یہ مقبرہ حضرت میاں میر کے مزار سے چند قدم پر واقع ہے.
سید محمد لطیف کے مطابق یہ مقبرہ دارا شکوہ کی منہ بولی بہن کا ہے اور صاحب مقبرہ کا نام نادرہ بیگم ہے. جبکہ نور احمد چشتی کے بقول یہاں “نادرہ بیگم بنت شاہ جہاں بادشاہ” مدفون ہے. یعنی نادرہ بیگم دارا شکوہ کی منہ بولی نہیں حقیقی بہن ہے. لیکن ان دونوں کے ہی بیانات درست نہیں. کریم النساء المعروف نادرہ بیگم کے تفصیلی حالات عہد شاہ جہان کی ہر کتاب میں مل جاتے ہیں. نادرہ بیگم کے والد سلطان پرویز جہانگیر کے بیٹے تھے. جبکہ آپ کی والدہ جہاں بانو اکبر کے بیٹے شاہ مراد کی بیٹی تھیں. یعنی دونوں جانب سے نادرہ بیگم کا تعلق شاہی خاندان سے ہے. وقائع نگار شاہ جہان صالح کمبوہ نے بھی جا بجا نادرہ بیگم کا تذکرہ کیا ہے. داراشکوہ سے منگنی کے ذیل میں وہ لکھتا ہے ” ملکہ نے حضرت کی خدمت میں عرض کی کہ شاہزادہ دارا شکوہ کا عقد سلطان پرویز کی دختر نیک اختر سے کردیا جائے.
شاہزادی حسن و جمال اور نیک سیرتی کے علاوہ عالی نسب کے زیور سے بھی آراستہ ہے. اس لحاظ سے یہ پیوند نہایت موزوں ہوگا.” عمل صالح میں نادرہ بیگم و دارشکوہ کے نکاح کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ سارا منظر آنکھوں کے سامنے پھر جاتا ہے. صالح کمبوہ کے مطابق اس شاہی شادی میں قریباً ٣۲ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے. دارشکوہ کو نادرہ سے بے حد محبت تھی اسی باعث دارا شکوہ نے دوسری شادی نہیں کی. اس کی تمام اولاد نادرہ بیگم سے ہی ہے. کالکا رنجن نے “سوانح دارا شکوہ” میں ان کے آٹھ بچوں کا ذکر کیا ہے. نادر بیگم کو شاہی خرم میں شاہی فرمان اور نشانات امتیاز جاری کرنے کی بھی اجازت تھی. اورینٹل کالج میگزین مئی ١۹٣٧ء میں مرقع داراشکوہ کے حوالے سے ایک مقالہ شائع ہوا تھا. یہ مرقع انڈیا کانگریس لائبریری میں محفوظ ہے. دارا شکوہ کے ہاتھ کی عبارت اس مرقع پر درج ہے جس کے مطابق دارا نے اس کو اپنی محبوب زوجہ نادرہ بیگم کو ہدیہ کیا تھا.
یہ تو واضح ہو گیا کہ نادرہ بیگم دارا کی بیوی ہی تھی. اکثر لکھاریوں نے نادرہ کے والدین کے بیان کو بھی بہت الجھا دیا ہے. نادرہ کے والد سلطان پرویز, جہانگیر و صاحب جمال کی اولاد تھے. جبکہ نادرہ کی والدہ اکبر کی پوتی تھیں. لیکن ایاز محمود صاحب نے نادرہ کی والدہ جہان بانو کا نکاح دارا شکوہ سے کروا دیا ہے. اسی طرح محمد دین کلیم نے “سوانح میاں میر” میں نادرہ کی دادی صاحب جمال کو ان کی والدہ تحریر کیا ہے. مفتی علی الدین نے “عبرت نامہ” میں نادرہ کے سسر شاہ جہان کو اس کا خاوند بیان فرمایا ہے. اور عجب ہے کہ خطیب میاں میر دربار مفتی اقبال کھرل صاحب نے مقبرہ پر جانے کی بھی زحمت نہیں کی اور “سیرت حضرت میاں میر” میں نادرہ کو ہمشیرہ دارا لکھ دیا. نادرہ کی قبر پر نئے لگائے گے کتبہ پر درست معلومات ہی درج ہے یعنی زوجہ دارا شکوہ کندہ ہے.
