بسم تعالیٰ
رب زدنی علما
مقالہ
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری گروپ اپنے منفرد پروگرام پیش کرنے میں ید طولیٰ رکھتا ہے ۔ جہاں یہ ادارہ اردو ادب کے فروغ کے لیے کوشاں ہے وہیں اردو ادب سے جڑے قلمکاروں کی حوصلہ افزائی اور ان کی کاوشوں کو برقی دنیا کے تمام تر وسائل بروئے کار لاتے ہوئے عالمی سطح پر اردو قارئین تک پہچانے کی مقدور بھر کوشش کرتا رہا ہے ۔ادارے کی یہ کاوش قابل تقلید اور لائق ستائش ہے کہ ، وہ ادباء وشعراء جو وسائل کی کمی کے باعث یا متشاعروں تاجرانہ ذہن یا گروپ بندی سے پرے ادب کی خاموش خدمت انجام دے رہے ہیں ۔ جو نام و نمود ، سستی شہرت سے گریز پا اور غیر ادبی ہتھکنڈوں سے نالاں ہیں ان کی کاوشوں کو باذوق قارئین تک پہنچانے میں ایک نمایاں کردار ادا کر رہا ہے ۔اس مستحسن اقدام کے لیے چیرمین عزت مآب توصیف ترنل اور ان کی فعال ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے ۔
اردو ادب میں کلاسیک قلمکاروں سے لے کر عصر حاضر کے جن تخلیق کاروں نے نمایاں خدمات انجام دی ہیں انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے منفرد پروگرام پیش کیے ہیں ۔ پروگرام گزشتہ بیاد مرحوم مشتاق احمد یوسفی تھا اور اب اردو ادب کے درخشندہ ستارے مرحوم علی مزمل کے نام موسوم ہے ۔
مرحوم علی مزمل ادارے سے ایک مدت تک جڑے رہے۔ ان کی کلاسک میں جدت طرازی کی آمیزش سے مزیّن شاعری انہیں منفرد مقام عطا کرتی ہے ۔ وہ ایک ناقد دلیر اور منہ پھٹ تھے ،حتٰی کہ خود کو بھی نہیں بخشتے ۔ بے لاگ ولپٹ کہتے حد کہ اپنی ہی شاعری کو تنقید کا نشانہ بناتے ۔ہر چند کہ غالب نے کہا ،
گر نہیں ہیں میرے اشعار میں معنی نہ سہی
وہ اس لئے کہا کہ انہوں نے اپنے زمانے سے آگیا کی شاعری کی جو اس دور کے عامی کے پلے نہ پڑتی وہ انہیں بے معنی لگتی ۔ یہ حقیقت ہے اگر حالی نہ ہوتے تو غالب بھی اردو ادب پر غالب نہ ہوتے ۔۔۔مگر علی مزمل نے خود کو تنقید کا نشانہ بنایا جبکہ باذوق قارئین نے انہیں سراہا ۔۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ جو کہنا چاہتے تھے وہ کہہ نہ سکے ۔ الفاظ کا طلسم ان کے مانع رہا ۔ فنکار کی سوچ کو الفاظ کی پر پیچ وراہ دشوار درماندہ کرے تو بقول ابن صفی کہہ اٹھتا ہے ،
جو کہہ گئے وہی ٹھہرا ہمارا فن اسرار
جو کہہ نہ پائے جانے وہ چیز کیا ہوتی
گنجینۂ معنی کا طلسم الفاظ کی جادو بیانی کا مرہون منت ہوتا ہے ،وہ اگر ساتھ نہ دے تو فنکار اسی کرب وبلا کے مراحل سے گزرتا ہے جس سے مرحوم کو سابقہ پڑا ۔ دراصل ہر فنکار جتنا کہتا ہے اس سے دس گنا وہ جانتا ہے ۔ اقبال بھی شاکی ہیں کہ ،
دیکھا ہے جو میں نے دنیا کو دکھلادے
گویا اپنی تنگئی داماں کا احساس کیے خدا سے دعا گو ہیں ۔ بقول حالی ہر تخلیق کار کی یہی کوشش ہوتی ہے ،
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب تر کہاں
اور وہ اسی خوب تر کی تلاش میں بھٹکتا رہتا ہے ۔ ہر حساس فنکار کی خوب تر کی تلاش آخری سانس تک جاری رہتی ہے جو کبھی پایۂ تکميل تک نہیں پہنچتی ۔ وہ فانی ہوجاتا ہے مگر اپنے لافانی نقوش چھوڑ جاتا ہے ۔بیشتر کلام کی صورت غالب واقبال کی طرح ، کچھ غزلوں یا نظموں کی صورت ناصر ، فراز یا قتیل وغیرہم کی طرح یا ،، ابھی تو میں جوان ہوں ،، حفیظ کی یاد دلاتا ہے یا صرف ایک شعر ،
مجھ کو تھکنے نہیں دیتا یہ ضرورت کا پہاڑ
میرے بچے مجھے بوڑھا نہیں ہونے دیتے
شاعر کو زندہ رکھتا ہے ۔
علی مزمل بھلے سے بیشتر کلام کی صورت یاد نہ آئیں مگر نظم ،،محبت ایک جزیرہ ہے ،،کی نسبت سے اردو ادب میں ایک درخشندہ ستارے کی مانند جگمگاتے رہیں گے ۔ وہ مر کر بھی امر رہیں گے ۔
اس لافانی فنکار کی ادبی خدمات کو سلام کہ جو باوجود معذوریت کے معذور نہیں رہا بلکہ ہمیشہ اپنے قلم کو جلا بخشی جس سے ادب کی کرنیں پھوٹیں جو ادب زار کو منور کرگئیں اور ہر کوئی کہہ گیا ،
موت اس کی ہے کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
ادارہ عالمی بیسٹ اردو پوئٹری گروپ نے علی مزمل مرحوم کی یاد میں مجلس کا انعقاد کیا جو ایک قابل تقلید اور مستحسن اقدام ہیں جس کے لیے ادارہ مبارکباد کا مستحق ہے ۔مرحوم کے لیے دعا گو ہوں کہ ،
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ تیرے گھر کی نگہبانی کرے
تمام شد