یوتھ یا ملک کا "نوجوان " ۔۔ جو 16 سے 34 سال کی عمرکے طبقے کو سمجھا جاتا ہے۔۔۔ وہ ہے جو پہلے ہی ملک کے تاریخی"حقایقؑ" سے بے خبر ہے اور اسی سوشل اسٹدی کو تاریخ سمجھتا ہے جس میں سچ اب اتنا ہی رہ گیا ہے جتنا آٹے میں نمک۔تمام اصل واقعات حزف کردےؑ گےؑ ہیں یا اسی نقطہؑ نظر سے لکھواےؑ گےؑ ہیں جو سرکاری ہے۔۔مگر سچ نہیں ہے۔۔ کراچی میں "قاید اعظم اکیڈیمی" کو قایم ہوےؑ شاید 50 سال یا زیادہ ہوگےؑ۔ مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ 1958 میں جنرل ایوب خان کے جاری کردہ آرڈیننس میں قایؑد اعظم پرریسرچ اور پی ایچ ڈی کرنے کی اجازت نہیں۔۔حال ہی میں اکیڈیمی سے شایعؑ ہونے والی فاطمہ جناح کی کتاب"جناح مایؑ برادر" میں سے بہت سا مواد نکال دیا گیا ہے۔ ایسی ہی صورت حال "اقبال اکیڈیمی" لاہور کی ہے۔آپ شاعر مشرق اور مفکر پاکستان پر ُی ایچ ڈی کی نہیں کر سکتے۔۔ کیونکہ آپ کو حقیقت تک رسایؑ اور اس کی اشاعت کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔8 کروڑ"نوجوان" جو ہمارا مستقبل ہیں، جب جھوٹ کو ہی سچ مان لیں گےتو میری آپ کی کیوں سنیں گے جو حقیقت سے با خبر ہیں ۔
عملی سیاست میں یہی نوجوان اہم کردار ادا کرتے ہیں نعرے بازی۔۔ احتجاج۔۔جلسے جلوس میں ڈانس اور دھرنے میں شراکت۔۔(ان کوحریفوں سے یوتھیے کا خطاب بھی مل گیا ہے)۔۔۔50 سال والا ذہنی طور پر میچور مگر جسمانی طور پراتنا ایکٹو نہیں رہتا ۔۔۔۔60 سےاوپر والے سب پر"پچھلی نسل" کا لیبل چسپاں ہے ۔۔میری عمر کے تو" بابے" ہیں جو ضرورت سے زیادہ دانشمند بنتے ہیں مگر خبطی ہیں جو بہت پڑھنے والا بھی ہوجاتا ہے۔ بات صرف یہ ہے کے مستقبل میں عنان حکومت اپنے ہاتھ میں رکھنےوالے انہی حقائیق سے بے خبراور صرف سرکاری معلومات رکھنے والے نوجوانوں کو اپنی طاقت بنانا چاہتے ہیں ۔۔ دانشوریا لبرل کو فتنہ پرور۔دہریہ اور کافر تک کہا جانے لگا ہے۔۔ یہ "بوکو حرام"تحریک کا راستہ ہے
بے مقصد و بے مصرف علم کو کس طرح مہنگا کیا جارہا ہے یہ ہر شہر کے باسی جانتے ہیں ۔ راقم .. یہ بندہؑ ناچیز رہایشی ا ملک کے دارالخلافہ اسلام آباد کا باسی ہے۔جہاں عالی جاہ عقاب نگاہ چیف جسٹس ۔صدر مملکت وزیر اعظم اور سب سے بڑھ کر یہ کہ سپہ سالاربقلم خود تشریف رکھتے ہیں ۔ مگر مجھےدیگرحقیر کمتراورگھٹیا شہروں کے احوال کا احوال معلوم ہے ۔ ۔بات 25-30 سال یا زیادہ پرانی ہویؑ ئنیسکو کی ایک رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں سب سے منافع بخش کاروبار تعلیم اور صحت کے شعبے میں ہے ۔ حقیقی اعلیٰ تعلیم اور شافی علاج کو خواص تک محدود ہوےؑ زمانہ ہوا ۔ تعلیم اور تہزیب کی باگ ڈور مغرب کی طرف موڑ دی گیؑ تو از خود علم نے منافع بخش کاروبار کی شکل اختیار کرلی ۔ یہاں انہی با اثر افراد کی اگلی نسل پروان چڑھنے لگی جن کو اج چورڈاکو کرپٹ بد عنوان وغیرہ کے خطابات سے نوازنے کے سوا عوام کچھ کر ہی نہیں سکتے۔غریب کے بچوں کا تعلیمی نظام نقل فری بنا دیا گیا۔۔ کتاب کھول کے لکھو موباییؑل فون پرابا سے مدد لو۔ اپنی جگہ کسی عالم فاضل کو بٹھا دو۔۔ گرہ میں مال ہو تو امتحان کے بعد بھی ایک سو ایک طریقے ہین سلیبس 50 سال ٌپرانا رکھا جاتا ہے۔ نمبر خریدنے کی حوصلہ افزایؑ کی جاتی ہے چنانچہ طلبا 95 اور 98 فی صد نمبر بھی لینے لگےہیں جو ممکن ہی نہیں۔۔۔آگے اتا ہے پروفیشنل کالجوں میں داخلے کا مسؑلہ چنانچہ بورڈ کے نتیجے پرکسی اخلاقی یا قانونی جواز کے بغیر خط تنسیخ پھیر کے دوسرا امتحان لینے کا ٹھیکہ "نیشنل ٹسٹنگ سروس" کو دے دیا گیا جس کی آجکل فیس 700 روپے ہے۔