نادرہ بیگم ہر حال میں داراشکوہ کے ہمراہ رہی حتٰی کہ تخت کی خون ریز جنگ میں بھی اُس نے دارا کا ساتھ نہ چھوڑا. نادرہ کی وفات کا دارا پر کیا اثر ہوا اس کا اندازہ صالح کمبوہ کے درج ذیل اقتباس سے لگایا جاسکتا ہے “پریشانی اور تلاطم کے اس طوفان میں ایک اور سانحہ رونما ہوا جس سے داراشکو کا غم زدہ دل بالکل ٹوٹ گیا. یعنی نادرہ بیگم جو سفر, حضر, رنج و راحت, تباہی و آفت میں شہزادے کی شریک زندگی اور دکھ درد میں محرم ہمراز اور ہمدم دمساز تھی, آفتیں جھیلتے جھیلتے بالآخر سخت بیمار ہوئی اور جہان فانی سے گزر گئی. داراشکو کو اس فرشتہ صفات, حور پیکر خدمت گزار بیگم سے بے انتہا محبت تھی. اس سانحے نے (اسے) بالکل پست کردیا. غم و الم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا. معشوقہ دلنواز کی موت نے ایسا بے قرار کیا کہ تاب و تواں باقی نہ رہی. دن رات کے مصائب اور آٹھوں پہر کی تکلیفیں تو کسی طرح برداشت کرتا رہا تھا. لیکن اس حادثے سے بالکل دل شکستہ ہوگیا ہاتھ پاؤں کی طاقت جواب دے گئی. دل میں درد اٹھا اور یہ محسوس ہوا کہ بس اب میں بھی دو چار دن کا مہمان ہوں. موت کا فرشتہ آواز دے رہا ہے. مدہوشی سی طاری رہنے لگی, حواس سلب ہوگئے, بے خودی چھا گئی.” نادرہ بیگم کا انتقال بلوچستان میں ہوا اور اس کو بعد از وفات لاہور دفن کیا گیا. بعض کے بقول نادرہ نے اس کی وصیت کی تھی. صمصام الدولہ نے رحمت خان کے کوائف میں تحریر کیا ہے کہ “دارا شکوہ کی زوجہ کا انتقال ہوگیا (تو) اس کا تابوت لاہور پہنچانے کے لیے اپنے ساتھیوں میں سے چند آدمیوں کو جدا کر لیا اور خود ایران جانے کا قصد کیا.” خافی خان نے اس واقعہ کو ذرا تفصیل سے یوں درج کیا ہے “داراشکو کو ایک اور صدمہ برداشت کرنا پڑا. داراشکو کی بیوی نادرہ بیگم اسہال کے عارضہ میں فوت ہوگئی. دونوں میاں بیوی آپس میں بہت محبت کرتے تھے. داراشکو کی پریشانیوں کے غم میں نادرہ بیگم گُھل گُھل کر کانٹا ہو گئی تھی. وہ مری تو دارا شکوہ پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے. مسلسل رنج و غم سے عقل بھی ٹھیک سے کام نہیں کر رہی تھی. اس نے طے کیا کہ بیوی کو اپنے پیر شاہ میر کے مقبرے میں دفن کرائے. چنانچہ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے وفادار رفیق گل محمد کو جو اس بے کسی میں واحد سہارا بنا ہوا تھا اور اس سے علیحدہ نہیں ہونا چاہتا تھا. اور خواجہ معقول کو کہ اس کا دم بھی ان معدودے چند آدمیوں میں غنیمت تھا. بیوی کے تابوت کے ساتھ لاہور روانہ کردیا. اور خود چند خدمت گزاروں اور ناکارہ خواجہ سراؤں کے ساتھ ملک جیون کے پاس ٹھہرا رہا.”
