حاسد مہم جو کے تعاقب میںتھیں ۔ دیوار ِ سفلگی پر ہنہنانے والے اس ابن الوقت اور کینہ پرور درندے نے تلاش کرنے والے پیادوں سے بچنے کی بہت کوشش کی مگر اس کے مخالف جنگ تورجان (Torjan War ) جیتنے کے لیے وہ طلسماتی کمان اور تیر ہر حال میںحاصل کرناچاہتے تھے جو فیلو ککٹس کوہیری کلز نے تحفے میں دی تھی۔ فیلو ککٹس کے زخم سے نکلنے والی بُو کی وجہ سے تعاقب کرنے والے اس کے دشمنوں نے فیلو ککٹس کو ڈھونڈنکالا۔ سگمنڈ فرائیڈ اور کارل مارکس کے اسلوب پر تحقیقی کام کرنے والے اپنے عہد کے ممتاز امریکی ادیب ،نقاد اور محقق ایڈ منڈولسن (Edmund Wilson :1895-1972)نے اپنی کتاب زخم اور کمان( The wound and the bow)میں اسی جانب اشارہ کیا ہے ۔ عالمی شہرت کے حامل ممتاز جرمن ناول نگار تھامس من ( : 1875-1955 Thomas Mann )کے اَسلوب میں بھی اس یونانی دیو مالائی کہانی کا پرتو ملتاہے ۔بانڈی نے کہا کہ لہو کا خراج طلب کرنے والوں لٹیروںجن کا حوالہ اندھیروں سے ہے اُن کا جبر کبھی پنہاں نہیں رہ سکتا۔اگر خنجر کی زبان کسی مصلحت کے تحت چُپ رہے گی تو آستین کا لہو اس ظلم کے خلاف دُہائی دے گا۔استر عطائی کو فیلو ککٹس کا انجام یاد رکھناچاہیے ۔
مقسو م بی بی کی کوئی اولاد نہ تھی مگر اس کی دردمندی اور خلوص کا علاقے کی سبھی خواتین اور بچیوں نے ہمیشہ اعتراف کیا ۔ الم نصیب خواتین اور جگر فگاریتیم بچیوں کے ساتھ اُس نے جو عہدِ وفا استوار کیا زندگی بھر اسی کو علاج گردش ِ لیل و نہار سمجھتے ہوئے اس کے لیے کسی قربانی سے دریغ نہ کیا۔فاقہ کش یتیم بچیوں کے ساتھ اُس نے درد کی غم گساری کا جو مستحکم رشتہ استوار کیا تھا وہ اس کی پہچان بن گیا۔ اس رشتے کو وہ سب سے معتبر اور عزیزرشتہ قرار دیتی اور کہتی یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ خزاں کے سیکڑوں مناظر کو دیکھنے کے بعد طلوع صبح ِ بہاراں کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا۔
ممتاز عالم دین ، ماہر تعلیم ، ماہرِ نفسیات اور ماہر علم بشریات مولوی ناصر علی کے ساتھ میرے قریبی تعلقات تھے۔ وہ مابعد الطبیعات، تحلیل نفسی ،ماورائی نفسیات اور اضافی حقیقت سے متعلق موضوعات میں گہری دلچسپی لیتے تھے۔ مولوی ناصر علیکے بارے میں یہ مشہور تھا کہ اُسے دروں بینی،انسان شناسی ،پیش بینی اور ستارہ شناسی میں مہارت حاصل ہے ۔مولوی ناصر علی کو اس بات کا قلق تھا کہ قحط الرجال کے موجودہ دور میں فرد کی بے چہرگی اور عدم شناخت کے مسئلے نے گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے ۔وہ اکثر کہا کرتا تھاکہ حقیقت اور مجاز کے معاملے بھی اب ناقابل ِ فہم ہو چکے ہیں۔وہ کارِ جہاں کو ہیچ قرا ر دیتا اور اسے مجازی معاملات کے ایسے مجموعی عکس یا نقل کی صورت سے تعبیر کرتا جس سے یا تو تلخ حقائق کی تمسیخ ہوتی ہے یا اس کی رعنائیوں سے اس نوعیت کے بیان اورعنوان کے منظر عام پر آنے کا عندیہ ملتا ہے ۔مولوی ناصر علی کا خیا ل تھا کہ سب نا تمام نقوش دیکھنے کے باوجود اس طرح کے موہوم خیالات کے اظہار سے مسلمہ صداقتیں اور حقائق خیال و خواب اور سراب بن جاتے ہیں ۔ تخلیق ادب کے شعور ی اور لا شعوری محرکات پرمولوی ناصر علی کی گفتگو فکر و نظر کے نئے دریچے وا کرتی تھی۔ذہنی ہم آ ہنگی کے مظہر تعلق اور معتبرربط کے لیے وہ با لعموم اپنے پسندیدہ عمل ٹیلی پیتھی، علم جفر ،پیرا سائیکالوجی اور ستارہ شناسی پر انحصار کرتا تھا۔ اس کی دُور بین نگاہوں کے معجز نما اثر سے فاصلے سمٹ جاتے ۔بعض لوگوں کا خیال تھا کہ اس مردِ خود آگاہ کے پاس کوئی جام جہاں نما ہے جس کی مدد سے وہ دُور دراز علاقوں میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات کی ایک جھلک دیکھنے کی استعداد رکھتاہے ۔ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کارُخ دیکھ کر بر وقت فیصلہ کرنے کے سلسلے میں اس کی حکمت عملی، پیش بینی اور دُور اندیشی کا ایک عالم معترف تھا۔وہ نہ صرف آئینۂ ایام میں اپنی ہر ادا دیکھنے کی صلاحیت رکھتا تھا بل کہ زمانہ آ ئندہ اور بعید آ ئندہ میں رونما ہونے والے واقعات کے بارے میں بھی قابلِ یقین پیشین گوئی یا قیاس آ رائی کر سکتا تھا۔فکر و خیال کو رو بہ عمل لاتے ہوئے عزیز و اقار ب اور احباب کو درپیش کٹھن مسائل اور ان کی زندگی میں آنے والے سخت مقامات سے نبر د آزما ہونے کے سلسلے میں اس کے مشورے سرابوں میں بھٹکنے والے راہ گم کردہ انسانوں کے لیے سدا خضر راہ ثابت ہوتے ۔اُس کے نحیف و ناتواں جسم میں عقابی رو ح سماگئی تھی۔ وہ اس جانب متوجہ کرتا کہ زندگی کا بے آواز ساز پیہم بج رہا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اس ساز پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں۔موت ایک تلخ حقیقت ہے جو زندگی کے تعاقب میں رہتی ہے سب جانتے ہیں کہ اجل کی پُکار سے زیست کی چہکار عنقا ہو جاتی ہے ۔زندگی کے آخری ایام میں مولوی ناصر علی اکثر فرصتِ زندگی کی کمی ، دنیا کی بے ثباتی ، فنا اور بقا کے موضوع پر گفتگو کرتا رہتا تھا۔اس کا خیا ل تھا کہ موت ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جو جو مہ و سال کے تصور سے نا آ شنا ہے ۔اس دنیا میں ہروہ با شعور شخص جو دارا و سکندر اورقیصر و کسریٰ کے انجام سے با خبر ہے موت کی آ ہٹ سن کر حیرت و استعجاب اور یاس و ہراس کا شکار نہیں ہوتا ۔ذہنی بیداری اور شعور کی پختگی کا ثبوت یہ ہے کہ انسان موت کو کبھی فراموش نہ کرے بل کہ موت کے لیے چشم بہ را ہ رہے ۔جبر اور نا انصافی کو دیکھ کر کسی مصلحت کے تحت خاموشی اختیار کر لینے کو بھی مولوی ناصر علی موت کی علامت قرار دیتا تھا۔بے بس و لاچارانسانیت پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے والے سادیت پسند استحصالی مافیا اور قبضہ گروپ کو متنبہ کرتے ہوئے وہ اس جانب متوجہ کرتا کہ وہ دن دُور نہیں جب سب ٹھاٹ پڑا ر ہ جائے گا اور بنجارہ چپکے سے سامان لاد کرچل دے گا۔ ان فراعنہ کا سب کرو فر دو گز زمین میں دب جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ان کی زندگی کے سب قرض بھی ادا ہو جائیں گے۔طلاق کے دس ماہ بعد جب مقسوم بی بی نے نادان بہی خواہوںکے ایما پر استر عطائی کے گھر جانے کا فیصلہ کیا تو مولوی ناصر علی نے آہ بھر کر کہا:
’’ وقت سدا ایک جیسا نہیں رہتا اور سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے سب کچھ بہا لے جاتے ہیں۔ کچھ غلطیاں ایسی ہوتی ہیں جن کا بھاری خمیازہ اُٹھانا پڑتاہے ۔ ہوائے جور و ستم کے بگولوں کے تیور دیکھ کر یہ انداز ہ لگانا مشکل نہیں سمے کے سم کا مسموم ثمر جلد سب کے سامنے ہو گا۔جو زندہ رہیں گے وہ دیکھیں گے کہ مقسوم بی بی کی زندگی کی مشعل پراسررا نداز میں بجھا دی جائے گی اور اس کے الم نصیب پس ماندگان بے بسی کے عالم میں اُس کا آخری دیدا ر کرنے اُس کے گھر پہنچیں گے اور دامن جھاڑ کر واپس آ جائیں گے ۔زندگی اور موت کے درمیان موجود فاصلوں اور منزلوں کے سراب مانند ِ حَباب ہیں۔اس نا پائیدار کائنات کا ہر جان دار اِس کرب سے دِل گِیر ہے کہ وہ تبدیلی کے ایک غیر مختتم سلسلے کا اسیر ہے ۔‘‘
مولوی ناصر علی کی یہ پیشین گوئی حر ف بہ حرف درست ثابت ہوئی اور مقسوم بی بی کا اپنے سسرال کی جانب یہ سفر زندگی کا آخری سفر ثابت ہوا۔ جھنگ کی تہذیب و ثقافت کی تاریخ میںمولوی ناصر علی نے گہری دلچسپی لی۔اس نے جھنگ کے مقبول کھانوں کی قدامت ،مقبولیت اور لذت کے موضوع پرکئی باتیںاپنے چچا حکیم علی محمد ،سلطان محمود اورنو ر محمد سے سُن رکھی تھیں ۔ جھنگ میں پھولوں کے عطر کی تیاری سب سے پہلے شہید روڈ کے معمر عطار اور پنساری حسن عطر فروش کے آبا و اجداد نے1870 میںکی۔جھنگ میں پہلا کولھو سال 712ء میں گندے پانی کے جوہڑ کے قریب فضلو تیلی کے بزرگ نتھو تیلی نے لگایا ۔ تیل اور تیل کی دھار پر کڑی نظر رکھنے والا گنگو تیلی بھی فضلو تیلی کے خانوادے سے تعلق رکھتا تھا۔حسن عطار کی دکان سے بر صغیر کے سب راجے اور مہاراجے عطر منگواتے تھے۔ آزادی کے بعدحالات کیا بدلے کہ ذوق سلیم بھی رخصت ہو گیا نہ تو حسن عطا ررہا اور نہ ہی کسی کو اس کے پنسارکے کاروبار اور مقام کا اتا پتا معلو م ہے ۔ مولوی ناصر علی کے بزرگ عبدالواحد ،میاں حامد ، سلطان محمود، حاجی غلام محمد،خادم حسین ، غلام حسین ،احمد بخش ، حکیم علی محمد اور نور محمد ا پنے تجربات اور مشاہدات کی بنا پر اکثر کہا کرتے تھے کہ کئی کھانوں کی تیاری میں جھنگ کو اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے ۔ ریل بازار چوک کے مشر ق میں کورٹ روڈ پر حیدریہ ٹرانسپورٹ کے اڈے کے سا منے بُوٹا نامی ایک ضعیف لانگری ہاتھ سے دھکیلنے والی ریڑھی پر تکے اور کباب بنا کر بیچا کرتا تھا ۔ اس نے چچا نو ر محمد کو بتایا کہ وہ خاندانی طباخ ہے اور یہ صدیوں سے اُس کے خاندان کا آبائی پیشہ ہے۔ جھنگ میں کورٹ روڈ پر انگیٹھی میں دھونکنی سے لکڑی کے کوئلے دہکا کر لوہے کی سلاخ میںبڑے گوشت کی بو ٹیا ں پرو کر بھون کر تکے بنانے اور بڑے گوشت کے قیمے سے کباب بناکر فروخت کرنے کا آغاز 1860میں بُوٹا لانگری کے خاندان کے مورث اعلا کسکوٹانے کیا ۔جھنگ کے دیہی علاقوں کے قناعت پسند لوگ کنگ اور ساگ کھا کر اللہ کریم کی نعمتوں اور اس رازق کی عطا کے ر اگ گاتے ہیں ۔دیہی علاقوں میں سادہ زندگی بسر کرنے والے جفاکش لوگ یہ بات زور دے کر کہتے ہیں کہ لذیذ کھانوں اور جواں مردی کی رُت تو بہ ہر حال سردی ہی کی رُت ہے ۔ حسن و رومان کی سر زمین شہر سدا رنگ جھنگ کے باشندے جاگتی آنکھوں سے خواب دیکھنے کے رسیا ہیں اور زمین سے اُگنے والی ہر جڑی بوٹی کو دیکھتے ہی ان کے منھ میں پانی بھر آتا ہے اور بے ساختہ اس جڑ ی بُوٹی کے بارے میں یہ بے لاگ رائے دیتے ہیں کہ یہی تو اصل ساگ ہے نہ جانے بڑے شہروں اور قصبات کے مکینوں کو صحرا ؤںمیں قطار اندر قطار اُگنے والی خود رو جڑی بُوٹیوں سے کیسی لاگ ہے ۔ پنجاب کے گنجان آباد شہروں میں خود رو جڑی بوٹیو ںسے تیار کیے جانے والے پکوان کم کم نظر آتے ہیں۔ جھنگ کے دیہی علاقوں میں بھانت بھانت کے کھانے پکتے ہیںاور گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والے بھی ان لذیذ کھانوںکا تنوع دیکھ کر اش اش کر اُٹھتے ہیں۔جدید دور میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے بعد بڑ ے شہروں میں پریشر ککر(Pressure Cooker) اور مائیکروویو اوون( Microwave Ovens) میں تیار ہونے والے کھانوں اور فوڈ سٹریٹ کا چلن بڑھ رہا ہے مگر دیہی علاقوں میں کوری ہانڈی میں پکنے والے کھانوں کااپنا منفرد ذائقہ ہے ۔
مقسوم بی بی نے دائی ستاں کے پکائے ہوئے کھانوں کو ہمیشہ پسندکیا ۔ دائی ستاں گاؤں دوآبہ کی ایک ضعیف دائی تھی وہ تنور پر روٹیاں بھی پکاتی تھی اور چتڑی ( بھٹی) پر گندم ،جوار، باجرہ ،مکئی،چنے اور چاول کے دانے بھی بھونتی تھی۔ اس نے سلطان محمود ، نو ر محمد اور حکیم علی محمد کو بتایا کہ نسل در نسل جو ساگ اوربھات جھنگ کے دور دراز علاقوں،دیہات اور قصبات میں مقبول رہے ہیں اور ہر مطبخ کی شان سمجھے جاتے تھے ان میں اروی کے تازہ اور سر سبز و شاداب پتے،ارہر،الونک،اکروڑی،بتھوا،پالک،تاندلہ،توریا،خرفہ،سویا،سبز چنے کے پتے،سبز چنا ،سرسوں، شکر قندی، گاجر، گنار، لال ساگ ،مرسا ، منڈوا،میتھی اورمولی شامل ہیں۔ دائی ستاںخانہ داری کے کاموں میںماہر تھی اورکھانا پکانے کو وہ ایک فن اور اپنا پسندیدہ مشغلہ سمجھتی تھی ۔ دائی ستاں نے دوآبہ کی عورتوں اور لڑکیوں کو امور خانہ داری کا ماہر بنا دیا۔اللہ وسائی ،اللہ جوائی اور سکینہ کے ساتھ دائی ستاں کا معتبر ربط رہتا تھا۔ اس کے شوہر میاں رانجھا کے بارے میںمشہور تھا کہ وہ گاؤں کے سب محنت کش کسانوں،دہقانوں ،مزارعوں اور محنت کشوں کا سانجھا ہے ۔ میا ںرانجھا نے حکیم علی محمد اور نور محمد پنساری کے ساتھ بہت اچھا وقت گزارا۔ دائی ستاں اکثر یہ بات دہراتی کہ طعا م کھانا بلا شبہ انسان کی ضرورت ہے مگر طعام کی تیاری ایک ایسا فن ہے جس کے لیے بہت ریاضت درکار ہے ۔بزرگوں کا کہنا ہے کہ بڑے شہروں کے فائیو سٹار ہو ٹلوں کے کھانے بھی دائی ستاں کے پکائے ہوئے سادہ کھانوں کا مقابلہ نہ کر سکتے۔نہایت احتیاط سے پکائے ہوئے اس کے کھانوں میں خلوص ،مروّت اور بے لوث محبت کا ذائقہ اپنی مثال آ پ تھا۔ شادی بیاہ کی تقریبات میں ہوس ِزر سے بے نیاز دائی ستاں گھروں میں کھانا پکانے پہنچ جاتی اس کا مقصد صرف پیار و محبت اور چاہت کے جذبات کو عام کرنا تھا۔حکیم علی محمد، نو ر محمد ،اللہ جوائی،اللہ وسائی اور سکینہ سب اس نیک دائی کے پکائے ہوئے کھانوں کی بہت تعریف کرتے تھے۔ دریائے جہلم کی کچی مٹی اور بھینس کے گوبر کو گوندھ کر دائی ستاں جو انگیٹھی ،چولھااور دُودھان تیار کرتی جدید دور کا کوکنگ ر ینج (Cooking Range ) اُس کی گرد کو بھی نہیں پہنچتا۔ مقسوم بی بی کی شادی کی تقریب میں دائی ستاں اور اس کا شوہر میاں رانجھا ہی برات کا کھانا پکانے پر مامور تھے ۔ حکیم علی محمد اور نو ر محمد نے میاں رانجھا اور اس کی اہلیہ دائی ستاں کی خدمات کو ہمیشہ قدرکی نگاہ سے دیکھا۔ اس ضعیف دائی کی نیک نیتی ،مثبت سوچ اور انسانی ہمدردی کے اعجاز سے اس کے پکائے ہوئے سادہ کھانوں میں من و سلویٰ کی لذت پیدا ہو جاتی ہے ۔گاؤں کے لوگوں کا خیا ل تھا کہ اس معمر دائی کے کمالِ فن کا راز کھانوں کی سادگی میں پوشیدہ تھا ۔ عید ،شب برات یا کسی تقریب کے موقع پر گلی محلے کے فاقہ کش مکینوں میں حلوہ، زردہ یا پلاؤ پکا کر تقسیم کرنا سلطان محمود ، حکیم علی محمد اور نو ر محمد کا معمول تھا۔ معاشرے کے محروم طبقے میں چاہتوں اور بے لوث محبتوں سے لبریز کھانوں کی تقسیم کے ایسے یادگار مواقع پر دائی ستاں کی خدمات حاصل کی جاتی تھیں ۔ زچہ کے ہاں نومولود بچے کی پیدائش کے موقع پر ناخواندہ دائی ستاں لیڈی ڈاکٹر کے روپ میں جلوہ گر ہوتی اور زچہ و بچہ کی صحت کا پورا خیا ل رکھتی تھی ۔شاید جھنگ کی اسی معمر دائی کے بارے میں جھنگ کے ممتاز شاعر محمد شیرافضل جعفری ( 1909-1989)نے کہا تھا:
سندر ،کومل، ناز ک دائی
جھلمل جھلمل کرتی آئی
پھاگن کی سرشار فضا میں
لال پری نے لی انگڑائی
تِڑ تِڑ کر تِڑنے لگے پُھلے
تاروں کی دنیا شرمائی
مقسوم بی بی کی وفات پر دائی ستاں اور میاں رانجھا بھی عالم ِ بالا سے زمین پر صفِ ماتم بچھانے آئے تھے ۔اُن کی آنکھوں سے جوئے خوں رواں تھی اور صدمے سے نڈھال تھے ۔میاں رانجھا نے حکیم علی محمد سے لپٹ کر اُسے دلاسا دیااور مشیت ایزدی کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کامشورہ دیا۔ دائی ستاں نے اللہ جوائی کو گلے لگا کر روتے ہوئے کہا:
’’ مقسوم بی بی نے زندگی بھر تنہائی کی ردا اوڑھ کر غم کے ساتھ نباہ کیا ۔ گرد و نواح کی بستیوں میں مقیم سب مفلوک الحال خانہ دار خواتین کے دُکھ درد مقسوم بی بی کے دل و جگر میں سما گئے تھے ۔اُمیدوں ،اُمنگوں اور مستقبل کے خوابوں کی جستجو کے سفر کی کڑی دُھوپ کے تیشوں نے مقسوم بی بی کی زندگی کو مایوسیوں ،محرومیوں اور یاس و ہراس کی تباہ کن تاریکیوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اس کے باوجود ہر مظلوم عورت کے ساتھ اخلاق اور اخلاص سے پیش آنا اُس کامعمول تھا۔اس وقت سب دُکھی خواتین اپنی مُونس و غم خوار پڑوسن کی صف ِ ماتم بچھانے یہاں آئی ہیں۔ حرص و ہوس کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ سے چور محل کے مکینوں میں ہر حال میں سرخ رُو ہونے کا جنون اِس قدر بڑھ گیاہے کہ وہ چور دروازے سے گُھس کر اپنی بے رحمانہ تیراندازی سے خون کے رشتوں کو چھلنی کرکے اِس خون سے ہوس کے تھوہر،خود غرضی کی پوہلی ، پیمان شکنی کے حنظل اور موقع پرستی کے کسکوٹا کی آبیاری کرنے میںتامل نہیں کرتے ۔ میر ی دعا ہے اللہ کریم نوجوان مقسوم بی بی کے سفر ِ آخرت کی منزلیں آسان فرمائے اور اُس کے حقیقی پس ماندگان کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔اپنی طویل زندگی میں یہ میرا مشاہدہ ہے کہ جنگلی گیدڑ ،کھمبا نوچنے والی کھسیانی بِلّیاں ،لومڑیاں اور باگڑ بِلّے مر غیوں ، چڑیوں ،قمریوں ،تیتروں ،خرگوشوں ،کبوتروں ،موروں اور طوطوں کو ہڑپ کر کے گھروں اور دڑبوں کو ویران کر دیتے ہیں۔میں جب اپنے تنور یا بھٹی( چتڑی ) پر بیٹھتی تو کھسیانی بِلیوں ،باگڑ بلو ں ،خارش زدہ باؤلے کتوں اورآوارہ کتیاؤں کی پیٹھ پر جلتی ہوئی چواتی یا بھڑکتی ہوئی کُڈھنی دے مارتی ۔ہرخانہ دار عورت کو اپنے گھر کے دڑبے اور اپنی جان کی حفاظت کے لیے اپنے ہاتھ میں چواتی تھام لینی چاہیے ۔ اس حفاظتی اقدام سے جب وہ جنگلی گیدڑوں، کھسیانی بِلیوں،لومڑیوں اور باگڑ بلوں پر بھڑکتی ہوئی چواتی یا جلتی ہوئی کُڈھنی کاوار کریں گی تو سب درندے اور ڈریکولا مفت کی چپاتی کو بھول کر دُم دبا کر بھاگ جائیں گے ۔ مس بہا اور قفسہ جانم جیسی کتیائیں جب دہکتے ہوئے تنور میں میری لوہے کی گرم اور سرخ کنڈی کے داغ کھاتیں تو اپنا سا منھ لے کر رہ جاتیں اور کسی کو حسد کا داغِ پنہاں دکھانے کے قابل نہ رہتیں ۔ ‘‘
حکیم علی محمد کے خاندان کے ساتھ فضلو تیلی کے خاندان کے مراسم ایک صدی سے زائد عرصے پر محیط تھے ۔آج وہ بھی آہیں بھرتا یہاں پہنچا اور حکیم علی محمد سے مقسوم بی بی کی تعزیت کی ۔اس نے بتایاکہ اس کے خاندان کے بزرگ گنگو تیلی کو مقسوم بی بی کی الم ناک وفات کا حال معلوم ہوا تو وہ تڑپ اُٹھا اور کہنے لگاکہ میرا اور حکیم علی محمدکا خسارہ ایک جیساہے ۔ گنگو تیلی اظہار ہمدردی و تعزیت کے لیے یہاں پہنچاہے اور اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے بارے میں سب باتیں بتائے گا اور پس ماندگان کو صبر کی تلقین کرے گا۔ گنگو تیلی نے آہ بھر کر کہا:
