منٹو کے کردار گوشت پوست اور سماجی رگ ریشوں میں الجھے انسان ہونے کے ساتھ ساتھ ،معاشرتی تضادات اور انسانی منافقتوں کی علامات بھی ہیں۔منٹو جب کوئی کردار تخلیق کرتا ہے تو وہ اپنے عمل کی سطح سے اٹھ کر وہ کردار سماجی منافرت کے ساتھ ساتھ شخصی بحران کا ترجمان بھی بن جاتا ہے۔
منٹو اپنے کردار کی ڈور اپنے ہاتھ میں رکھ کر کٹھ پتلیاں نہیں بناتا بلکہ کسی کردار کے قدموں کے نشان تلاشتے ہوے اس کے پیچھے ہو لیتا ہے اور افعال و اعمال کی نشان دہی کر کے ایک کہانی ترتیب دے دیتا ہے
۔منٹو کے افسانوی کردار راہ فرار اختیار کرنے کی بجاے سوال اٹھاتے ہوئے زندہ کرادر ہیں ۔
آئینے میں اپنا عکس تلاش کرتے ہوے وہ جن الجھنوں کا شکار ہیں وہ ان کے وجودی بحران کی ایک داستان ہے۔گندگی اور غلاظت سے بھری زندگی بسر کرتے ہوے بھی ان کے وجود کے کسی کونے کھدرے میں ضمیر کی چنگاری سلگ رہی ہوتی ہے ۔برے افعال و اعمال کے ساتھ ساتھ ان میں اچھی روح بھی پائی جاتی ہے بس وہ روح معاشرتی و سماجی تضادات کے بوجھ تلے دبی دبی آہ بھرتی ،سسکتی ہے لیکن منافقت کی بو سے نکلنے کی آرزو مند ہے۔بہ یک وقت منٹو کے ایک افسانے میں کئی انسانی گروہوں کے ترجمان کردار پائے جاتے ہیں گویا منٹو کا افسانہ زندگی کے کسی ایک روپ کا ترجامن نہیں بلکہ پوری زندگتی کا ترجمان بن جاتا ہے۔
چوں کہ یہ کردار بہت سے گروہوں کے ترجمان نظر آتے ہیں سو ایک افسانہ کرداری سطح سے اٹھ کر ایک معاشرہ ایک سماج بن جاتا ہے جس میں اچھائی کھلتی نظر آتی تو برائی بھی اپنے پر پھیلائے ہوئے ہوتی ہے۔
منٹو دوغلے پن کو سر تا پا اس کے عمل سے آشکار کرتا ہے اور استحصال کے پیچھے کارفرما فریب کے کراہت زدہ وجود کو ننگا کر دیتا ہے۔
منٹو کے ایک ہی افسانے میں مختلف طبقات کی نمائندگی کرنے والے کردار مل جاتے ہیں ۔
پیشہ ور عورتیں صرف اس پیشے کو بیان نہیں کرتی بلکہ اس پیشے کے وجود میں آنے اور اس اسباب کی طرف بھی اشارہ ہے کرتی ہیں جس کی وجہ سے سوگندی ،سلطانہ اور نواب پیشہ ور بنیں ۔
افسانہ “سر کنڈوں کے پیچھے” میں جو کہ سر کنڈوں کے پیچھے کی داستان ہے ۔ سردار اور اسکی بیٹی نواب ، ہیبت خان اور شاہینہ یہ کردار سماج کے چاروں کونے ہیں ۔ مرد کی بانہوں میں آنکھ کھولنے والی نواب زندگی کے طرزِ گزر سے نا آشنا ہے ۔وہ جرم اور گناہ کی گود میں پلی اور جوان ہوتے ہی مرد کا بستر بنی صرف ایک مرد کا نہیں اپنے ہر گاہک کا بھی ۔وہ اپنا آپ اپنے ہر گاہک کے ساتھ پوری ایمان داری سے سپرد کرتی ہے۔