محمد دین فوق نقوش لاہور نمبر میں اس مقبرے کی تعمیر کے حوالے سے لکھتے ہیں “داراشکوہ نے اپنے عروج کے زمانے میں احاطہ حضرت میاں میر میں اکثر عمارات شروع کرا رکھی تھیں, جو اس کے زوال اور اس کی موت کی وجہ سے بند ہو گئیں. انہی ایام میں نادرہ بیگم کی نعش بھی لاہور آکر دفن ہوچکی تھی. چونکہ اکثر کتب سے یہ بھی ثابت ہے کہ بعد میں عالمگیر نے اس احاطہ کی نامکمل عمارات کو تکمیل تک پہنچایا. اس لیے قیاس صحیح معلوم ہوتا ہے کہ نادرا بیگم کی بارہ دری اور اس کا ملحقہ تلاب اور پُل بھی عالمگیر کے حکم سے تیار ہوا.” اس مقبرہ کو سکھ عہد میں خاصا نقصان پہنچا. رنجیت سنگھ کے دور میں اس پر سے قیمتی پتھر کو نوچ ڈالا گیا. پھر انگریز دور میں میاں میر چھاونی کے لیے انیٹوں کی ضرورت بھی اسی مقبرے سے پوری کی گئی. بقول صاحب تحقیقات چشتی, سلطان محمد ٹھیکیدار نے سجادہ نشین میاں میر دربار محبوب شاہ ۲٥۰ روپے کے عوض اس مقبرے کی بربادی کا سودا کیا. چشتی نے مقبرے کے گرد دیگر کئی عمارات کا بھی ذکر کیا ہے. جو کہ سلطان ٹھیکیدار و سجادہ نشین صاحب کے حرص و طمع کی نذر ہو گئیں. تقسیم کے بعد یہاں کرکٹ اکیڈمی بن گئی. جس نے اس مقبرے کو حسب توفیق تباہ کیا. کچھ عرصہ قبل جب یہاں گیا تو ہر جانب کرکٹ ہی کھیلی جارہی تھی. مقبرے کے اندر جائیں تو وہاں نشئی حضرات بکثرت ملتے ہیں جو کہ اس مقبرے کو اپنے آباو اجداد کی جاگیر جانتے ہیں. یہ مقبرہ عاشقی کے نام پر دھبہ سنگ دل, بد تہذیب و گنواروں کی بھی آماجگاہ ہے. جگہ جگہ ان پُر ہوس لوگوں کی غیر شائستہ حرکات کی تفصیلات دیواروں پر کندہ نظر آتی ہیں. اپنے بد اعمال اس قدر مفصل بیان کیے ہوئے ہیں جیسے ملک و قوم کی بہت بڑی خدمت کی ہو. ایسے بیہودہ و نامعقول جہلاء کو سخت سزا ملنی چاہیے. اس مقبرے کی حفاظت کی جانی چاہیے. دوسری منزل پر جائیں تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ مقبرے کو ڈھایا جا رہا ہے. برطانوی دور میں پہنچنے والے نقصان کے باعث عمارت کے کافی حصوں کی تعمیر نو ہوئی ہے, اس باعث اصل مغل نقاشی کے نمونے کم ہی دیکھنے کو ملتے ہیں. البتہ غالب کاری و پچی کاری کا نفیس کام کے کہیں کہیں موجود ہے. یہاں پر ٹائلوں سے آرائش بھی کی گی تھی, بچ جانے والی چند ٹائلیں اب لاہور عجائب گھر میں محفوظ ہیں. اس مقبرہ کا طرز تعمیر لاہور کے دیگر مقابر سے خاصا مختلف ہے.
ایک تو یہ بارہ دری کی صورت میں اونچے چبوترے پر بنایا گیا ہے. پھر اس پر کوئی گنبد نہیں. مقبرے کے چاروں طرف پانی ہوتا تھا اور قبر تک جانے کے لیے پُل بنایا گیا ہے جو کہ ٣۰ سے زائد محرابوں پر ایستادہ ہے. شیخوپورہ کے ہرن مینار اور اس عمارت میں کافی یکسانیت ہے. اصل قبر یقیناً تہہ خانے میں ہے لیکن اس تک جانے کا رستہ دکھائی نہیں دیتا. اپنے منفرد طرز تعمیر کے باعث بھی یہ مقبرہ اہمیت کا حامل ہے. محکمہ آثار قدیمہ کو اس پر توجہ دینی چاہیے. یہاں پر معلوماتی تختی بھی لگانے کی ضرورت ہے. نیز سب سے اہم امر یہ ہے کہ لوگوں میں تاریخی عمارات کی حفاظت کے حوالے سے شعور اجاگر کیا جائے. اور خلاف ورزی کے حوالے سے جو قوانین موجود ہیں ان پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے. تاریخ سے شغف رکھنے والوں کو اس مقبرے کی زیارت کو ضرور جانا چاہیے. یہاں بحالی کا کام شروع تو ہوگیا ہے ,حکومت سے التجاء ہے کہ بحالی کا کام مروجہ اصولوں کے مطابق کرائیں. نیز لاہور کی دیگر عمارات پر بھی توجہ دیں کیونکہ اگر یہی روش قائم رہی تو لاہور میں مغل عہد کی عمارات فقط کتابوں میں ہی محفوظ رہ جائیں گیں.
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...