مصری ادب اگر کوزے میں بند کیا جائے، تو اس پر مصر کے دو ادیبوں کا نام کنندہ ہونا کافی ہے، جس سے مصری ادب کا تعارف ہوجائے گا اور معیار کی ضمانت بھی، یہ دو شخصیات طحہٰ حسین اور نجیب محفوظ ہیں۔ یہاں ہماری متذکرہ شخصیت نجیب محفوظ ہیں، جن کو 1988 میں ادب کا نوبیل انعام دیا گیا۔ عرب دنیا میں چھ شخصیات کو انفرادی حیثیت میں نوبیل انعام دیا گیا، جس میں ادب کا واحد نوبیل انعام ان کے حصے میں آیاتھا۔
مصر سے تعلق رکھنے والے اہم ترین ادیب اور جن سے نجیب محفوظ خود بھی متاثر رہے ،یعنی’’طحہٰ حسین‘‘ ان کو ادب کا نوبیل انعام دینے کے قابل نہیں سمجھا گیا، جس طرح پاکستان سے سعادت حسن منٹو پر بھی ان کی نظر نہ پڑی۔ نجیب محفوظ کی زندگی، نوبیل انعام حاصل کر لینے کے بعد لامحدود شہرت میں تبدیل ہوکر پوری دنیا میں پہنچ گئی۔ ان کی کہانیوں میں مصری تاریخ، ثقافت اور سماج کی عکاسی بہت باریک بینی سے پیش کی گئی ہے۔
نجیب محفوظ کا مکمل نام’’نجیب محفوظ عبدالعزیز ابراہیم احمد پاشا‘‘ تھا۔ وہ مصر کے شہر قاہرہ میں 11 دسمبر 1911 کو پیدا ہوئے، جبکہ 30 اگست 2006 میں انتقال ہوا۔ انہوں نے اپنی ادبی زندگی میں تقریباً 34 ناول لکھے، 350 کہانیاں تخلیق کیں، فلموں کے لیے اسکرپٹ، اسٹیج کے لیے کھیل اور اخبارات کے لیے طویل مدت تک کالم ان کے علاوہ ہیں۔ اپنی تخلیق زندگی میں یہ مختلف نظریات سے متاثر ہوئے، ان میں سب سے اہم’’فلسفہ ٔ اشتراکیت‘‘ اور’’فلسفہ وجودیت‘‘تھااور اس کے ساتھ ساتھ مقبول ادبی تحریک ’’حقیقت نگاری‘‘سے بھی استفادہ کیاتھا۔
ان کے خاندان کی رہائش مصر کے شہر قاہرہ کے پرانے علاقے میں تھی۔ غربت میں ہوش سنبھالا۔ سخت مذہبی ماحول میں پرورش پائی اور اس کے نتائج ان پر اُلٹ ہوئے اوران کا دھیان بنیاد پرستی سے جدیدیت کے افکار کی طرف چلا گیا، آگے چل کر ان کی ادبی روش میں میں یہ سارے رجحانات بھرپور طور سے در آئے۔ اس رُخ پر سوچنے کا یہ مزاج ایک طرح سے اپنی معاشرت اور ثقافت سے بغاوت کی بھی ایک چنگاری تھی، جس کو ان کی تخیل نے کہانیوں میں شعلہ کر دیا۔ ان موضوعات پر بھی قلم اٹھایا، جن پر دوسروں کے پر جلتے تھے۔
1919کو مصر میں برطانوی قبضے کے خلاف، جنم لینے والے مصری انقلاب نے بھی ان پر گہرے اثرات مرتب کیے، حیرت انگیز طور پر اس وقت یہ کمسن تھے، لیکن پھر بھی اس انقلابی تحریک کوانہوں نے سنجیدگی سے محسوس کیا، جس عمر میں اطفال کھلونوں سے دل بہلاتے ہیں، ان کا دماغ تحریکی نعروں کے مفہوم کو سمجھنے کی سعی کر رہا تھا۔ یہی سے ان کے ادیب بننے کی ابتدا ہوگئی تھی۔ ان کے اردگرد برطانوی فوجیوں کے مصریوں پر ظلم و ستم کے مناظر بیدار تھے، جن کو یہ محسوس کر رہے تھے۔ وہ تمام زندگی بچپن کی ان اداس اور غمناک یادوں کے بارے میں بات کرتے رہے۔ ان کی بہت ساری تخلیقات پر ذاتی زندگی کی پرچھائیاں بھی منڈلاتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں، وہ زمانے کی کہانی میں اپنی کہانی بھی لکھ کر بتارہے تھے۔
