یہ مقبرہ شاہدرہ میں مقبرہ جہانگیر کے قریب واقع ہے۔
اعتقاد خان المعروف ابو الحسن آصف جاہ اعتماد الدولہ مرزا غیاث کا بیٹا، نور جہاں کا بھائی اور شاہجہاں کی محبوب زوجہ ممتاز محل کا والد تھا۔ شہنشاہ شاہجہاں کے عہد میں اس شخص سے زیادہ شاید ہی کسی نے عروج دیکھا ہو۔ ١٦١٤ء میں اس کو جہانگیر کی جانب سے آصف خان کا خطاب عطا ہوا، نیز اس کے منصب میں بھی اضافہ کیا گیا۔ جہانگیر کی وفات پر اس نے نور جہاں کے خلاف جاتے ہوئے اپنے داماد شہزادہ خرم یعنی شاہ جہان کو تحت نشین کروایا۔ یوں آصف خان بادشاہ گر بن گیا اور اسی باعث شاہجہان نے ہمیشہ اس کا پاس کیا۔ تواریخ شاہجہانی گواہ ہیں کہ بادشاہ ہمیشہ اس کی شان میں رطب اللسان رہا۔ صاحب عمل صالح لکھتا ہے کہ پہلا فرمان جو تحت نشینی کے بعد صادرہوا وہ آصف خان کے نام تھا۔ نیز کمال مہربانی ظاہر کرنے کے لئے بادشاہ نے اسے اپنے ہاتھ سے ایسا رقم فرمایا کہ آفتاب شرمندہ ہوگیا۔ اس فرمان میں شاہجہان نے آصف خان کو یوں مخاطب کیا ہے "سلطنت عظمی کے محرم راز، خلافت کبری کے واقف اسرار، وفاداروں کے سرخیل، صاحب سیف و قلم، صاحب تدبیر، امراء و خوانین میں منتخب، عموئے مکرم یمن الدولہ آصف خان۔۔" صالح کمبوہ نے ان خطابات و القاب کا بھی تذکرہ کیا ہے جو آصف خان کے نام کا حصہ تھے اور اس کا نام ہمیشہ انہی کے ساتھ لیا جاتا تھا۔ یہ القاب درج ذیل ہیں "خلافت و فرماں روائی کی تقویت، جہاں بانی و سلطنت کا اعتماد، خاتم کامرانی و خوش نصیبی کا نگینہ، جاں نثاری و اصالت کی آبرو، آستین شان وشکوہ کا طراز، دولت و اقبال کے تخت کا نگینہ، جہاں کشائی کے معرکوں کا ہر اول، کام بخشی وکامرانی میں پیش رو، مونس انجمن، اسرار بادشاہ کا خاص الخاص محرم محرم تا صاحب اخلاق پسندیدہ، حامل کمالات صوری و معنوی، مشیر سلطنت، موتمن بارگاہ، انجمن آرائے محفل، صدر نشینِ مجلسِ قدس، مجلس خاص کا دل کشا، ہمدم وفا و اخلاص کی خلوت سرا کا محرم، اسرار حکومت کا دقیقہ سنج، مزاج دانی کا رمز شناس، الطافِ شہنشاہی اور عنایات ظلِ الٰہی کا مرکز، آئینہ وفا و صداقت کا جوہر، یکرنگی و خلوص کی شمع کا نور، حکمائے یونان کی آبرو، سرداران ذی جاہ کا پیشوا، مبارزالملۃ، یمن الدولہ آصف خان۔۔۔"
