(Last Updated On: )
عجب خونچکاں کربلا کا سماں تھا
تھے سب تشنہ لب اور دریا رواں تھا
مصیبت کے ماروں کا اک کارواں تھا
ہر اک غمزدہ بوڑھا ، بچہ ، جواں تھا
تھا اک عالمِ حشر ہر سمت گویا
تھا بدحال ہر شخص جو بھی جہاں تھا
سسکتے تھے بچے بلکتی تھیں مائیں
جوانسال بھی پیاس سے ناتواں تھا
ستم آج بھی اس کا وردِ زباں ہے
یزیدِ لعیں جو وہان حکمراں تھا
تھا خیموں میں کہرام جو جل رہے تھے
ہر ایک سمت جیسے دھواں ہی دھواں تھا
ہوا کربلا میں جو قربان برقی
حسین ابنِ حیدر کا وہ خانداں تھا