’’ میرا نا م گنگو ہے اور پیشے کے اعتبار سے میں ایک غریب تیلی ہوں مجھے بھی استر عطائی قماش کے ایک درندے راجہ بھوج نے مکمل طور پر منہدم کر دیا۔ دنیا بھر کے مظلوموں سے میرا درد کا رشتہ ہے ،یہاں تو عجیب کیفیت ہے کہ ہر شخص راست گوئی کا داعی اور گامن سچیار بنابیٹھا ہے اور کوئی بھی عادی دروغ گو اپنی جعل سازی ،جسارت سارقانہ اور کذب و افترا پر بالکل نادم نہیں۔ مس بہا اور قفسہ جانم جیسی عیار چربہ ساز ، مکارسارق اور خو ن آشام کفن دُزد چڑیلوں کا اوچھے ہتھکنڈے استعمال کر کے اپنی جہالت کا انعام بٹورلینا عام سی بات ہے۔سو پشت سے میرا آبائی پیشہ کولھو میں سرسوں پیل کر تیل نکالنا تھا ۔میرے ساتھ کولھو کابیل بھی دِن بھر کولھو میں جُتا گھومتارہتاتھا اور یہ چکر یوں ہی جاوداں چلتا رہتا تھا۔ایک انتہائی مغرور اور طاقت ور مہا راجہ بھوج کی کرگسی آ نکھوں میں استر عطائی کا بال تھا۔اس ظالم راجہ نے مہاراشٹر میں کولھا پور سے بیس کلو میٹر شمال مغرب میں پنہالہ کے مقام پر ایک بلند پہاڑی پر ایک مضبوط اور ناقابلِ تسخیرقلعہ تعمیر کرانے کا قصدکیا۔ تعمیری مراحل کے آغاز میںجیسے ہی قلعہ کی دیواریں زمین سے اُٹھتیں سب کچھ بیٹھ جاتااور دیواریں ٹوٹ ٹوٹ جاتیں اور ہر طرف ملبے کا ڈھیر لگ جاتا ۔جب اس فرعون مزاج مہاراجہ کی اُمیدوں کی فصل غارت جانے لگی اور معماروں کی سب محنت اکارت چلی گئی تو در و دیوار پر حسرت و یاس کے بادل اُمڈ آئے ۔ قلعہ کی تعمیر کے سلسلے میں جب راجہ بھوج کی کوئی اُمید بر نہ آئی اور اسے تعمیراتی کام کی تکمیل کی کوئی صورت نظر نہ آ ئی تو اس نے ریاست کے جنتر منتر کے ماہر ،سب ستارہ شناس ، عامل، جوتشی ،قیافہ شناس ،رمال ،نجومی اور جادوگر اپنے دربار میں طلب کیے۔ دونو ںوقت مِل رہے تھے اُس وقت سب نے یہی کہا کہ جب تک اس قلعے کی گہری بنیادوں میں کسی زچہ اور اس کے نومولود بچہ کو زندہ پھینک کر کالی دیوی کے حضور قربانی نہیں دی جاتی اس وقت تک قلعہ کی تعمیر ممکن ہی نہیں ۔اُسی شام میری نوجوان اور حسین و جمیل بیوی نے میرے پہلوٹھی کے اِکلوتے بیٹے کو جنم دیا۔ راجہ بھوج کے ٹکڑوں پر پلنے والے جلاد منش کارندوںنے راجہ بھوج کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے میری بیوی اور نومولود بچے کو قلعہ کی بنیادوں میں دیواروں کے نیچے زندہ دفن کر دیا ۔ اس خونریزی کے بعدراجہ بھوج کا فلک بوس قلعہ تو تعمیر ہو گیا مگر اس ظلم کو سہنے کے بعد میں مکمل طور پر زمیں بوس ہو گیا اور بے بسی کی تصویر بنا بہاروں کے سوگ میں ہوائی قلعے بنانے لگا۔جب میرا سینہ و دِ ل حسرتوں سے چھا جاتا اور میں یاس و ہراس کے باعث بہت گھبرا جاتا اور زندگی سے بیزار ہو جاتا تو بے اختیار پکار اُٹھتاکہ راجہ بھوج فطرت کی سخت تعزیروں سے غافل نہ رہے ۔وہ اپنی فرد ِعمل سنبھالے یہ ظالم راجا بھوج جلد حالات کی زد میں آئے گااور اس نے مجھ پر جو کوہِ ستم توڑا ہے وہ اِس کا خمیازہ اُٹھائے گااوراِسے آٹے دال کا بھاؤ خوب معلوم ہو جائے گا۔جب یہ بے مہار اُونٹ ہمالیہ پہاڑ کے نیچے آئے گا اور تلملائے گاتو میرے دل کو سکون آئے گا۔میری مظلومیت اس خونخوار بھیڑیے پر عرصۂ حیات تنگ کر دے گی میرانومولود بچہ اور بے گناہ اہلیہ کی آہیں اِس خونخوار درندے کو جینے نہ دیں گی ۔میری آہ و فغاں ہر وقت اس موذی و مکار خون آشام راجہ کا تعاقب کر ے گی اور اِس شقی القلب جلاد کو کیفر کردار تک پہنچائے گی۔بے حس لوگ میر ا تمسخر اُڑاتے اور کہتے’’ کہاں راجہ بھوج اور کہاں گنگو تیلی ؟وہ دِن اور آج کا دِن میری بے بسی کی وجہ سے پیہم میری توہین، تذلیل ،تضحیک اوربے توقیری کا سلسلہ جاری ہے ۔‘‘
فضلو تیلی ا پنے خاندان کے مورث اعلا کی باتیں بڑے دھیان سے سُن رہاتھا۔حکیم علی محمد اور پنساری نور محمد کو دلاسا دیتے ہوئے اُس نے کہا:
’’ مجھے معلوم ہوا ہے کہ سادیت پسندی کا مریض استر عطائی سیاہی وال ،مکروال اور مگر مچھ نگر میں اپنے ٹھکانے بدلتارہاہے ۔ اُسے کیا معلوم مقام بدلنے سے سرشت اور کام کبھی نہیں بدل سکتا۔حنظل اگر گلشن میں بھی اُگے تو کبھی خربوزہ نہیں بن سکتا۔تھوہر اگر صحراکے بجائے کسی سبزہ زار میں نمو پائے تو لالہ و گُل نہیں بن سکتا۔میں کڑاہی میں تیل ڈالتا ہوں اور کڑاہی کو چولھے پر رکھ کر اُپلوں کی دھیمی آگ کے شعلے پر تیل کو گرم کرتا ہوں ۔جب تیل گرم ہو جائے تو اس میں بیسن کے پکوڑے بنا کر بیچتا ہوں ۔ میرے بنائے ہوئے گرماگرم اٹھارہ مصالحوں والے چٹ پٹے پکوڑے ہاتھوں ہاتھ بِک جاتے ہیں۔ میں گرم تیل سے پکوڑے پونی ( چھلنی ) سے باہر نکالتاہوں ۔خارش زدہ سگانِ راہ اور مکاربلیاںمیری دکان کے گر د منڈلانے لگیں تو میں دستے والی پونی گرم تیل کی کڑاہی سے نکال کر ان کی پیٹھ پر پوری قوت سے صر ف ایک چھنڈکا ( چھڑکاؤ) دیتا ہوں۔اس کے بعد گرم تیل اور تیل کے قطروں کی دھار دیکھتاہوں۔ چھلنی سے نکلنے والے تیل کے گرم گرم قطروں کا ایک ہی وار تقدیر کی مار اور قسمت کی ہار بن کر خارش زدہ سگانِ راہ اور مکاربلیوں کو اُن کی اوقات یاد دلا دیتاہے اور وہ سب وہاں سے ایسے غائب ہو جاتے ہیں جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ خانہ دار خواتین کو مکار بلیوں ،چوہوں ،دیمک ،پسو،کھٹمل اور کاکروچ سے نجات حاصل کرنے کے لیے میرے تجربے سے فائدہ اُٹھانا چاہیے ۔ اپنی عزت نفس اور انا کی تسکین کے لیے موذی و مکاردرندوں کی جی بھر کر تذلیل و توہین کرنا میرا شیوہ رہاہے ۔‘‘
مولوی ناصر علی یہ بات اکثر دہراتا کہ ایک فطین معلم کو اپنی زندگی میںمتعدد مسائل سے دو چار ہونا پڑتا ہے ۔معاشرتی زندگی میں انسانیت پر جو صدمے گزرتے ہیں وہ انھیں دیکھ کر ان کے بارے میں سوچتا ہے اور ان تضادات ،ارتعاشات اور شقاوت آمیزنا انصافیوں پر کُڑھتا رہتا ہے ۔ مولوی ناصر علی اپنے دِل میں مقسوم بی بی کی جان بچانے اور تحفظ کے بارے میںسیکڑوں سوچیں ،ہزاروں یادیں ،لاکھوں جذبات و احساسات ،کروڑوں حسرتیں اور لا تعداد خواہشیں لیے چپکے سے زینۂ ہستی سے اتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھا ر گیا۔اس کی نجی زندگی سے وابستہ یادیں اس کے لاکھوں مداحوں کی ایسی فریادیں بن گئی ہیں جن سے تا ابد افکار تازہ کے سوتے پھوٹتے رہیں گے ۔ اس منکسر المزاج معلم کا تدریسی کام سیلِ زماں کے تھپیڑوں کے سا منے سد سکندری ثابت ہوگا۔ وقت گزرنے کے ساتھ اس کی یادیں عالمِ خواب میں تو رہ سکتی ہیں مگر نظر ِ ثانی کو تحریک دینے والے جذبات کی حامل ان حسین یادوںکی حیات ابدی کے بارے میں کوئی ابہام نہیں۔ موت کسی طر ح بھی طبعی زندگی سے متصادم نہیں بل کہ یہ تو ماندگی کا اک وقفہ اور عملی زندگی کا ایک نا گزیر حصہ ہے ۔مولوی ناصر علینے اپنی دنیا آ پ پیدا کی اس کی وفات کے بعد اس کی دنیا بھی ماضی کا حصہ بن گئی ۔ سوچتا ہوں اب دنیا میںایسی ہستیاں کہاں پیدا ہو ں گی۔ آنے والی نسلیں ستائش اور صلے کی تمنا سے بے نیاز رہنے والے اس خود داراور منکسر المزاج معلم اور ماہر لسانیات کے ماضی کے خوابوں کی آئینہ دار ان یادوں کے انتخاب ،تقلید اور ترسیل کے ذریعے اپنے لیے مثبت لائحہ عمل کا انتخاب کریں گی۔یہ خورشید جمال معلم اپنے پس ماندگان کے لیے حیات جاوداںکی رمق اور روشن مستقبل کی چمک چھوڑ گیا۔وہ غروب ہو گیا مگر شفق پر اس کے عظیم کردار کی تابانی اُس کی زندگی کی کہانی کے سب نشیب و فراز سامنے لاتی ہے ۔مولوی ناصر علینے نہایت صبر آزما حالات کا خندہ پیشانی سے سامنا کیا اوربہت کٹھن زندگی گزاری ۔وہ اپنی ذات سے انجمن ایک ایساخو ش خصال تھا کہ اس کے ساتھ طویل نشست بھی تشنگی کے احسا س کے باعث مختصر سی لگتی ۔اس صابر و شاکر انسان کے بارے میں بہ قول سید سبط اصغر نقوی جو ن ایلیا( 1931-2002)یہی کہا جا سکتا ہے :
جو گزاری نہ جا سکی ہم سے
ہم نے وہ زندگی گزاری ہے
چھے جولائی 2017ء کو میرے نوجوان بیٹے سجاد حسین کی دائمی مفارقت کے بعد گردشِ ایام نے مجھے مکمل انہدام کے قریب پہنچ دیا۔سجاد حسین کے چہلم کے بعد میرا واسطہ آستین کے ایسے سانپوں سے پڑ گیاجن کی سادیت پسندی نے مجھے جیتے جی مارڈالا ۔مولوی ناصر علی نے میرے حالات کے بارے میں معلومات حاصل کیں اور ایک نشست میں مجھے سمجھاتے ہوئے کہا:
