سابق وزیراعظم کے صاحبزادے نے وزیر مملکت بننے سے انکار کر دیا ہے۔ وہ توقع کر رہے تھے کہ انہیں مکمل وفاقی وزیر کا عہدہ پیش کیا جائے گا۔
نیو ساﺅتھ ویلز آسٹریلیا کی ریاست ہے، سڈنی جس کا صدر مقام ہے۔ وہاں ایک وزیر کو اس لئے مستعفی ہونا پڑا کہ اس نے سرکاری لیٹر پیڈ پر ایک سفارشی چٹھی لکھ دی تھی۔ کیا کوئی تصور کر سکتا ہے کہ اس کے صاحبزادے کو وزارت کی پیشکش کی جائے گی؟
حیرت ہے ان دوستوں پر جو کبھی زلزلے کو عذاب کہتے ہیں اور کبھی ڈرون حملوں کو…. یہ تو آزمائشیں ہیں۔ عذاب تو ان پر اترے گا جو حملے کر رہے ہیں اور کروا رہے ہیں۔ لیکن جو عذاب اترا ہوا ہے اس کی کسی کو پروا نہیں۔ برائی کو قبول کر لیا گیا ہے۔ اس کی ساری آلودگیوں اور تمام مضمرات کے ساتھ! کون سی بہتی گنگا ہے جس میں سابق وزیراعظم نے ہاتھ نہیں دھوئے۔ اپنے من پسند، داغدار شہرت رکھنے والے افسروں کو تعینات کرنے کے لئے سپریم کورٹ سے مسلسل گتکا کھیلتے رہے۔ حج کے نام پر کیا نہیں ہوا۔ بھارت، خلیج اور برطانیہ کے اخبارات میں ڈیزائنر سوٹوں سے بھرے ہوئے کارٹنوں اور ٹرکوں کی کہانیاں شائع ہوتی رہیں‘ جو ڈیفنس لاہور کے گھروں میں سامان اتارتے رہے۔ پھر ایفی ڈرین کا کیس جسے مذاق بنا دیا گیا۔ اخبارات چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ اربوں روپے کمائے گئے۔ اسّی ارب کا ہندسہ بھی شائع ہو چکا ہے۔ کہاں وہ وقت کہ گھر کا خرچ چلانے کے لئے دستی گھڑی فروخت کرنا پڑی اور کہاں یہ بیش بہا ملبوسات جو دوسری بار پہنے جانے کے الزام سے بری تھے! لیکن قوم یہ سب کچھ قبول کر چکی ہے۔ صدر اور وزیراعظم نے تو سابق وزیراعظم کی تالیف قلب کرنا ہی تھی کہ ایک ہی طبقہ ہے اور حمام میں سب ننگے ہیں۔ لیکن المیہ یہ ہے کہ عوام نے جانتے بوجھتے ہوئے ان کے صاحبزادوں کو منتخب کیا۔ وہی عوام جنہوں نے جعلی ڈگریاں رکھنے والے نااہل امیدواروں کو دوبارہ چن لیا!
انسان ورطئہ حیرت میں ڈوب جاتا ہے اور عوام کے رویے کو سمجھنے سے قاصر رہتا ہے۔ یوں لگتا ہے یہ اٹھارہ کروڑ دھات کے ذرّے ہیں جنہیں کوئی بھی ہاتھ، مقناطیس پکڑ کر، اکٹھا کر سکتا ہے۔ بے روزگاری اور گرانی کے مارے ہوئے ہجوم کہیں کا بھی رخ کر سکتے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے جلسے ہیں تو وہ عوام کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر دکھاتے پھرتے ہیں۔ ان جلسوں کے سٹیج سے وہ سابق وزیر بھی ڈرون حملوں کے خلاف شعلہ فشاں تقریریں کر رہے ہیں جو دس سال تک کابینہ میں بیٹھ کر ڈرون حملوں کی تائید کرتے رہے، فیصلوں پر صاد کرتے رہے اور میڈیا پر ان کا بھرپور دفاع کرتے رہے۔ کوئی نہیں پوچھتا کہ اب کس منہ سے مخالفت کر رہے ہیں۔
تھا جو نا خُوب، بتدریج وہی خُوب ہُوا
کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر
کوئی نہیں پوچھتا کہ دوسروں کے بچوں کو شہادت کا شوق دلوانے والوں کے اپنے لخت ہائے جگر، ناز و نعمت کے نہاں خانوں میں بیٹھ کر کاروبار چلا رہے ہیں۔ آخر کیوں؟ جنگ کا ہنر رکھنے والے محاذ پر کیوں نہیں جاتے؟ شہادت بہت بڑا انعام ہے۔ مومن کا مقصود اور مطلوب ہے۔ تو میدان جنگ کے بجائے جلسہ ہائے عام کے مورچے کیوں؟ امریکیوں اور نیٹو کے خلاف جان کی بازی لگانے والے تو سرحد پار ہیں۔ وہاں جانے سے کون منع کر رہا ہے؟
عوام کی فراغت اور ساتھ ہی بے بسی کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ سکھر میں جے یو آئی (ف) کے جلسے کو تاریخی اجتماع قرار دیا گیا ہے۔ وہی ہاتھ میں مقناطیس اور وہی دھات کے بکھرے ہوئے ذرّے جو بھاگے چلے آتے ہیں۔ اندھی عقیدت کی افیون کھائے ہوئے عوام! نشے میں جھومتے! کسی کے پاس منطق ہے نہ دلیل۔ ناخواندگی اور لاعلمی کے دبیز کُہرے میں لپٹے ہوئے! اگر ایسا نہ ہوتا تو مولانا فضل الرحمن یہ کہتے ہوئے سو بار سوچتے کہ حکومت کی کوئی خارجہ پالیسی نہیں!
