منٹو کو سمجھنے کے لیے صرف اس وقت کی غلامی کو ذہن میں رکھنا ہی ضروری نہیں ہے۔ اس لیے منٹو کی کہانیاں صرف تقسیم کا المیہ نہیں ہیں۔ وہ کہانی لکھتے وقت اتنا بے رحم ہو جاتا تھا کہ اس کے الفاظ سے لہو رستے دکھائی دیتے تھے۔ اس کا اظہار اس کے درد کا ترجمان بن جاتا تھا۔ منٹو کے لیے آزادی محض ایک لفظ بھر نہیں تھا۔ منٹو کے لکھنے کی کہانی ایسٹ انڈیا کمپنی کی شروعات، غلامی کے سیاہ دن اور کالا پانی کے خوفناک قصوں سے بھری ہے۔
کہتے ہیں 1857 میں کالا پانی کی سزا پانے والے ہندستانی باغیوں نے انڈمان میں ایک نیا ہندستان بنایا تھا۔ ایک ایسے ہندستان کا تصور جس کی بنیاد یکجہتی اور آپسی بھائی چارے پر رکھی گئی تھی۔ لیکن منٹو پر باتیں کرتے ہوئے اس وقت کے حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔ سمندر سے گھرا ہوا ایک ایسا جزیرہ جہاں سے ان قیدیوں کا بھاگنا آسان نہیں۔ چاروں طرف گرجتا ہوا سمندر، دھاڑتا ہوا شور، خوفناک درختوں کے بے رحم سائے، جنگلوں میں رہنے والے دہشت گرد آدی واسی، قسم قسم کے جانور اور زہریلے کیڑے مکوڑے انگریزوں نے ملک پر ست وفادار ہندستانیوں کے لیے کالا پانی کی سزا کا انتخاب کیا تھا۔
جہاں وہ طرح طرح کی بیماریوں کے شکار ہوجائیں یا دردناک موت کے آہنی شکنجے میں پھنس کر اپنا دم توڑ دیں۔ شاید اس طرح کے الم ناک مناظر منٹو کی آنکھوں میں ہر لمحہ رقص کرتے رہتے تھے۔ اپنا پیارا دیش اس وقت منٹو کو کالا پانی ہی نظر آتا تھا۔ شاید اسی لیے اپنے اندرون کی کشمکش سے شب و روز جنگ کرتا منٹو جب قلم اٹھاتا تو ایک سفاک تخلیق کار بن جاتا۔ اس کی کی کہانیوں کا ہر منظر عریاں اور ہر کردار بے حجاب ہوجاتا۔ زندگی کی قیامت آگ کا دہکتا شعلہ بن کر اس کے قلم کی روشنائی کو ہوا دیتی۔ پھر جو کہانی بنتی وہ خالص منٹو کی کہانی ہوتی۔ منٹو کے رنگ میں ہوتی۔
یہی وہ دور تھا جب وقت خاموشی سے منٹو کی تاریخ لکھ رہا تھا۔ ۔ ۔ ایسی تاریخ جس نے منٹو کو 100 سال بعد بھی زندہ رکھا اور اگلے سو سال تک اس کے نام کے حرف کو کوئی مٹا نہیں سکتا۔
پاکستان جانے کے سات سالوں میں کوئی ایسی مثال نہیں ملتی کہ منٹو وہاں جا کر خوش تھا۔ منٹو کو وہ سیاست آخر تک لہولہان کرتی رہی جس نے ایک ملک کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ اس وقت جب ہندستانی حکومت نے پاکستان کے لیے پانی بند کیا تو منٹو نے کربلا جیسی کہانی لکھ ڈالی۔ کربلا میں منٹو کے درد کو بہ آسانی محسوس کیا جاسکتا ہے۔
کہانی کے آخر میں جب بچے کے رونے کی آواز آتی ہے تو اس کا کردار کہتا ہے، میں اس کا نام یزید رکھوں گا۔ اس جملہ میں جو درد، جو تڑپ ہے اس کو سمجھنے کے لیے تقسیم کے درد کو سمجھنا ضروری ہے۔ پانی زندگی کی علامت ہے۔ کربلا کے پیاسوں پر یزید نے زندگی تنگ کردی۔ تقسیم المیہ نے پانی کی سیاست بھی شروع کردی تو منٹو کا قلم رو دیا۔ اور یہ قلم پاکستان جانے کے بعد بھی ایسے ہزاروں موقعوں پر روتا رہا۔ منٹو کا سارا ادب پڑھ جائیے تو اپنے عہد میں منٹو واحد لکھاری تھا جو مذہب یا تقسیم سے اوپر اٹھ کر لکھ رہا تھا۔ اور یہی چیز منٹو کو اپنے عہد کے دوسرے لکھاریوں سے الگ کرتی تھی۔