’’ میرے بھائی ! تم اس وقت پیشہ ور ٹھگوں ،عادی دروغ گو ،محسن کش اور پیمان شکن درندوں کے نرغے میں ہو۔تم اپنی ہی غلط رائے اور ناقابل عمل فیصلے سے دھوکا کھا گئے ہو۔حرفِ صداقت ،دیانت اور خلوص کے مفہوم سے نا آشنا ایسے مشکوک نسب کے سفہا کا ہر قول و فعل غداری،عیاری ،مکاری اور فریب کاری کے عفونت زدہ فرغلوں میں لپٹا ہوتاہے ۔ تمھاری تیزی سے گرتی ہوئی صحت کو دیکھ کرمحسوس ہوتاہے کہ ان ساتا روہن کے مکر کی چال سے سنبھلنا محال ہے۔ کوئی ایسااہلِ دِل ہو جو اپنے گریباں کا پھریرا بنا کر ٹھگوں کے دشت کے رہزن ان مردودِ خلائق عناصر کے مکر کا پردہ فاش کرے ۔بیابانِ مکر وفریب کے ببولوں کے یہ کانٹے تمھارے دامن ِ علم و وقار کو تار تار کر دیں گے ۔میں نے طیور کی زبانی یہ اُڑتی سی خبر سُنی ہے کہ سیاہی وال سے تعلق رکھنے والی بتیس سالہ ایم فل اُردو کی جس ریسرچ سکالر کے ساتھ تم نے اپنے بیس سال کے بیٹے احسن کی منگنی کی ہے اُس کی پہلے بھی کئی اور نو جوانوں سے منگنیا ں ہو چکی ہیں ۔اس لڑکی کے تمام فریب خوردہ منگیتر اپنا سب کچھ لُٹوا کر اِن کے گھر سے بے نیلِ مرام لوٹے ہیں ۔تمھاری بہو کا سوانگ ر چانے والی طالبہ مس بہا اور اُس کی ماں قفسہ جانم کے بارے میں مجھے مقسوم بی بی نے سب حقائق سے آ گاہ کر دیا ہے ۔ سرگودھاکے مضافات میں واقع کسی جامعہ میںایم فل ( اردو ) کی سندی تحقیق کے موضوع ’’ دکنی اور موجودہ اُردو زبان کے افعال کا تقابلی جائزہ‘‘ سال (2015-2017)کے لیے تمھارے تدریسی اشارات اور مقالات کا سرقہ کرنے کے بعد فرضی بہو کی اداکاری کرنے و الی اس محسن کُش طالبہ نے ڈگری ملنے کے بعد تمھیں ٹشو پیپر کی طرح استعمال کرنے کے بعد ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے ۔ نوجوان بیٹے سجاد حسین کی وفات ( چھے جولائی 2017ء ) کے بعدشبیر رانا جیسے بزرگ اُستاد جس کی مشعلِ زیست تقدیر کے بے ر حم بگولوں کی زد میں ہے ،اُسے اذیت و عقوبت کا نشانہ بنانا سفاکی اور شقاوت آمیز نا انصافی کی تکلیف دہ مثال ہے ۔ پوری دنیا میں کسی بھی مہذب معاشرے میں سادیت پسندی کی ایسی شرم ناک مثال نہیں مِلتی ۔میں اِس طالبہ کی انسان دشمنی، چربہ سازی اور سرقہ کے بارے میں متعلقہ اداروں کو لکھو ں گااور انصاف کی دستک دوں گا۔‘‘
پروفیسر حاجی محمد ریاض نے کہا’’ میرے رفیق کار رانا شبیر نے سدا فصیل ِشہر سے در پیدا کر کے آگے بڑھنے کی سعی کی باب ِ رعایت سے داخل ہو کر کسی منصب تک جانا اس کے مسلک کے خلاف ہے ۔اس طالبہ نے گرگٹ کی طرح رنگ بدلتے ہوئے شعبدہ بازی سے کام لیتے ہوئے جس عیاری سے ہمارے بھائی رانا شبیر کی بہو کے کردار کی اداکاری کی اُسے دیکھ کر میرے علاوہ جن دانش وروں نے دھوکا کھایا ان میں پروفیسر غلام قاسم خان، شیخ ظہیر الدین،پروفیسر احمد بخش ناصر ،فضہ پروین اور راحیلہ بھی شامل ہیں ۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ وہ طالبہ جومحافظہ ٔ رومان بھی ہے مکر و فریب ،دغا و دُزدی ،جسارتِ سارقانہ اور بہو کی اداکاری کی بنا پر اکیڈمی ایوارڈ یا آسکر ایوارڈ حاصل کرنے کے لیے کوشاں ہے ۔ہم سب نے دِ ن رات ایک کر کے اِس طالبہ کے ایم۔فل کے تحقیقی مقالے کی تسوید و تکمیل کی۔ تقدیر کے مارے میرے ضعیف بھائی شبیر رانا کا خون پینے اور ہڈیا ںنوچنے کے بعد سب کرگس اور زاغ و زغن لمبی اُڑان بھر گئے ۔اب شبیرر انا اپنی حسرتوں پر آ نسو بہاتا رہتاہے اور یہ شعر اکثر دہراتاہے :
تیری ہر بات محبت میں گوارا کرکے
دِل کے بازار میں بیٹھے ہیں خسارا کرکے
یہ باتیں سُن کر مولوی ناصر علی نے آ ہ بھر کر کہا : ’’ مطلب نکل جانے کے بعد اس موقع پر ست طالبہ نے اپنے گھر کو باہر سے مقفل کر لیا اور اِس کے بعدمُردوں سے شرط باندھ کر اپنے آبائی قحبہ خانے میں سو گئی ۔ اس کا چچا ایاز جس کی آنکھ میں خنزیر کا بال ہے بے حسی ،بے غیرتی اور بے ضمیری کا مجسمہ بناخچر بیچ کر اِس کے گھر میں سو گیا۔ تیس مارچ 2019ء کو شبیررانا شام سے لے کر صبح صادق تک اپنی ضعیف اہلیہ اور نوجوان بیٹی کے ساتھ کالی دیوی کی پجارن ، کالی زبان اور سبز قدم والی اِس بد بخت محسن کُش محافظہ ٔ رومان طالبہ کے گھر کے سامنے فرشِ زمین پر بیٹھا اس کی راہ دیکھتا رہا۔ بزرگ اساتذہ اور اُن کے مجبور اہلِ خانہ کی اِس قدر توہین ،تذلیل ،تضحیک اور بے توقیری کا دنیا کے کسی تعلیم یافتہ ،متمدن اور مہذب معاشرے میںتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔بے قدروں کی سنگت سے کسی کو کبھی فیض اُٹھانے کاموقع نہیں مِلا ۔اگر کیکر پر انگور کی بیل چڑھا دی جائے تو خارِ مغیلاں سے انگوروں کا ہر گچھا چھلنی ہو جاتاہے ۔شبیر رانا سے مفادات اُٹھا کر مرغانِ باد نما ، سسلین مافیا اور استحصالی عناصر اس سے منھ موڑ کے کسی نئے شکار کی تلاش میں نکل کھڑے ہوئے اور اس طالبہ کا ایک متمول نوجوان ہم جماعت پڑوسی اس کے زیر دام آ ہی گیا۔اس قماش کے جعل سازوں کے پلے میں جہالت کے سوا کیا ہے ۔حضرت علی ؑ کاقول ہے کہ جس کے ساتھ بھلائی کرو اُس کے شر سے بچنے کی دعا بھی کیاکرو ،ممتاز بلوچ نے اس کا پنجابی ترجمہ کیا ہے :
ہر سچے نے شاہ علیؑ دا ایہہ فرمان وی منیا سچ
جِس دے نال کریں بھلیائی اوسے دے شر کولوں بچ ‘‘
صاباں بہن پنڈی لال مرید کے شہر خموشاں سے یہاں پہنچی تھی۔اُس نے مقسوم بی بی کی وفات پر اپنے گہرے رنج کا اظہار کرنے کے بعداپنے بھائی شبیر رانا کے ساتھ پیمان شکنی کرنے والی سیاہی وال کی محسن کش چڑیلوں محافظہ ٔ رومان مس بہا اور قفسہ جانم کاذکرکرتے ہوئے کہاکہ اُس نے اِن پیمان شکن ،محسن کش ،مفاد پرست اور عادی دروغ گو عورتوں کا سب احوال سُن رکھا ہے ۔ محافظہ ٔ رومان مس بہا اور قفسہ جانم نے سیکڑوں گھروں کو لُوٹا ہے اور بزرگوں سے فریب کیا ہے ۔میں محافظہ ٔ رومان مِس بہا سے یہ پُوچھتی ہوں:
’’ ار ی اوچربہ ساز ،سارق اورکفن دُزد نام نہاد محافظہ ٔ رومانمحقق ! تو جعل سازی سے اپنی جہالت کا انعام بٹورکر ڈگری لے کر رواقیت کی داعی بن بیٹھی ہے ۔تُونے میرے بھائی شبیر رانا کو اِتنے دُکھ کیوں دئیے ؟تیری مثال اُس نمک حرام مرغی کی ہے جو انڈے تو کلغی والے اپنے پیارے مرغ کے پر تعیش آستانے پر دیتی ہے مگر دانہ ڈالنے والے سادہ لوح لوگوں کو فریب دینے کے لیے کُڑ کُڑ اُن کے شکستہ ٹھکانے پر کرتی ہے ۔چار سو صفحات کا مقالہ بٹورنے کے لیے تُونے میرے ضعیف بھائی شبیر رانا کی بہو بننے کا ڈھونگ رچایا۔جب مطلب نکل گیا تو شبیر رانا کی خدمات اور احسانات کو تم نے فراموش کر دیا اور اپنے سرمایہ دار پڑوسی ،ہم جماعت اور بچپن کے آشنا سے باندھا ہوا پیمان وفا تمھیں یاد آ گیا۔تُونے ایک کھرب پتی بزاز کی بہو بننے کے لیے چوتھی منگنی کرالی جب کہ واقف ِحال لوگوں کا کہنا ہے کہ اِس سے پہلے تیری ایک سو چار منگنیاں ہو چکی ہیں ۔ بتیس سال کی عمر میںتیرے چہرے پر برسنے والی نحوست ،بے برکتی ،بے توفیقی اور ذلت و تخریب سے صاف ظاہر ہے کہ یہ چمن ہزاروں مرتبہ لوٹا جا چکا ہے ۔تُونے بڑی بے دردی سے سلطان محمود اور اللہ وسائی کی آخری نشانی پروار کیا ہے ۔اب دیکھ تیرے ساتھ ہوتا کیا ہے ؟ جس وقت تُو فطرت کی سخت تعزیروں اور گردشِ حالات کی زدمیں آئے گی تو تجھے اپنی شقاوت آمیز نا انصافیوں ، بے رحمانہ مشق ِستم ،جعل سازیوں اور جسارت ِسارقانہ کا خمیازہ اُٹھانا پڑے گا۔ تشفی کنجڑے کی نواسی اور بہرام ٹھگ کی پوتی! کان کھول کر سُن لے تو نے ایک ضعیف معلم کی زندگی بھر کی کمائی لُوٹنے کے بعداپنی راہ لی ۔اَب تیری رسوائیوں اور جگ ہنسائیوں کاوقت آ پہنچاہے تیرے قبیح کردار کی وجہ سے لوگ تیرے چہرے کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہ کریں گے۔تیری علمی تہی دامنی دیکھ کر مجھے محسن بھوپالی( 1932-2007) کے یہ شعریاد آ گئے:
جاہل کو اگر جِہل کا انعام دیا جائے
اِس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رِندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ہے خوئے ایاز ی ہی سزاوارِ ملامت
محمو د کو کیوں طعنہ ٔ اکرام دیا جائے
ہم مصلحت ِ وقت کے قائل نہیں یارو
اِلزام جو دینا ہے سرِ عام دیا جائے
اللہ وسائی جو کربلا حیدری جھنگ سے یہاںپہنچی تھی وہ مقسوم بی بی کی الم ناک وفات پر بہت دل گرفتہ تھی ۔ وہ جانتی تھی کہ مقسوم بی بی زندگی بھر سب ستم سہتی رہی، ہر قسم کی باتیں سنتی رہی مگر ادب و احترام اور صبر کی روایت کو ملحوظ رکھتے ہوئے خاموش رہی ۔ اللہ وسائی نے اپنی بیٹی صاباں کی باتیں سنیں تو رونے لگی اور اپنے بیٹے شبیررانا کی داستان ِحسرت پر گہرے دُکھ اور کرب کا اظہارکیا۔ اپنے بیٹے شبیررانا پر ڈھائے جانے والے مظالم کے حوالے سے اللہ وسائی نیمحافظہ ٔ رومان مس بہا اور قفسہ جانم کی احسان فراموشی ،ضمیر فروشی ، سادیت پسندی اور محسن کُشی کے حوالے سے کہا :
