مقبرہ خواجہ کرم علی رحمتہ اللہ علیہ
ڈیرہ غازی خان:
بروز اتوار 8 اپریل 2018 کو ٹیم وسیب ایکسپلورر کے دورہ گلکی کوہ سلیمان تونسہ شریف سے واپس ڈیرہ غازی خان آتے ہوۓ شاہ صدر دین سے چند کلومیٹر آگے شاہراہ انڈس کے مشرقی جانب سڑک سے کوئ 200 میٹر کے فاصلہ پر ایک مقبرہ پر ہماری نظر پڑی، دورہ گلکی کی تھکاوٹ اور تنگی وقت کی بنا پر ہم رک نہ سکے، سڑک سے ہی مقبرہ کی ایک تصویر کھینچی اور آئندہ کسی روز سازگار موسم میں اس مقبرہ کی زیارت کا ارادہ کیا. اتفاق سے کچھ دن بعد محکمہ آثار قدیمہ ملتان ریجن کے ڈائیریکٹر جناب ملک غلام محمد صاحب نے ڈیرہ غازی خان میں واقع تین تاریخی مقامت کی تصاویر بھیجیں جن میں ایک یہ مقبرہ بھی شامل تھا، یہ تصاویر 1996ء میں پاکستان آرکیالوجی جرنل کے انتیسویں شمارہ میں شائع ہویں اور اس شمارہ میں اس مقبرہ کی تصویر کا عنوان مقبرہ خواجہ کرم علی ہے. بروز منگل 15 مئ 2018 کی شام موسم خوشگوار تھا لہذا ٹیم وسیب ایکسپلورر نے ڈیرہ غازی خان تا شاہ صدر دین بائیک رائیڈ پلان کی جس میں قاضی محمد شاہد، اسامہ جسکانی، حسنین اور راقم الحروف شامل تھے، موسم سے بھی محظوظ ہوۓ اور تاریخی مقبرہ کرم علی شاہ کا دورہ بھی کیا.
مقبرہ حضرت خواجہ کرم علی رحمتہ علیہ ڈیرہ غازی خان سے شمال کی جانب 23 کلومیٹر کے فاصلہ پر پیر عادل اور شاہ صدر دین کے درمیان شاہراہ انڈس کے مشرقی کنارے ایک قبرستان میں مٹی کے تقریبا 15 فٹ اونچے ٹیلے پر تقریبا 5 فٹ اونچی چار دیواری کے اندر واقع ہے. اس چار دیواری کے شمال اور مشرق میں دروازے ہیں. چار دیواری میں داخل ہو کر مغربی کنارے میں باریک اینٹوں سے مربع نما کمرہ ہے جسکی چھت اینٹوں سے تعمیر کی گئ گنبد پر مشتمل ہے۔ مقبرہ میں داخل ہونے کے لیۓ مشرق و جنوب میں دو دروازے ہیں. قبر پختہ ہے اور چاروں طرف لوہے کے پائپ سے حفاظتی جنگلہ نصب ہے. اندرونی دیواروں میں چاروں طرف اینٹوں سے محراب کا ڈیزائن بنایا گیا ہے.
ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق یہ 17ویں صدی عیسوی کا طرز تعمیر معلوم ہوتا ہے، مقبرہ کی ساخت کافی پختہ ہے جبھی سینکڑوں برس گزر جانے کے باوجود کافی بہتر حالت میں برقرار ہے. مزار یا باہر کوئ تختی نہیں ملی جس سے صاحب مزار کے بارے کوئ تفصیل معلوم ہوتی، ایک مقامی شخص جو خود کو مزار کا متولی بتا رہا تھا، اسکو بھی مقبرہ و صاحب مزار کی تاریخ بارے کوئ علم نہ تھا. چیت کے مہینہ میں چار جمعرات یہاں عرس منایا جاتا ہے.
وسیب ایکسپلورر کے قارئین سے گزارش ہے کہ اگر کسی شخص کو اس مقبرہ یا صاحب مزار کے بارے مستند تاریخ کا علم ہو تو ہمیں ضرور آگاہ کریں تاکہ ہم اس پوسٹ میں وہ حقائق شامل کر سکیں.
تحریر و تصاویر:
ڈاکٹر سید مزمل حسین
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