جوائز کی ’یولیسز‘ سے وابستہ ایک واقعہ نے ایک وقت ایک نئی بحث کا آغاز کیا تھا۔ یولیسز پر فحش نگاری کا الزام لگا۔ مقدمہ چلا۔ جج کی طرف سے یہ کتاب کچھ ایسی موٹی عورتوں کو پڑھنے کے لیے دی گئیں جن کے مزاج میں سیکس کا غلبہ کچھ زیادہ ہی تھا۔ لیکن ان عورتوں کی یولیسز پڑھنے کے بعد عام رائے یہ تھی کہ اس میں کچھ بھی ایسا نہیں ہے جو ان کے اندر جنسی جذبات کو بیدار کر سکتا ہو۔
منٹو شریف بدمعاش ہے۔ وہ بغیر اجازت آپ کے بیڈروم میں آ جاتا ہے۔ منٹو کبھی طوائف کے پاس نہیں گیا۔ اور جب میں کے کردار میں وہ خود ہوتا ہے، وہ ایک شریف بدمعاش ہوتا ہے اور طوائف کی جگہ معاشرے کی کینچلی اتار رہا ہوتا ہے۔ یہ منٹو کی مداخلت ہے کہ وہ ہر جگہ ہوتا ہے۔
اورہان پامک کا ادب بھی اسی مداخلت کے دائرے میں آتا ہے۔ اپنے ناول ’دی وہائٹ کیسل‘ ، ’دی بلیک بک‘ اور ’مائی نیم از ریڈ‘ میں پامک سماجی اقدار کے بہانے اپنی مداخلت درج کراتے ہیں۔
دراصل ہم اس مکمل مداخلت کو 1915 کے آس پاس ترکی میں ہو رہے آرمینیائی اور کرد لوگوں کی مخالفت میں ہونے والی خوفناک کارروائی سے وابستہ کر کے دیکھ سکتے ہیں۔ تیس ہزار کرد اور ایک لاکھ آرمینیائی لوگوں کا قتل عام کیا گیا۔ پامک کے اندر جی رہے بے چین تخلیق کار کے لیے یہ سب کچھ برداشت کرنا بے حد مشکل تھا۔ بعد میں وقت کی یہی مداخلت ان کی تخلیقات میں نظر آنے لگی۔
منٹو کا سب سے بڑا احتجاج ’ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ کی شکل میں سامنے آیا۔ جہاں اس نے ملک کے تقسیم ہونے پر اپنا احتجاج ظاہر کیا۔ لیکن منٹو کی باقی کہانیاں بے رحم قلم کے ساتھ اپنی مداخلت درج کراتی رہیں۔ درحقیقت منٹو اپنے ہمعصروں میں سب سے زیادہ وقت کی نزاکت کو سمجھنے کی پرکھ رکھتا تھا۔ اسی لیے منٹو کی یہ کہانیاں اپنے دور کا ایک دستاویز ہیں جنہیں بھلایا نہیں جاسکتا۔ منٹو کا ادب صرف مداخلت درج نہیں کرتا ہے، ادبی دانشوروں کے فکشن کے بنائے گئے پیمانے کو بھی توڑتا ہے۔ وہ اپنا پیمانہ خود بناتا ہے۔ ٹوبہ ٹیک سنگھ کو تقسیم ملک نہیں چاہیے تو نہیں چاہیے۔
منٹو صرف کہانیوں تک نہیں رکتا۔ اسی لیے سیاہ حاشیوں کے بت بناتا ہے۔ اس کے خاکے پڑھیے تو ہر خاکے میں بھی وہ احتجاج کے مختلف رویوں سے گزر رہا ہے۔ محمد علی جناح کے ڈرائیور سے باتیں کرتے ہوئے۔ نسیم بانو یا جدن بائی کے تذکرے میں۔ یا اپنے وقت کے ہیرو اشوک کمار کی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہوئے۔ حقیقت یہ ہے کہ جب غلامی یا تقسیم کے المیہ کو لے کر دوسروں کے قلم رو رہے تھے، یہ منٹو ہی تھا جو ادب میں مضبوط طریقے سے اپنا غصہ، احتجاج اور مداخلت درج کرا رہا تھا۔