اٹھارہ جنوری کو گزرے ہوئے کچھ ہی دن ہوئے ہیں۔ یہ دن ہمارے سماج کی ایک ایسی شخصیت کی وفات کا دن ہے جن کو گزرے ہوئے اب کئی دہائیاں بیت چکی ہیں لیکن ان کی تحریریں آج بھی پڑھنے والوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ ان تحریروں میں بیان کی گئی سچائیوں کو کوئی ذی ہوش شخص رد نہیں کر سکتا اور نہ ہی سرسری طور پر ان سے نظر بچا کر گزر سکتا ہے۔۔۔
جب سے پاکستان کو "نیا پاکستان" بنانے والی حکومت کا راج شروع ہوا ہے تو معیشت کی مضبوطی کے لیے ہمیں مرغیوں، انڈوں اور بھینسوں کو پالنے کی ترغیب دی جا رہی ہے، ابھی کچھ دن پہلے تو "زیتون" پر بھی عوام کو ایک لیکچر دیا گیا۔۔۔۔ آپ سب ہی کو یاد ہو گا جو انہوں نے فرمایا تھا۔۔۔ میں سوچتا ہوں کہ جن کاموں کو کبھی ہمارے نشریاتی ادارے کیا کرتے تھے ان کی ذمہ داری اب ہمارے حکمرانِ وقت نے لے لی ہے یا شاید وہ جانتے بوجھتے ہوئے اس طرح کے فرمودات جاری کر کے عوام کی توجہ اصل سلگتے ہوئے مسائل سے ہٹانا چاہتے ہیں۔۔۔ بالکل اسی طرح جب برسوں پہلے ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آنے والے نئے ملک پاکستان کے حکمراں طبقے نے بنیادی انسانی مسائل سے روگردانی کرتے ہوئے میڈیا پر سینسر شپ عائد کی تو کئی اخبارات و جرائد بند ہو گئے، ریڈیو پر مرغیاں پالنے کے طریقوں پر گفتگو ہونے لگی اور منٹو جیسے باہمت لکھاری کو سچ لکھنے کی پاداش میں مقدموں میں گھسیٹا جانے لگا۔۔۔ منٹو پر تو برطانوی راج میں بھی مقدمے چلے تھے لیکن اب ایک آزاد ملک میں بھی منٹو کو ان ہی مصائب سے گزرنا پڑا بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ برطانوی راج کے مقابلے میں نئے آزاد ملک پاکستان میں منٹو نے جو کچھ دیکھا وہ ناقابل بیان تھا لیکن یہ منٹو کا بلند حوصلہ تھا کہ "ناقابلِ بیان" کو "بیان" کے قابل بنا کر اُس نے ارد گرد پیش آنے والے واقعات کو افسانوں کی صورت میں رقم کرنا شروع کیا۔۔۔ چنانچہ "کھول دو" اور "ٹھنڈا گوشت" جیسے افسانوں کو بنیاد بنا کر منٹو پر فردِ جرم عائد کی گئی۔
افسانہ "ٹھنڈا گوشت" پر ہونے والے "مقدمے" کی مکمل روئیداد تو "منٹو" نے خود "زحمت مہردرخشاں" کے عنوان سے تحریر بھی کی تھی۔ اس میں ہماری سماجی "تاریخ" کے وہ ابتدائی باب اور سوالات بیان کر دیے گئے ہیں جن کو تاریخ کا کوئی ماہر بھی بیان کرتے ہوئے یا پوچھتے ہوئے جھجکے گا۔۔۔ یہاں پر ہم پڑھنے والوں کی دلچسپی کے لیے "زحمت مہر درخشاں" کا منتخب حصہ شامل کر رہے ہیں.