یہاں بھی رشوت چلی اور انجام کار اس ادارے میں بھی کروڑوں اربوں کا غبن ہوا۔۔ اس امتحان نمبر دو کے بعد بھی کالج یونیورسٹی میں سب کی جگہ نہ بنی تو مزید چھانٹی کیلۓ سب اداروں نے اپنا امتحان نمبر تین رایج کیا ۔میٹرک انٹر کے پوزیشن ہولڈر کہیں کے نہ رہے۔۔ آخری پسندیدہ چھانٹی چوتھے امتحان یعنی انٹر ویو میں ہوتی ہے جہاں سفارش،،باپ کا عہدہ۔۔ سوشل اسٹیٹس بنک اکاونٹ وغیرہ ہی دیکھے جاتے ہیں۔۔ کیا مجھے فخر کرنا چاہےؑ کہ اس سال میری دو پوتیاں ان چاروں مرحلوں سے کامراں گذریں۔یعنی اب وہ بھی ایم اے اور پی ایچ ڈی کی لا حاصل دوڑ میں سینکڑوں کے ساتھ ہیں
کس درجہ شرم کا مقام ہے کہ اب ہماری ہر یونیورسٹی کی دی ہویؑ اعلیٰ ترین ڈگری یہاں تک کہ میری 50 سال پرانی ڈگری بھی جعلی ہے۔جب تک اس کی تصدیق ہایؑر ایجوکیشن کمیشن نہ کرے۔پی ایچ ڈی نام کے ساتھ لگانے والے یہاں عام ہیں ہریونیورسٹی میں جہاں یہ ڈگریاں تیار ہوتی ہیں۔۔علم فروش اساتذہ کی بھرمار ہے۔۔لنکا میں جو ہے سو باون گز کا۔۔اس محاورے کا مطلب اب سمجھ میں ایا۔۔ڈاکٹریٹ کرنے کا آسان راستہ بتانے والے تو ڈاکٹر عامر لیاقت ہی تھے۔۔دوسرے بابر اعوان وکیل سپریم کورٹ بابر۔ ستم ظریفی دیکھےؑ کہ دونوٹی وی پر اسلام کا درس بھی دیتے رہے۔۔ہا ہا ہا۔۔۔ نوبت بہ ایں جا رسید کہ ایک انٹر پاس بلند ہمت نوجواں نے پی ایچ ڈی کی دکان کھول لی اور ایکسپورٹ کرنے لگا۔یہ ایسا منافع بخش دھندا بنا کہ اس نے کروڑوں کماےؑ اور اپنا "بول" ٹی وی چینل کھول لیا اور ہر مقبول اینکر کو بھاری معاوضے پر خرید لیا۔یہ ۔سنا کہ یہ چینل دیکھنا کینٹ ایریا میں لازم قرار دیا گیا۔۔۔ اب ڈاکٹریٹ بکتی ہے۔ مجھ ناچیز کی کیا اوقات مگر مجھ پر 3 پی ایچ ڈی کر چکےہیں۔ ایک خاتون شاعرہ کی پہلی کتاب دو ماہ پہلے آیؑ ہے یہاں اس پر ڈاکٹریٹ ہو رہی ہے۔مجھے یقین ہے کہ"فومانچو کی واپسی" یا "سلیمانی صندوق کا راز" جیسے پراسرار ناولوں پربھی کویؑ ڈاکٹریٹ مل چکی ہوگی
شاید آپ پر یہ راز کھل جاےؑ کہ اس پی ایچ ڈی بزنس کو فروغ دے کرعلم کی آبرو خاک میں ملانے والی قوت کون سی تھی جس کو تعلیم کے عام اور معیاری ہونے میں خطرہ محسوس ہوتا تھا۔ جو 1949 میں بھی دانشور سے خوف کھاتی تھی ۔30 سال بعد جب مجلس شوریٰ۔نظام صلوٰۃ۔۔سپاہ صحابہ اور جیش محمدﷺ کا دور پر نور آیا اور گنہگاروں کو سرعام کوڑے مارے گےؑ تو یہ سارے دانشوراز قسم فیض۔ احفاظ الرحمن اور ندیم وغیرہ ضان و ابرو بچاکے جلا وطنی کاٹتے رہے۔اب خبر گرم ہے کہ بڑی سرکار نے دس نامی گرامی صحافیوں کو "مدعو" کیا تھا جہاں ان کو سمجھا دیا گیا کہ"اییؑن جواں مرداں حق گویؑ و بے باکی" جیسے باغیانہ اشعار بھی کلام اقبال سے نکالے جارہے یں چنانچہ اپنی حد بھی جان لو۔چینل کے مالکان پر واضح کردیا گیا ہے کہ ازادی اظہار یا نشریات کی بندش میں سے ایک قبول کرلے
یہ سب 70 سال سے ایک عمل پیہم کے طور پر کیوں ہورہا ہے؟ جواب آپ نوشتہ دیوار کی طرح دیکھ سکتے ہیں۔۔حکمرانوں کو "پڑھی لکھی جاہل" جنریشن سوٹ کرتی تہے جس پر حکومت آسان ہو۔ بالاخر وہ آج کے نوجوان ہی ہوں گے۔بے علم پی ایچ ڈی ۔ بے خبرصحافی۔۔ دین کی روح سے نا آشنا عالم ۔۔منتشر مزاج۔۔ نفرتوں کے مریض عوام
ہم پاکستانی قوم
اسماء صبا خواج کا افسانہ مایوسی فنی و فکری مطالعہ
اسماء صبا خواج کا تعلق لکھیم پور کھیری ہندوستان سے ہے، اردو کی ممتاز لکھاری ہیں، آپ کا افسانہ ''مایوسی"...