سعدی نے کہا تھا ع
یکے برسرِ شاخ و بُن می برید
ایک شخص جس شاخ پر بیٹھا تھا، اسی کی بنیاد کاٹ رہا تھا۔ مولانا کشمیر کمیٹی کے سربراہ ہیں۔ کشمیر ہی پاکستان کی خارجہ پالیسی کی بنیاد ہے۔ پوری خارجہ پالیسی اس کے گرد گھومتی ہے۔ اگر خارجہ پالیسی کا کوئی وجود ہی نہیں تو آپ اس کمیٹی کے سربراہ کیوں ہیں؟ استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ کیا قوم کو بتایا جائے گا کہ آج تک مولانا کو اس حیثیت میں پروٹوکول دینے پر، افرادی قوت پر اور گاڑیوں پر ملکی خزانے کا کتنا حصہ خرچ ہو چکا ہے۔ کتنے غیر ملکی دورے کئے گئے ہیں؟ کتنا زرمبادلہ صرف ہوا ہے؟
مولانا نے فرمایا ہے کہ امریکہ سے تعلقات پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ عوام کی بے بسی اور لاعلمی پر رحم ہی کیا جا سکتا ہے۔ غالباً اس ”تاریخی اجتماع“ میں ایک فی صد کو بھی وکی لیکس سے آشنائی نہ تھی! ابھی تواس خبر کی روشنائی بھی خشک نہیں ہوئی!۔ امریکی سفیر سے مولانا نے التماس کی تھی کہ مجھے وزیراعظم بنواﺅ، پارلیمنٹ کو میں سنبھال لوں گا۔ پھر فرماتے ہیں کہ ملک کا ہاری جاگیردار کے شکنجے میں ہے۔ کوئی جسارت کرے تو پوچھے کہ حضرت! آپ ایک عرصہ سے پارلیمنٹ میں تشریف فرما ہیں۔ کتنے بل جاگیردارانہ نظام کے خلاف پیش کئے؟ کتنی دفعہ زرعی اصلاحات کا مسودہ آپ نے ترتیب دیا؟ لیکن انتہا درجے کی غیر منطقی بات مولانا نے مدارس کے بارے میں ارشاد فرمائی۔ ”آج مدارس کے آڈٹ کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔ ہم سے پوچھا جا رہا ہے کہ مدارس میں کتنے طلبا ہیں؟ کتنے اخراجات ہیں؟ کہاں سے اخراجات آ جاتے ہیں؟ ہم ایسے لوگوں کو یہ تفصیلات کیوں بتائیں۔؟“
مولانا سے بصد احترام، دست بستہ، کوئی پوچھے کہ حضرت! یہ اعداد و شمار تو آپ حضرات کو خود ہی بتا دینے چاہئیں۔ ملک میں جتنی پرائیویٹ یونیورسٹیاں ہیں، ان کے حسابات کی چارٹرڈ اکاﺅنٹینٹ کمپنیاں چھان بین کرتی ہیں۔ سرکاری تعلیمی اداروں کی بھی ایک ایک پائی کا حساب ہوتا ہے۔ آخر مدارس کا آڈٹ کیوں نہ ہو۔؟ ان مدارس میں پڑھانے والوں کا جس طرح استحصال ہو رہا ہے اور پڑھانے والوں کے مقابلے میں مدارس کے مالک حضرات اور ان کے صاحبزادگان جس معیار زندگی سے متمتع ہو رہے ہیں، اس کے بارے میں یہ کالم نگار ایک الگ مضمون لکھنا چاہتا ہے۔ یہ کہنا کہ طالبان ریاست کے اندر ریاست بنا رہے ہیں تو مدارس کے اعداد و شمار جمع کرنے والے بھی ریاست کے اندر ریاست بنائے بیٹھے ہیں۔ ایک کمزور دلیل ہے۔ اگر یہ مطالبہ ان کے سیاسی حریف الطاف حسین نے کیا ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ الطاف حسین واحد شخص ہیں جنہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے۔ آخر ہمارے علماءکرام اپنے مدارس کا حساب کتاب منظرعام پر لانے سے کیوں انکار کرتے ہیں؟ کوئی وجہ تو ہوگی!
اس سے بھی زیادہ تعجب حافظ حسین احمد کی قافیہ آرائی پر ہوا ”سلالہ پر حملہ ہوا تو ملالہ پر بھی حملہ ہونا تھا۔“ مولانا حاضر جوابی کے لئے مشہور ہیں۔ لیکن یہاں مار کھا گئے۔ قافیہ مل گیا لیکن بات نہ بن سکی۔ ابھی تھوڑا عرصہ ہی ہوا کہ آپ قاضی حسین احمد کے ساتھ ایک سٹیج پر تشریف فرما تھے۔ احمد ندیم قاسمی کا مصرع یاد آ گیا
کٹی پتنگ ہے ساری دنیا کی نظروں میں سمائی ہوئی