’’ صابا ں بیٹی نے جو کہا ہے وہ سچ ہے ، سیاہی وال کے پیشہ ور ٹھگوںاور عادی دروغ گو لٹیروں نے میرے بیٹے کو تنہا سمجھ کر لُوٹا ہے۔میرے بیٹے شبیررانا کی خود فریبی ہی اس کے لیے سوہانِ روح بن گئی ہے ۔وہ یہ بات نہ سمجھ سکا کہ سیاہی وال کے مفاد پرستوں کی ظاہری مسکراہٹ بھی خلوص کی جعلی اداکاری اور فریب کاری کی چال تھی۔ محافظہ ٔ رومان مس بہا اور قفسہ جانم !خرچی کی کمائی اور کالا دھن کما کر تم نے اپنی آنکھوں پر ٹھیکر ی رکھ لی ہے ۔دنیا کو تمھارے قبیح کردار اور گھناونے جرائم کا پتا ہونا چاہیے۔ مکر وال ،سیاہی وال اور مگر مچھ نگر جیسے شہروں کے بارے میں منیرنیازی (1928-2006)نے سچ کہا تھا:
اِس شہرِ سنگ دِل کو جلا دینا چا ہیے
پھر اُس کی خاک کو بھی اُڑا دینا چاہیے
مِلتی نہیں پناہ ہمیں جِس زمین پر
اِک حشر اُس زمیں پہ اُٹھا دینا چاہیے
حد سے گزر گئی ہے یہاںرسمِ قاہری
اِس دہر کو اَب اِس کی سزا دینا چاہیے
اِک تیز رعد جیسی صدا ہر مکان میں
لوگوں کو اُن کے گھر میں ڈر ا دینا چاہیے
زہرہ کنجڑن کی نواسی اور بہرام ٹھگ کی پوتی محافظہ ٔ رومان مِس بہاسے میں یہ بات پوچھنا چاہتی ہوں کہ جب تیرا باپ علیل تھاتو اُسے لے کر میرا بیٹا شبیررانا جو خود عارضہ قلب میں مبتلا ہے سرگودھا ،فیصل آباد،راول پنڈی ،جھنگ اور لاہور کے شفاخانوں میں کئی بار گیا اور دوا ،علاج اور سفر کے سب اخرجات خود بر داشت کیے ۔جب تیرا باپ راول پنڈی کے ایک ہسپتال میں علاج کے لیے داخل تھا تو میرا بیٹا شبیر رانااُس کے ساتھ تھا۔تیری بڑی بہن کی دوسری شادی پر میرے بیٹے نے بھر پور امداد کی ۔ تیرے بھائی کی دوسری شادی کے لیے میرے بیٹے شبیر رانا نے کوئی کسر اُٹھا نہ رکھی۔ تیری ماں کو ساتھ لے کر میرا بیٹا شبیررانا راول پنڈی پہنچا اور ہسپتال میں داخل تیرے بیمارباپ سے اُسے ملایا اور اس کے بعد اُسے واپس تمھارے پاس لایا۔تیرے باپ کی وفات پر میرے بیٹے شبیررانا اور اُس کے بیٹے احسن نے اُس کی تکفین و تدفین میںحصہ لیا اور تعزیت کے لیے آنے والے مہمانوں کے قیام و طعام کے انتظامات پررقم خرچ کرنے میں کوئی تامل نہ کیا ۔ اُس وقت یہ تیرے دیرینہ آ شنا پڑوسی بزاز کہاں تھے ؟تمھارے لیے عیدیں بھجوائی گئیں جوتم نے ڈکار لیں ۔ تیری ماں قفسہ جانم کو عدت اور ماہ محرم کے سوگ کے لیے بھی بھاری رقوم دی گئیں اور بیش قیمت ملبوسات فراہم کیے گئے ۔جب تمھاری دو بہنوں کی بچیاں ہسپتال میںبڑے آپریشن سے پیداہوئیں تو میر ا بیٹا شبیر راناان کی بیمار پرسی کے لیے پہنچا اور اُن کی مقدور بھر خدمت کی ۔ اے مفادپرست محافظہ ٔ رومان ! چار سو صفحات پر مشتمل ایم۔فل ( اردو ) کا تحقیقی مقالہ بھی میرے بیٹے شبیر رانا کے بجائے اسی کھرب پتی بزازپڑوسی ،ہم جماعت ایم ۔فل اور نئے منگیتر ہی سے لکھو ا لیا ہوتا۔ اے محسن کش نام نہاد محقق! موقع پرستی اور اپنااُلّو سیدھا کرنے میں تیری مثا ل نہیں ملتی ۔ مظلوم شبیر رانا پر کوہِ ستم توڑنے والی چڑیل! یاد رکھو زمانے بھر کی نفرتیں اور حقارتیں تیرا مقدر بن جائیں گی اورتو عبرت ناک انجام سے دوچارہو گی ۔تم نے میرے بیٹے کو صرف وہی اشیا واپس کیں جو ناکارہ تھیں یعنی دانت صاف کرنے کے تنکے اور کان صاف کرنے کے روئی والے تنکے۔کیا دو سال کے عرصے میں میرے بیٹے کی طرف سے یہی کچھ تمھیں فراہم کیا گیا۔
گِنو سب حسرتیں جو خوں ہوئی ہیںدِل کے مقتل میں
مرے قاتل حساب ِ خوں بہا ایسے نہیں ہوتا ‘‘
سلطان محمود نے مقسوم بی بی کی الم ناک وفات اور اپنے بیٹے شبیررانا کے ساتھ سیاہی وال کے پیشہ ور ٹھگوں کی طرف سے روا رکھے جانے والے توہین آمیزسلوک کے حوالے سے اپنے جذبات ِحزیں کا اظہار کرتے ہوئے کہا:
’’جب ضمیر کی موت واقع ہو جائے تو ایسی ہی ان ہونی سامنے آتی ہے کہ لٹیرے اپنی لوٹ مارکی کوئی نشانی چھوڑے بغیرغائب ہو جاتے ہیں اور بعد میں مظلوموں کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے آ نکلتے ہیں ۔ محافظہ ٔ رومان مس بہا! تم خالق کائنات سے اپنے جھوٹے حلف کی عاجزی سے معافی طلب کرو اور متعلقہ جامعہ میں نیا حلف نامہ د اخل کرو کہ تم چربہ ساز ،سارق اور کفن دُزد ہو۔ تمھاری احتیاج کیا بدلی کہ تمھارالہجہ ہی مکمل طور پر تبدیل ہو گیا۔ مقسوم بی بی کی پر اسرار حالات میں وفات نے پس ماندگان کی روح کو زخم زخم اور دِل کو کرچی کرچی کر دیاہے۔ہمہ وقت خنجر بہ دست رہنے والے کینہ پرور بھیڑیے اس قدر درندگی کا مظاہرہ کرتے ہیں کہ مظلوم انسانوں کی زبان کاٹنے کے بعداپنے وار اور کاری ضرب کی تحسین کی تمنا لیے ہنہناتے دکھائی دیتے ہیں ۔نبضِ دوراں کے رمزآشنا جانتے ہیں کہ گردِشِ ایام اور سیل زماں کے ایک تھپیڑے کی دیر ہے اس کے بعد جاہ و جلال اورکبر ونخوت کے سب سلسلے نیست و نابود ہو جائیںگے۔ موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ پیہم تیر ستم سہنے کے بعد جب مظلوم انسان کا بدن جان سے خالی ہو جاتاہے تودرپئے آزار رہنے والے جان کے دشمن اجلاف و ارذال اور سفہابھی پینترا بدل کر مگر مچھ کے آ نسوبہاتے ہوئے خوں بہا لینے آ پہنچتے ہیں ۔ مقسوم بی بی کی دائمی مفارقت پہ ہزاروں خواتین گریہ و زاری کریں گی ۔مقسوم بی بی کے مرنے پر اُس کے سیکڑوں عزیز فرطِ غم سے نڈھال ہیں مگر اپنی زندگی میں یہ مظلومہ آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پستی رہی مگر کوئی بھی اس کی گریہ و زاری پہ مرنے والا نہ تھا۔ ظالم وسفاک ،موذی و مکارسسلین مافیا نے ایسے حالات پیدا کر دئیے کہ مظلومہ مقسوم بی بی اور میرے بیٹے شبیر رانا کی ہر سانس اورہر گھڑی قیامت کی صور ت گزری ۔ میرے بیٹے شبیر رانا نے جگر ِ لخت لخت کو جمع کر کے اِن یادوں کو محفوظ کیا ہے۔ اب یہ اہلِ زمانہ کی مرضی ہے کہ وہ حرفِ صداقت پر آ نکھ دھریں یا نہ دھریں۔ ‘‘
قحبہ خانوں،چنڈو خانوں اورعقوبت خانوںمیں کام کرنے والی طوائفوں کی قریبی رفیقہ محافظہ ٔ رومان مِس بہا کی سات ہم پیشہ و ہم راز سہیلیوں میںشگن المعروف بیلے سٹار ( Belle Starr )، سموں المعروف مول کٹ پرس ( Moll Cutpurse)، ظلی المعروف اینے بونی (Anne Bonny)، شباہت المعروف شارلٹ کورڈے (Charlotte Corday)، شعاع المعروف میری صورت( Mary Surratt)، پونم المعروف ما بارکر (Ma Barker)، گائتری المعروف بونی واکر( Bonnie Parker)شامل تھیں ۔ان طوائف زادیوں نے محافظہ ٔ رومان مس بہاکے ساتھ مِل کر ضعیف اور سادہ لوح والدین کے نوجوان بیٹوں کے ساتھ منگنی کے سبزباغ دکھاکر انھیں اس قدرمفلس وقلاش کر دیا کہ وہ الم نصیب کالا باغ ،کالا شاہ کاکو اور کالام میں در بہ در اور خاک بہ سر پھرتے تھے ۔خرچی کی کمائی پر گھمنڈ کرنے والی اور سادیت پسندی کے مہلک مر ض میں مبتلا محافظہ ٔ رومانمس بہا اکثرکہاکرتی تھی :
’’ بلغاریہ سے تعلق رکھنے والی کرپٹو کرنسی (Cryptocurrency) کی ملکہ رُوجا اِگناٹوا ( Ruja Ignatova) میرے قدموں کی دُھول ہے ۔ میں نے اور میری ماں قفسہ جانم نے برج الضعیفہ میں کئی مکان خریدے ہیں۔ اس ملک کے ہر بڑے شہر میں ہمارے فارم ہاؤس موجود ہیں۔پھونک پھونک کرقدم رکھنے والے نوجوان لڑکوں کے والدین کی احتیاطی تدابیر کے نتیجے میں اگر میری ایک منگنی ٹُوٹتی ہے تو مجھے اس کی کوئی پروا نہیں میرے سامنے سیکڑوں خانداں اور بھی ہیں ۔‘‘
’’ مخمورنگاہوں والی مغرورلڑکی ذرا منھ سنبھال بات کرو ۔‘‘ اللہ وسائی نے آہ بھر کر کہا ’’اپنے بھائیوں شیر محمد اور منیر حسین کو رخصت کرنے کے بعدابھی شبیر رانا سنبھلا ہی نہ تھا کہ اُس کا نوجوان بیٹا سجاد حسین دائمی مفارقت دے گیا۔اِس کے بعد تم نے اُسے وہ سہانے سپنے دکھائے جن میں وہ اُلجھ کر رہ گیا۔تین سال تک موہوم رشتے کی یہ صعوبتیں برداشت کرنے کے بعد کُھلاکہ اس دنیا کے آ ئینہ خانے میں تم نے شبیررانا کو تماشابنا دیا۔اب تو سرابوں کے عذابوں کے سفر کی دُھول ہی اُس کا پیرہن ہے ۔اُس نے رشتو ں اور ناتوں کے جو سہانے خواب دیکھے وہ کانچ سے بھی نازک تھے۔تم نے محسن کشی،پیمان شکنی اور خود غرضی کے لٹھ سے سب خوابوں کو ریزہ ریزہ کر دیا۔اب خوابوں کی ان کرچیوں سے اُس کی انگلیاں فگار ہیں ۔تم نے موقع پرستی اور خود غرضی کی افسوس ناک مثال پیش کی ہے ۔‘‘
اللہ وسائی کی سچی باتیں سُن کر مس بہا اور قفسہ جانم وہاں سے رفو چکر ہو گئیں۔
’’میں اپنی چچی اللہ وسائی اور بہن صاباں کی باتوں سے متفق ہوں ۔‘‘ علم دین نے اپنے دبنگ لہجے میں کہا’’ابھی آپ نے جن ممتاز دانش وروں کا ذکر کیا ہے میر ااعزاز ہے کہ میری آنکھوں نے انھیں دیکھا ہے ۔گداحسین افضل ،احمد بخش ناصر،حاجی محمد ریاض ،شیخ ظہیر الدین ،شبیر رانا اور مولوی ناصر علی سب کا تعلق اقلیم معرفت سے ہے ۔یہ وہ مدبر ہیں جو بصیرت ،فہم و فراست اور تدبر سے متمتع ہونے کے باوجود بادی النظر میں سادہ اور کم فہم دکھائی دیتے ہیں ۔قوت اور استعداد رکھنے کے باوجود ناتوا ںاور عاجز بن کر انکسار کے پیکر بن جاتے ہیں ۔اپنی مالی تہی دامنی کے باوجود ایک شان اِستغنا سے زندگی بسر کرتے ہیں اور حرص و ہوس سے کبھی اپنا دامن آلودہ نہیںہونے دیتے۔جذبۂ اِنسانیت نوازی سے سرشار یہ خادمِ خلق اپنے محدود وسائل کے باوجودپریشان حال اور درماندہ انسانوں کی مدد میں ہر گز تامل نہیں کرتے ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں فراعنۂ شب سے سدا معرکہ آرارہنے والی ایسی ہی یگانۂ روزگار ہستیوں کی دُکھی انسانیت کو جستجو ہے ۔اِن ہفت اختر شخصیات کے بارے میں مجھے بابا فرید الدین مسعود گنج شکر( 1173-1266) کا یہ شعر یاد آیاہے :
