’ مَنوا رویا سا ۔ ۔ ۔ ‘
( فلم ' اکتوبر ' پر تبصرہ )
فلم کے میڈیم کو وجود میں آئے ایک سو بیس سال سے زائد عرصہ ہو چکا ہے ۔ یہ خاموش فلموں سے سفر کرتے ہوئے ’ ٹاکیز‘ میں داخل ہوا اور 2018 ء کے آنے تک ساری دنیا ، اس کی تمام زبانوں اور بنی نوع انسانی کے متنوع فنون لطیفہ میں یہ اہم مقام حاصل کر چکا ہے ۔ اس میں نئی سے نئی اختراعیں سامنے آئی ہیں ۔ دنیا بھر میں اب تک بننے والی لکھوکھا فلموں میں موضوعات کا تنوع بھی بہت زیادہ ہے لیکن انسانی زندگی کی حقیقتیں اس میڈیم میں پلٹ پلٹ کر واپس آتی رہی ہیں جیسا کہ یہ فنون لطیفہ کے دوسرے میدانوں میں بھی اپنے اپنے زمانوں کے مطابق کہیں مدہم اور کہیں زیاد ہ جھلک مارتی ہیں ۔ زن و مرد کی محبت ، زندگی و موت غالباً دو ایسے اہم موضوعات ہیں جو فنون لطیفہ میں کسی نہ کسی شکل میں بہر طور موجود رہتے ہیں ۔ یہی حال اس میڈیم کا بھی ہے ۔ فلموں کی تقسیم کی طرف نظر ڈالیں تو ، اب یہ بہت انواع میں تقسیم کی جا سکتی ہیں لیکن طربیہ ، المیہ اور مزاحیہ فلموں کی ایک قدیم تقسیم آج بھی موجود ہے ۔
اگرالمیہ رومانوی فلموں کی بات کی جائے تو دنیا بھر میں جہاں جہاں بھی فلمیں بنیں اور بن رہی ہیں ان میں اپنے اپنے وقت کی اس بیماری کو استعمال کیا گیا جو سب سے مہلک گردانی جاتی رہی اور ہے ۔ میں زیادہ تفصیل میں نہیں جانا چاہتا لیکن چند مثالیں دیتا ہوا بات کو آگے پڑھاﺅں گا ۔
اگر میں 1930 کی دیائی میں جاﺅں تو 1936 ء کی فلم ’ کیملی ( Camille ) کی ہیروئن تپ دق کی مریضہ ہے اور فلم کا اختتام اس کی المیہ موت پر ہوتا ہے ۔ یہ ہالی ووڈ کی فلم ہے جس میں ہیروئن کا کردار گریٹا گاربو نے ادا کیا تھا ۔ اسی طرح 1945ء کی فلم ’ سینٹ میری کی گھنٹیاں ( The Bells of St. Mary's) میں بھی ہیروئن اسی مرض کا شکار دکھائی گئی ہے ۔ 1948ء کی جاپانی فلم ’ مدہوش فرشتہ‘ ( Drunken Angel) میں بھی یہی بیماری فلم کی مرکزی تھیم ہے ۔ اس زمانے میں بننے والی بہت سی اردو/ ہندی فلموں میں بھی یا تو ہیروئن تپ ِ دق کا شکار نظر آتی ہے یا پھر ہیرو اس کا مریض ہے ۔ ان فلموں میں’ سینی ٹوریم ‘ ایک علاج گاہ کی بجائے ایک ایسی رومانوی جگہ نظر آتا ہے کہ فلم بین بھی چاہتا ہے وہ اس مرض کا شکار ہو اور وہ بھی سینی ٹوریم میں بیٹھ کر المیہ گیت گائے ۔
ذرا اور آگے آئیں تو تپ ِدق کی جگہ کینسر نے لے لی ۔ یہ 1970 ء تھا ۔ ہالی ووڈ میں فلم ’ لوو سٹوری ‘ ( Love Story )بنی ۔ فلم کی ہیروئن ( جینی) کینسر کی مریضہ ہے اور وہ فلم کے اختتام پر اسی طرح المیہ موت کا شکار ہوتی ہے جس طرح ’ کیملی‘ کی ہیروئن جان دیتی ہے ۔ اِدھر انڈیا میں اگلے ہی سال ' آنند ‘ بنی جس میں فلم کا ہیرو ( راجیش کھنہ ) اس موذی مرض کا شکا ر ہے ۔ بعد ازاں پاکستان میں لوو سٹوری سے ماخوذ ’ میرا نام ہے محبت ‘ بنی ۔
اس کے بعد کچھ فلمیں ایڈز (AIDS ) کی بیماری کو بھی چھوتی ہوئی بنیں ۔ جن میں غالبا ’ این اَرلی فراسٹ ( An Early Frost )پہلی تھی جو 1985 ء میں سامنے آئی تھی ۔ اس ضمن میں فیلیڈیلفیا ( Philadelphia ) جو 1993 ء میں بنی تھی، بھی اہم گردانی جاتی ہے ۔ انڈیا میں اس بیماری کو لے کر بننے والی فلموں میں ’ پھر ملیں گے‘ اہم ہے جو 2004 ء میں ریلیز ہوئی تھی ۔
