آج چودہ دسمبر ہے، دو دن بعد سقوط ڈھاکہ کی برسی ہے۔
کیا ان دو دنوں میں ہم یہ تسلیم کرلیں گے کہ اس سقوط کے سب سے زیادہ ذمہ دار ہم خود یعنی موجودہ پاکستان ہے؟
نہیں! اگر 43سال میں ایسا نہیں ہوسکا تو ان دو دنوں میں کیسے ہو سکتا ہے!
43 سال؟ 43سالوں کی کیا حیثیت ہے۔ ہم توڈھائی سو برسوں میں یہ نہیں مان سکے کہ برصغیر پر انگریزوں کے قبضے کی ذمہ داری برصغیر کے لوگوں پر بھی ہے! آج تک اس کا سبب انگریزوں کی مکاری بتایا جا رہا ہے۔ یہی لکھا جا رہا ہے اور یہی پڑھایا جا رہا ہے۔ یہ کوئی نہیںبتاتا کہ مکاری سے ایک آدھ یا چند ریاستوں پر کچھ عرصہ کے لئے قبضہ کیا جاسکتا ہے، پورے برصغیر کو دو سوبرس تک مٹھی میں کیسے رکھا جاسکتا ہے؟ سکندر مرزاکے فرزند ہمایوں مرزا نے اپنی مشہور تصنیف ’’فرام پلاسی ٹو پاکستان‘‘ میں تفصیل سے لکھا ہے کہ ہندوستانی حکمران بالعموم اور مسلمان حکمران بالخصوص کس طرح زندگی بسر کرتے تھے اور سات سمندر پار سے آنے والوں کا طرز حکومت کیا تھا۔ ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے محکمہ مالیات کی اجازت کے بغیر ایک پیسہ نہیں خرچ کرسکتی تھی جبکہ برصغیر کے اکثر جانشین عیاشی سے بھرپور زندگی کے طفیل تیس بتیس برس سے زیادہ زندہ نہیں رہتے تھے!
بہت سے کام ہیں جن سے ہم برصغیر کے مسلمان پرہیز کرتے ہیں۔ مگر سب سے زیادہ پرہیز اپنے گریبان میں جھانکنے سے ہے۔ میجر ہڈسن نے مغل شہزادوں کو مارا۔ پھر ان کے سر خوان پوش سے ڈھانپ کر بہادر شاہ ظفر کو بھجوائے۔ برا کیا۔ کون کہتا ہے کہ یہ ظلم نہیں! مگر محمد تغلق کی صرف فتوحات اور نماز روزے کی پابندی کا تذکرہ ہوتا ہے یہ کوئی نہیں بتاتا کہ جب اس کے والد کے سگے بھانجے بہائوالدین گرشسپ نے بغاوت کی اور شکست کھائی تو محمد تغلق نے پہلے اس کی کھال اتروائی اس حالت میں کہ وہ زندہ تھا۔ پھر اس کے بدن کے ٹکڑے کرکے اس کے گوشت میں پلائو پکایا گیا۔ پھر یہ پلائو اس کی بیوی اور بچوں کو ’’پیش‘‘ کیا گیا۔ اپنے گریبان میں جھانکنے سے پرہیز کا یہ عالم ہے کہ نصف صدی ہونے کو ہے، ابھی تک اصرار ہے کہ سقوط ڈھاکہ مشرقی پاکستان کے ہندوئوں کی سازش تھی جو تھوڑی سی ذمہ داری بچ جاتی ہے وہ دشمن ملک پر ڈال دی جاتی ہے۔ یہ ڈھول بھی بجایا جا رہا ہے کہ الگ ہو کر بنگالیوں کو چھٹی کا دودھ یاد آگیا ہے تو ان کی عورتیں بھارت میں قحبہ گری کر رہی ہیں اور مرد پاکستان میں آ کر نوکریاں ڈھونڈ رہے ہیں۔ گویا قحبہ گری کا ہمارے ملک میں تو وجود ہی نہیں اور لاکھوں پاکستانی شرق اوسط کے ’’کفیل‘‘ کی غلامی میں جو زندگی گزار رہے ہیں وہ ہمارے لئے باعث فحر ہے۔ وسط ایشیا سےسوویت یونین رخصت ہوا تو وسط ایشائی عورتوں سے نہ صرف پاکستان بلکہ مشرق وسطیٰ کے ہوٹل چھلکنے لگ گئے تو کیا اس کا یہ مطلب لیا جائے کہ سوویت یونین سے چھٹکارا پانا غلط حرکت تھی؟