تارڑصاحب کی راکھ پڑھے کچھ ہی دن بیتے تھے اور جوتوں پرسے ابھی میانی صاحب کی دھول نہیں اتری تھی کہ میں گلبرگ کے مسیحی قبرستان کا مسافرہوا۔ وہاں ایک تین زبانوں میں لکھے کتبے کی تلاش تھی جن میں سے ایک مہاراجہ رنجیت سنگھ کی درباری زبان فارسی تھی۔
ابھی موبائل فون صرف بات کرنے یا سانپ والا گیم کھیلنے کے کام آتے تھے اوران میں کیمرےکا رواج نہیں تھا۔ ہاتھ میں کاغذ قلم پکڑے جب میں نےمہاراجہ رنجیت سنگھ کی پوتی شہزادی بمباسدرلینڈ کی قبرکا دریافت کیا تو قبرستان کے سٹاف نے ایک آؤبھگت کے اندازمیں مطلوبہ کتبے تک پہنچا دیا۔
کتبے کی لمبی عبارت کو حرف بہ حرف نقل کرنے میں کچھ وقت لگا
یارب تو مرا توبہ دہ و عذر پذیر
اے توبہ دہ و عذر پذیر ہمہ کس
پتھرکی سل پردرج فارسی قطعات کا آخری شعرنقل کرلینے کے بعد کچھ دائیں بائیں کے کتبوں پر نگاہ دوڑائی تو کچھ فاصلے پر ایک اورکتبے نے اپنی طرف کھینچ لیا۔
نام تھا منظورمسیح شہید۔ لفظ شہید تو بذعم خود ایک اعزازہے جو صاحب مزارکی کہانی کھوجنے پر اکساتاہے۔ یہاں کہانی بہت مختصر تھی۔
منظورمسیح کو توہین رسالت کے جھوٹے مقدمے میں ملوث کرکے سیشن کورٹ کے احاطے میں جب وہ پیشی سے پلٹ رہاتھا گولیوں سے چھلنی کرکے شہید کردیا گیا تھا۔
میں ابھی یہ الفاظ لکھ ہی رہاتھا کہ قبرستان کا آؤبھگت والاسٹاف آنکھوں میں کسی نامعلوم اندیشے کی درشتی لیے ایک جست بھرکرمجھ تک پہنچا اور مخاطب ہواکہ کیا میں کوئی صحافی ہوں اور کس اخبارسے میراتعلق ہے
کسی جواب کا انتظارکیے بغیرمجھ سے قبرستان سے چلے جانے کی درخواست کی۔
گلبرگ کے کرسچین گریویارڈ میں ایک مسیحی کتبہ یکایک غیرمحفوظ ہوگیاتھا کہ ایک مسلمان نے اسے پڑھ لیاتھا۔ توہین کے جھوٹےمقدمے میں نامزد (دو اورلوگ جو اس دن گولیوں سے جاں بحق ہونے سے بچ گئے تھے بعد میں بری ہوگئے تھے) ماورائےعدالت قتل ہونے والے بے گناہ کا مدفن غیروں کی نظرمیں آگیا تھا کہانی میں ابھی دو کتبے اور بھی ہیں۔
توہین کے اس مقدمے میں منظورمسیح کے ساتھ نامزد دوملزمان سلامت مسیح اور رحمت مسیح اس دن گوجرانوالہ کی سیشن کورٹ کے احاطے میں ہونے والی فائرنگ سے زخمی ہوئےتھے اور ’جہنم واصل‘ ہونے سے بچ گئے تھے۔ قریباً ایک سال بعد لاہورہائی کورٹ کے ایک بینچ نے انہیں ان الزامات سےبری قرار دےدیا
ملزمان کو بری کرنےوالے بینچ میں ایک جسٹس عارف اقبال بھٹی تھے۔ تین سال اور اسی کورٹ روم سے ایک سو گز کی دوری پر انہیں ایک شخص نےسرپرتین گولیاں مارکر توہین کے ملزموں کو بری کرنے کا خراج وصول کرلیا۔ پولیس کی فائلوں میں ایک نامعلوم اور ایک قبرستان میں ایک کتبے کا اضافہ ہوگیا۔
ہمارا تیسراکتبہ بھی لاہورمیں ہی ہے۔ میانی صاحب میں میجرشبیرشریف شہید نشان حیدرکےمدفن سے تھوڑا دور ایک مزارہے۔ عقیدہ ناموس رسالت کے عاشقان صاحب مزارکو بیک وقت غازی اور شہید کے القابات سے نوازتے ہیں۔
مرکزی لوح مزار ایک اونچے چبوترے پر ہے اوراندرونی دالان کی چوکور حد بندی پر لاتعداد قبریں ہیں جو اپنا تعلق دوسری اور تیسری پشت میں صاحب مزارسےجوڑتے ہیں۔ یہاں چادریں اورچڑھاوے چڑھتے ہیں، چندے کے بکس میں نذرانے ’اپنے ہاتھ سے‘ ڈالے جاتے ہیں اور آخراکتوبرکی ایک بھلی سی تاریخ کو میانوالی جیل سے پھانسی پانےوالےکاعرس دھوم دھام سےمنایا جاتاہے
ہمارےحکیم الامت نےفرط جذبات میں آکرکہاتھا وہ ترکھان کا بیٹا ہم پڑھےلکھوں سےبازی لےگیا
آپ سےجھوٹ کیوں بولیں ہم بھی جب پہلےپہل اس مزار پر آئے تھےتو ایک عقیدت کےعالم میں حاضرہوئےتھے۔
گلبرگ کےکرسچین گریویارڈسےلاہورہائی کورٹ کے بینچ اور وہاں سے میانی صاحب کےایک مزارکےسہرےتک ہمارے عشق، ناموس اور توہین کی داستان بکھری پڑی ہے
ہمارے اجتماعی بیانیےمیں آج بھی ماورائے عدالت قتل کرکے پھانسی چڑھنے والا سرخرو ہے اور اپنی بے گناہی کی لاش کاندھے پراٹھائے عدالت کے احاطے میں ناحق قتل ہونے والے کامردہ بھی غیر محفوظ۔
ڈاکٹر شہباز ملک پہلا پنجابی پی ایچ ڈی
ڈاکٹر شہباز ملک پنجابی زبان و ادب کی دنیا میں ایک مشہور و معروف نام ہیں۔ وہ پاکستان میں پنجابی...