منظرکو باہر سے دیکھنا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے ایک صحافی دوست ہیں۔ بلا کے سیماب صفت، ٹھیراﺅ ان کی طبیعت میں نام کا نہیں۔ہر وقت تیزی سے حرکت کرتے، اِدھر سے ادھر جاتے نظر آئیں گے۔ موٹر سائیکل نہایت تیز چلائیں گے، اگرکوئی پیچھے بیٹھ گیا تو اترتے ہی کانوں کو ہاتھ لگائے گا کہ آئندہ یہ غلطی نہیں دہرانی۔بعض لوگوںمیں خون کی جگہ شائد پارہ دوڑتا ہے یا پھرمزاج ہی ایسا کہ وہ ہر وقت مضطرب، بے چین سے نظر آتے ہیں۔ چند منٹ انتظار کرنا انہیں ناگوار گزرتا ہے۔ کہیں پر بیٹھنا پڑ گیا تو انگلیوں سے میز پر طبلہ بجانا شروع کر دیں گے یا پاس رکھی کسی چیز سے چھیڑ چھاڑ۔ہمارے دوست بھی ایسی کینڈے کے تھے۔خاصے وقفے کے بعد ایک روز انہی دوست سے ملاقات ہوئی توانداز میں واضح تبدیلی محسوس ہوئی۔ سکون سے بیٹھ کر بات چیت کرتے رہے۔ اضطراب ، ہیجانی کیفیت مفقود تھی۔ کچھ دیر تک ہم بھی دیکھتے رہے ، پھر رہا نہ گیا۔ پوچھ لیا کہ خیریت ہے، طبیعت تو خراب نہیں۔ انہوںنے بڑے پرسکون انداز میں کہا، الحمداللہ سب خیریت ہے۔ پوچھا کہ آپ میں اچانک اتنا ٹھیراﺅ کیسے آ گیا؟وہ پہلے والی بے تابی، عجلت، تلون مزاجی کہاں گئی ؟ اس پر وہ کھل کر ہنسے اور پھر مختصر سا واقعہ سنایا۔کہنے لگے،” آپ کو معلوم ہے، میرے پاس موٹر سائیکل ہے، اسی پر دفتر جانا ہوتا ہے۔ ایک روز دفترجانے سے پہلے بائیک خراب ہوئی، بڑی کوشش کی مگر وہ سٹارٹ ہی نہیں ہوئی۔ تنگ آ کر میں نے سوچا کہ آج بس پر چلا جاتا ہوں۔بس سٹاپ گھر سے دور تھا،مگر خیال آیا کہ چلیں اس بہانے کچھ پیدل چل لیا جائے۔ گھر سے خراماں خراماں سٹاپ کی طرف روانہ ہوا۔ چند ہی لمحوں میں اندازہ ہوا کہ اردگرد کی دنیا بدلی سی لگ رہی ہے۔ دائیں بائیں دیکھا تو منظر بالکل اجنبی لگ رہے تھے۔ دس پندرہ منٹ کا پیدل سفر میری زندگی میں تبدیلی کا باعث بنا۔ میں نے محسوس کیا کہ موٹر سائیکل تیزی سے چلاتے ہوئے میں یہ تمام مناظر مس کر دیتا تھا۔ سڑک کے درمیان لگی گرین بیلٹ، وہاں کھلے دلنشیں پھول،سکول بیگ کمر پر لٹکائے چھوٹی چھوٹی شرارتوں میں مگن بچے، ٹفن لٹکائے دفتر جاتے ملازمین، پیدل چلتے لوگ، دائیں بائیں موجودشاندار عمارتیں،ہرایک کے باہر کھڑے مستعد گارڈز، طرح طرح کے ماڈل اور کمپنیوں والی گاڑیاں۔سٹاپ پرچار پانچ منٹ بس کا انتظار کرنا پڑا۔ وہاں بھی مشاہدہ کرتا رہا۔ اپنی پوری زندگی میں کبھی گاڑیوں پر فوکس ہی نہیں کیا تھا۔ اس روز غور سے دیکھا تو اندازہ ہوا کہ ہر گاڑی ایک دوسرے سے تو مختلف ہے ہی، مگر انسانوں کی طرح ان کی اپنی اپنی شخصیت ہے۔