آصف خان تعمیرات کا بھی دلدادہ تھا۔ سلطنت میں چونکہ اس کا خاصا اثر ورسوخ تھا تو اس نے دہلی، آگرہ و کشمیر میں کئی شاہانہ عمارات بھی بنوائیں۔ لاہور میں بھی اس کی ایک عالیشان حویلی کا تاریخ میں ذکر ملتا ہے۔ اس حویلی کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی تعمیر پر ۲۰ لاکھ روپے خرچ ہوئے تھے۔ حویلی کے اندر حمام، باغات، مسجد و کئی محلات تھے۔ یہاں آصف خان نے شہنشاہ کی دعوت بھی کی تھی۔ اس شاہی ضیافت کی تفصیلی روداد اطالوی سیاح فرے سابین مان رک نے اپنے سفرنامے میں بیان کی ہے۔ اس کے بقول آصف خان نے اس دعوت پر تقریباً سات لاکھ روپے کے تو صرف جواہرات بادشاہ کو پیش کیے تھے، اسی سے باقی انتظامات کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ آصف خان کو مختلف علوم و فنون میں بھی امتیازی حیثیت حاصل تھی۔ صاحب بزم تیموریہ لکھتے ہیں "شاہجہان کے خسر، یمین الدولہ خان خاناں آصف خان سپہ سالار کو ہر قسم کے علوم خصوصاً معقولات میں بڑا درک حاصل تھا۔ اس کے القاب کا جز شعلہ افروز فطرت اشراقیاں، دانش آموز طبیعت مشائیاں تھا۔ وہ خوش بیاں، خوش نویس و اعلا قسم کا سیاق دان بھی تھا۔" صمصام الدولہ شاہنواز خان نے مآثر الامراء میں آصف خان کے عادات و خصائل و اسکی خصوصیات کا سیر حاصل تذکرہ کیا ہے وہ لکھتا ہے "دوسرے امراء کی تنقیح حساب وہ خود کرتا تھا اور اس سلسلے میں کسی کی رہنمائی کا محتاج نہ تھا۔ اس کی سرکار میں جو اخراجات اور مصارف ہوتے تھے وہ عقل میں نہیں آتے ہیں۔ خصوصاً اس کے قریبی رشتہ اور بادشاہ، شہزادوں اور بیگمات کے تشریف فرما ہونے پر جو ضیافتیں اکثر ہوتی تھیں، ان میں پیشکش اور نذرانوں کے علاوہ کہ جو بڑی بڑی رقوم پر مشتمل ہوتے تھے، کھانے اور پینے میں کوئی تکلف اٹھا نہیں رکھا جاتا تھا۔ وہ کونسی آرائش و زیبائش تھی جو اندر اور باہر نہ ہوتی تھی۔ اس کے ملازمین اچھے تھے اور وہ ان کی خبرگیری رکھتا تھا۔ وہ اپنے باپ کی طرح بہت نرم طبیعت اور منکسر المزاج تھا۔ کہتے ہیں کہ خوش خوراک ہونے کے ساتھ ساتھ اسے بھوک بھی بہت لگتی تھی۔ اس کی دن رات کی خوراک ایک شاہجہانی من تھی۔ جب اس کی بیماری بڑھی تو صرف چنوں کے پانی کے پیالے پر اتفاق کرتا تھا۔" صاحب مآثر الامراء نے ایک اہم واقعہ کا بھی ذکر کیا ہے جس کے متعلق جہانگیر نے تزک میں بھی لکھا ہے۔ جب جہانگیر کو دریائے جہلم کے کنارے مہابت خان نے بغاوت کرتے ہوئے قید کرلیا تھا۔ صمصام الدولہ کے مطابق "آصف خان اس تمام فساد کا بانی مبانی تھا۔"
