مقبرہ تیار ہے / کچھ کو ہلاک کیا جائے گا / جو زندہ ہیں ،انھیں ممی میں رکھ دیا جائے گا /
اگر اسے زندہ ہونا کہتے ہیں تو یہ صرف ہماری خوش فہمی ہے …
کیا ہم ایک ایسی گھٹن اور غلامی کا شکار نہیں ،جہاں سارے راستے بند ہیں اور اس کے باوجود ہم میں سے بیشتر لوگ سکون اور سہولت پسند زندگی گزارنے پر مجبور ہیں .یا یہ طریقہ ایسے لوگوں نے صرف اس لئے اختیار کیا ہے کہ ان پر کسی طرح کی آنچ نہ اے اور وہ حالات کے جبر سے محفوظ رہ سکیں .جبکہ ایسے لوگ اس بات سے واقف نہیں کہ حالات کا شکنجہ آھستہ آہستہ ان پر بھی کستا جا رہا ہے ..
تحفظ دینے والی ایک ایسی پناہ گاہ ،جسے حکومت کہتے ہیں ،جب اسکا ہر قدم آپکے خلاف ہو تو یہ سوچنا لازمی ہو جاتا ہے کہ ہمارا مستقبل کیا ہوگا ؟ اور آج کے خوفناک حالات کا جبر ہمیں کب تک سہنا ہوگا ..؟.ایک ایسی حکومت جس نے ہر اس شخص یا حکمران سے دوستی کی جو مسلم مخالف ہے.. .اسرائیل ،امریکہ کے بعد یہ سلسلہ روہنگیا سے آگے بھی قایم ہے اور یہ سلسلہ آگے بھی اسی طرح چلتا رہے گا ..جب روہینگیائی مسلمانوں کو نوبل انعام یافتہ حکمران کے اشاروں پر ملک بدر اور ہلاک کیا جا رہا تھا ،ہمارے محافظ نے اس حکمران سے ملنے کے لئے یہی وقت مقرر کیا ..جب معصوم بچے ،جوان نا بالغ لڑکیوں کی عصمت لوٹی جا رہی تھی ،جب توپ کے گولوں سے انھیں اڑایا جا رہا تھا ،..ایک خفیہ میٹنگ میں در بدری کے فرمان کی حمایت کی جا رہی تھی ..جب اسرائیلی فتنہ فلسطین پر موت کی بارش کر رہا تھا ،جب امریکی حکمران ٹرمپ مسلم ممالک پر پابندیاں عاید کر رہا تھا ،ہمارے محافظ حکمران ان حکمرانوں سے ملاقات اور تبادلۂ خیال کر رہے تھے …کیا اب بھی یہ خیال یا یہ سوچنا دشوار ہے کہ ہمارے محافظ ، ہمارے حکمران ہم سے انتقام کی سیاست کر رہے ہیں .
سچ بولنے والی گوری لنکیش کی زبان خاموش کر دی گی .آگے بھی ایسے لوگوں کے نام موت کے فرمان جاری ہونگے .یہ فرمان پہلے بھی جاری ہوئے .نہ کرناٹک کی حکومت کچھ کر سکی نہ بھاجپا کی حکومت سے کویی امید رکھی جا سکتی ہے .اس معاملے میں کانگریس اور بھاجپا دونوں کا کردار مشکوک رہا ہے اور آگے بھی رہے گا .لیکن ان لوگوں میں جرات تھی .بولنے کا حوصلہ تھا .موت کو گلے لگانے کی آزادی تھی . یہ آزادی اس لئے حاصل تھی کہ ان لوگوں نے ذہنی غلامی پر حق بات کو فوقیت دی تھی .غور کریں تو یہ وہ لوگ تھے جو ہمارے لئے بھی لڑتے رہے .ہمارے خلاف اٹھنے والی آوازوں کا جواب دیتے رہے ..لیکن ہم کیا کر رہے ہیں ؟ہم میں جرات اور حوصلے کی کمی کیوں ہے ؟ اپنی قوم کا تجزیہ کرتا ہوں تو ایک سویی ہوئی بد قسمت قوم کا تصور سامنے آتا ہے …کہانیاں ، غزلوں ،افسانوں سے ملک کے حالات نہیں بدلینگے .ہم میں نہ کویی برکھا دت ہے نہ راج دیپ سر دسایی ، نہ کویی گوری لنکیش ہے نہ کویی شوبھا ڈے ..کویی ہو بھی نہیں سکتا .ہماری آواز سو دو سو کی تعداد میں شایع ہونے والے اخبارات اور بلوگس میں سمٹ آتی ہے .ہمارے احتجاج کی آخری حد فیس بک ہے .جہاں لایکس اور کچھ توصیفی کلمات پڑھ کر ہم اپنی ذمہ داریوں سے بری ہو جاتے ہیں .قدیم مصر کی کہانیوں میں مردہ جسم محفوظ کو ممی میں محفوظ کرنے کی کہانیاں آپ نے بھی پڑھی ہونگی .اہرام کی تعمیر کے عظیم دور میں یہ رسم تھی کہ ہرم کے وسط میں فرعون کی لاش ایسے کمرے میں رکھتے جسے ایک چٹان تراش کر بنایا جاتا۔ لاش دفنا تے وقت مختلف رسومات ادا کی جاتیں۔
خیال آتا ہے کہ وقت اور حالات نے ہمیں انہی چٹانوں کے حوالے کر دیا ہے .ہم زندہ ممی ہیں .محافظ حکمرانوں نے مسلسل اذیت کے بعد ہمارے مردہ ہونے کا اعلان کر دیا ہے .آخری رسومار ادا کی جا چکیں .
جو نہیں سوچتے / جو نہیں بولتے ..وہ مر جاتے ہیں .
رویش کمار نے چیلنج کیا کہ حکومت کچھ بھی کر لے ،ہم سچ بولنے سے نہیں گھبراہیں گے.. گریش کرنآرڈ ،ساوتھ کے کچھ فلمی چہرے بھی احتجاج میں سامنے اے ہیں . .تعزیتی جلسے ہو رہے ہیں .احتجاج ہو رہے ہیں .مگر ہم کہاں ہیں ؟ کتنی تعداد میں ہیں ؟کیا ہمارے ادیب اور دانشوروں کا کام محض فضول کا ادب لکھنا رہ گیا ہے ؟میں اس جنگ میں دور تک خاموشی دیکھتا ہوں .لکھنے کی حد تک بھی ، ہماری جنگ میں شمولیت ایک فی صد بھی نہیں ہے .تیسس کروڑ کی آبادی نے اگے خود کے لئے سہولت پسند زندگی کا انتخاب کیا ہے تو یہ جاننا ضروری ہے ، کہ ہمارے محافظ حکمرانوں کی اذیت پسند تحریک میں وہ لوگ بھی نشانے پر ہیں .مقبرہ تیار ہے . کچھ کو ہلاک کیا جائے گا — جو زندہ ہیں ،انھیں ممی میں رکھ دیا جائے گا –
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“