اتنی عجیب بات اس سے پہلے کبھی نہیں سنی گئی تھی جتنی ایم کیو ایم کا یہ فلسفہ بیان کرتا ہے کہ "ہمیں منزل نہیں رہنما چاہیے"۔ یہ اسی لطیفے کی مانند ہے جس میں کبھی ایک زمانے میں نشتر میڈیکل کالج کے سیماب صفت طالبعلم سیاستدان احسان باری کا ذکر کیا جاتا تھا کہ رات کو دیوار پہ خود لکھ رہا ہوتا تھا "احسان باری کو رہا کرو" اور کبھی جو شاید باری کے معاملے کی مانند قرین قیاس حد تک سچ نہیں بلکہ واقعی لطیفہ ہے پاکستان کے ایک سابق شریف الطبع صدر کا نام لیا جاتا تھا کہ وہ میاں احسان باری والی حرکت کرتے پائے گئے تھے۔ یہ نعرہ جسے ایم کیو والے فلسفہ کہتے ہیں، الطاف بھائی کے ہی ذہن کی اختراع ہوگی۔ منزل چاہے کہنے کو نہ ہو لیکن طبعی اصولوں کے مطابق منزل تو ہوا ہی کرتی ہے، اگر اس سے پہلے رہنما نہ رہے یا چھن جائے (برطانیہ کو شاید روکا جا سکتا ہو پر مشیت ایزدی کو روکنے والا تو کوئی بھی نہیں ہے) تو لوگ کیا صبر کر لیں گے کیونکہ ان کو تو منزل چاہیے ہی نہیں تھی۔ جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ یہ الطاف بھائی کا دیا ہوا نعرہ یا فلسفہ ہے چونکہ وہ تو اپنی منزل کب کی پا چکے ہیں البتہ انہیں رہنما بنے رہنا تا حیات درکار ہوگا۔
الطاف حسین باکمال سیاستدان اور زبردست رہنما ہیں لیکن کبھی کبھار بادی النظر میں ایسا لگنے لگتا ہے کہ ان میں اپنے زبردست ہونے یا اپنی زبردستی کے کارگر ہونے پر سے عارضی طور پر اعتماد کا فقدان پیدا ہو جاتا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ وہ کئی بار تحریک کی قیادت سے دستکش ہونے کا اعلان کرتے ہیں مگر اعلان کے فضا میں گونجنےکے ساتھ ہی ان کے بندیوں کی آہ و بکا اور داد و فریاد کا غلغلہ بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔ یہ نالہ و شیون سنتے ہی الطاف حسین کو اپنی قدرت کا پھر سے یقین ہو جاتا ہے اور وہ جھٹ سے قیادت کی چھوڑی ہوئی ڈور کو جو ان سے ابھی چند ملی میٹر بھی آگے نہ سرک سکی ہو پھر سے مضبوطی سے تھام لیتے ہیں۔
موصوف گذشتہ 21 برس سے لندن میں مقیم ہیں اور کراچی پہ ان کی قدرت کی ڈور ٹیلی فون کے تار کے ساتھ بندھی ہوئی ہے جو اتنی مضبوط ہے کہ عامر حان اور آفاق احمد اس کو توڑنے کی سعی میں اپنی ہتھیلیاں چھلوانے سے زیادہ کچھ بھی نہ کر سکے۔ عامر خان کو گھٹنیوں کہنیوں کے بل پھر سے نائن زیرو تک پہنچ کے ناک رگڑنے پر معافی مل گئی لیکن آفاق احمد آج بھی کسی نہ کسی حوالے سے معتوب ہے۔
اللہ معاف کرے الطاف حسین کو ہٹلر و مسولینی سے تشبیہہ دینے کا میرا کوئی ارادہ نہیں ہے تاہم اتنا ضرور ہے کہ ان دونوں کو ناک چنے چبوانے کی خاطر امریکہ، برطانیہ ، روس،فرانس کے علاوہ دسیوں مزید ملکوں کو اکٹھا ہونا پڑا تھا۔ لاکھوں نہیں کروڑوں لوگ مروانے پڑے تھے اگرچہ جرمنی اور اٹلی کے بھی لاکھوں لوگ حب الہٹلر اور حب المسولینی میں مارے گئے تھے کیونکہ ان بیچاروں کو بھی منزل درکار نہیں تھی بلکہ رہنما کی چاہ تھی۔ ایک کو غالبا" خود کشی کرنی پڑی تھی اور دوسرے کو مار کر میلان میں ایسو کے پٹرول پمپ پہ اپنی 24 سالہ محبوبہ سمیت الٹا لٹکا دیا گیا تھا، جہاں ان کی لاشین تین دن تک لٹکتی رہی تھیں۔ معاملہ ان فسطائی رہنماؤن کی قدرت اور پھر عبرت ناک اموات کا نہیں بلکہ ان کے بعد بچ جانے والے "منزل نہیں رہنما چاہیے" کہنے والے ساتھیوں کا زیادہ اہم تھا، جن میں سے بیشتر تو تحریری طور پر اس "فلسفے" سے تائب ہو گئے تھے لیکن بہت سوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر سزائیں دی گئی تھیں۔ ایک دو کو تو ڈھونڈے اور سزائیں دیے گئے کچھ زیادہ عرصہ نہیں بیتا۔
منزل سیاست میں لامحالہ ہوتی ہے کیونکہ اسکے بغیر کوئی دیوانہ ہی ہوگا یا پھر عاشق جو کسی مخصوص سیاست دان کے پیچھے لگ جائے، اسی لیے ایم کیو ایم بھی خود کو حق پرست کہتی ہے اور حق وہ اسی کو جانتے ہیں جس کو کہ وہ برحق مانتے ہیں۔ سچ ہی تو ہے کہ سچ کا کوئی وجود نہین ہر ایک کا اپنا اپنا سچ ہوتا ہے جسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ حق کا کوئی وجود نہیں ہر کوئی اپنے حساب سے حق چن لیتا ہے۔
سرگوشیاں اور اشارے تو کب سے ہو رہے تھے لیکن خدا بھلا کرے رحمٰن ملک کا جنہوں نے مفاہمت کی وجہ سے جہاں تک ممکن ہوا سچ کو عیاں کرنے سے روکے رکھا تھا۔ اب وہ جو انگریزی زبان میں کہا جاتا ہے کہ گھوڑا خود ہی ہنہنا دیا، الطاف حسین نے سارا بھانڈا اپنے ہی ہاتھوں سربازار پھوڑ دیا۔ مرتے کیا نہ کرتے، چارہ ہی نہیں ہے، برطانیہ سرکار بھی تلی بیٹھی ہے کہ ڈاکٹر عمران فاروق کے قتل کا معمہ حل کرکے چھوڑے گی۔ الطاف حسین کے گھر پہ چھاپہ مارا تو چھتے سے شہد کے ساتھ ساتھ موم بھی مل گیا۔ کچھ اور بھی جھنجھٹ شروع ہو گئے،۔ سیاہ دولت کو سفید کرنے اور بہت سی جائیدادوں کی قیمت کا کہ کون سے وسائل سے دی گئی۔
رہنما تا حال موجود ہے لیکن لگتا ہے کہ ایم کیو ایم والے منزل سے فی الواقعی محروم ہونے والے ہیں۔ بکری نے اپنے بچے کو درست ہی کہا تھا کہ ہر پتے کو اپنے بول سے تر مت کر، کل کھانے پڑ سکتے ہیں۔ اب منزل کے بغیر اور بغیر رہنما کے کیا ہوگا، کچھ زیادہ دیر تک سوچنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