ننگے پنڈے مینوں چمکن مارے، میرے روندے نیں نین نمانے
جنیاں تن میرے تے لگیاں،تینوںاک لگے تے توں جانے
انسا ن کبھی ایسے مقامات سے بھی گزرتا ہے جب جسم کا ریشہ ریشہ الگ ہو کر خلا میں اڑتا ہے اور وحدت ریزہ ریزہ ہوکر فضاٶں میں بکھر جاتی ہے مگر انسان بے بسی کی تصویر بنا اپنے آپ کو ہوا میں اڑتے ،بکھرتے دیکھتا رہتا ہے اور کچھ بھی نہیں کر پاتا ،جڑنے کا عمل شروع ہوتا ہے تو کسی لمحہ پھر ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے کبھی کم ذرے بکھرتے ہیں اور کبھی زیادہ مگر یہ عمل ہمیشہ قاٸم رہتا ہے،جیسے رضاٸیاں بھرنے کے لیۓ روئی دھنکی جاتی تھی مگر اب وکی رضائی اور کمبل کا دورہے کسے پتہ ہوگا کہ پینجا کیا ہوتا تھا رضاٸ کیسے بنتی تھی ،ہمارے بچپن میں والدہ سردیوں کی آمد سے قبل گرمیوں میں سردیوں کی تیاری شروع کر دیتی ،غلاف سیٸا جاتا پھر روٸ کو ایک خاص دکان جسے پینجا کہتے تھے وہاں بھیجا جاتاجہاں اکڑی ہوئی روئی کے کس بل نکالے جاتےاور اچھی طرح کھڑکایا جاتا کہ ہر ذرہ الگ الگ ہو کر نرمی اختیار کر لے،پھر اس نرم کردہ روئی کو ایک کپڑے میں بھر کر لحاف تیار کر کے پھر بھری دوپہر میں جلنے کو رکھ دیا جاتا اور خاص قسم کے ٹانکے لگا کر روٸ کو خاص جگہ پر فٹ کیا جاتا ،وہ وقت ہمارا پسندیدہ وقت ہوتا جب نرم نرم بھری ہوٸ رضاٸیوں پر ہمیں چھپ چھپا کر چھلانگیں لگانے کا موقع مل جاتا اور سردیوں کے لیۓ تیار کردہ لحاف منٹوں میں ٹوٹ جاتے اور پھر خوب شامت آتی،یہی حال انسان کا بھی ہےدنیا کی مشین میں کسی نہ کسی طرح دھنکا جانا مقدر ہے مگر سب کے ساتھ ایسا نہیں ہوتا جو جتنی زیادہ رشوت دے جتنا قرب اختیار کرۓ اتنے ہی پرزے اڑتے ہیں
جیسے غالب کہتے ہیں
تھی خبر گرم کہ غالب کے اڑیں گے پرزے
دیکھنے ہم بھی گیۓ تھ پہ تماشہ نہ ہوا
کبھی تماشہ سر عام لگ جاتا ہے اور کبھی بھیتر ہی بھیتر دھنکاٸ کا عمل جاری رہتا ہے بس دنیا میں کمال یہی حاصل ہوتا ہے کہ اتنی محنت سے بننے والا لحاف کسی کی سرد راتوں کو گرم اور پر سکون بنا سکے اور کسی کی خوشی کا سبب بن سکے اور محض بچوں کی کھیل ہی کھیل میں چھلانگوں کا شکار ہو کر تکمیل کے مراحل پر پہنچنے سے پہلے ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہونے سے محفوظ رہے ،کیونکہ یہی منتہاۓ منزل ہے