اک میرا چاند، اک میرا تارا ، امی کی لاڈلی ابا کا پیارا،
چاندنی راتیں، تاروں سے کریں باتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں
لعل مری پت رکھیو بھلا جھولے لعلن۔ سندھڑی دا
شکوہ نہ کر گلہ نہ کر، یہ دنیا ہےپیارے یہاں غم کے مارے،
جان من اتنا بتا دومحبت ہے کیا،
ہم ہیں دیوانے تیرے،عاشق پروانے تیرے،
زمانے میں رہ کر رہے ہم اکیلے
میرے دل کا بنگلہ خالی ہے،
پیاری بھابھی! بھابھی نہیں تُو میری ماں ہے
شِکوہ نہ کر گلہ نہ کر
ان مقبول نغموں کے خالق مشیر کاظمی کی آج 41 ویں برسی ہے۔
وہ 22اپریل1924ء کو بنوڑ ضلع انبالہ میں پیدا ہوئے اور 8 دسمبر 1975 کو لاہور میں وفات پائی۔
مشیر کاظمی نے فلموں میں نغمہ نگاری کا آغاز فلم ’’دوپٹہ‘‘ سے کیا جس کی موسیقی فیروز نظامی نے ترتیب دی تھی، یہ پاکستان کی پہلی اردو فلم تھی جس کے نغمےملکۂ ترنم نور جہاں نے گائے۔ نور جہاں نے پی ٹی وی کے پروگرام ’’سلور جوبلی‘‘ میں بتایا تھا کہ اس فلم کے مشہور گانے ’’چاندنی راتیں ‘‘ کی دھن خود مشیر کاظمی نے بنئی تھی۔
1965 کی جنگ کے دوران مشیر کاظمی کا قومی نغمہ’’اے راہِ حق کے شہیدو۔۔۔‘‘ بہت مقبول ہوا۔
برادرم ناصر زیدی کی یاد نگاری کا ایک عمدہ نمونہ پیش خدمت ہے ۔۔۔
اپنی یادِ نگاری کے حوالے سے مجھے اپنی طرز کے منفرد شاعر مشیر کاظمی یاد آ رہے ہیں۔ اُن سے میری پہلی ملاقات 60ء کی دہائی میں کسی وقت رائل پارک کے مشہور زمانہ ہوٹل ’’ کِنگ سرکل‘‘ میں ہوئی۔ یہاں اُس دور کے وہ مشہور و معروف و مقبول شعراء بیٹھا کرتے تھے جن کا تعلق کسی نہ کسی طور پر فلم انڈسٹری سے بھی تھا۔۔۔ مثلاً ظہیر کاشمیری، تنویر نقوی، سیف الدین سیف، قتیل شفائی، حبیب جالب، وارث لدھیانوی، مشیر کاظمی وغیرہ ۔۔۔ طفیل ہوشیار پوری کا تو خیر سے ماہنامہ ’’محفل‘‘ اور پندرہ روزہ ’’صاف گو‘‘ کا دفتر بھی نزدیک ہی تھا، وہ کبھی کبھار ہی ہم جیسوں کے اصرار پر ’’کِنگ سرکل‘‘ آتے۔ شہزاد احمد کا بھی دفتر ’’ ایگل سائیکل کمپنی‘‘ میں ’’کِنگ سرکل‘‘ کے سامنے ہی تھا اس لئے وہ بھی عملی طور پر فلم اَنڈسٹری سے وابستہ نہ ہونے کے باوجود ’’کِنگ سرکل‘‘میں بیٹھتے۔ اُنہی کے توسط سے میرا پہلا تعارف پشاور سے آئے ہوئے احمد فراز سے ’’کِنگ سرکل‘‘ میں ہی ہوا تھا اور بہت ہی سیاہ رنگ کے پستہ قد ہدایت کار حیدر چودھری سے بھی انہوں نے ہی ملوایا تھا۔ حیدر چودھری نے اپنے کالے سیاہ، بھجنگ چہرے کو خوبصورتی میں ڈھالنے کے لئے اپنی ایک ہٹ پنجابی فلم میں میڈم نور جہاں سے یہ گانا گوایا تھا:
’’ کالا، شاہ کالا، میرا کالا، اے دلدار گوریاں نو پراں کرو‘‘