مت ہوندی ہوئے ایانا ،تان ہوندے ہوئے نتانا
اَن ہوندے آپ ونڈائے ،کوئی ایسا بھگت سدائے ‘‘
ترجمہ : ہمہ دانی کے ہوتے ہوئے جو اپنی نادانی جتلائے
قوت رکھنے کا باوجود بھی جو اپنی بے بسی دکھلائے
اپنی مفلسی میں بھی جو حاجت مندوں کے کام آئے
کوئی ایسا بھگت بلائے
ایران ،عراق اور عرب ممالک سے علوم اسلامیہ اور عربی و فارسی کی اعلا تعلیم حاصل کرنے والے ممتاز دانش ور مولوی ناصرعلی کے ملنے والوں میں سیاہی وال سے تعلق رکھنے والا ایک مفت خور، لیمو ں نچوڑ ،غبی متشاعر اور بز اخفش گنوار انتھک بھی شامل تھا۔ایک دن مولوی ناصرعلی نے اس کاہل ،نااہل اور کندہ ٔ ناتراش کو اپنے بارے میں بتایا کہ اُن کی ڈائری میں ناممکن کا لفظ کہیں درج نہیں ۔ نصیحت کی یہ اہم بات اس تہی اور مثنیٰ ابلہ کے سر سے گزر گئی ۔دوسرے دن وہ ایک مقامی کتب فروش کی دکان سے ایک نئی ڈائری خرید لایااور اس کے ہر صفحے پر لفظ ناممکن لکھناشروع کر دیا۔شام تک اس نے اپنی ڈائری مکمل کر لی اور ہر صفحے پر لفظ ’’ ناممکن ‘‘ کے سوا کچھ نہ لکھا تھا۔کاتا اور لے دوڑا کے مصداق وہ اپنی ڈائری لے کر مولوی ناصر علی کے پاس پہنچااور ہنہناتے ہوئے بولا :
’’ تمھاری ڈائری میں نا ممکن کا لفظ موجود نہیں مگر میری ڈائری دیکھو اس میں ہر صفحے پر نا ممکن ہی نا ممکن لکھا ہے ۔ میری زندگی تو ناممکن کی عملی تصویر بن گئی ہے ۔ میرے خاندان کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہونا۔ ہمارے اسلاف آخری عہدِ مغلیہ میں شاہی دربار سے وابستہ رہے ہیں۔‘‘
مولوی ناصر علی نے جب بہرام ٹھگ کی اولاد ا س عادی دروغ گو اور پیشہ ور ٹھگ کی یہ بے ہودہ گفتگوسنی توحیران رہ گیا،اس نے پوچھا:
’’ آخری عہدِ مغلیہ میں تمھارے اسلا ف شاہی دربار میں کن خدمات پر مامور تھے ؟‘‘
گنوار انتھک نے غراتے ہوئے کہا’’ مغل بادشاہ جہاں دار شاہ کی بیوی ملکہ ٔ ہند لعل کنور میری پر دادی تھی۔اسی زمانے میں نعمت خان کلانونت جو ملتان کا صوبے دار تھا وہ میری پر دادی کا چچا زاد بھائی تھا۔قحبہ خانہ ،چنڈ و خانہ اور عشرت کدہ چلانا سو پشت سے ہمارا پیشہ ہے ۔گزشتہ دو عشروں سے میری بہن مس بہا اور ماں قفسہ جانم نے شادی بیاہ کے محفلوں میں خوب رنگ جمایا ہے ۔ موسیقی کی محفلوں میں اُن کا رقص بہت مقبول ہیں ۔ بہرام ٹھگ ہمار امورث ادنیٰ ہے ۔ہمارے وضیع خاندان کے اکثر لوگ جلادتھے ۔وہ دربار میں شمشیر بہ دست آتے اور شاہی عتاب کا نشانہ بننے والے قسمت سے محروم مظلوموں پرکوڑے برساتے ،ان کی آ نکھیں، زبان ،ہاتھ ،پاؤں ،کان یاگردن کاٹ کر قصر ِ شاہی سے صادر ہونے و الے احکامات کی تعمیل کرتے ۔‘‘
سیاہی وال سے تعلق رکھنے والے پیشہ ور ٹھگ گنوار انتھک کے مشورے سے ہی استر عطائی نے دوسری شادی کی ۔ سیاہی وال میں مقیم قحبہ خانوں اور چنڈو خانوں کی رذیل طوائفوں کے آبائی عشرت کدے میں پروان چڑھنے والی گھاٹ گھاٹ کا پانی پینے والی اور کئی بار بیاہ کا ڈھونگ رچا کر منشیات کے عادی عیاش جنسی جنونیوں کو لُوٹنے والی یہ کٹنی جب استر عطائی کی دوسری بیوی بن کراس کے گھر میں وارد ہوئی توصابر و شاکر مقسوم بی بی نے سبز قدم سوتن کی آمد پر کوئی مزاحمت نہ کی ۔رُو سیاہی ازل سے استر عطائی کے تعاقب میںرہتی تھی ۔ایک شام سیاہی وال کی وہ کٹنی اس کے گھر کا سارامال و اسباب سمیٹ کر کسی پرانے آ شنا کے ساتھ نئے سفر پر روانہ ہو گئی ۔ کچھ عرصہ بعد استر عطائی نے دو بیٹیوں کی ماں ایک ایسی مطلقہ عورت سے تیسری شادی کر لی جو پہلے ہی دو بار طلاق کی صورت میں علاحدگی کے ستم سہہ چکی تھی ۔اس شادی کے بعدچار سال کے عرصے میںاستر عطائی کا ایک بیٹا اورایک بیٹی پیدا ہوئی ۔نا معلوم اِس گھر کو کس کی بُری نظر لگی کہ اس کے گھر کے دروبام پر بد قسمتی ،نحوست ،ذلت ،تخریب،بے توفیقی اور بے برکتی کاعفریت منڈلانے لگا۔جب بھی گھر میں کھٹ پٹ شروع ہوتی مقسوم بی بی جھٹ پٹ اپنے بچنے کی فکر کرتی ۔ عبادت ، تلاوت اور بچیوں کو ناظرہ قرآن پاک مع ترجمہ پڑھانے میںوقت گزارتی اور تہجد کی نماز پڑھنے کے بعد فغانِ صبح گاہی میں اللہ کریم سے امان طلب کرتی ۔مقسوم بی بی کی دُکھی خواتین کے ساتھ بے لوث محبت ،غم گساری اور ہمدردی موقع پرست حاسدوں کو گوارا نہ تھی ۔مقسوم بی بی چاہتی تھی کہ اپنی آبائی زرعی زمین کا کچھ حصہ فروخت کر کے اہلِ خانہ سمیت حج ِ بیت اللہ کی سعادت حاصل کرے اور زرعی زمین کی فروخت سے ملنے والی باقی رقم مفلس و بے سہارا خواتین اورمالی وسائل سے محروم یتیم بچیوں کی فلاح کے کاموں پر خرچ کرے ۔ اِسی سوچ کی بنا پر یہ انیسِ جاں درد آشنا خاتون باقی اہلِ خانہ کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی ۔ واقف ِ حال خواتین کا کہناہے کہ کینہ پرور اور حاسد سوتن کا معاندانہ روّیہ اِس بے بس و لاچار خاتون کے لیے سمِ قاتل اور پیغامِ مرگِ عاجل بن گیا۔ شوہر کو لگائی بجھائی کرنے والی سوتن نے ایسی جاں ستاں بلا کا رُوپ دھار لیاکہ جو بھی اِس کے پنجوں میں آیا وہ قعرفنا کی جانب چل پڑا ۔علم بشریات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جب بُرا وقت آتاہے تو انسان کا ہوش جاتا رہتاہے ۔ دو سال قبل استر عطائی پر جب بُرا وقت آیا تو اُس نے مقسوم بی بی کو بلاوجہ طلاق دے دی ۔ موت کے منھ سے بچ نکلنے کے بعدمقسوم بی بی نے اپنے مرحوم دیور کاظم حسین کے گھر میں پناہ لی ۔ دس ماہ گزر گئے تو بعض مرے کو مارنے والے شاہ مدار قماش کے منتقم مزاج درندوں نے اس اجل گرفتہ مظلوم اور بے سہارا عورت کو پھر استر عطائی کے گھر پہنچادیا۔ خلق ِ خدا یہی کہتی تھی کہ سب بلائیں تمام ہونے کے بعد اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اس بے بس عورت کو پھر سے اُسی مقام پر پہنچا دیاہے جہاں مرگِ نا گہانی اس مظلوم و بے سہار ا عورت کی منتظر تھی ۔اس کے چند ماہ بعد دو جون2020ء کو مقسوم بی بی کی چشم کے مر جھا جانے کا المیہ ہو کے رہا۔ مشہور یونانی فلسفی ارسطو نے واضح کیاہے کہ المیہ ہمیشہ اچھے حالات کے بعد اچانک خراب حالات پیداہونے کانام ہے۔سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زدمیں آنے کے بعدجب روزمرہ زندگی کے معمولات درہم برہم ہو جائیں اور یاس و ہراس کے ہجوم میں سینہ و دِل حسرتوں سے چھا جائے تو اسے ایک المیہ سے تعبیر کیاجاتاہے ۔ المیہ کا نمایاںترین پہلو یہ ہے کہ اس میں انسان کی اُس زبوں حالی ،درماندگی اوربر گشتہ طالعی کااحوال مذکورہوتاہے جو پیمان شکنوں کی سادیت پسندی ،محسن کش برادرانِ یوسف کی کینہ پروری ،عادی دروغ گو سفہاکی انسان دشمنی، اجلاف و ارذال کی درندگی پیشہ ور ٹھگوں کی لُوٹ مار یاخلوص کے بندوں کی اپنی ہی کسی انتہائی مہلک غلطی یاکوتاہی کے نتیجے میں وقوع پذیر ہوتاہے ۔
عورت کی عصمت ،وقار ،عجز وانکسار اور خلوص و ایثار کی وہ شمع فروزاںجس نے حکیم علی محمد اورحجن اللہ جوائی کے گھر میں فروزاں ہو کرسفاک ظلمتوں کو کافور کر کے مظلوم عورت کے حقوق کی روشنی پھیلانے کا آغاز کیا صرصرِ اجل کے بے رحم ہاتھوں نے اُسے دو جون 2020ء کو سیاہی وال کے نواحی گاؤ ں میںہمیشہ کے لیے بجھادیا۔مقسوم بی بی کے سانحہ ٔ ارتحال کی خبرعلاقے کی مظلوم ،بے سہارا اور مفلس خواتین کے لیے ایک ایسا ملال انگیزالمیہ ہے جس نے غریب طبقے سے تعلق رکھنے والی خواتین کو گہرے رنج و کرب میں مبتلا کر دیاہے ۔زندگی بھر اپنے طور پر مضبوط و مستحکم فلسفۂ زندگی اورقابلِ قدر نوعیت کے جذباتی ،قلبی و روحانی رجحانات کی ترجمانی کی مساعی کوتقویت دینے والی اس با ہمت اور صابر و شاکر خاتون کی دائمی مفارقت پر ہم سب پس ماندگان کے گریہ و بکا کا جواز ہے ۔مقسوم بی بی کی رحلت کے بعد پورے خاندان کے فکری و ذہنی اُفق پر رنج و الم کے بادل چھا گئے اور سب گھروں کی فضا سیاہ پوش ہو گئی۔ پاکستان کے دُور دراز دیہی علاقوں میںتانیثیت پرمبنی منفردسوچ کا ایک عہد اپنے اختتام کو پہنچا۔ مقسوم بی بی نے محنت کش خواتین کی اس عظیم الشان درخشاں روایت کومستحکم کیا جسے ہماری گھریلو خواتین نے نسل در نسل پروان چڑھایا ہے۔ مقسوم بی بی کی رحلت سے خانہ دار خواتین کا ہنستا بولتا چمن جان لیوا سکوت ،مہیب سناٹوں اور غموں کی بھینٹ چڑھ گیا۔قدرتِ کاملہ نے اس نیک دل ،خدا ترس اور عبادت گزار خاتون کو اپنے پاس بلا لیا جس نے سدا عجز و انکسار اور ایک شان استغنا کے ساتھ حرفِ صداقت ،حریتِ فکر و عمل اور حریتِ ضمیر سے جینے کی تلقین کی۔خواتین کے حقوق کے تحفظ اور اس کے پس پردہ کار فرما لاشعوری محرکات کی گرہ کشائی پر قادر ایک گم نام خاتون دیکھتے ہی دیکھتے ہماری بزمِ وفاسے رخصت ہو گئی اور احساس ِ زیاں سے نڈھال دیہی معاشرت حسرت و یاس کے عالم میں دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی ۔ وہ خاتون جس نے پیہم تیس برس تک تعلیم نسواں کے لیے جد و جہد کی اور نئی نسل کو افکار تازہ کی مشعل تھام کر جہانِ تازہ کی جستجو پر مائل کیااب ماضی کی یادبن چکی ہے ۔ اگر عبادت و ریاضت ،تقویٰ و پرہیز گاری ، خاندانی شرافت،نسوانی وجاہت ،انسانی ہمدردی ،بے لوث محبت ، عجزو انکسار ،پیہم محنت ، حق گوئی ،بے باک صداقت ،علم دوستی ،ادب پروری ،اخلاص اور بلند اخلاقی ، اخلاص ،شائستگی اور متانت کی تجسیم ممکن ہو تو صفحۂ قرطاس پرجوشبیہ بنے گی وہ مقسوم بی بی سے مماثل ہو گی۔