2018 ء میں ایک فلم ’ اکتوبر‘ کے نام سے سامنے آئی ہے جو کئی لحاظ سے اچھوتی فلم ہے ۔ یہ ’ کوما ‘ کی حالت میں گئی فلم کی ہیروئن کے گرد گھومتی ہے ۔ اس سے قبل مراہٹی زبان میں اسی موضوع کو لے کر ایک فلم ’ آرتھی ۔ اک انجانی محبت ‘ ( Aarti – The Unknown Love Story ) 2017 ء میں بنی تھی جس کا مرکزی خیال یہ تھا کہ’ کوما ‘میں گئے بندے کو آریوویدک اور دیسی روحانی علاج سے زندگی کی طرف واپس لایا جا سکتا ہے البتہ ’ اکتوبر‘ میں ایسا کچھ نہیں ہے ۔ یہ محبت ، انسانی تعلق ، واسطہ اور زندگی کے اپنے رومان کو لئے ہوئے آگے بڑھتی ہے اور فلم کی ہیروئن / انٹی ہیروئن کی موت تک جاتی ہے ۔
فلم کا ہیرو / انٹی ہیرو دانش والیا ’ ڈین‘ دہلی کے ایک فائیو سٹارہوٹل میں مینیجمنٹ کی تعلیم حاصل کرتے ہوئے زیر تربیت ہے ۔ وہ لاپرواہ ہے ۔ اسے اپنی یہ تربیت پسند نہیں کیونکہ وہ ہوٹل میں سونپے جانے والے کاموں سے خوش نہیں ۔ اسی وجہ سے اس کے تعلقات اپنے ساتھی کارکنوں اور اپنے افسران سے کشیدہ رہتے ہیں ۔ فلم کی ہیروئن ’ شیولی‘ اس کے برعکس اپنے کام میں طاق ہے اور اس پر مطمئن ہے ۔ سال ِنوکی آمد پرڈین کے ساتھی ہوٹل کے ٹیرس پر پارٹی منا تے ہیں ۔ ٹیرس کی منڈیر اوس کی وجہ سے پھلسن والی ہے۔ شیولی اس پر بیٹھنے کی کوشش کرتے ہوئے ڈین کے بارے میں پوچھتی ہے اورساتھ ہی نیچے جا گرتی ہے۔ اسے ہسپتال میں داخل کرایا جاتا ہے جہاں وہ ’ کوما ‘ میں چلی جاتی ہے ۔ جب ڈین کو پتہ چلتا ہے تو وہ اسے ہسپتال دیکھنے جاتا ہے اور اسے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ گرنے سے پہلے اس نے اُسی کے بارے میں پوچھا تھا ۔ کیوں پوچھا تھا ؟ یہ سوال اس کے ذہن میں اٹک جاتا ہے اور وہ باقاعدگی سے ہسپتال جا کر اس کی تیمارداری کرنے لگتا ہے کہ ٹھیک ہونے پر اس سے پوچھ سکے کہ اس نے ایسا کیوں کہا تھا ۔ تیمارداری کی وجہ سے وہ کام سے اکثر غیر حاضر رہتا ہے اوراس کی نوکری جاتی رہتی ہے۔ لیکن وہ شیولی کی تیمارداری کرنا ترک نہیں کرتا اور رات کو کھلنے والے یاسمین کے پھول اس کے لئے باقاعدگی لے کر جاتا ہے ، یہ پھول شیولی کو بچپن سے ہی پسند ہوتے ہیں ۔ اس کی تیمارداری اور یاسمین کے پھول اپنا رنگ لاتے ہیں اور شیولی آہستہ آہستہ کومے سے باہر آنا شروع ہو جاتی ہے لیکن مکمل طور پر صحت یاب نہیں ہوتی ۔ نوکری چھٹ جانے پر وہ کوہلو میں ایک ہوٹل میں بطور مینجر نوکری کر لیتا ہے اور دہلی چھوڑ دیتا ہے ۔ شیولی اس کے دماغ سے نہیں نکل پاتی اور یہ سوال بھی کہ اس نے گرنے سے پہلے اس کے بارے میں کیوں پوچھا تھا ۔ وہ کوہلو سے واپس آ جاتا ہے اور پھر سے اس کی تیمارداری میں لگ جاتا ہے اور اسے وہیل چئیر پر لئے باغوں اور مرغزاروں میں پھرتا ہے ۔ ایک رات شیولی کو مرگی کا دورہ پڑتا ہے ، اس کا دماغ مفلوج ہو جاتا ہے ، پھر اس کے پھیپھٹرے بھی بیٹھ جاتے ہیں اور وہ مر جاتی ہے ۔ شیولی کی ماں اور بہن بھائی جب دہلی چھوڑ کر’ تریچی‘ جاتے ہیں تو ڈین ان کے گھر میں لگے یاسمین کے اس پودے کو اپنے ساتھ لے جاتا ہے ، جس سے شیولی بچپن سے ہی پھول چُنتی آئی تھی ۔