تخلیقی اور قلمی دنیا میں وہ حافظ نجیب، سلامہ موسیٰ اور طحہٰ حسین سے متاثر ہونے کے علاوہ برطانوی اشتراکی تنظیم’’فبین‘‘ سے بھی نظریات کا ادراک وصول کرتے رہے۔ 1934 میں جامعہ قاہرہ سے فلسفے میں گریجویشن کرلیا، مگر ماسٹرز میں اس مضمون کی تعلیم کو مکمل نہ کر پائے اور اپنے لکھنے پڑھنے میں اس قدر مصروف ہوئے، روایتی تعلیم کی طرف پلٹ کر نہ دیکھا، زندگی سے براہ راست اسباق حاصل کرنے لگے، جس میں ان پر حیرتوں کے نئے جہان وا ہوئے۔ بطور صحافی بھی کیرئیر کو آگے بڑھایا، سول سروس میں بھی کام کیا، لیکن زندگی بھر کل وقتی ادیب کے طورپر کہانیاں لکھنے میں مشغول رہے۔اپنے وطن کی آزادی کے حصول میں سیاسی وجدان ملا، پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں مشاہدہ بھی ہوا، بطور ادیب خود کوسیاسی حوالہ سے کنارہ کشی رکھتے، اس لیے ان کی تخلیقات میں سیاست ناگزیر نکتہ ہائے انجام ہے۔
نجیب محفوظ کی کتابوں کی اشاعت کا سلسلہ 30کی دہائی میں شروع ہوا۔ تخلیقی بالیدگی حاصل کرنے کی غرض سے عالمی ادب کا بھی خوب خوب مطالعہ کیا، جس میں مشرقی و مغرب ادب کے تمام بڑے لکھنے والے شامل تھے، لیکن جن سے زیادہ متاثر ہوئے، ان میں مارسل پروست، فرانز کافکا اور جیمز جوائس کے ساتھ ساتھ روسی کلاسیکی ادیبوں نے ان کے تخلیقی کینوس کو بہت وسیع کیا۔ بے باک خیالات کی وجہ سے ان پر قاتلانہ حملہ بھی ہوا، جس میں وہ بچ گئے۔ انہوں نے مصری معاشرے کے بہت سارے حساس موضوعات پر بھی قلم اٹھایا اور خود متنازعہ ٹھہرے، بہرحال اب تک وہ عرب دنیا اور اسلامی پس منظر رکھنے والے واحد ادیب ہیں، جنہوں نے ادب کا نوبیل انعام حاصل کیا۔ 1932 سے شائع ہونے والی ان کی کتب کا سلسلہ آج تک جاری ہے، نجیب محفوظ کی کتابوں کے تراجم دنیا کی تمام بڑی زبانوں بشمول اردو ہوچکے ہیں۔
ان کے سب سے پہلے ناول ’’شروعات اور اختتام‘‘ پر اسی نام سے پہلی بار کوئی فلم بنی، جس کو مشہور مصری فلم ساز’’صالح ابوسیف‘‘نے بنایا۔ بین الاقوامی شہرت یافتہ مصری اداکار’’عمر شریف ‘‘ سمیت دیگر اہم مصری اداکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا۔اس کہانی میںتوجہ کاارتکاز ایک مصری گھرانہ ہے، جس میں والدین کا سایہ سرسے اٹھ جانے کے بعد اولاد کو در بدر ہوتا دکھایا گیا ہے، جس میں زندگی کے تلخ حقائق اور شیریں و ترش جذبات کی عکاسی بھی کی گئی ہے۔ ایک جذباتی انداز کی اس فلم کو مصری سینما میں ممتاز حیثیت حاصل ہے۔ یہ 1960 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی۔ عالمی ادب کی تاریخ میں نجیب محفوظ کا نام زندہ رہے گااورعشاقِ ادب ان کی کہانیاں یونہی پڑھتے رہیں گے۔