منٹو لکھتے ہیں کہ؛
"کوشش کے باوجود ہندوستان کو پاکستان سے اور پاکستان کو ہندوستان سے علیحدہ نہ کر سکا۔ بار بار دماغ میں یہ الجھن پیدا کرنے والا سوال گونجتا۔۔۔ کیا پاکستان کا ادب علیحدہ ہو گا۔۔۔؟ اگر ہو گا تو کیسے ہوگا… وہ سب کچھ جو سالم ہندوستان میں لکھا گیا تھا اس کا مالک کون ہے۔۔۔؟
کیا اس کو بھی تقسیم کیا جائے گا۔۔۔؟ کیا ہندوستانیوں اور پاکستانیوں کے بنیادی مسائل ایک جیسے نہیں۔۔۔؟ کیا ادھر اردو بالکل ناپید ہو جائے گی۔ یہاں پاکستان میں اردو کیا شکل اختیار کرے گی۔۔۔ کیا ہماری اسٹیٹ مذہبی اسٹیٹ ہے۔۔۔ اسٹیٹ کے تو ہم ہر حالت میں وفادار رہیں گے، مگر کیا ہمیں حکومت پر نکتہ چینی کی اجازت ہوگی۔۔۔؟ آزاد ہو کر کیا یہاں کے حالات فرنگی عہد حکومت کے حالات سے مختلف ہوں گے۔۔۔؟؟؟ فضا پر مردنی طاری تھی… جس طرح گرمیوں کے آغاز میں آسمان پر بے مقصد اڑتی ہوئی چیلوں کی چیخیں اداس ہوتی ہیں، اسی طرح ’’پاکستان زندہ باد‘‘ اور ’’قائد اعظم زندہ باد‘‘ کے نعرے بھی کانوں کو اداس اداس لگتے تھے۔ ریڈیو کی لہریں اقبال مرحوم کا یک آہنگ کلام شب و روز اپنے کاندھوں پر اٹھا اٹھا کر تھک اور اکتا گئی تھیں۔ فیچر پروگرام کچھ اس قسم کے ہوتے تھے کہ مرغیاں کس طرح پالی جاتی ہیں۔۔۔ جوتے کیسے بنائے جاتے ہیں۔۔۔ فن زراعت کیا ہے۔۔۔ ریفیوجی کیمپوں میں کتنے آدمی آئے اور کتنے گئے۔۔۔ قریب قریب تمام درخت ننگے بچے تھے۔۔۔ سردیوں سے بچنے کے لئے غریب مہاجرین نے ان کی چھال اتار کر اپنی کھال گرم کی تھی۔ ٹہنیاں کاٹ کر پیٹ کی آگ ٹھنڈی کی تھی۔ ان ننگے بچے درختوں سے فضا اور بھی دل شکن حد تک اداس ہو گئی تھی۔ بلڈنگوں کی طرف دیکھتا تھا تو ایسا محسوس ہوتا تھا سوگ میں ہیں۔ ان کے مکیں بھی ماتم زدہ تھے۔ بظاہر ہنستے تھے۔ کھیلتے تھے۔ کوئی کام مل جاتا تھا تو وہ بھی کرتے تھے مگر گویا یہ سب کچھ خلا میں ہو رہا تھا۔ ایک ایسے خلا میں جو لبالب ہونے پر بھی خالی تھا۔۔۔"
منٹو کے ہی انداز میں جسارت کرتے ہوئے ہم کچھ سوالات اٹھانا چاہتے ہیں۔۔۔ اگر طبع نازک پر گراں نا گزرے تو چند سوال پیشِ خدمت ہیں؛
کیا آپ کو ملاوٹ سے پاک خالص دودھ ملتا ہے؟؟
کیا آپ کو یقین ہے کہ خریدی گئی دوائی سو فیصد اصلی ہے؟؟
کیا آپ پورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ کھایا گیا گوشت واقعی صحت مند جانور کا تھا؟؟
کیا آپ گارنٹی سے کہہ سکتے ہیں کہ جو خریدا ہے اس کی مقدار وہی ہے جس کی قیمت دی ہے؟؟
کیا آپ کو یقین ہے کہ زچگی کے لیے کی گئی سرجری واقعی ضروری تھی؟؟
