وہ نت نئے ادبی نظریات کے پیچھے نہیں بھاگا۔ اس نے نقادوں کو مدِ نظر رکھ کر نہیں لکھا۔ وہ بیان کی حسن کاری یا کسی مشکل پسندی کا شکار نہیں ہوا۔۔ وہ اس کمپلیکس کا شکار نہیں ہوا کہ "وہ ادب ہی کیا جو ایک ہی قرات میں سمجھ آ جائے" ۔ اس کی پہلے سے بھی بھرپور اور جاری حیات کا راز اس کی جراتِ اظہار، اپنے تخلیقی وفور پر اعتماد، عالمی ادب کا مطالعہ، زندگی کا گہرا مشاہدہ اور اس کے فن میں ابلاغ کی صفت کا موجود ہونا ہے۔ نوجوان ادیب/افسانہ نگار پچھلی سات دیہائیوں کی رنگ برنگی تنقیدی/ادبی نظریات کی قلابازیوں اور ان "ادبی شاہکاروں" کے انجام سے سبق سیکھ سکتے ہین جو ادبی رسائل میں تو چھپتے رہے لیکن گنجلک/ بعید از فہم، مقامی زندگی کے مسائل سے ناآشنا ہونے کی وجہ سے قاری سے محروم رہے اور تاریخ کے مختصر عرصے کا ٹھکرایا ہوا حصہ بن کر رہ گئے۔ آج بھی اردو کا ادیب اور نقاد اس کمپلیکس سے آزاد نہیں ہوا جو ایسی غیر ملکی تنقیدی/ادبی تھیوریز سے متاثر ہونے کا نتیجہ ہے جن کا براہِ راست اردو معاشرے کے حقائق اور زندگی کے منظر نامے سے کوئی خاص تعلق نہیں بنتا۔ جینوئین ادیب مطالعہ/مشاہدہ کے ساتھ ساتھ ادب کی انسان اور زندگی کے حقائق سے گہری جڑت، سچائی اور اپنے تخلیقی جوہر پر یقین رکھتا ہے۔
کیا حرف ع جس لغت میں ہو وہ عربی کا ہو گا؟
اردو کا ہر وہ لفظ، جس میں حرفِ "عین" آتا ہو، وہ اصلاً عربی کا ہو گا! مرزا غالب اپنے...