دانش کی انتہادیکھئے کہ ایک طرف اب بھی کہا جارہاہے کہ اردو کو ملک کی واحد سرکاری زبان قرار دینا اوربنگالی کو درخوراعتنا نہ گرداننا درست فیصلہ تھا۔ دوسری طرف پاکستان میں اردو ابھی تک کاسہ اٹھائے دہلیزز پر بیٹھی ہے۔ بجلی ، ٹیلی فون اور گیس کے بل تک انگریزی میں ہیں۔ حقیقت پسندی کا یہ عالم ہے کہ ایک ثقہ بزرگ یہ کہتے کہتے دنیا ہی سے رخصت ہوگئے کہ بنگلہ دیش پاکستان سے پھر آ ملے گا۔ یہ قلم کار انیس برس کا تھا جب شہرِ سبزہ وگل ڈھاکہ میں اترا۔ اڑھائی برس ڈھاکہ یونیورسٹی کے اس شعبہ اقتصادیات کا طالب علم رہا جہاں چھ نکات سوچے اور پیش کیے گئے۔ وہ چھ نکات جو اس تذلیل سے بدرجہا بہتر تھے جو مسلمانوں کی پوری تاریخ میں پیش نہیں آئی تھی۔ ہولناک خانہ جنگی اور نوے ہزار افراد کا دشمن کے تصرف میں آ جانا!!
سلہٹ میں بھارتی سرحد سے لیکر کاکسس بازار کے طویل سحر آگیں ساحل تک۔ کپتائی کی خوبصورت جھیل سے لے کر رانگامتی کی پہاڑیوں اور چکمہ قبیلے کی جھونپڑیوں تک۔ میمن سنگھ کے گھنے جنگلوں سے لے کر جگنی مورا کے کنول بھرے تالابوں تک ایک ایک قریہ گھوما۔ بقول سعدی ؎
تمتع ز ہر گوشۂ یافتم
ز ہر خرمنی خوشۂ یافتم
دانش وروں سے ملاقاتیں ہوئیں۔ ساتھی طلبہ اور یونیورسٹی کے اساتذہ سے بحث مباحثوں میں کتنی ہی راتیں گزریں۔ کہیں وہ اسباب بلکہ ان کے آثار تک نہ دکھائی دیئے جو یہاں آج تک حقیقتوں کو مسخ کرکے پیش کئے جا رہے ہیں! جن ’’دانش وروں‘‘ نے پوری زندگی کسی بنگلہ دیشی سے مکالمہ کیا نہ وہاں گئے نہ وہاں کی تاریخ سے آگاہی حاصل کی، وہ ہندوئوں کی کارستانی اور سازش پر لیکچر دیتے نظر آتے ہیں۔ اس دست قدرت کی قسم جس نے خلیج بنگال کے ساحلوں کی ریت کو سونے سے زیادہ چمکدار بنایا اور جس نے مشرقی بنگال کو آج بھی مغربی بنگال سے الگ پاکستان کے مسلمان ہندوئوں کے اثر میں تھے۔ اس سے بدتر ہذیان کوئی نہیں کہ مشرقی پاکستانی محب وطن نہیں تھے اور علیحدگی چاہتے تھے۔ ان کی حالت تو وہ تھی جو حافظ شیرازی نے بیان کی ہے ؎
درمیانِ قعرِ دریا تختہ بندم کردہ ای
باز می گوئی کہ دامن ترمکن ہشیار باش
دریا کی لہروں کے درمیان باندھ کر پھینک دیا اور اب یہ مطالبہ ہے کہ دامن تک گیلا نہ ہو۔
مشرقی پاکستانیوں نے ہندوئوں کے زیر اثر ہونا ہوتا تو وہاں کے سو فیصد مسلمان قیام پاکستان کے حامی کیوں ہوتے؟ وہاں تو پاکستان کی مخالفت کرنے والی کوئی ایک جماعت بھی وجود میں نہ آئی۔ احرار نہ خاکسار، نہ جمعیت علما ہند، مہاجرین آئے تو مشرقی پاکستانیوں نے ان کے لئے یوں بازو وا کئے کہ مغربی پاکستان میں اس سپردگی اور وارفتگی کا تصور تک محال تھا۔ ریلوے اور پوسٹ آفس کے پورے محکمے مہاجرین کے تصرف میں آگئے۔