آمدم برسرِ مطلب! ٹھیک سے یاد نہیں کہ مشیر کاظمی سے مجھے کس نے پہلے پہل مِلوایا؟ بہرحال کسی نے تو مِلوایا ہو گا۔ مشیر کاظمی سے پہلے مَیں عاشور کاظمی اور ناصر کاظمی سے ملا ہوا تھا۔ مجھے بہرحال یہ یاد ہے کہ پہلی ہی ملاقات میں مجھے مشیر کاظمی کے حُسنِ اخلاق نے بہت متاثر کیا تھا، وہ اُس زمانے کی رَوش کے مطابق بالوں کی تراش خراش، لمبے قد کاٹھہ، وجیہہ شکل و صورت اور ’’کُھرپا نما‘‘ قلموں کی وجہ سے فلمی ہیرو یا ولن لگے۔ یہ تو مجھے بعد میں معلوم ہوا کہ اُنہوں نے بعض فلموں میں بھی کام کیا تھا، مگر اُس وقت وہ ایک شاعر اور فلمی گیت نگار کے طور پر میرے سامنے تھے۔ مَیں نے اُن کی رومانی غزلیہ شاعری بھی سُنی۔ آخر آخر میں اُنہوں نے زیارتِ کربلا، شام و عراق و مشہد کے بعد خود کو صرف رثائی ادب کے لئے مخصوص کر لیا تھا۔ اُنہوں نے امام الشہداء اور کربلا کے حوالے سے یاد گار نظمیں تخلیق کیں، مثلاً ’’حسینؓ سب کا‘‘۔’’تصوراتِ کربلا‘‘ ’’حسینؓ خاموش کیوں کھڑا ہے‘‘ ’’ٹلّہِ زینیہؓ ‘‘ اُن کی شاہکار نظمیں ہیں۔ ’’حسینؓ سب کا‘‘ تو مَیں نے اپنی مرتب کردہ انتخابِ سلام کی کتاب ’’سلام و کلام‘‘ مطبوعہ کلاسیک لاہور کی زینت بھی بنایا ہوا ہے۔غزل کی رومانی شاعری اور فلمی گیت نگاری سے رُخ پھیر کر عزائی اور رثائی ادب سے لگاؤ کی توجیہہ خود مشیر کاظمی نے کر رکھی ہے:
مرے قلم کو نجف سے ملی ہے یہ پرواز
وگرنہ زُلفِ بُتاں میں اُلجھ گیا ہوتا
نگاہِ ساقئ کوثر کا فیض ہے ورنہ
کبھی کا پیرِ مغاں مجھ کولے اُڑا ہوتا
مشیر کاظمی کے نام سے شہرت و مقبولیت پانے والے شاعر کا اصل نام سید مشیر حسین کاظمی تھا۔ وہ سید شبیر حسین کاظمی کے ہاں1924ء کو قصبہ بنوڑ ریاست پٹیالہ (انڈیا) میں پیدا ہوئے۔ والد گرامی پولیس سروس میں تھے۔میٹرک کے بعد مشیر کاظمی نے بھی والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے یا محض والد کے ایما پر پولیس کی ملازمت اختیار کی، مگر جلد ہی کچھ گفتہ و ناگفتہ حالات و واقعات کے سبب اس ملازمت کو چھوڑنا پڑا ،پھر ادیب فاضل کا امتحان پاس کر کے شعر و ادب کی طرف دھیان دیا، مگر میدان ادب میں سفید پوشی کا بھرم رکھنا ہمیشہ کار دارد ہی رہا ہے، وہ پُکار اُٹھے:
مشکل میں آج کس کو پکارے سفید پوش
آئی ہے عید کیسے گزارے سفید پوش
امتدادِ زمانہ سے قیام پاکستان کے بعد ریاست پٹیالہ سے ہجرت کر کے علی پور ضلع مظفر گڑھ میں آن بسے، مگر یہاں وہ ادبی ماحول نہیں تھا، جس کی انہیں طلب تھی۔ چنانچہ اب علی پور سے ہجرت کے بعد اُن کا مستقبل مستقر لاہور ٹھہرا اور اِسی’’ شہرِ زندہ دِلاں‘‘ میں انہوں نے فلم انڈسٹری میں اپنے مُدھر گیتوں سے دھومیں مچائیں، مگر وہ فلمی دُنیا کو دِل سے پسند نہیں کرتے تھے اور کہتے تھے: ’’ اس چمک دمک کی دُنیا سے بچنا ہی چاہئے کیونکہ ہر چمک دار چیز سونا نہیں ہوتی‘‘۔۔۔ تاہم انہوں نے دوسری شادی ریڈیو، ٹی وی کی اپنے دَور کی ممتاز فنکار روبینہ شاہین سے کی۔ اُن کے تین ہونہار صاحبزادے سبطین کاظمی، ثقلین کاظمی اور ذوالقرنین کاظمی دیارِ غیر میں اپنے نامور والد کے نام اور کام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ سبطین کاظمی (ٹورنٹو، کینیڈا) نے مشیر کاظمی کارِثائی ادب پر مشتمل مجموعہ کلام’’ کھلی جو چشم بصیرت۔۔۔‘‘ کے عنوان سے چھپوایا اور جناب شہاب کاظمی ڈاکٹر سید ابو القاسم (انڈیا) سید جعفر رضا ترمذی اور سید تبشر رضا کاظمی سے مضامین لکھوا کر کتاب میں شامل کئے۔ شہاب کاظمی (نیو جرسی، امریکہ) نے ’’مشیر کاظمی زندہ ہے‘‘ کے عنوان سے اپنے تاثراتی اظہارِ خیال میں مشیر کاظمی کی تاریخ پیدائش22اپریل1924ء لکھی ہے، جبکہ آگے چل کر سید تبشر رضا کاظمی مرحوم نے22ستمبر1924ء درج کی ہے۔ سنہ1924ء پر تو دونوں کو اتفاق ہے، مگر22اپریل اور22ستمبر میں سے کس کو درست مانا جائے؟۔۔۔
کس کا یقین کیجئے کس کا یقیں نہ کیجئے
لائے ہیں بزمِ ناز سے یار خبر الگ الگ
غنیمت ہے کہ تاریخِ وفات اور مقام تدفین پر کسی کو کوئی ختلاف نہیں، 8دسمبر1975ء کو تقریباً50سال کی عمر میں مشیر کاظمی نے اس عالم فانی کو چھوڑا اور عالمِ جاودانی کی راہ لی۔ لاہور میں قبرستان مومن پورہ میں مدفون ہیں۔
1965ء اور1971ء کی جنگوں میں رزمیہ نظمیں، جنگی ترانے اور قومی نغمے بھی لکھے:
’’سرفروش کو سلام‘‘، ’’بازوئے خیبر شکن‘‘،’’ چھ ستمبر کے چاند نے دیکھا‘‘ اور مقبول ترین رزمیہ:
اے راہِ حق کے شہیدو وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
اس رزمیہ نظم کے دوسرے مصرعے میں مشیر کاظمی نے پہلے ’’وطن کی فضائیں‘‘ باندھا تھا، یعنی مصرع یوں تھا:
تمہیں وطن کی فضائیں سلام کہتی ہیں
اس پر نظرِ ثانی کا خیال اُنہیں بعض صاحبِ فن احباب کی توجہ کے بعد آیا اور بالآخر لفظ ’’فضائیں‘‘ بدل کر ہوائیں کر لیا۔۔۔ اس تبدیلی کی معنی آفرینی کو صاحبانِ ذوق اور پختہ گو شاعر ہی سمجھتے ہیں:
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں
اِسی طرح لال شہباز قلندر کے مزار پر حاضری کے بعد مشہور زمانہ دھمال بھی مشیر کاظمی ہی کے نتیجہ فکر کا کمال ہے۔
’’سخی شہباز قلندر، علی دا پہلا نمبر‘‘ جب کچھہ حلقوں نے علی دا پہلا نمبر پر اعتراض کیا تو مشیر کاظمی نے بدل کر ’’علی دَم دَم دے اندر‘‘ کر دیا اور اس تبدیلی کا مجھہ سے خاص طور پر ذکر کر کے داد چاہی۔۔۔! مشیر کاظمی مرکزیہ مجلسِ اقبال میں بھی اپنا کلام مخصوص لحن سے سُنا کر چھا جاتے تھے۔’’بارگاہِ شاعر مشرق میں‘‘ کے عنوان سے جب اُنہوں نے یہ نظم پڑھی:
شَہپر جبریل کی پرواز لایا ہے مشیر
تو نظم سُن کر لوگ دھاڑیں مار مار کر روتے رہے۔
مرکزیہ مجلس اقبال میں مفکرِ پاکستان حضرت علامہ اقبال ؒ پر دِلسوز نظم سُنا کر لوگوں کی آہیں، بلکہ چیخیں بُلند کراتے مَیں نے بچشم خود مشیر کاظمی کو دیکھا۔ اُن کے تحت اللفظ پڑھنے کے انداز میں عجب والہانہ پن اور عجب سوز و گداز تھا، وہ مشاعرے میں شریک ہوتے تو اپنی شخصیت کے سحر میں مجمع کو گرفتار کر لیتے۔ جلسۂ عام میں اسٹیج پر ہوتے تو لوگوں کو اپنی طرف کھینچے رکھتے۔ یہی خوبی تھی کہ اُس وقت کے صدرِ مملکت فیلڈ مارشل ایوب خان کے جلسوں میں وہ لازم و ملزوم سمجھے جاتے تھے۔ ایوب خان نے اُنہیں خُوب خُوب نوازا تھا۔۔۔ کچھہ بسوں کے رُوٹ پرمٹ دیئے اور وقتی طور پر نہایت خوشحالی اور آسودگی کا دور مشیر کاظمی کا یاور بنا ،مگر یار لوگ سب کچھہ کھا پی گئے، کسی شاعرِ وارفتہ و آشفتہ سر کے لئے بسوں کا رُوٹ پرمٹ ایسے ہی تھا جیسے ایشیا کے اُردو کے عظیم افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کو برف کا کارخانہ الاٹ کر دیا گیا تھا۔ اُس برف کے کارخانے کا جو حشر ہُوا کچھہ ایسا ہی حشر ان رُوٹ پرمٹوں کا ہُوا اور، پھر وہی زندگی ہماری ہے، یعنی چکی کی مشقت اور مشقِ سخن ہی مشیر کاظمی کی اصل قدر بنی رہی۔
دوسری جانب صدر ایوب خان کے جلسوں کی رونق بڑھانے والے تن تنہا مشیر کاظمی کے مقابلے میں حبیب جالب نے مادرِ ملت کے جلسوں میں وہ رنگ جمایا کہ مشیر کاظمی کو پشیمانی کے سِوا کچھہ نہ مِلا۔ یُوں بھی’’ چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘‘۔۔۔! وائے مولانا حالی کے مشورے کا ادراک مشیر کاظمی بروقت نہ کر سکے، دوسری طرف حبیب جالب اپنے بے پناہ دِل نشیں سحر انگیز ترنم اور انقلابی کلام سے لوگوں کے دِلوں کی دھڑکن بن گئے کہ حبیب جالب آخر حبیب جالب تھے۔۔۔! اور پھر آمریت کے خلاف فضا بھی ایسی ہی ہموار ہو چکی تھی جیسی عمران خان کے جلسوں میں وزن سے خارج بے تکے اشعار بھی ساز و آواز میں ڈھل کر لوگوں کو جھومنے پر مجبور کرتے رہے۔ مَیں نے ذکر کیا کہ مشیر کاظمی نے بعض فلموں میں بھی کام کیا، سو تحقیق مزید کے بعد معلوم ہُوا کہ ایک فلم ’’چنگیز خاں‘‘ بھی تھی جس میں اُنہوں نے اہم کردار ادا کیا۔ خود ہدایت کار کی حیثیت سے فلم ’’بمبے والا‘‘ بھی بنائی تھی، جو بُری طرح فلاپ ہوئی، البتہ فلمی گیت نگار کی حیثیت سے ان کی کامیاب فلموں کی تعداد خاصی زیادہ ہے۔ ان میں دوپٹہ، زمین، ماں کے آنسو، مہتاب، شکریہ کے علاوہ ایک پنجابی فلم ’’دِلاں دے سودے‘‘ بھی شامل ہے۔ ان کے بہت مشہور گیتوں کے چند بول یوں ہیں:
*۔۔۔ مَیں بن پتنگ اُڑ جاؤں
*۔۔۔ جگر کی آگ سے اس گھر کو جلتا دیکھتے جاؤ!