مقدر نے میرے ساتھ عجب کھیل کھیلاچھے جولائی 2017ء کو میرا نو جوان بیٹا سجا د حسین حرکت قلب بند ہو جانے کے باعث دائمی مفارقت دے گیا۔اس جان لیوا صدمے کے بعدمجھے ستارے بجھے بجھے نظر آتے تھے اور سویرا بھی دھواں دھواں دکھائی دیتا تھا۔ اس سانحہ کے ایک ماہ بعد سیاہی وال سے تعلق رکھنے والے ایک خاندان کا سر براہ مرہم بہ دست پہنچااور اپنی بتیس سالہ بیٹی جو سرگودھا شہر کی کسی نئی جامعہ سے ا یم۔اے( اُردو ) کر چکی تھی اور ایم۔فل اردو کے تحقیقی مقالے میں اٹک گئی تھی اور اس تاخیر کے باعث ڈگری لٹک گئی تھی ۔اس جعلی چارہ گر نے اپنی اِس بیٹی کی منگنی میرے چھوٹے بیٹے سے طے کر دی جو اُس وقت حیوانات کے معالج کے کورس ( DVM) میں زیر تعلیم تھا اور اُس کی عمر بیس سال ہے ۔ مقسوم بی بی کو پیرا سائیکالوجی اور ما بعد الطبیعات سے گہر ی دلچسپی تھی اور وہ گردشِ حالات کے نتیجے میں بدلتے روّیوں کے تلخ تجربے سے گزر چکی تھی۔اس نے مجھے سمجھانے کی کوشش کی اور کہا :
’’ بھائی ! مجھے یہ ڈر ہے کہ آزمائش و ابتلا اور مصائب و آلام کا یہ باؤلا اندھیراکہیں تمھارے سکونِ قلب ، صبر و قرار اور شانِ استغنا کو ڈس نہ لے ۔میں تمھاری متوقع بہو مس بہا اور اُس کی ماں قفسہ جانم اوراُن کے خاندان کے تمام افراد کو اچھی طرح جانتی ہوں ۔اِن عادی دروغ گو ،محسن کُش اور پیمان شکن لوگوں کا تعلق بہرام ٹھگ کی نسل سے ہے اوران کے اکثر افراد سسلین مافیا کے آلۂ کار ہیں ۔یہ سب فصلی بٹیرے ہیں جو دانہ چُگ کر لمبی اُڑان بھر جائیں گے ۔احتیاط سے کام لو ورنہ سانپ نکل جائے گا اور تم لکیر پیٹتے رہ جاؤ گے یادیںرہ جائیں گی مگر تمھاری فریادیں سننے والا کوئی نہ ہو گا۔ تم سے کام نکالنے کے بعد اس طالبہ کے سامنے سیکڑو ں آسمان اور بھی ہیں۔ یہ افعی تمھیں اُلّو بنا رہے ہیں اوراپنا اُلّوسیدھا کرنے کے بعد یہ سب اجنبی بن جائیں گے اور اپنی اپنی راہ لیں گے ۔چور محل کے مکین چور دروازے سے گُھس کر جا و منصب پر غاصبانہ قبضہ کرنے کی خاطر ہر حربہ استعمال کرتے ہیں۔ اس دنیا کے آ ئینہ خانے میں اپنا گھر پھونک کر تماشا دیکھنے والے دنیا کی نگاہ میں تماشا بن جاتے ہیں۔اِن عیاروں کے پھندوںاورگورکھ دھندوں سے بچ کر رہنا۔‘‘
نو جوان بیٹے کی دائمی مفارقت کے صدمے سے نڈھال میں سفا ک ظلمتوں میں گِھر گیاتھا اُمید کی روشنی کی جستجو میں موہوم آرزوؤں کے حسین دیپ فروزاں کرنے کے سو اکوئی چارہ نہ تھا۔ مہنگے خوابوں کی خریداری کے لیے دِلِ بینا اور بصیرت کی نیلامی ،خون کے رشتوں کی گم نامی اور زندگی بھر کی کمائی کی سوختہ سامانی کے سخت مقامات آئے تو پریشانی لاحق ہوئی مگر اپنے کیے ہوئے کام کا علاج ممکن ہی نہیں۔اس خاندان کے افراد کا ہمارے گھر میں آمد و رفت کا سلسلہ شروع ہو گیا۔اِس اثنا میں میرے مرحوم بیٹے کا لیپ ٹاپ پُر اسرار طور پر غائب کر دیا گیا جس میں میرے مرحوم بیٹے سجاد حسین نے میرے متعدد مقالات بڑی محنت اور جانفشانی سے کام لیتے ہوئے محفوظ کیے تھے ۔اس میں ایک اہم مقالہ ’’ دکنی اور موجودہ اُردو زبان کے افعال کا تقابلی مطالعہ ‘‘بھی تھا۔میری بہو بیٹی کی اداکاری کرنے والی اِس مفاد پرست طالبہ مس بہا نے اپنی جسارت سارقانہ اور چربہ سازی سے اسی مقالے پر سرگودھا شہر کی کسی نئی جامعہ سے( 2015-2017) سیشن میں ایم۔فل ( اُردو ) کی ڈگری حاصل کر لی اور ملازمت ملتے ہی مجھ سے تمام روابط منقطع کر لیے ۔ منگ اور سنگ کے بدلتے اور ٹُو ٹتے ڈھنگ دیکھ کر سب لوگ دنگ رہ گئے۔ اِن دغابازوں نے ماضی سے وابستہ تمام حقائق کو خیال و خواب بنا دیا۔ اب تشنگی کے عالم میں سرابوںکے صحرا میں بھٹکتے وقت میرے پاس اندیشہ ہائے دُور دراز ،تفکرات اور حادثات کی ریت پھانکنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں تھا۔ مقسوم بی بی کے اندیشے سچ ثابت ہوئے اس موقع پرست فرضی بہو مس بہا نے میرے ساتھ وہی سلوک کیا گیاجو بروٹس نے سیزر کے ساتھ کیا تھا۔ اس فریب کاری نے میری زندگی کو مزرع ِ اذیت و عقوبت بنا دیا ہے۔ مقسوم بی بی کو جب محسن کشی ،پیمان شکنی،انسان دشمنی اور دروغ گوئی کی اس قبیح واردات کا علم ہوا تو وہ تڑپ اُٹھی اور زار و قطار رونے لگی ۔میں سوچنے لگاکاش میں نے مقسوم بی بی کی بات پر دھیا ن دیا ہوتا۔
مقسوم بی بی کے سفر آخرت کے موقع پر سلطان محمود ، اللہ وسائی ،شیر محمد ،عطا محمد،کاظم حسین ،ناصر علی ،حاجی غلا م شبیر، الطاف حسین ،منیر حسین،سجاد حسین، محمد حسین ،صاباں،عزیز فاطمہ اور کوثر پروین ایک طرف کھڑے تھے ۔ ان سب رفتگاں کے چہرے پر حزن و ملا ل تھا اور ہر سوگوار سراپا سوال تھا۔ فردوسِ بریں سے تعزیت کے لیے فرش ِزمیں پر آنے والے تمام سوگوار مقسوم بی بی کے والد علی محمداور والدہ اللہ جوائی سے اظہار ہمدردی کر رہے تھے ۔اس کے ساتھ ہی وہ مقسوم بی بی کی زندگی کے حسرت ناک انجام کے بارے میں اُس کے والدین سے کئی سوال بھی پوچھ رہے تھے مگر وہ بے بسی کے عالم میںخاموش کھڑے تھے اور کچھ کہنے سے قاصر تھے ۔ مقسوم بی بی کا چاند چہرہ شب فرقت پہ وارنے اور پنج پیر کے شہر خموشاں کی زمین میں صبر و تحمل کا آسمان نہاں کرنے کے بعد مقسوم بی بی کے پس ماندگان اپنے اپنے گھروں کو واپس جا رہے تھے کہ اُنھوں نے دیکھا پنج پیر کے شہر خموشاں کے سامنے کھیت میں ایک دہقان تھالی کے بینگن کی صورت بنا دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنے بینگن کے کھیت میں نہایت انہماک سے گوڈی کرنے میں مصروف تھا ۔ سر سبز و شاداب کھیت کی اُونچی پگڈنڈی پر رکھا ریڈیو کے موجد اطالوی سائنس دان مارکونی(1874-1937 :Guglielmo Marconi )کے زمانے کا اُس کا شکستہ ریڈیو بیٹری سیل پرچل رہاتھا۔اُس وقت اتفاقاً ریڈیو سے کسی پرانے گیت کے یہ درد انگیز بول سُن کر شہر خموشاں سے واپس جانے والے علی محمد سمیت سب سوگوار دھاڑیں مار مار کر رونے لگے :
دنیا کرے سوال تو ہم کیا جواب دیں
تم کو نہ ہو خیال تو ہم کیا جواب دیں
پوچھے کوئی کہ دل کو کہاں چھوڑ آئے ہیں
کس کس سے اپنا رشتہ ٔ جاں توڑآئے ہیں
مشکل ہو عرض ِ حال تو ہم کیا جواب دیں
پوچھے کوئی کہ دردِ وفا کون د ے گیا
راتوں کو جاگنے کی سزا کون دے گیا
کہنے سے ہو ملال تو ہم کیا جواب دیں
مقسوم بی بی کی تحریک پراس علاقے کی ہو نہار طالبات نے مذہب ، ادب ،سائنس ،طب ،گھریلو دست کاریوں اور فنون لطیفہ کے شعبوںمیں فقید المثال کامرانیوں کے متعدد نئے ابواب رقم کیے ۔ایک معاملہ فہم خاتون اور بے لوث سماجی خدمت گار کی حیثیت سے مقسوم بی بی نے مالی وسائل سے محروم ذہین طالبات کی ہمیشہ حوصلہ افزائی کی ۔ فلاحی ادارے جن میں یتیم خانے ،نابینا مرکز ،ایدھی ایمبولنس،مساجد ،دینی تعلیم کے اداروں اور دستکاری مراکز کے خازن جب چندہ مہم پر مقسوم بی بی کے گاؤں میں آتے تو مقسوم بی بی اور اس کی معتمد سہیلیاں ان کے بھر پور مالی امداد کرتیں۔گاؤں میں غریب نوجوان لڑکیوں کو برقع فراہم کرنے،قران حکیم کے سیپارے مہیا کرنے اور تعلیم کی طرف مائل کرنے کے سلسلے میں مقسوم بی بی اور اس کی ہم خیا ل سہیلیوں نے بڑی محنت اور جانفشانی سے کام کیا ۔اس گاؤں کے ایک سو خوش حال گھرانوں کی خواتین نے نہایت رازداری سے ماہانہ ایک سو روپے جبری بچت کا سلسلہ شروع کیا ۔آٹھ ماہ کے بعد اسی ہزار روپے جمع ہو جاتے اِس رقم سے علاقے کی کسی یتیم ،مسکین اور مفلس نوجوان لڑکی کے جہیز کا سامان خریدا جاتا۔مقسوم بی بی بھی اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھی۔ اپنی گھریلو ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوتے وقت مقسوم بی بی کبھی حرفِ شکایت لب پر نہ لائی ۔ خانہ داری کے معاملات میںاُس نے اپنے تجربوں اور مشاہدوں کو زادِ راہ بنایا اور خواتین کو صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اعتماد کے ساتھ زندگی کا سفر جاری رکھنے کی تلقین کی ۔