کیا معاشرے کے تمام طبقات اور مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کرپشن، منافقت، جھوٹ، لالچ، حوس، کام چوری اور اخلاقی گراوٹ میں اعلٰی درجے پر فائز نہیں ہیں؟؟؟
دیکھیے حضور یہی تو ننگی سچائیوں کی وہ گٹھڑی ہے جسے برسوں پہلے "سعادت حسن منٹو" بیچ چوراہے پر لا کھولتا تھا تو آپ اسے فحش نگاری کا تمغہ عطا کر کے دھتکار دیتے تھے۔۔۔ کیا منٹو کو دھتکارنے سے ہمارے سماجی حقائق بدل گئے….؟؟؟
منٹو نے ایک مختصر مگر مکمل طور پر متحرک زندگی گزاری۔ قیام پاکستان کے بعد منٹو وہ منٹو نہیں رہا تھا جو پاکستان بننے سے قبل کا منٹو ہمیں اپنی تحریروں میں ملتا ہے۔ ہندوستان کی خونی تقسیم اور اس کے بعد ہونے والے مختلف واقعات کو منٹو نے جس طرح جھیلا اس کا ہم آج تصور بھی نہیں کر سکتے۔۔۔ یہی وجہ تھی کہ منٹو واپس ہندوستان جانا چاہتے تھے لیکن افسوس کہ زندگی نے اُن کو وہ مہلت ہی نہ دی۔
جب ابھی ہندوستان تقسیم نہیں ہوا تھا تو 1936 میں منٹو پنجاب سے بمبئی چلے گئے تھے جو اُس وقت بھی "متحدہ ہندوستان" کا سب سے بڑا فلمی صنعت کا مرکز تھا. یہاں پر وہ ایک هفت روزہ فلمی رسالے "مصور" میں ملازم ہو گئے. اتفاق سے یہی ملازمت ان کے لیے فلمی صنعت میں داخل ہونے کا دروازه ثابت ہوئی۔ منٹو کی پوری زندگی کا یہ ہی وہ سنہرا زمانہ تھا جسے ہم معاشی آسودگی کا زمانہ بھی کہہ سکتے ہیں۔۔۔ اسی دوران یعنی 1939 میں ان کی شادی ہوئی۔ اپنی سیماب طبیعت کی وجہ سے جب ان کی ملازمت کا یہاں پر پانچواں سال تھا تو یہ "مصور" سے الگ ہو گئے. جنوری1941 میں منٹو دہلی چلے گئے۔ لیکن پھر ایک سال بعد 1942 میں ہی انہیں دوبارہ بمبئی کا رخ کرنا پڑا۔ ایک دفعہ پھر آپ هفت روزہ "مصور" سے وابستہ ہو گئے، لیکن "مصور" میں ملازمت کے ساتھ ساتھ فلمی اداروں کے لیے بھی کام کرنے لگے۔ انہوں نے "فلمستان" اور "بمبئی ٹاکیز" جیسے فلمی اداروں کے لیے فلمی کہانیاں بھی لکھیں تھیں۔
لکھنے کے ساتھ ساتھ منٹو نے ایک فلم میں بطور اداکار بھی کام کیا تھا۔ قیامِ پاکستان سے قبل 1946 میں بننے والی فلم "آٹھ دن" وہ واحد فلم ہے، جس میں منٹو نے ایک خبطی ایئر فورس افسر کا مختصر کردار ادا کیا تھا۔ اس کردار کا نام "كرپا رام" تھا. فلم "آٹھ دن" کی کہانی بھی منٹو نے ہی لکھی تھی۔ منٹو اس سے پہلے بھی کچھ فلموں کی کہانیاں لکھ چکے تھے، لیکن "آٹھ دن" وہ پہلی فلم تھی جس پر بطور اسکرپٹ رائٹر منٹو کا نام شائع ہوا تھا۔ اس فلم کی سب سے زیادہ دلچسپ بات یہ ہے کہ "کشور کمار" کی بھی بطور گلو کار یہ پہلی فلم تھی.
اس تحریر میں شامل کی گئی تصویر اسی فلم سے لی گئی ہے۔
"