آصف خان نے پندرہویں سال جلوس شاہجہانی میں استسقاء کے مرض کے باعث لاہور میں وفات پائی۔ صالح کمبوہ اس کی وفات کے متعلق لکھتا ہے " اطلاع ملی کے ١٧ شعبان١۰٥١ھ (١٦٤١ء) کو شام کے وقت آصف خان نے جو اپنے عہد کا ارسطو اور حضرت کا وزیر باتدبیر تھا، جہان فانی سے رحلت کی۔ اس سانحے کو سن کر حضرت پر غم و اندوہ کا اتنا غلبہ ہوا کہ ہوش و حواس جاتے رہے۔ اس کی وفاداری خدمت گزاری، خلوص و الفت کو یاد کرکے کئی بار زبان مبارک سے ارشاد فرمایا کے صد حیف ہم اس وفادار مخلص کے حقوق ادا نہ کر سکے۔ جو کچھ عنایات اس کے حال پر ہوئی وہ ان سے ہزار درجہ زیادہ کا مستحق تھا۔ قدردان بادشاہ نے اس مرحوم کے اعزاز و اکرام کا ہمیشہ پورا پورا خیال رکھا۔ نو ہزاری ذات کا منصب عطا کیا جس کی تنخواہ ١٦ کروڑ بیس لاکھ دام ہے۔ ہر سال پچاس لاکھ کی یافت جاگیر سے تھی۔ غرض ہر طرح مرحوم کو اتنی سرفرازی بخشی کہ اس کا جاہ و حشم آسماں تک پہنچا۔ الطاف و عنایات کی ایسی بارش کی کہ کسی بادشاہ نے اپنے کسی خیرخواہ کے ساتھ اتنی مہربانی نہ کی ہوگی۔ تاہم الفت و قدردانی کے سبب کئی بار فرمایا کہ افسوس ہم خدمت کا پورا حق ادا نہ کرسکے۔ خان والا شان نے اپنی زندگی شادمانی و کامرانی کے ساتھ بسر کی۔ ہمیشہ یہی آرزو رکھتا تھا کہ ظل سبحانی کے سامنے اس دنیا سے اٹھ جاؤں۔" خافی خان نے منتحب اللباب میں اس کے ترکے کے متعلق بتایا ہے کہ اس کی حویلی داراشکوہ کو عنایت ہوئی جبکہ دو کروڑ پچاس لاکھ بحق سرکار ضبط ہوئے۔ بادشاہ نے ۲٥ لاکھ روپے اس کے فرزندوں کے بخش دیے۔ نیز ورثاء کو خلعت و مراعات بھی عطا کیں۔
آصف جاہ کی وفات پر اس کا پرشکوہ مقبرہ بنانے کا حکم شاہجہان نے جاری کیا۔ صالح کمبوہ نے تو فقط یہ درج کیا ہے کہ "حضور نے حکم دیا کہ حضرت جہانگیر کے مغرب کی طرف جلو خانے کے چوک میں مرحوم کو دفن کیا جائے۔ مقبرہ تیار کرکے سنگ مرمر کا عالیشان گنبد اس پر بنائیں۔" لیکن عبدالحمید لاہوری نے بادشاہ نامہ میں اس ضمن میں خاطر خواہ معلومات درج کی ہے، جو کہ کچھ یوں ہے "یہ مقبرہ شہنشاہ جہانگیر کے جلو خانہ کے مغرب میں واقع ہے۔ سطح تا پیکر مقبرہ ہشت پہلو تعمیر کیا گیا ہے۔ اس کا قطر ١٥ ذراع(ساعد) ہے۔ یہاں سے لے کر شقہ تک اس پر قالب کاری کا کام کیا گیا ہے۔ اس کے ہشت پہلو کمرہ کے اندر آٹھ خوبصورت نشیمن ہیں، جبکہ بیرونی جانب آٹھ پیش طاق ہیں۔ یہ نیم مثمن کی صورت میں ٧ گز لمبے، ٤ گز چوڑے اور ١١ گز اونچے ہیں۔ ازارہِ عمارت کو اندر سفید سنگ مرمر جبکہ باہر سنگ ابری سے بنایا گیا ہے۔ پیش عمارت میں کہیں سفید و زرد مرمر اور کہیں متنوع اقسام کے پتھر استعمال کیے گے ہیں۔ تعویذ قبر اور اس کے چبوترہ کو پرچین کاری کے ذریعے خوشنما قیمتی پتھروں سے مزین کیا گیا ہے۔ اسی طرح لوح مزار کو مختلف آیات قرآنی و اسماء الحسنی سے بھی سجایا گیا ہے۔ فرشِ عمارت کو گرہ بندی کے انداز سے مختلف پتھروں سے تیار کیا گیا ہے۔ مقبرے کے اطراف میں موجود ہشت پہلو چبوترے کے لیے جو کہ گھیرے میں ٦۰ ذراع ہے، سنگ سرخ استعمال کیا گیا ہے۔ شہ نشیں کے چار جانب حوض ہیں۔ یہ عمارت چہار چمن باغ کے وسط میں تعمیر کی گئی ہے، جس کا طول و عرض ٣۰۰ ذراع ہے۔ اس باغ کے گرد دیوار بھی ہے۔ مقبرے کی مغربی دیوار کی جانب ایک خوب و خوبصورت مسجد ہے۔ مشرق کی طرف قرینہ مسجد جبکہ شمالی دیوار کے درمیان بلند داخلی دروازہ ہے۔ یہ مکمل عمارت قریباً چار سال کے عرصہ میں تین لاکھ روپے میں مکمل ہوئی ہے۔"
لاہور گزٹئیر ١۸۹٣ء کے مرتبین کے بقول مسلمان و سکھ دونوں نے شاہدرہ کی عمارات کے ساتھ بے حد برا سلوک کیا۔ احمد شاہ درانی نے بھی یہاں کافی کچھ تباہ کیا، سکھوں نے پتھر اکھاڑ ڈالا، بلکہ برطانوی دور میں جب سپاہی یہاں مقیم ہوئے تو عمارت کا کوئی بھلا نہیں ہوا۔ لیکن مغل عہد کے اس شاہکار مقبرے کو شاید سکھ دور حکومت میں سب سے زیادہ نقصان پہنچا۔ سکھ سہہ حاکمان لاہور نے پہلے مقبرے اور اس کے ساتھ موجود دیگر عمارات کو برباد کرنا شروع کیا، تیجا سنگھ نے مقبرے کو اپنی فوجوں کی بیرک کے طور پر استعمال کیا۔ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی نے انگریز سیاح ولیم مور کرافٹ کے حوالے سے لکھا ہے کہ اس کا جب رنجیت سنگھ کے دور میں یہاں سے گذر ہوا تو اس نے دیکھا کہ مقبرے کی سنگ مرمر کی سلیں بیل گاڑیوں میں ڈالی جا رہیں ہیں۔ حتی کہ فرش و گنبد کا پتھر اکھاڑ کر حضوری باغ میں بارہ دری کو تعمیر کیا جارہا ہے۔ گلوبل ہیرٹیج فنڈ کی مقبرہ آصف خان پر رپورٹ میں ایک اور انگریز سیاح ولیم بیرر کا بیان موجود ہے جس میں وہ اس مقبرہ کے متعلق کہتا ہے "اس مقبرے کے شاندار گنبد کے سنگ مرمر کو شرمناک طریقہ سے امرتسر کے سکھ دربار صاحب کے لیے اتار لیا گیا ہے اور اس کے بدلے اینٹوں کا ڈھانچہ چھوڑ دیا گیا ہے۔ جو کہ ہر ایک کو موجودہ غیر مہذب مہاراجہ کی یاد دلائے گا۔" مفتی علی الدین نے اپنی کتاب "عبرت نامہ" میں بھی سکھوں کی بے حسی اور مقبرے کی شکستہ حالی کا ذکر کیا ہے۔ نور احمد چشتی نے ١۸٦٤ء میں جب مقبرہ دیکھا تب یہاں موجود باغ آباد تھا اور وستی رام کی جاگیر میں تھا۔ ١۸۸٤ء میں تحریر کردہ اپنی کتاب "تاریخ لاہور" میں کہنیالال نے بتایا ہے کہ رنجیت سنگھ کے حکم پر مقبرے کا پتھر اس بے دردی سے نکالا گیا کہ یہ کھنڈر بن گیا۔ بے احتیاطی کے باعث سیڑھیاں ٹوٹ گئیں اور چبوترہ منہدم ہوگیا۔ قبر کا تعویذ چونکہ قرآنی آیات کے باعث کسی کام نہ آ سکتا تھا تو اس کو باہر پھینک دیا۔ مقبرے کے آٹھ دروازے بھی حریصوں کی نذر ہوگے۔ مقبرے کے ساتھ بنائی گئی مسجد میں ریلوے کے ملازم نے کوٹھی بنا لی۔ مقبرے کی مجموعی حالت کے متعلق مصنف کہتا ہے "اس مقبرے کی حالت دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ بنانے والوں نے لاکھوں روپے خرچ کرکے ان عمارات کو بنایا اور گرانے والوں نے صرف پتھر کی طمع سے بے رحم ہو کر اس کو گرا دیا اور انقلاب زمانہ نے وہ صورت دکھائی کہ دن کی جگہ اندھیری رات ہو گئی۔" کہنیالال نے یہ بھی درج کیا ہے اس کے ذریعے حکومت نے اس عمارت کی مرمت کروائی ہے۔ سید محمد لطیف نے بھی کم و بیش یہی کچھ بیان کیا ہے۔ آرکیالوجکل سروے آف انڈیا کی سالانہ رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ سن ١۹۰٤ء و ١۹۰٦ء میں مقبرے پر کچھ رقم خرچ کی گئی اور ١۹١۲ء اس کو حفاظتی عمارات میں شامل کر لیا گیا۔ جس کے بعد ١۹۲۰ء و ١۹۲٥ء میں خطیر رقم مقبرے پر خرچ کی گئی، سیڑھیوں کو دوبارہ تعمیر کیا گیا نیز باغ کی زمین خرید کر اس کو بھی بحال کیا گیا۔ تقسیم ہند کے بعد مقبرہ دوبارہ لمبے عرصے تک عدم توجہی کا شکار رہا۔ لاہور میں آنے والے سیلابوں نے بھی خاطر خواہ نقصان پہنچایا۔
کچھ عرصہ قبل جب اس مقبرے کی زیارت کو گیا تو اس کی حالت کو دیکھ دل بہت اداس ہوا۔ خصوصاً اگر آپ کے ذہن میں ماضی میں مقبرے کی شان و شوکت کا نقشہ ہو تو آپ کو مزید دکھ ہوتا ہے۔ اس مقبرے کے گرد کبھی ہشت پہلو نہر تھی مگر اب اس کے کوئی آثار نہیں۔ اس کے ساتھ موجود جن عمارات کا تاریخ میں تذکرہ موجود ہے وہ اب ناپید ہوچکی ہیں۔ مقبرے کا اجڑا گنبد عجب منظر پیش کرتا ہے، کبھی کہا جاتا تھا کہ اس گنبد کا ہمسر شاید ہی کوئی ہو مگر اب یہاں صرف ویرانی ہے۔ وسط میں سنگ دلوں سے بچ جانے والا تعویذ قبر موجود ہے۔ اس پر ایک جانب وہی اسماء الحسنی درج ہیں جو کہ بقول صاحب تحقیقات چشتی مقبرہ جہانگیر پر بھی موجود ہیں۔ تعویذ قبر پر درج ذیل عبارات درج ہیں :
١: ھو اللہ الذی لا الہ الا ھو عالم بالغیب و الشھادۃ ھو الرحیم۔
۲: کل نفس ذائقۃ الموت۔
٣: بسم الله الرحمن الرحيم۔ ھو الغفار الذنوب قال اللہ تبارک و تعالی قُلْ يَا عِبَادِيَ الَّذِينَ أَسْرَفُوا عَلَى أَنفُسِهِمْ لا تَقْنَطُوا مِن رَّحْمَةِ اللَّهِ إِنَّ اللَّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ جَمِيعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ۔ (سورۃ الزمر آیت ٥٣)
