منٹو صاحب کے لافانی افسانوں پہ کئی دہائیوں سے قلم کار اور کتب بین لکھ رہے ہیں اور یقیناً آئندہ بھی لکھتے رہیں گے۔ ان کے افسانوں کے کردار اور موضوع تو تا قیامت زندہ رہیں گے بلکہ ان کے افسانوں کے عنوان ہی شب و روز کئی سوچنے والوں دماغوں میں شعور اجاگر کرتے ہیں اور آزاد لبوں سے معاشرے میں روشنی بکھیرتے ہیں۔ میری اس عظیم افسانہ نگار کی زندگی سے ہلکی سی شناسائی اس کے افسانوں کے زریعے ہوئی لیکن حال ہی میں منٹو کے بارے میں دو کتابیں پڑھئں جن سے ان کی زندگی کی چند دریچے کھلے اور مجھے جھانکنے کا موقع ملا۔
منٹو سماج کا باغی تھا، باغی رہا اور اسی بغاوت میں اس معاشرے پر خون تھوکتے ہوئے رخصت ہو گیا لیکن اس کے قلم کی چپیڑوں کی تمازت آج بھی معاشرے کے رخساروں سے عیاں ہے۔ مصلحت کاراور صاحبانِ جبہ و دستار ہزار چھپانے کو کوشش کریں لیکن منٹو صاحب اس معاشرے کی منافقت کو یوں آشکار کرتے ہیں جیسے بادلوں کی آوٹ سے چودھویں کا چاند نکلتا ہو۔ اور یہ معاشرہ اپنی تمام تر مکاری اور عیاری کے باوجود اپنے ننگے پن کو ڈھانپ نہیں سکا۔
امرتسر کا منٹو اپنی جان پر سب کچھ سہہ کر اپنے قلم سے لافانی تحریریں چھوڑ کر منوں مٹی تلے خود تو سو گیا ہے لیکن ہر حساس دل اور باشعور دماغ کو زندگی بھر کی نیند سے محروم کر گیا ہے۔
منٹو صاحب کی زندگی کی کہانی ان کے شاہکار افسانوں سے کہیں زیادہ سفاک اور نمناک ہے۔ ان کتابوں سے جہاں منٹو صاحب کے خاندان کی ہجرت، منٹو کے بچپن کا الہڑپن، معاشرے کی روایات کا جبر اور ان جھوٹی روایات کے ساتھ مڈبھیڑ کا پتہ چلتا ہے تو وہیں باپ کی خود ساختہ شرافت اور مزہبی زکاوت اور ماں کی ممتا کے بیچ کھینچا تانی بھی سامنے آتی ہے۔ اور ہمیشہ کی طرح ممتا جیت جاتی ہے اور منٹو اپنے باپ کی مذہبی زکاوت کو طاقِ نسیاں پر رکھتا ہے اور خامہ گوش ہو کر نکل پڑتا ہے۔
یہ کتابیں پڑھیئے اور جانئیے کہ زندگی کے حوادث منٹو کے شعور کی صراحی میں ٹپکتے ہیں۔ احساسِ غمگساری اور بغاوت کی تمازت سے گزر کر زہرِ حلاحل بن کر نوکِ قلم سے قرطاس پر بکھرتے ہیں اور جمہور زدہ معاشرے میں ہر طرف آگ لگا دیتے ہیں۔
اور یہ بھی جانئیے کہ دھرتی اور وطن اور اپنے لوگوں کی محبت کے اظہار کےلیئے نہ تو معاشرے سے سندِ افتخار کی ضرورت ہوتی ہے اور نہ ہی جبہ و دستار اے مستعار لی جا سکتی ہے۔ غلاظت میں لتھڑے ہوئے معاشرے کا مطعون کردار “تھیلا کنجر” پوری آن بان اور شان کے ساتھ اپنی مٹی کی حرمت کیلیئے تاجِ برطانیہ کا حرکاروں سے ٹکرا جاتا ہے۔ اور پے در پے زخم کھاتا ہوا اپنی دھرتی کو جو منافقین کے ہجوم کے نیچے جاں بلب ہو چکی ہوتی ہے کو ایک نئی زندگی عطا کر دیتا ہے۔
اور اگر احساس اور شعور زندہ ہوں تو چوتھی جماعت میں پڑھتا منٹو غیرت و بہادری کے رستے کے مسافر “تھیلے کنجر” کی موت کو لوحِ دل پر یوں مرتسم کر لیتا ہیکہ زندگی بھر یہ واقعہ اس کی گفتگو اے محو ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے قلم سے اوجھل ہو پاتا ہے بلکہ مجھے تو یوں لگتا ہےکہ منٹو کی زندگی کے اندردرشتگی امرتسر کے نام نہاد شرفا اور عزت داروں کے رویوں سے آتی ہے اور بغاوت کے بینوں کی آبیاری “تھیلے کنجر” کا غیرت مند لہو کرتا ہے۔ اور یوں کرتا ہیکہ زندگی بھرمعاشرے کی شرافت کے دبیز پردےاور جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیرے اس کی جولانی اور روانی میں کمی نہیں لا سکتے
سبق یہی ملا کہ اگر لوحِ احساس لالچ، حرص و ہوس سے کند نہ ہو چکی ہو تو ایک جواں سال غیرت مند کی جرأت رندانہ وہ اسباق تحریر کر جاتی ہے جن کے بطن سے منٹو کے لازوال افسانے پھوٹتے ہیں۔
اور اگر احساس و شعور مر چکے ہوں تو روزانہ آنکھوں کے سامنے محشر ہی کیوں بپا نہ ہو انسان کولہو کے بیل کیطرح ہو پھوٹنے سے لیکر شام کے دھندلکے تک زندگی کی آسائشوں کے لیئے آنکھوں پہ پٹی باندھ کر زلیل و رسوا ہوتا ہے۔
“