متی تل اور سرائے سدھوکے راستے دہلی تک جانے والی قدیم جرنیلی سڑک پر ملتان سے قریباً 35 کلومیٹردور، سڑک سے قریب ڈیڑھ کلومیٹر مغرب کی جانب مسلم فن تعمیر کا انوکھا شاہکار ایسا ہی مقبرہ اپنی وجاہت کی جھلک اور ارباب اختیار کی عدم دلچسپی کا پتا دے رہا ہے۔کبیروالا سے 20 کلومیٹر دورشمال کی جانب واقع ساڑھے آٹھ سو سال پرانا یہ مقبرہ حضرت خالد ولید المعروف خالق ولی کے نام سے مشہور ہے ۔ بین الاقوامی ماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اس کا ڈیزائن حضرت شاہ رکن عالم ملتانی کے مقبرے سے مماثلت رکھتا ہے ۔جنوبی ایشیاء میں دریافت ہونے والی قدیمی مساجد و مزارات میں سب سے قدیم مانے جانے والے اس مقبرے کے گنبد کی اونچائی 75 فٹ ہے اور یہ گنبد دور سے ہی دیکھنے والوں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتا ہے۔ سطح زمین سے مقبرے کی اونچائی 27فٹ ہے جبکہ مزارکی کل بلندی 75 سے 80 فٹ ہے۔یہ عظیم الشان عمارت دو مربہ کنال پر محیط ہے ۔اس کی فصیل نما دیوارکے چاروں کونوں پر گول برج بنے ہوئے ہیں جبکہ مغرب کے علاوہ باقی تینوں اطراف درمیان میں بھی برج تعمیر ہیں۔
مغربی سمت میں دس فٹ چوڑی فصیل کے درمیان میں ایک محراب واقع ہے جسکی گولائی میں خط کوفی سے آیت الکرسی ، اسم محمد اور خلفائے راشدین کے نام گلابی اینٹوں پر کندہ کئے ہوئے ہیں۔ مقبرے کے مشرقی و شمالی اطراف میں بڑی بڑی محراب نما بغیر دروازوں والی کھڑکیاں تعمیر ہیں جبکہ مزارکا فرش اور قبر کچی ہیں۔مقبرہ خالد ولید کے بارے میں مختلف محققین کی مختلف آراء ہیں ۔سید اولاد علی گیلانی نے اپنی کتاب’’مرقع ملتان‘‘ میں اس مزار کی تعمیر چودھویں صدی عیسوی میں شروع ہونے کا ذکر کیاہے جبکہ بشیر حسین ناظم نے اپنی کتاب ’’اولیائے ملتان‘‘میں اسکی تعمیر کا ذکر مغل بادشاہ شاہجہاں کے دور میں کیا۔شیخ اکرام الحق نے اپنی کتاب’’ارض ملتان‘‘ میں اس تعمیر کا حوالہ مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیرکے دور سے دیا۔دیگرماہرین آثار قدیمہ کے مطابق اسکی تعمیر محمود غزنوی کے دور میں ہوئی،لیکن زیادہ تر ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ اسکی تعمیرغوری عہد میں ملتان کے ایک گورنر علی بن کرماغ نے1175ء سے 1185ء کروائی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ قبر مشرقی دروازے کے بالکل قریب ہے جبکہ قبر کی لمبائی19 فٹ سے زائد اور چوڑائی 4 فٹ ہے اور قبر سے مغربی دیوار کا فاصلہ بہت زیادہ ہے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ جس گورنر نے یہ مقبرہ تعمیر کروایا تھا ۔شاید اس نے اپنی قبر کیلئے جگہ رکھوائی ہو،لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔زمین سے مزارتک پہنچنے کا ایک ہی زینوں والا راستہ ہے جسکی 30 سیڑھیاں ہیں
۔1980 ء میں اسلامی طرز تعمیر پر تحقیق کرنے کیلئے ایک امریکی طالبہ ہنس ہوی رچرڈ اس مقبرے پر آئی تو وہ اس نے مقبرے کی بہتری کیلئے امریکا، برطانیہ اور پاکستان کے کئی انگریزی اخبارات میںمضامین شائع کروائے، جس کے نتیجے میں محکمہ آثار قدیمہ نے یہاں اپنا بورڈ آویزاں کیا اورکئی ٹھیکیداروں نے مقبرے کی تزئین و آرائش کیلئے کام شروع کروایا ،مگر کچھ دن کے بعد کام روک دیا گیا۔ مزار کے شمال و مشرقی اطراف میں کچے پکے مکانات ہیں ،جہا ں پر کئی صدیوں سے لوگ آباد ہیں اور مقبرے کی جنوب مغربی سمت میں چند ایکڑ کے فاصلے قبرستان کے قریب ایک تاریخی سراں مسجد واقع ہے، جسے لوگ بابری مسجد کے نام سے بھی پکارتے ہیں۔1958 ء میں ڈاکٹرمہر عبدالحق نے ایک مضمون میں خیال ظاہر کیا کہ کسی بادشاہ یا مہاراجہ نے اپنا خزانہ یہاں دفنا کر یہ عالی شان عمارت بنا کر مزار کا نام دے دیا ہو ،تاہم محققین نے اس خیال کو غلط قرار دیا۔ مقبرہ خالد ولید کے بارے میں تاریخ میں خاص مواد نہیں ملتا ۔یہاں آنے کیلئے باقاعدہ سڑک نہیں بلکہ لوگوں کو زرعی رقبے میں سے پیدل چل کر آنا پڑتا ہے۔ 1988 ء تک یہاں تین روزہ میلہ لگتا تھا، مگر 25 سال سے یہ مقبرہ زبوں حالی کا شکار ہے۔اگر حکومت دلچسپی لے تو یہاں تفریحی پارک اور پختہ سڑک بنا کر سیاحوں کیلئے آسانی پیدا کرسکتی ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیجسے لی گئی ہے۔
“