*۔۔۔ چاندنی راتیں، تاروں سے کریں باتیں، سب جگ سوئے ہم جاگیں
*۔۔۔ پیاری بھابھی! بھابھی نہیں تُو میری ماں ہے
*۔۔۔ شِکوہ نہ کر گلہ نہ کر
*۔۔۔ اور مشہور زمانہ دھمال:لعل مری پت رکھیو بھلا جھولے لعلن۔ سندھڑی دا۔۔۔
مَیں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ مشیر کاظمی نے علی پور (مظفر گڑھ) سے دوسری ہجرت لاہور کے لئے کی اور یہاں بہتر حال اور خوشگوار مستقبل کے لئے بڑے پاپڑ بیلے۔ ایک بار انہوں نے بیان کیا کہ ’’جیب میں پھوٹی کوڑی نہ تھی اور مَیں خستہ حال مکان کی چھت پر جھلنگے سے پلنگ پر بغیر کسی ایسے بستر کے لیٹا تھا، جس پر خواب استراحت کے مزے لینے کا گمان بھی نہ گزر سکے۔ چاندنی رات تھی، چاند پورا نکلا ہُوا تھا، تارے جگمگا رہے تھے اور مَیں نانِ جویں کو ترسا ہُوا خالی شکم مگر پُر دماغ کے ساتھ ایک فلم کے لئے گیت لکھنے کی ذہنی مزدوری میں مُبتلا تھا ،کیونکہ بھوکے پیٹ نیند آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ اِسی کیفیت میں وہ معرکہ آرا فلمی گیت تخلیق ہُوا:
چاندنی راتیں تاروں سے کریں باتیں
سب جگ سوئے ہم جاگیں۔۔۔!
نزولِ شعر کے لئے شاعر پر کیسے کیسے لمحے گزرتے ہیں۔ اس ایک مثال سے کچھہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے تبھی تو مشہور قانون دان اے کے بروہی کہتے ہیں کہ ’’میرا بس چلے تو اپنے شاعروں ادیبوں کو بھوک پیاس کے صحرا میں تنہا چھوڑ دوں تاکہ وہ اچھا ادب تخلیق کر سکیں‘‘ ۔۔۔ ! اور واقعی یہ حقیقت ہے کہ زیادہ تر بہترین اور شاہکار ادب دُنیا بھر کے بھوکے ننگے افلاس کے مارے قلم کاروں نے تخلیق کیا۔ پیٹ بھرے، آسودگی و ناآسودگی کے انقلابی ادب میں وہی فرق ہے جو فیض احمد فیض اور حبیب جالب کے ادب میں ہے۔ آخری دَور میں مشیر کاظمی کے ساتھ سید جعفر رضا ترمذی ضرور چپکے نظر آتے تھے۔ جب بھی مَیں نے ریڈیو ٹی وی کے مسالمے میں مشیر کاظمی کو بلانا چاہا ، ساتھ جعفر رضا ترمذی بھی ضرور آئے۔ بہرحال یہ وہ دَور تھا جب ہماری چلتی تھی۔ مشیر کاظمی کی تاریخ پیدائش و وفات کے سلسلے میں مَیں لکھہ چکا ہوں کہ اُن کی وفات کے دن اور تاریخ8 دسمبر1975ء پر اتفاق پایا جاتا ہے، مگر این گلِ دیگر شگفت کہ اکادمی ادبیات کی مطبوعہ کتاب’’ وفیات اہلِ قلم، مرتبہ و مؤلفہ ڈاکٹر منیر احمد سلیچ میں وفات کا سنہ تو ٹھیک ہی ہے، مگر ولادت1915ء بنوڑ، ضلع انبالہ لکھی گئی ہے۔ اور ’’مشاہیر کے مدفون‘‘ (مدفن ہونا چاہیے) مرتبہ: ایم آر شاہد میں تاریخ پیدائش و وفات دونوں ہی غلط ہیں۔ پیدائش1920ء مشرقی پنجاب کی ریاست پٹیالہ میں ظاہر کی گئی ہے اور وفات1973ء لکھی گئی، البتہ یہ معلومات صحیح ہیں کہ مومن پورہ قبرستان میں گیٹ کے پاس ہی دائیں ہاتھہ دیوار کے ساتھہ مرقد پختہ ہے اور سرہانے کتبہ ہے۔۔۔!
مرقد مشیر کاظمی پر نصب لوحِ مزار پر ’’شاعر پاکستان‘‘ کا خطاب، اصل نام کے ساتھہ درج ہے، پیدائش سوموار 22اپریل1924ء اور وفات 8دسمبر 1975ء ہی ہے۔۔۔!
سچی بات ہے بقولِ علامہ اقبالؒ :
مرنے والے مرتے ہیں لیکن فنا ہوتے نہیں
یہ حقیقت میں کبھی ہم سے جُدا ہوتے نہیں
https://www.facebook.com/permalink.php?story_fbid=422605994795937&id=100011396218109
“