“اس کے جسم میں خلوص تھا۔وہ ہر مرد کو جو اس کے پاس ہفتے ڈیڑھ ہفتے کے بعد طویل مسافت طے کر کے آتا تھا،اپنا آپ سپرد دیتی تھی۔” سر کنڈوں کے پیچھے
منٹو کے افسانوں میں سوگندھی اور نواب ایسی پیشہ ور تو ہیں لیکن انسان بھی ہیں۔ان کے اندر درد کی ٹھیس بھی اٹھتی ہے اور جذبات کی کسک بھی ان کے سینوں میں رینگتی ہے۔وہ اپنی جسم کی مشقت سے پیٹ تو پالتی ہیں مگر ان کا من،ضمیر،خواہش ایک ایسے مرد کے ساتھ جینے کی آرزو کرتے ہیں جو ان کو انسان سمجھے ،وہ بھی ایک مرد کی ہو کر زندگی بسر کرنا چاہتی ہیں ۔
ان کسی کونے کھدرے میں ضمیر کی رمق سلگتی ہے اور وہ اپنے ری ایکٹ سے ظاہر کرتی ہیں۔جب ہیبت خان نواب کی انگلی میں اپنی انگوٹھی اتار کر پہناتا ہے۔
“بس دیرتک اپنی سجی ہوئی انگلی کو دیکھتی رہی جس پر کافی بڑے ہیرے سے رنگ رنگ کی شعاعیں پھوٹ رہی تھیں۔”
“وہ بستر میں اس کے ساتھ اس طرح لیٹتی تھی جس طرح بچہ اپنی ماں کے ساتھ لیٹتا ہے ۔اس کی چھاتیوں پہ ہاتھ پھیرتا ہے اس کی ناک کے نتھنوں میں انگلی ڈالتا ہے ،اس کے بال نوچتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ سو جاتا ہے ۔” سرکنڈوں کے پیچھے
اسی افسانے میں سردار جو گاہک کے آنے پر نواب کے جسم کی قیمت اپنے نیفے میں اڑس کر ضمیر کو افیم کی گولیاں کھلا کر فرار اختیار کیے مطمئن ہو کر سوجاتی ہے۔
“نواب کو چھوڑ کر اپنی کٹھیا کی طرف بڑھی اور ڈبیا میں سے افیم کی ایک بڑی گولی نکال کر اس نے منہ میں ڈالی اور بڑے اطمینان سے لیٹ گئی اور دیر تک سوتی رہی۔”سرکنڈوں کے پیچھے
سردار اس طبقے کی ترجمان ہے جو ضمیر کو مسلسل نشہ کھلا رہی ہے ۔یہاں یہ بات بھی آشکار ہوتی ہے چوں کہ وہ کسی نشے کا سہار لے رہی ہے تو اس کے دو مطلب ہوے ایک وہ ضمیر سے خائف ہے اور اسے سلانے میں نجات نظر آتی ہے دوسرا یہی فریب اس کی بقا ہے اور افیم اس کی دوا ہے۔
اسی طرح افسانہ سڑک کے کنارے میں محبت میں منافقت کا شکار ہونے والی اپنی کوکھ میں گناہ کو پلتا پاتی ہے تو اسے محبت کے وہ پل کس طرح چابک بن کر وجود کو چھلنی کرتے ہیں۔اور اپنے پیٹ میں گناہ کا بیج پھوٹنے پر کس طرح سوال کرتی ہے۔
“یہ چند لمحے جو ابھی ابھی میری مٹھی میں تھے ۔نہیں ۔میں ان لمحات کی مٹھی میں تھی۔”
یہ کیا کہ وہ ثابت و سالم رہا ۔اور مجھ میں تریڑے پڑ گئے۔وہ طاقت ور بن گیا ہے۔میں نحیف ہو گئی ہوں ۔یہ کیا کہ آسمان پر دو بادل ہم آغوش ہوں۔ایک رو رو کر برسنے لگے ،دوسرا بجلی کا کوندا بن کر اس بارش سے کھیلتا ،کدکڑے لگاتا بھاگ جاے۔”
“اس کائنات میں ایک روح کیوں کبھی کبھی گھائل چھوڑ دی جاتی ہے.”
