(Last Updated On: )
آج ہی آئے تھے اس دنیا میں ناصر کاظمی
شہرِ انبالہ سے چمکی ایک ایسی روشنی
کردیا جس نے منور محفلِ شعر و سخن
زیبِ تاریخ ادب ہے اُن کا حُسنِ شاعری
سب کا منظورِ نظر ہے ان کا معیاری کلام
’’ قدرِ گوہر شاہ داند یا بداند جوہری‘
لوحِ دل پر ثبت ہیں اُن کے نقوشِ جاوداں
مٹ نہیں سکتے کبھی اُن کے سرودِ سرمدی
جب بھی سجتی ہے کہیں بھی محفلِ شعر و سخن
ہوتی ہے محسوس سب کو ہر جگہ ان کی کمی
ایک گنجِ شایگاں ہیں ان کے گلہائے سخن
کیوں نہ ہو مرہونِ منت اُن کی اردو شاعری
آج طوطی بولتا ہے اُن کا ہند و پاک میں
کرتی ہے گرویدہ جس کا سب کو برقی نغمگی