یہ فلم ایک طرف تو انسانی زندگی کا ایک ایسا المیہ بیان کرتی ہے؛ جو ایک حادثے کی وجہ سے شیولی ، اس کی ماں ، بہن ، بھائی اور ڈین کی زندگی کارخ موڑ دیتی ہے، دوسری طرف یہ ’ کوما ‘ میں گئی شیولی کی کہانی ہے جو یاسمین کے رات کو کھِلنے اور قلیل مدت تک پُر بہار رہنے والی پھولوں کی طرح مختصر زندگی گزارکر مر جاتی ہے۔ فلم میں یہ سوال تشنہ رہتا ہے کہ شیولی کو ڈین سے محبت تھی یا نہیں اور یہ بھی کہ گرنے سے پہلے شیولی نے عمومی طور پر ڈین کے بارے میں پوچھا تھا یا پھر خصوصی طور پر۔
یہ فلم ہوٹل انڈسٹری میں ہونے والے اس استحصال ، تمسخر اور ہتک آمیز رویوں کو بھی آشکار کرتی ہے جس کا شکار اس صنعت میں کام کرنے والے زیر تربیت لڑکے لڑکیاں اور ادنیٰ کارکن ہوتے ہیں ۔
فلم اس سوال کو بھی ، فلم بینوں کے سامنے رکھتی ہے کہ کیا ’ کوما ‘ میں گئے مریضوں کو مشینوں سے ’ اَن پلگ‘ ( Unplug ) کر دینا چاہیے یا اچھے اور سچے انسانی جذبوں کے ساتھ انہیں اس وقت تک زندہ رہنے دیا جائے جب تک وہ خود طبعی طور پر موت کا شکار نہیں ہو جاتے؟
اس فلم کا ہدایت کار’ شُوجت سِرکار‘ ہے جس نے پہلے ’ وِکی ڈونر‘ اور ’ پِکو ‘ جیسی فلموں کی ہدایت کاری کی تھی ۔ اس فلم کی کہانی’ جوہی چتُرویدی ‘ نے لکھی ہے ۔ اس فلم میں ڈین کا کردار ’ ورون دھاون ‘ نے ادا کیا ہے جو اس سے پہلے دس فلموں میں کامیاب اداکاری کرکے نام کما چکا ہے ۔ اس فلم میں بھی اس کی اداکاری بہت عمدہ ہے ۔ شیولی کا کردار ادا کرنے والی بیس سالہ اداکارہ ’ بنیتا سندھو ‘ کی یہ پہلی فلم ہے جس نے انتہائی عمدہ اداکاری کرتے ہوئے اپنی پہلی ہی فلم میں دھاک بٹھا دی ہے ۔ اس کی ماں کا کردار’ گیتانجلی راﺅ‘ نے ادا کیا ہے جو فلمی دنیا میں بطور ہدایتکار ، پروڈیوسر اور کارٹون فلموں کے حوالے سے پہلے ہی جانی جاتی ہے لیکن ادا کاری کے اعتبار سے یہ اس کی پہلی فلم ہے اور اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ وہ ایک عمدہ اداکارہ بھی ہے ۔
اس فلم کی ایک اور خوبی یہ ہے کہ اس کی سینماٹوگرافی روایتی انداز سے نہیں کی گئی اور یہ فلم شُوٹ کر نے کے حوالے سے اِس فن کے نئے در وا کرتی ہے ۔
فلم میں کوئی گانا نہیں ہے ۔ گو اس کا البم پانچ گانوں پر مشتمل ہے لیکن فقط ایک گیت کو ہی کو فلم کے ختم ہونے پر کریڈٹس دکھاتے ہوئے پس منظر میں بجایا گیا ہے ۔ یہ گیت انتہائی چھوٹی بحر میں ہے ؛ ’منوا رویا سا ۔۔۔ بےکل ہویا سا ۔۔۔ ‘ اسے’ سوانند کیرکیری ‘ نے لکھا پے اور’ سونیدی چوہان ‘ نے گایا ہے ۔ فلم کی موسیقی ، خصوصاً تھیم میوزک بہت اچھا ہے ۔ اسے شنتانو موئتر نے ترتیب دیا ہے ۔ ’ منوا رویا سا ۔۔۔‘ کی موسیقی بھی اسی کی مرتب کردہ ہے ۔
بیس کروڑ انڈین روپئے سے بنی یہ غیر روایتی المیہ فلم باکس آفس پر کامیاب ہے اور ایسی فلموں میں سے ایک ہے جن کے بارے میں انگریزی میں کہا جاتا ہے ؛ ’ اے مسٹ واچ ' ( A Must Watch ) ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