مشرقی پاکستانیوں کے اس اعتراض کا جواب اس وقت تھا نہ آج ہے کہ جب دس دس سال مارشل لا رہنا ہے تو بنگالی جو آبادی کا چھپن فیصد ہیں،کبھی بھی سربراہ مملکت نہیں بن سکتے۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا کہ برطانوی استعمار کے خلاف مدافعت اور مزاحمت کہاں کہاں ہوئی؟ تین علاقے تھے جو انگریزوں سے لڑے۔ بنگال، یوپی، اور سندھ۔ ان علاقوں کے باشندوں کو فوج کیلئے ’’ان فٹ‘‘ قرار دیاگیا اور جہاں جہاں ٹوڈیوں اور غداروں کی کثرت تھی وہاں سے خوب خوب بھرتیاں کی گئیں۔
بلندی پر کھڑے بھیڑیے نے میمنے سے کہا کہ تم دریا کا پانی گندا کر رہے ہو، جب میمنے نے جواب دیا کہ جہاں پناہ! پانی تو آپ کی طرف سے آرہا ہے، میں تو نشیب میں کھڑا ہوں، تو بھیڑیےنے میمنے کو گستاخانہ جواب کی جو سزا دی وہ پوری دنیا کو معلوم ہے! پہلے تو آپ نے کمال ’’حکمت‘‘ اور ’’دانائی‘‘سے ون یونٹ بنایا اور مشرقی پاکستانیوں کی اکثریت کو نام نہاد برابری کی نذر کردیا۔پھر آپ نے قومی انتخابات کے نتائج ماننے سے اس لئے انکار کردیا کہ ان کی حکومت نہ بنے۔ تو کیا آپ یہ توقع کر رہے تھے کہ آپ الیکشن کے نتائج کو تسلیم نہیں کریں گے، ان کی واضح اکثریت کو حکومت بنانے کا حق نہیں دیں گے، اسمبلی میں جانے والوں کی ٹانگیں توڑ دیں گے۔ اور بنگالی آمنا و صدقنا کہہ کر سینے پر ہاتھ رکھ کر جھک جائیں گے؟ اور کہیں گے جو آپ چاہیں مہاراج؟؟انہوں نےایسا نہ کیا۔ اپنا حق مانگا۔ آپ کے پاس دلیل کوئی نہیں تھی۔ آسان ترین جواب یہ تھا کہ تم ہندوئوں کے زیر اثر ہو۔تم دشمن کے ایجنٹ ہو، تم محب وطن نہیں ہو! اور آج 43 برس بعد بھی آپ یہی رٹا رٹایا آموختہ دہرائے جا رہے ہیں!
مکافات عمل بھی کیا کیا رنگ دکھاتی ہے! کل جنہیں مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کا عام لائسنس دیا گیا تھا، ان کے مونہہ کو خون کی ایسی چاٹ لگی ہے کہ وہ آج باقی پاکستان میں مسائل کا حل جمہوریت کو نہیں ’’قتال‘‘ کو قرار دے رہے ہیں! کل بنگالیوں کواس لئے حکومت نہیں کرنے دی گئی کہ وہ صرف ایک صوبے میں جیتے تھے۔ آج جس پارٹی کی حکومت ہے وہ ایک صوبے میں نہیں، ایک صوبے کی وسطی بیلٹ میں جیتی ہے لیکن حکومت پورے ملک پر کررہی ہے، کل چٹاگانگ سے لے کر بوگرہ اور راجشاہی تک سینکڑوں شہروں اور قریوں میں جیتنے والے قابل قبول نہیں تھے! آج پورے ملک پر ایک شہر کا راج ہے۔ ایک مخصوص برادری چھائی ہوئی ہے، ایک خاندان سارے فیصلے کر رہا ہے! آج اس ملک کے تنزل کا یہ عالم ہے کہ بیس کروڑ کی آبادی میں وزیر خارجہ نہیں مل رہا۔ سو، مجبوراً وزارت خارجہ کا بوجھ ایک صوبائی حاکم اعلیٰ کے کندھوں پر پڑ گیا ہے!
یہ کالم اس لِنک سے لیا گیا ہے۔
“