ہم بھی عجیب و غریب قوم ہیں۔جو کہتے ہیں وہ کرتے نہیں اور جو کرتے ہیں وہ کسی کو بتا نہیں سکتے اور بالآخر ہمارے کیئے ہوئے کی کوئی ویڈیو مارکیٹ میں آ جاتی ہے۔پھر ہر کوئی وہ سب کچھ دیکھتا ہے جو شائد ہم بھی جلدی بازی میں نہیں دیکھ پاتے ۔اسلام کی خاطر بنائے گئے ملک میں ایک مذہبی ماحول اور مشرقی اقدار کے اندر رہتے ہوئے بھی ہم شروع سے ہی لبرل ہی ہیں۔ہم نے ہمیشہ اخلاقی برائیوں کو چٹخارے دار کہانیاں بنا کر مزے ہی لیئے ہیں ۔کبھی ان کی روک تھام کے لیے کچھ نہیں کیا۔گھٹن زدہ معاشرے میں جب خود کچھ نہیں کرسکے تو کسی اور کے کیئے ہوئے کو ہم نے خوب انجوائے کیا ہے۔
جس تواتر کے ساتھ معاشرے کے ہرطبقہ سے ویڈٰیوز سامنے آ رہی ہیں لگتا یہی ہے کہ اگلے کچھ سالوں میں شرمندہ شرمندہ سے وہ لوگ ہوں گے جن کی کوئی ویڈیو مارکیٹ میں نہیں آئی ہوگی ۔ہوسکتا ہے کہ لوگ ان کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے یہ الزام لگا دیں کہ نامرد ہے ورنہ ویڈیو نا آچکی ہوتی ۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ محض مردانگی ثابت کرنے کےلیئے کچھ لوگ ویڈیوز بنوا کر کسی سے وائرل کرا دیں کہ چلو نامردانگی کے طعنے سے تو جان چھوٹے ۔یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ کاروباری کمپنیاں ہی بن جائیں جو پیکج متعارف کرا دیں کہ اگر بدنام ہونا ہے تو ہم سے رجوع کریں اور جتنی زیادہ بدنامی اتنا مہنگا پیکج ہو ۔یہ دنیا ہے یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے اور ویسےبھی کسی شاعر نے کیا خوب کہا تھا کہ بدنام اگر ہوں گے تو کیا نام نا ہوگا۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ جس کی بھی ویڈٰیو منظرعام پر آئی اس نے کہا کہ ویڈیو جعلی ہے اس کی ایڈیٹنگ کی گئی ہےاور ہم نے اس دلیل روشن خیالی اور وسعت قلبی کے تحت قبول کرلی ۔ہم کوئی امریکیوں کی طرح قدامت پرست اور پسماندہ تھوڑی ہیں جنہوں نے مونیکا اسکینڈل میں ضد کرلی تھی کہ صدر نے جھوٹ بولا ہے تو معافی مانگے اور صدر کو معافی مانگنی پڑی ۔نا ہنجاروں کو زرا بھی شرم نہیں آئی اپنے صدر کو بدنام کرتے ہوئے ۔ان کو چاہیےکہ یہاں آکر دیکھیں کہ تحریک پاکستان کے ایک رہنما کی بیٹی سے جب طاقتور سیاسی شخصیت کے داماد کی ویڈٰیو سے لے کر حالیہ ریلیز ہونے والی ویڈیو تک کو ہم نے کیسے بھلا دیا ہے ۔زراسا بھی برا نہیں منایا بلکہ یار دوست تو ایک دوسرے سے مکمل ویڈیو ہی مانگتے رہے
بس ایک بے چارے مولانا ویڈٰیو کی وجہ سے گرفت میں آگئے ۔حالانکہ اس بے چارے نے اپنے ویڈیو پیغام میں بھی کہا تھا کہ آپ لوگ ویڈیو دیکھیں میرا جسم حرکت نہیں کررہا ۔شائد اس کی دلیل متاثر کن نہیں تھی یا پھر اس بات کی سزا بھی ہوسکتی تھی کہ ناشکرے جب موقع مل ہی گیا تھا تو جسم حرکت کیوں نہیں کررہا تھا لہذا بھگتو اپنی سزا۔مزے اور فائدے میں تو وہ آخری ویڈیو والا رہ گیا جو بیڈ پر بھی اچھل کود کررہا تھا اور اب ٹاک شوز میں بھی اچھل کود کررہا ہے۔ اور ہم ہیں کہ اس کو دیکھ رہے ہیں کبھی کبھی تو گمان ہوتا ہےکہ ہم بازار حسن کی گلی میں زندگی گذار رہےہیں جہاں یہ تماشے معمول کی بات ہیں