اُس نے سادگی اور قناعت کو ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا اور اپنی موثر رہنمائی سے حریت ِ فکر و عمل اور عجز و انکسار کے جذبات کو مہمیزکیا۔ خواتین کا کہناہے کہ مقسوم بی بی سے مِل کر زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم ممکن ہوجاتی اور زندگی سے والہانہ محبت اورقلبی وابستگی کے جذبات پروان چڑھتے ۔ وہ اس قدر خوش اخلاق ،مخلص اور خوشخصال تھی کہ اس کے ساتھ طویل نشست کے بعد بھی اختصار اور تشنگی کااحساس برقراررہتا۔ اخلاص ، اخلاقیات ، زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کی مناد ،نباض اور شارح معمر خواتین اس بات پر متفق ہیں کہ مقسوم بی بی نے نئی نسل کو غیبت ،حرف گیری،خوشامد ، اورفیشن کے بڑھتے ہوئے رجحان کے سرابوں سے بچانے کے لیے جو طرزِ فغاں اپنائی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُسی نے طرزِ ادا کی صورت اختیار کر لی ۔مقسوم بی بی کی محرم راز خواتین کا کہنا ہے کہ نمود و نمائش اور ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہنے والی اِس تہجد گزار اور متقی مصلح کے مقاصد کے بارے میں کوئی بات پنہاں نہیں۔مقسوم بی بی کی بصیرت افروزباتیں سن کر یہ تاثر پختہ تر ہوجاتا کہ جس طرح گلزارِ ہستی میں پیہم عنبر فشانی میں مصروف گلِ تر اپنی عطر بیزی کے منابع سے ،ثمر ِ نورس اپنی حلاوت کے بیش بہا ذخیرے سے،بُور لدے چھتنار اپنی گھنی چھاؤں کی اداؤ ں سے،دریا اپنی طغیانی سے ،حسنِ بے پروا اپنی حشر سامانی سے ،اُٹھتی جوانی اپنی طبع کی جولانی سے،سمندر اپنی گہرائی سے ،حرفِ صداقت اپنی ہمہ گیر گرفت و گیرائی سے ، شعلہ اپنی تمازت سے ،گفتار اور رفتار اپنے معیار اور نزاکت سے ،کردار اپنے وقار سے ،جذبات و احساسات مستقبل کے خدشات اور اپنی بے کراں قوت و ہیبت سے ، نو خیز کونپلیں اپنی روئیدگی سے ، سمے کا سم اپنے ثمر سے ، عشق ِحقیقی کی قوت اپنی نمو سے ، سادگی اپنے در پئے پندار حیلہ جُو سے، گنبد نیلو فری کے نیچے طیور کی اُڑان گھات میں بیٹھے صیاد کی مچان سے ،خلوص و دردمندی اپنی خُو سے ،حریت ِ ضمیر اپنے خمیر سے ،موثر تدبیر سوچنے والے نوشتۂ تقدیر سے،ایثار و عجز و انکسار کی راہ اپنانے والے جذبۂ بے اختیار کی پیکار سے ، حسن و رومان کی داستان جی کے زیان سے ،جبر کی ہیبت صبر کی قوت سے ،ظالم کی واہ مظلوم کی آہ سے ، نظام سقہ کے مانند چام کے دام چلانے والے مظلومو ں کے ضمیر کی للکار سے اور تاریخ سے سبق نہ سیکھنے والے فراعنہ جاہ و حشمت کے طومار سے وابستہ حقائق کے بارے میں کچھ نہیں جانتے اسی طرح ایک عاجز اور بے بس و لاچار عورت کے قلزم ِ خیال کا پانی اس قدر گہرا ہوتا ہے کہ طائرانہ نظر ڈالنے والی خواتین زندگی بھر اس کی غواصی کرنے کے باوجود اُس کی خاموشی کے پسِ پردہ کار فرما محرکات کے تاب دار موتی بر آمد کرنے سے قاصر ہیں ۔آزمائش و ابتلا کی گھڑیوں میں مقسوم بی بی کو اپنے خیر خواہوں کا حقیقی احوال معلوم ہو گیا تھا۔وہ اپنی گھریلو زندگی سے متعلق اپنے ذاتی نوعیت کے غم کا بھید اس لیے نہیں کھولتی تھی کہ اس کے دِل شکستہ کا حال سن کر کسی کو حزن و ملال نہ ہو ۔ اپنے کرب ناک حالات پر گریہ و فغاں کرنے کے بجائے مقسوم بی بی نے دُکھی خواتین کی بے لوث خدمت کی ایسی مثال پیش کی کہ آج ہر گھر سے خواتین اُس کو یاد کرکے زارو قطار رو رہی ہیں۔ اِس چاند کا عکس ِ جمال اس کی دائمی مفار قت کے صدمے سے نڈھال سوگوار خواتین کی آ نکھوں سے بے ساختہ بہنے والے آنسوؤں کی صورت میں ٹوٹ کر برستے پانی میں اور اُس کا لائق صدرشک و تحسین کرداراُس کی زندگی کی ناگفتہ کہانی میں تلاش کیا جا سکتاہے ۔ دِل ِ بینارکھنے والوں کو معلوم تھا کہ اس کا قلبِ حزیں ایک ایسے پنہا ںباغ کے مانند تھاجس میں غم و اندوہ کے سیکڑوں پھول کھلے تھے مگر اس نے اس کے گرد صبر و تحمل کی ایسی بلند و بالا دیواریں کھڑی کر رکھی تھیں کہ ظاہر بین آنکھوں کی وہا ںتک رسائی کسی صورت ممکن ہی نہ تھی ۔ مظلوم انسانیت کی خاموشیوں میں نہا ںاضطراب زیبِ قرطاس کرنا در اصل گونگے کے بیان کردہ خواب لکھنے سے بھی کٹھن مر حلہ ہے ۔ ہجوم ِ یاس میں گھرنے کے بعد رنج و الم نے مقسوم بی بی کی زندگی کی کایا پلٹ دی تھی اور وہ مسکراتے ہوئے زندگی بسر کرنے کی عادی ہو گئی تھی ۔ اُس روز میں نے استر عطائی کی صورت میں ایک ایسا شخص دیکھا جو مجسم بے حسی اور بے ضمیر ی تھا ۔سچ تو یہ ہے کہ احساس دم توڑ دے تو ساتھ ہی ضمیر بھی معدوم ہو جاتاہے۔ ایسے میں گھر میں جہاں کوئی دم کی مہمان میّت پڑ ی ہو تو سگریٹ کے کش لگا کر دھوئیں کے مرغولے تعزیت کے لیے آنے والے مہمانوں پر چھوڑ نے والے کسی گھر کے بے بصر ، کو ر مغز اور ذہنی قلا ش سر براہ کو فطرت کی سخت تعزیروں اور اپنے عبرت ناک انجام سے غافل نہیں رہنا چاہیے ۔ باطن ِایام پر نظر رکھنے والے وہ لوگ جنھیں اس جان لیوا صدمے کی شدت کااحساس ہے وہ جانتے ہیں کہ مقسوم بی بی کی مظلومیت کا سارا معاملہ اس کائنات کی سب سے بڑی عدالت میں پہنچ چکاہے ۔اِس یتیم مسکین خاتون کا نہایت پر اسرار طور پر زینۂ ہستی سے اُتر جانااو راس کے پس پردہ کا فرما عوامل کے بارے میں تاریخ یقیناً جلد فیصلہ صادر کر دے گی ۔حسن حمیدی کی نظم ’’ تاریخ کی عدالت‘‘ اس مظلومہ کے پس ماندگان کے جذبات حزیں کی ترجمان ہے :
کبھی تو تاریخ کی عدالت میں
تم بھی آؤ گے ہم بھی آئیں گے
حلف اُٹھانے کی رسم سے بے نیاز لمحے
تمام مفلوج عدل گاہوں کی مصلحت کیش بے زبانی
لہو فروشی کے کُل دلائل
دفاتر ِمنصفی پہ تحریر کررہے ہیں
کبھی تو تاریخ کی عدالت میںتم بھی آؤ گے ہم بھی آئیں گے
تم اپنے سار ے حلیف لانا
قصیدہ خوانوں کا مجمعِ بے ضمیر لانا
خمیدہ سر مصلحت پسندی کے زہر آلُودتِیر لانا
تم اپنی مانگی ہوئی شکستہ سی تیغ لانا
صلیب لانا
اذیتوں کے نصاب لانا
ہر ایک پُشتِ بشر پہ تحریر وحشتوں کی لکیر لانا
کبھی تو تاریخ کی عدالت میں تم بھی آؤ گے ہم بھی آئیں گے
ہم اپنے ہم راہ زندہ لفظوں کے پُھول لے کر
ہر ایک دامن کی دھجیوں کی دھنک میں پو شیدہ
زندگی کے اصول لے کر
ہزارہا سر کشیدہ کِرنوں کانُور لے کر
ہم اپنی اُن بیٹیوں کی مانگوں کا حُسن لے کر
کہ جِن کے سیندور کو کُھرچ کر
تم آج بارُود کی سُرنگیں بِچھا رہے ہو
ہم اپنی دھرتی کے ذرّے ذرّے میں شعلہ افشاں جلال لے کر
ضرور آئیں گے
جلد آئیں گے
وہ دَور اب دُور تو نہیں ہے
کہ وقت جب مُنصفی کرے گا
گلزار ہست و بود میںشجر کی نگہبانی کے داعی اس تلخ حقیقت سے شپرانہ چشم پوشی کرتے رہے کہ مقسوم بی بی کے شجر حیات کوسمے کی دیمک نے چاٹ لیاہے ۔ اِس بے حس معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ
یہاں ہر بے گناہ مظلوم کا خون مقدرہی کے سر جاتاہے ۔وہ مشت ِخاک ٹھکانے لگی جوزندگی بھر تیز ہوا اور بگولوں کی زد میں رہی ۔ اس مظلوم عورت کی زندگی کی بے بسی نے آج سب کو آٹھ آ ٹھ آنسو رُلایا۔ دِن ختم
ہوا ،رات کے وقت بادلوں کی اوٹ میں آسمان پر چاند چمک رہا تھا۔رات کے سائے گہرے ہونے لگے تو یادوں کے الاؤ بھڑک اُٹھے ۔اسی اثنا میں بیتے دنوں کے رنج و غم کی کہانی سنانے کے لیے آنسوؤں کی جھڑ ی لگ گئی ۔میں نے مقسوم بی بی کے گھر کی طرف دیکھا تو اُداس بام اور مقفل در سے ندائے غیب سنائی دی آج کے بعد سو چاند بھی چمکیں توکوئی بات نہیں بن سکتی ۔ جس گھر سے بے بسی کے عالم میںمقسوم بی بی کا چاند چہرہ شب فرقت پر وار دیا جائے وہاں تاریکیوں کا مداواکیسے ممکن ہے ؟اُس مظلومہ کی پریشاں حالی ،درماندگی اوردل شکستگی کے عالم میںکوئے عدم کوروانگی کے بعد اس گھر اور اس کے مکینوں کی اوقات ہی کیا ہے ۔ مقسوم بی بی کی دائمی مفارقت کے صدمے سے نڈھال میں زمین پربیٹھاسوچ رہاتھاکہ غم و الم کی اِس تاریک رات میں فکر وخیال کے جگنو بھی ساتھ چھوڑ گئے ہیں۔کھنڈرات نما سُونے گھروندوں میں مہیب سناٹے اور جانگسل تنہائیوں کا راج ہے ۔میں سوچنے لگا کہ پس ماندگان کو یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ دائمی مفارقت دینے والے عزیزوں کی موت کن حالات میں ہوئی بل کہ ان حقائق پر غورکرنا چاہیے کہ اُن کی زندگی کن حالات میں بسر ہوئی ۔ میں مقسوم بی بی کی زندگی کے آخری دنوں کی تلخیوں کو یاد کر تا توآنکھوں سے آنسوتھمنے کا نام نہ لیتے تھے ۔میں اس خیال میں گم تھا کہ جنھیں ہم دیکھ کر جیتے تھے وہ چاند چہرے ہمیشہ کے لیے آ نکھوں سے اوجھل ہو گئے ہیں ۔ اب انتظار بے مقصد ہے ، دائمی مفارقت دینے والے کبھی پلٹ کر نہیں آتے ۔اسی اثنا میں عزیز جہاں ادا جعفری( 1924-2015) کا یہ شعر ذہن میں گردش کرنے لگا:
نہ غبار میں نہ گلاب میںمجھے دیکھنا
مرے درد کی آب و تاب میںمجھے دیکھنا