آغاز تحریر میں سب سے پہلے اپنے دوست کرمفرما محبی اور محسن برادر سکندر چوہان کا دلی شکریہ ادا کروں کہ جنہوں نے یہ نادر کتاب مجھے برطانیہ بھیجی اور پھر اُن سے ہی معذرت بلکہ دلی معذرت کہ اس علمی خزانے کے بارے میں چند شکستہ جملے لکھنے میں تاخیر ہوئی۔ اس تاخیر کی دیگر وجوہات کے علاوہ بڑی وجہ میرا مزاج ہے کہ میں تحریر کے کسی عمل میں بھی زبردستی نہیں کرتا تا آنکہ طبیعت اس جانب مائل نہ ہو اور کتاب کے معاملے میں جب تک اسکا مطالعہ نہ کرلوں۔ بس اسی لیئے نہ میں شاعر ہوں نہ ادیب اور نہ نقاد کہ اس دور میں بڑا نقاد یا تبصرہ نگار وہ ہے جو کتاب پڑھے بغیر کتاب سے زیادہ بڑا تبصرہ کر دے۔ مجھے یقین ہے کہ برادر سکندر چوہان اس تاخیر پر میری معذرت قبول کریں گے
’’زبدۃ العارفین، قدوۃ السالکین، عمدۃ المتکلمین و فخر المتالہین، عالم علوم ربّانی، کاشف اسرار حقانی، وحید العصر، فریدِ دہر، سرکار علامہ الشیخ عبد العلی الہروی الطہرانی۔‘‘ کی ایک کتاب بہت عرصہ پہلے میرے مطالعے میں تھی ’مواعظ حسنہ‘۔ اس سے پہلے میں نے اپنے والد مرحوم مصطفی علی ھمدانی سے انکا ذکر سُنا اور انکی غیر مطبوعہ یادوں کی کتاب ،ہم سفر، میں انکے بارے میں یہ پڑھا بھی کہ جب وہ فلسطین کے بارے موتمر عالم اسلامی کی کانفرنس میں علامہ اقبال کے ہمراہ گئے تو جو جو خطبہ انہوں نے ارشاد فرمایا وہ علامہ اقبال اپنے ہمراہ لاہور لے آئے اور نابغہ روزگار عبدلمجید سالک سے کہا کہ اس فارسی کے خطبے کو اردو میں ترجمہ کرنے کے لیئے کسی کا انتخاب کریں۔ والد مرحوم لکھتے ہیں کہ سالک صاحب نے مجھ سے حُکم کے انداز میں کہا اور میں انکار نہ کر سکا۔ یہ طویل واقعہ انکی یاداشتوں میں بھی ہے اور ریڈیو پاکستان کی کسی ریکارڈنگ میں بھی۔ تلاش کر کے ضرور اسے شائع کرونگا
برادر سکندر چوہان نے اس کتاب کی اشاعت کے دوران مجھے بھی اسی تقریر کے ترجمے کے حوالے سے لکھنے کوکہا لیکن ایک تو وقت بہت کم تھا اور دوسرے والد کے تمام مخطوطات لاہور میں ہیں اور میں برطانیہ میں۔ کاش وقت مل جاتا تو اس کتاب میں شامل ہو جاتا کہ یہی ایک رَخ ہے جو مجھے اس ایک سوبارہ صٍفحات کی کتاب میں مل نہ سکا یا میری کوتاہی کہ میرے مطالعے میں نہ آیا ہو
یہ کتاب المیر ٹرسٹ لائبریری گجرات نے شائع کی ہے جو صدقہ جاریہ کی بہترین مثال ہے لیکن افسوس اس بات کا کہ اس معاشرے میں اول تو مطالعے کا انتہا درجے کا فقدان ہے اور دوسرے ایسے موضوعات کی کتابیں لوگوں کو ہضم نہیں ہوتی ہیں۔ کاش یہ کتاب ملک کی جامعات میں رکھی جاتی اور ذرائع ابلاغ میں اسکے چرچے ہوتے لیکن اس بدبخت سیاست نے ابلاغ پر قبضہ کر رکھا ہے اور عوام کی غالب اکثریت مطالعے سے عاری اور فوڈ سٹریٹ کی شوقین ہے
اس کتاب میں ہر مقالہ ایک تاریخ ہے اور لکھنے والے جید اور مستند نام ہیں۔ پیش لفظ پروفیسر سید علی عباس کا ہے اور باقی لکھنے والوں میں اکبر حیدری کشمیری، علامہ محمد سبطین ،الحاج مرزا احمد علی، پروفیسر غیاث الدین،ڈاکٹر عسکری بن احمد،ڈاکٹر سید محمود عباس شامل ہیں۔ اظہار تشکر عارف علی میر صاحب کا ہے
مجھ طالب علم کی اتنی بساط نہیں کہ اس کتاب کی تحاریر پر رائے زنی کر سکوں ہاں اتنا ضرور کہونگا کہ میں سرکار عبدالعلی طہرانی کے نام سے شناسا تھا لیکن اس کتاب کے ماطلعے کے بعد انکی شخصیت اور تہور علمی سے بھی شناسا ہو گیا ہوں
اس کتاب کا سب سے اہم پہلو میرے نزدیک یہ ہے کہ یہ تجارت یا پیسہ کمانے کا دھندہ نہیں اور بڑی بات یہ ہے کہ اس کتاب کی قیمت صرف دعائے مغفرت برائے بزرگان ہے ۔ جنوری دو ہزار بائیس میں یہ کتاب نفیس کاغذ پر بہترین پرنٹنگ کے ساتھ طبع ہوئی ہے، کاش کاش اے کاش ایسی کتابوں کو مطالعہ کرنے والے بھی میسر آسکیں
برادر سکندر چوہان میری طرف سے اس کار خیر پر اپنی پوری ٹیم کا شکریہ ادا کیجئے کہ آپ نے اپنے حصے کی روشنی کر دی اب کوئی کسب فیض کرے نہ کرے
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...