ان تماشوں پر جیسے راہ گیر کچھ دیر کو رکے اور کسی کوٹھے کی سیڑھیوں پر کسی نامراد عاشق کو دیکھ کر افسوس کرئے اور اگلے ہی لمحے سر جھٹک کر یہ کہہ کر چل دے کہ بھائی چھوڑو کیوں اپنا وقت کھوٹا کریں یہ تو معمول کا قصہ ہے ۔اس قدر روشن خیال اور آزاد خیال معاشرہ ہے کہ دل کرتا ہےکہ منٹو کو آواز دےکر بلالوں اور منٹو سے کہوں کہ تم خوامخواہ کالی شلوار سے لے کر کھول دو تک افسانوں میں زومعنی جملوں کے زریعے معاشرے کے حقائق بیان کرنے کی کوشش کرتےرہے ۔آو اور اپنی آنکھوں سے آکر دیکھو کہ یہاں کیا ہورہا ہے۔بزدل منٹو جو کچھ تم ببانگ دہل نہیں لکھ سکے اور زومعنی جملوں کا سہارا لیتے رہے وہ ہم سرعام اور سربازار کررہے ہیں۔منٹو جو کچھ تم نے لکھااس کی وجہ سے تم پرالزام ہے کہ تم معاشرےمیں بے حیائی پھیلا رہےہو حالانکہ تم جانتے ہو تم پر یہ الزام غلط تھا۔
الزام تو خیر ہم پر بھی نہیں آتا ۔اور آئے بھی کیوں جب ہمارے شہر کی دیواروں پر مردانگی حاصل کرنے کے نسخے لکھے ہوں اور شباب لوٹانے والے دوا خانوں کے ایڈریس جلی حروف میں لکھے ہوئے ہوں وہاں کیسا الزام اور کیسی شرمندگی ۔اب شرمندہ تو وہ ہوں جن کی ویڈیو نہیں بنی ۔ابھی تو شکر ہےکہ جوش ملیح آبادی ہم میں موجود نہیں ہیں اگر وہ حیات ہوتےتو اپنےان دوستوں سےضرور جھگڑتے جو ان کو کتاب لکھتے وقت دھمکیاں دے رہےتھے کہ جوش بے شک تم اپنے گندے پوتڑے بیچ چوراہے بیٹھ کر دھو لو اگر ہمارا کہیں زکر آیا تو تمہاری خیر نہیں۔اگر اس عہد میں ہوتےتو اپنے دوستوں کو بلا کر شرمندہ کرسکتےتھےاور ان کے سامنے سرخرو ہوسکتےتھے۔
چلیں جوش اور منٹو نا سہی ہم تو تاریخ کے اس موڑ پر سرخرو ہیں ۔ کوئی ہم کو قدامت پرست اور پسماندہ ہونے کا طعنہ نہیں دےسکتا ۔کوئی ہم پر یہ الزام نہیں لگا سکتا کہ ہم ایک گھٹن زدہ معاشرے کی پیداوار ہیں ۔ہم نے اپنے عمل سے ثابت کیا ہےکہ اقتدار کے محلات سے لے کر دینی و دنیاوی درسگاہوں تک اپنی روشن خیالی اور مردانگی کے انمٹ نقوش چھوڑےہیں ۔اور ان قصے کہانیوں کو کتابوں میں بیان کرکےتاریخ کا حصہ بنایا ہے ۔ایک وقت آئے گا جب مستقبل میں لوگ لائبریریوں سے یہ کتابیں نکال کر پڑھیں گے یہ ویڈیوز دیکھیں گے اور ہمارے اعمال پر سر دھنیں گے ۔ہم ان کے اسلاف ہوں گے اور وہ اپنے اسلاف کےکارناموں پر فخر کرسکیں گے اور وہ اپنے اسلاف کے قدموں کے نشانات پر چلنے کی کوشش کریں گے ۔مگر افسوس کہ ان قدموں کے نشانات میں میرے قدموں کے نشاں نہیں ہوں گے میں شرمندہ ہوں کیونکہ میری ویڈٰیو نہیں بن سکی۔پریشان ہوں مگر ناامید نہیں ہوں کیونکہ یار زندہ صحبت باقی ہوجائے گا کچھ نا کچھ ۔۔۔۔۔
تحریر ملک سراج احمد