کسی کی ساخت، سٹائل سے نخوت جھلک رہی تو بعض گاڑیاں خاندانی شرفا جیسا وقار ملحوظ خاطر رکھے ہوئے، کسی میں نودولتیوں والا مصنوعی پن تو کہیں پرنزاکت آمیز حسن، کسی گاڑی کو دیکھنے سے پتہ چل رہا تھا کہ اسے اپنی پائیداری اور اس حوالے سے پزیرائی پر فخر ہے۔ یہ سب کچھ عجیب، بہت عجیب لگا۔ یوں لگا جیسے دنیا کو پہلی بار دیکھ رہا ہوں۔بس میں بیٹھ کرباہر کے نظارے غور سے دیکھتا رہا۔ سفر بہت مختلف ، منفرد اور دلچسپ لگا۔ اس دن دفتر جا کر بھی اسی معاملے پر سوچتا رہا۔مجھے سمجھ آ گئی تھی کہ عرصے بعد یا شائد زندگی میں پہلی بار منظر کا حصہ بنے بغیر باہر سے اس کا مشاہدہ کیا تو یہ نئے تجربات حاصل ہوئے ۔ اس روزکے بعد فیصلہ کر لیا کہ ہیجان اور اضطراب سے بھری زندگی کو تبدیل کرنا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں بڑے مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ اب زیادہ اطمینان، آسودگی اور سکون محسوس کر رہا ہوں۔ مناظر کو باہر سے دیکھنے کی تکنیک استعمال کرنے سے مشاہدہ بہت تیز ہوا ہے۔بطور رپورٹر پہلی کچھ چیزیں نظرانداز ہوجاتی تھیں، اب توجہ چھوٹی چھوٹی جزئیات پر بھی رہتی ہے ، اس سے زیادہ بہتر، جامع رپورٹنگ کر رہا ہوں۔ “
دوست کا سنایا قصہ دلچسپی سے سنا، بات واقعی سچ ہے کہ آج کل ہم سب ہی نہایت تیز رفتار زندگی گزار رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے کسی طوفانی رفتار سے چلنے والی رولر کوسٹر میں بیٹھے ہیں، اچانک ہی زبردست دھچکا لگا اور لوگ اچھل کر آگے کی طرف ہوگئے، پھر یکا یک وہ الٹ سی گئی، لوگ پیچھے چلے گئے، اتار چڑھاﺅ اور اس تیزی سے تبدیلی کہ آدمی کو سوچنے ، سمجھنے کا وقت ہی نہ مل پائے۔ وقت کے طوفانی رولر کوسٹر سے اترنا محال ہے ، کسی کو یہ خیال ہی نہیں آتا۔ ہم میں سے بیشتر منظر کا حصہ بنے آگے کی طرف بگٹٹ دوڑے چلے جاتے ہیں۔ٹھٹھک کر کچھ دیر ٹھیرنے، سوچنے، سمجھنے اور اردگرد کے حالات کا جائزہ لینے کی فرصت نہیں۔نقصان اس کا یہ ہے کہ ہم بہت سے دلچسپ، حقیقی مشاہدات سے محروم ہوجاتے ہیں۔ وقت ہمارے قابو میں نہیں رہتا اور پھرنیا سال آنے اور تیزی سے گزر جانے کا علم بھی نہیں ہوتا۔ سال کے آخری دنوں میں خیال آتا ہے، اوہ یہ سال بھی گیا۔ اس کے ساتھ ہی سوچتے ہیں کہ اگلے سال سے کچھ نیا، اچھا کریں گے۔ پھر نیو ائیر ریزولوشن بنائے جاتے ہیں،ڈائری خریدی، اندراج کئے جاتے ہیں۔ کچھ ہی دنوں میں کونسے نیو ائیر ریزولوشن اور بھائی صاحب کہاں کی ڈائری ؟ ہمارے پاس اتنا وقت کہاں کہ ان فضولیات میں صرف کریں….۔