مقبرہ آصف خاہ ماضی میں کیسا رفیع الشان تھا اس کا اندازہ لگانا کچھ مشکل نہیں۔ درج بالا بیانات سے اس کے سلطنت میں اثر و رسوخ کا پتا چلتا ہے۔ پھر وہ تھا ہی شاہجہان کا مقرب خاص، تبھی تو اسے شہنشاہ ہند کے قریب دفن کیا گیا۔ ڈاکٹر عبداللہ چغتائی کے مطابق اس مقبرے کا معمار بھی احمد لاہوری ہے۔ احمد لاہوری ہی نے تاج محل تعمیر کیا تھا تو اس نے اپنے فن کے جوہر یقیناً یہاں بھی دکھائے ہوں گے۔ مقبرے پر کہیں کہیں ٹوٹی روغنی ٹائلیں و کاشی کاری دکھتی ہے، جو اس بات کی گواہ ہیں کہ ان کھنڈروں نے کبھی بھلا وقت بھی دیکھا ہے۔ عمارت کا ڈھانچہ بغیر اصل تزئین و آرائش، گو کہ بہت حسین نہیں لگتا لیکن یہ ہے اس قدر مضبوط کہ بقول کہنیالال اس کا دو ہزار برس بغیر تغیر کے قائم رہنا کچھ بعید نہیں۔ آج اس مقبرے کے حالات اچھے نہیں۔ محکمہ آثار قدیمہ اس کو دوبارہ سنگ مرمر سے مزئین کرنے سے رہا لیکن نقاشی کے بچ جانے والے نمونوں کو محفوظ تو کیا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ سب کچھ کیا کس لیے اور کس کے لیے جائے۔ ہم لوگ تو اپنے ورثے سے لاتعلق ہیں۔ مقبرے میں جائیں تو دیواروں پر لوگوں کے نام نظر آتے ہیں اور فرش پر نشئیوں کا ہجوم جبکہ گنبد پر گدھ کا راج ہے۔ یہ اس شخص کے مزار کا احوال جو مغلیہ سلطنت کا کبھی سب سے طاقت ور انسان تھا۔ آج سلطنت بھی برباد ہوچکی اور اس کا مقبرہ بھی۔ سکھوں نے یقیناً اس مقبرے کی بربادی میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی، مگر ہم کون سا کچھ کم ہیں۔ بس چند سالوں میں ہم ان کو مات دے چکے ہوں گے۔ سکھوں نے جب پتھر نوچا تو شاید آصف خان مضطرب نہ ہوا ہوگا کہ وہ تو ہیں ہی غیر، ان سے کیسا گلہ۔ لیکن ہمارے تحریر کردہ فحش جملوں و ناموں سے اس کی روح ضرور تڑپی ہوگی۔ خدارا سلجھ جائیں، ظاہری صورت کے علاوہ حرکات و سکانات بھی انسانوں والی اپنائیں۔ ان افعال بد سے کیوں دنیا کو باور کروانا چاہتے ہیں کہ ہم بے شعور و بد ذوق واقع ہوئے ہیں۔ خیر ہم تو کہہ ہی سکتے ہیں محکموں کو بھی اور عوام کو بھی۔ شاید کہ کبھی کس کہ دل پہ اثر ہوجائے۔ احباب گرامی سے گزارش ہے کہ کبھی بچوں کو گھمانا ہو تو شاپنگ مالز کو چھوڑ تاریخی مقامات کا بھی چکر لگا لیا کریں۔ یہ ہر طرح سے عبرت گاہ ہیں۔ نیز بچوں میں اپنے ورثے کی حفاظت کے متعلق شعور اجاگر کرنے کی بھی کوشش کریں۔ کاش کہ ہم سمجھ سکیں کہ یہ آثار بھی اہم ہیں، ان کی بھی قدر و قیمت ہے اور سب سے بڑھ کر ملکی ترقی میں ان کے باعث ہونے والی سیاحت کس قدر مفید ہے۔