“یہ آسمان اپنی بلندیوں سے اتر کر کیوں میرے پیٹ میں تن گیا ہے ۔”
وہ جرم جو اس سے سر زد ہوا ہے کیا اس میں صرف وہی گناہ گار ہے ؟ سماج جب منصف کے منصب پہ ہوتا ہے وہ سماج کے انصاف کی طرف جھانکتی ہے تو اسے جو کچھ دکھائی دیتا ہے ۔وہ منٹو کا کردار خود کلامی کے ذریعے سوال اٹھاتے ہوے گناہ کی دھند میں ضمیر کو ٹٹولتا ہے ۔
“یہ دنیا ایک چوراہا ہے اپنا بھانڈا کیوں اس میں پھوڑتی ہے یاد رکھ تجھ پر انگلیاں اٹھیں گی ۔انگلیاں ادھر کیوں نہ اٹھیں گی؟جدھر وہ اپنی ہستی مکمل کر کے چلا گیا تھا۔کیا ان انگلیوں کو وہ راستہ معلوم نہیں ؟یہ دنیا ایک چوراہا ہے۔لیکن اس وقت تو وہ مجھے ایک دوراہے پر چھوڑ کر چلا گیا تھا۔”
منٹو ایک کردار کے ذریعے اس سارے سماج کے کردار کی چولی اتار کر اوریجنل خد و خال کے ساتھ کہانی میں بن دیتے ہیں۔وہ معاشرے اور سماج کی کا تشکیل دیا ہوا سچ،انصاف اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کے محراب پر براجمان طبقے کی دھوتی اتار کر ننگا کرنے میں بے باک اندازِ بیان اپناتا ہے۔اخلاقیات کا ڈھنڈورا پیٹنے والا سماج جب نیتی کے ٹانگے میں بیٹھتا ہے تو ہوس کی بدبو دار رال ٹپکاتا ہے۔
نیتی اپنے شوہر کی موت کے بعد اس کے دوستوں سے باری باری گندی ہوس کی بو محسوس کرتی ہے یہاں تک کہ دو لوگ اس پر جھپٹتے بھی ہیں وہ خود ٹانگہ چلانے نکل پڑتی ہے۔
“اکثر لوگ صرف اس کی قربت حاصل کرنے کے لیے اس کے ٹانگے میں بیٹھتے۔بے مطلب بے مقصد اسے ادھر ادھر پھراتے تھے۔آپس میں گندے گندے مذاق بھی کرتے تھے ۔”
یہ سماج جو خدا سے منصب ہتھیا کر خود عادل و منصف بن چکا ہے۔یہی سماج طے کرتا ہے کہ نیتی ٹانگہ چلا کر پیٹ پالے یا جسم بیچ کر اپنا دوزخ بھرے ۔ منٹو اس سماج کے منہ پر طمانچہ مارتے ہیں جب نیتی کا ضمیر کا کچھ اس طرح اسے جواب دیتا ہے۔
“اس کو ایسا لگا تھا کہ وہ تو خود کو نہیں بیچتی۔لیکن لوگ چپکے چپکے اسے خرید رہے ہیں۔”
نیتی سماج اور معاشرے کی گندگی کے سیلاب میں بہنا نہیں چاہتی۔وہ مضبوط پتھر کی مانند کھڑی ہے لیکن گند کا برساتی نالا اس کے قدموں سے عزت کی مٹی خالی کرنے کے در پے ہے۔آخر کار مجبوری کا مجبوری کا ریلا اس کی عزت، وفا اور تشخص کو اپنے ساتھ گڑھے کے ساتھ بہا لے لیتا ہے ۔جب ایک دن کمیٹی نے نیتی کو بلایا اور اس کے تانگے کا لائسنس ضبط کر لیا ۔وجہ یہ بتائی کہ عورت ٹانگہ نہیں چلا سکتی۔
“مجھے یہ تو بتائیں کہ عورت ٹانگہ کیوں نہیں جوت سکتی”؟عورتیں چرخہ چلا کر اپنا پیٹ پال سکتی ہیں ۔عورتیں ٹوکری دھو کر روزی کما سکتی ہیں ،عورتیں لینوں پر کوئلے چن چن کر اپنی روٹی پیدا کر سکتی ہیں ۔میں ٹانگہ کیوں نہیں چلا سکتی ،مجھے اور کچھ آتا ہی نہیں ٹانگہ گھوڑا میرے خاوند کا ہے ۔میں اسے کیوں نہیں چلا سکتی ۔حضور آپ رحم فرمائیں ۔
افسر نے جواب دیا۔
” جاؤ بازار میں جا کر بیٹھو ،وہاں زیادہ کمائی ہے۔یہ سن کر نیتی کے اندر جو اصل نیتی تھی جل کر راکھ ہو گئی۔”
نیتی اپنا ٹانگہ گھوڑا بیچ کر اپنے خاوند ابو کوچوان کی قبر پر جاتی ہے اور قبر سے مخاطب ہو کر کہتی ہے ۔
“تیری نیتی آج کمیٹی کے دفتر میں مر گئی۔۔۔دوسرے دن عرضی دی ۔اس کو اپنا جسم بیچنے کا لائسنس مل گیا ۔”افسانہ لائسنس
افسانہ ٹھنڈا گوشت میں جب ایشر سنگھ ایک لاش سے بد فعلی کرتا ہے تو اس پر ضمیر کا ہتھوڑا اس کے نفس پر پڑتا ہے جو اس کی مردانگی چھین لیتا ہے۔