خود کو شعوری طور پر منظر سے باہر رکھ کر مشاہدہ کرنے کے ایک سے زیادہ فوائد ہیں۔ آپ وقت کے تیز رفتار ریلے کی جھپٹ سے باہر آ کر گزرتے واقعات، چیزوں کو دیکھ ، سمجھ اور جانچ سکتے ہیں۔ تب اندازہ ہوتا ہے کہ ہم کتنا کچھ فضول میں ضائع کر رہے ہیں اور زندگی کے بہت سے قیمتی پل زیادہ اہم چیزوں میں گزارے جا سکتے ہیں۔ ایسے کام جوروح کو سرشار کر دیں اور بعد میں ہماری یاداشت کا نہایت حسین حصہ بنے رہیں۔ اگرچہ اتنا فائدہ بھی کم نہیں،مگر ہمیں دوسرا بڑا ایڈوانٹیج یہ حاصل ہوتا ہے کہ باہر رہنے سے آپ کسی بھی شخص کے محسوسات،جذباتی کیفیات اور ردعمل کا زیادہ درست اندازہ کر سکتے ہیں۔ اپنے آپ کو اگر اس شخص کی پوزیشن میں رکھ کر سوچیں تو پھر بہت کچھ صاف اور واضح ہوجاتا ہے۔ ہمیں دوسروں کے شدید ردعمل، غصہ، نفرت، مسرت وغیرہ کی سمجھ آ جاتی ہے۔کہتے ہیں کہ اچھا استاد وہ ہے جو اچھاشاگرد بھی ہو۔ اس کے کئی مطلب ہو سکتے ہیں، وہ خود کو ایک طالب علم سمجھتا ہوں، نئی باتیں سیکھنے میں شرم نہ کرتا ہو، وغیرہ وغیرہ۔ ایک پہلو یہ بھی ہے کہ وہ خود کو شاگرد کی جگہ پر رکھ کر محسوس کرے اوراس کی مشکلات، مسائل اور جذباتی اتارچڑھاﺅ کا اندازہ کر سکے۔ تب ہی استاد کے لئے شاگرد کے فریم آف ریفرنس میں داخل ہو کر اس کے فریم آف مائنڈ کے مطابق پڑھانا ممکن ہوسکے گا۔یہ مثال ایک اچھے ٹیم لیڈر،بہترین مینجر ، لیڈر پر بھی صادق آتی ہے۔ فرد ، گروہ ، تنظیم، جماعت، ادارے، قوم ، ملک …. یہ سب مختلف مرحلے ہیں، بعض اصول ہر ایک پر کسی نہ کسی انداز میں منطبق ہوجاتے ہیں۔اچھے لیڈر کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ وہ عوام کے دکھ درد کو محسوس کرے، ان کا وہ حصہ نہ بھی ہو، مگر باہر رہ کر کبھی خود کو ان میں محسوس کرے۔ جس لیڈر کی انگلیاں عوام کی نبض پر ہوں، اسے ان کے دلوں کے دھڑکنے کی آواز سنائی دیتی ہو، وہ جو بھی کہہ دے وہ عوام کی زبان بن جاتی ہے۔من تو شدم ، تو من شدی والی بات سمجھ لیں۔خیر یہ تو لیڈروں کا معاملہ ہیں، ہماری
جیسی قوموں کے حصے میں لیڈر نہیں ، بازی گر، شعبدے باز اور کبھی تو صرف ٹھیکے دار ہی آتے ہیں۔گلی،محلے کے ٹھیکے لیتے لیتے وہ پورے پورے حلقے،گاﺅں، شہر اورکبھی تو داﺅ لگ جانے پر قوم ہی ٹھیکے پرلے لیتے ہیں۔ایسا ٹھیکہ جس کی مدت تکمیل ہی نہیں، نسل در نسل یہ آگے منتقل ہوتا رہتا ہے۔ خیر یہ توہماری جنم جنم کی جلی ، بھنی، سڑی کہانی ہے، اسے رہنے دیتے ہیں ۔آپ کو صرف یہ مشورہ کہ ہر وقت منظر کا حصہ بنے رہنے کے بجائے ، کبھی اس سے باہر ہو کر منظر دیکھنے کا تجربہ بھی کریں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